علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

پیر، 17 مارچ، 2025

#معراج_پیغمبر_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ #جنگ_بدر



۱۷/ رمضان المبارک


#معراج_پیغمبر_صلی_اللہ_علیہ_و_آلہ


← بعثت کے چند برس بعد ۱۷/ رمضان کی شب میں معراج پیغمبر صلّی اللَّه علیہ و آلہ واقع ہوئی۔


[الوقایع و الحوادث، ج۱، ص۱۹۴؛ العدد القویہ، ص۲۳۴؛ بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۰۲، ۳۸۰، ج۹۵، ص۱۹۶]


اور آیت "سبحان الذی أسری بعبده لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی۔۔۔"  [سوره اسراء: آیت، ۱] اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے۔ 


← معراج پیغمبر صلّی اللَّہ علیہ و آلہ ۲۱/ رمضان المبارک میں بھی ذکر ہوئی ہے۔


[مسار الشیعہ، ص۹؛ توضیح المقاصد، ص۲۴؛ العدد القویہ، ص۲۳۴؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۵۹۹؛ بحار الانوار، ج۹۵، ص۱۹۶، ج۹۷، ص۱۶۸؛ تقویم المحسنین، ص۱۲؛ اختیارات، ص۳۸]


← معراج ضروریات اسلام میں سے ہے۔


[الغدیر، ج۵، ص۱۶؛ حق الیقین، ص۳۰؛ مکیال المکارم، ج۲، ص۹۲؛ منتہی الآمال، ج۱، ص۵۱]


اور آیات کریمہ نیز احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ خداوند متعال حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو ایک رات مکّہ معظّمہ سے مسجد الاقصی تک، اور وہاں سے آسمانوں تک اور پھر سدرۃ المنتہیٰ اور عرش اعلیٰ تک لے گیا، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو آسمانوں کی خلقت کے عجائبات دکھائے، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کو اسرار و رموز سے آگاہ کیا اور لامحدود علوم و معارف کی تعلیم دی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے بیت المعمور میں عرش کے نیچے خداوند متعال کی عبادت انجام دی، اور انبیاء علیہم السلام سے ملاقات کی، اور جنّت میں وارد ہوئے اور اہل جنّت کے منازل کا مشاہدہ کیا، اور دوزخ کے عذاب میں مبتلا لوگوں کے حالات سے واقف ہوئے۔


← احادیثِ متواتر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی معراج  روحانی نہیں بلکہ جسمانی تھی، اور خواب میں نہیں بلکہ بیداری کے عالم میں ہوئی تھی۔


[بحار الانوار، ج۱۸، ص۲۸۹؛ حق الیقین، ص۳۰]


← معراج النبی صلی اللہ علیہ و آلہ کی تاریخ کے سلسلہ میں مزید اقوال اس طرح سے ہیں: ۱۷/ رمضان ہجرت سے پہلے، ۱۷/ ربیع الاول، ہجرت سے پہلے، ۱۷/ رجب ہجرت سے پہلے، ۱۷/ رمضان بعثت سے ۵ سال پہلے، ۲۷/رمضان، ۲۱/ رمضان، ۹/ ذی الحجہ۔


← جس مقام سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی معراج کا آغاز ہوا تھا اس کے بارے میں بھی چند اقوال ہیں: حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے، خواہر امیر المومنین علیہ السلام حضرت امّ ہانی کے گھر سے، یا شعب ابی طالب علیہ السلام سے۔


[بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۰۲، ۳۱۹، ۳۸۰، ج۹۵، ص۱۹۶، ج۹۷، ص۱۶۸؛ العدد القویہ، ص۲۳۴؛ الصحیح من السیرہ، ج۳]


حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حق تعالیٰ نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو ایک سو بیس مرتبہ آسمانوں کی سیر کرائی، اور ہر بار  آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کو دیگر فرائض سے زیادہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نیز دیگر ائمہ طاہرین علیہم السلام کی ولایت و امامت کی تاکید فرمائی۔


[بصائر الدرجات، ص۷۹؛ خصال، ص۶۰۰؛ بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۸۷، ج۲۳، ص۶۹؛ حق الیقین، ص۳۰]



