علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 13 مئی، 2018

ماہ مبارک رمضان بزبان رسول خدائے منان


🍃 #خطبہ_شعبانیہ 🍃

☘️ماہ مبارک رمضان بزبان رسول خدائے منان (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)☘️

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا عَنْ أَبِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ الْبَاقِرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ زَيْنِ الْعَابِدِينَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص خَطَبَنَا ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ هُوَ شَهْرٌ دُعِيتُمْ فِيهِ إِلَى ضِيَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِيهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُكُمْ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِيهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِيهِ مُسْتَجَابٌ فَاسْأَلُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ بِنِيَّاتٍ صَادِقَةٍ وَ قُلُوبٍ طَاهِرَةٍ أَنْ يُوَفِّقَكُمْ لِصِيَامِهِ وَ تِلَاوَةِ كِتَابِهِ فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِيمِ وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِيهِ جُوعَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ عَطَشَهُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِينِكُمْ- وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ وَ ارْحَمُوا صِغَارَكُمْ وَ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ وَ احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ غُضُّوا عَمَّا لَا يَحِلُّ النَّظَرُ إِلَيْهِ أَبْصَارَكُمْ وَ عَمَّا لَا يَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَيْهِ أَسْمَاعَكُمْ وَ تَحَنَّنُوا عَلَى أَيْتَامِ النَّاسِ يُتَحَنَّنْ عَلَى أَيْتَامِكُمْ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَ ارْفَعُوا إِلَيْهِ أَيْدِيَكُمْ بِالدُّعَاءِ فِي أَوْقَاتِ صَلَاتِكُمْ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ السَّاعَاتِ يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيهَا بِالرَّحْمَةِ إِلَى عِبَادِهِ يُجِيبُهُمْ إِذَا نَاجَوْهُ وَ يُلَبِّيهِمْ إِذَا نَادَوْهُ وَ يُعْطِيهِمْ إِذَا سَأَلُوهُ وَ يَسْتَجِيبُ لَهُمْ إِذَا دَعَوْهُ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِكُمْ فَكُفُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ وَ ظُهُورُكُمْ ثَقِيلَةٌ مِنْ أَوْزَارِكُمْ فَخَفِّفُوا عَنْهَا بِطُولِ سُجُودِكُمْ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرُهُ أَقْسَمَ بِعِزَّتِهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ الْمُصَلِّينَ وَ السَّاجِدِينَ وَ أَنْ لَا يُرَوِّعَهُمْ بِالنَّارِ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِي هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لَيْسَ كُلُّنَا يَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ ص اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْكُمْ فِي هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ كَانَ لَهُ جَوَازٌ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُّ فِيهِ الْأَقْدَامُ وَ مَنْ خَفَّفَ فِي هَذَا الشَّهْرِ عَمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ خَفَّفَ اللَّهُ عَلَيْهِ حِسَابَهُ وَ مَنْ كَفَّ فِيهِ شَرَّهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ أَكْرَمَ فِيهِ يَتِيماً أَكْرَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ وَصَلَ فِيهِ رَحِمَهُ وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِيهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِيهِ‏ ِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِيهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ وَ مَنْ أَكْثَرَ فِيهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ عَلَيَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِيزَانَهُ يَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِينُ وَ مَنْ تَلَا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِي هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُغَلِّقَهَا عَلَيْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّيرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُفَتِّحَهَا عَلَيْكُمْ وَ الشَّيَاطِينَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُسَلِّطَهَا عَلَيْكُمْ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقُمْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَقَالَ يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ بَكَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُبْكِيكَ فَقَالَ يَا عَلِيُّ أَبْكِي لِمَا يُسْتَحَلُّ مِنْكَ فِي هَذَا الشَّهْرِ كَأَنِّي بِكَ وَ أَنْتَ تُصَلِّي لِرَبِّكَ وَ قَدِ انْبَعَثَ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ فَضَرَبَكَ ضَرْبَةً عَلَى قَرْنِكَ فَخَضَبَ مِنْهَا لِحْيَتَكَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ ذَلِكَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي فَقَالَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ ثُمَّ قَالَ ص يَا عَلِيُّ مَنْ قَتَلَكَ فَقَدْ قَتَلَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ سَبَّكَ فَقَدْ سَبَّنِي لِأَنَّكَ مِنِّي كَنَفْسِي رُوحُكَ مِنْ رُوحِي وَ طِينَتُكَ مِنْ طِينَتِي إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَنِي وَ إِيَّاكَ وَ اصْطَفَانِي وَ إِيَّاكَ وَ اخْتَارَنِي لِلنُّبُوَّةِ وَ اخْتَارَكَ لِلْإِمَامَةِ فَمَنْ أَنْكَرَ إِمَامَتَكَ فَقَدْ أَنْكَرَ نُبُوَّتِي يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَصِيِّي وَ أَبُو وُلْدِي وَ زَوْجُ ابْنَتِي وَ خَلِيفَتِي عَلَى أُمَّتِي فِي حَيَاتِي وَ بَعْدَ مَوْتِي أَمْرُكَ أَمْرِي وَ نَهْيُكَ نَهْيِي أُقْسِمُ بِالَّذِي بَعَثَنِي بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِي خَيْرَ الْبَرِيَّةِ إِنَّكَ لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ أَمِينُهُ عَلَى سِرِّهِ وَ خَلِيفَتُهُ عَلَى عِبَادِهِ.

🌿حضرت امیرالمومین علیہ السلام فرماتے ہیں:

🍂 ایک دن رسول خدا (ص) نے ہمارے لئے خطبہ دیا اورفرمایا:

🌴🌴🌴اے لوگو! بتحقیق خدا کا مہینہ اپنی برکت و رحمت اور مغفرت کے ہمراہ تم تک آن پہونچا ہے، ایسا مہینہ جو خدا کے نزدیک تمام مہینوں سے بہتر اور اس کے ایام تمام ایام سے افضل اور اس کی راتیں ساری راتوں سے بہتر اور اس کے لمحات تمام لمحوں سے بہتر ہیں۔ ایسا مہینہ جس میں تم کو اللہ کی ضیافت میں بلایا گیا ہے، اور اس مہنیہ میں اللہ کی جانب سے شرف و کرامت بخشے جانے والوں میں قرار دیا گیا؛ اس میں تمہاری سانسیں تسبیح خدا، تمہارا سونا عبادت، تمہارے اعمال قبول اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں؛

   🌹لہذا صدق نیت اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس مہینہ میں روزہ رکھنے اور اس کی کتاب کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے، بدبخت ہے وہ شخص جو اس عظیم مہینہ میں بھی اللہ کی مغفرت سے محروم رہے؛

⚡️اور اس مہینہ میں اپنی بھوک اور پیاس سے روز قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو، اور اپنے فقرا و مساکین کو صدقہ دو، اپنے بڑوں کا احترام کرو اور اپنے چھوٹوں پر مہربانی، اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، اور اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو، اور اپنی نگاہوں کو ان چیزوں سے محفوظ رکھو جسے دیکھنا جائز نہیں، اور جس کو سننا تمہارے کانوں کے لئے جائز نہیں اس سے باز رہو، اور لوگوں کے یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آو تاکہ تمہارے یتیموں پر بھی مہربانی کی جائے، اور خدا کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کرو، اور اپنی نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرو کیونکہ اوقات نماز وہ بہترین لمحات ہیں کہ خدائے عز وجل اپنے بندوں کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے، اگر بندے مناجات کرتے ہیں تو اجابت کرتا ہے اور جب اسے پکارتے ہیں تو انکی آواز پر لبیک کہتا ہے، جب دعا کرتے ہیں تو قبول فرماتا ہے؛

🌴🌴🌴اے لوگو!تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی مرہون منت ہیں، تو استغفار کے ذریعہ انہیں نجات دلاؤ؛ اور تمہاری پشت تمہارے گناہوں سے بھاری ہو رہی ہے، اسے اپنے طولانی سجدوں سے ہلکا کرو؛ اور جان لو کہ اللّہ تعالی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ہرگز نمازیوں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کرے گا، اور اس دن کہ جب سب لوگ بارگاہ رب العزت میں ہونگے انہیں عذاب جہنم سے نہیں ڈرائے گا؛

🌴🌴🌴🌴اے لوگو! تم میں سے اگر کوئی اس