#جنگ_بدر


← ہجرت کے دوسرے سال، جمعہ کے دن جنگ بدر الکبریٰ رونما ہوئی۔ 


[خصال، ص۵۰۸؛ مسار الشیعہ، ص۸؛ بحار الانوار، ج۱۹، ص۱۷۰، ۳۲۵، ج۹۷، ۱۶۸، ۳۸۳؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۵۹۹؛ اقبال، ج۱، ص۳۰۳؛ تقویم المحسنین، ص۱۱؛ اختیارات، ص۳۸؛ الوقایع و الحوادث، ج۱، ص۲۰۳؛ الموسوعه الکبري فی غزوات النبی الاعظم صلّی اللَّه علیه و آله و سلّم: ج۱، ص۱۳۸؛  طبقات الکبری، ج۲، ص۲۱۔۱۹؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۴۵] 


اس مہینے کی ۱۹ تاریخ میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ [توضیح المقاصد، ص۲۳؛ تاریخ طبری، ج۲، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۲، ص۴۵]


← بدر میں مسلمانوں کی تعداد ۳۱۳ تھی اور انکے شہداء کی تعداد ۹ سے ۱۴ نفر تک، اور کفّار کی تعداد ۹۵۰ نفر تھی۔


کفّار کے مقتولین ۷۰ افراد تھے اور ۷۰ لوگوں کو مسلمانوں نے اسیر بھی کیا تھا۔ کفّار کے مقتولین میں سے آدھے یا اس سے زیادہ کفّار حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کے ہاتھوں  قتل ہوئے۔


[منتخب التواریخ، ص۴۸ – ۴۹؛ الوقایع و الحوادث، ج۱، ص۲۱۵ -۲۱۶]


اور باقی لوگوں کے قتل میں بھی آپ علیہ السلام شریک تھے.


[الصحیح من السیرہ، ج۵، ص۴۵، ۵۹، ج۸، ص۸۷]


← اس جنگ میں ابوجہل بھی قتل ہوا۔  ابوجہل ہشام بن مغیرہ مخزومی حضرت پیغمبر اکرم صلّی الله علیہ و آلہ کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا۔ اس کا نام اگرچہ ہشام تھا، لیکن وہ اپنی بے پناہ بدکرداری اور بداخلاقی کی بنا پر اسے ابوجہل کی کنیّت سے یاد کیا جاتا تھا۔


ابو جہل وہ شخص تھا جس نے مکّہ میں رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو بے انتہا تکلیف پہونچائی ہے۔ اس نے اونٹ کی بچّہ دانی کو حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے سر مبارک پر پھینکا، راکھ، مٹی کو آپ کے سر پر ڈالا، دندان مبارک پر پتھر مارے، آنحضرت پر جھوٹ اور دیوانگی کا بہتان باندھا، جناب عمّار یاسر کی والدہ جناب سمیّہ کو بے انتہا شکنجہ دینے کے بعد اس نے ران پر ایسا نیزہ مارا  کہ وہ شہید ہوگئیں۔


جنگ بدر میں انصار میں سے دو بھائی (مَعاذ و مَعُوذ)  نے چونکہ ابوجہل کے ذریعہ رسول گرامی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو اذیت پہونچائے جانے کی بات سن رکھی تھی، انہوں نے اس کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔


ان دونوں بھائیوں نے اس پر وار کیا، تبھی دونوں میں سے ایک کا ہاتھ کٹ گیا اور کھال کے ساتھ لٹک گیا، اس نے جب دیکھا کہ اس کا ہاتھ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں سے جنگ کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے تو اسے اپنے پیر کے نیچے دباکر تیزی سے اپنے جسم سے الگ کردیا، اور اس کے بعد ابوجہل کو زمین پر گرادیا۔


← جنگ ختم ہونے کے بعد پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:


"کوئی ابوجہل کی خبر لائے"


عبدالله بن مسعود گئے اور اپنا پیر اس کے سینے پر  رکھ دیا، ابوجہل کو ہوش آگیا اور اس نے کہا:


بہت بلند جگہ پر تو نے پیر رکھا ہے، اے کاش میرا قاتل کوئی دیہاتی نہ ہوتا (انصار کی طرف کنایہ تھا)۔


عبدالله بن مسعود نے اسکے سر کو تن سے جدا کیا اور نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے پاس لاکر سامنے ڈال دیا۔


پیغمبر صلّی الله علیہ و آلہ نے خدا کا شکر ادا کیا۔


[بحار الانوار، ج۱۹، ص۲۵۸؛ منتخب التواریخ، ص۴۷- ۴۹؛ الوقایع و الحوادث، ج۱، ص۲۱۵ -۲۱۶] 


خدا نے پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر اپنی نصرت نازل فرمائی، آنحضرت (ص) نے فرمایا: آج خوشی کا دن ہے، خدا نے جو اہل ایمان کو نعمت سے نوازا ہے اس پر شکر ادا کرنا چاہئے۔


📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۷/ رمضان، ص۲۷۸



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor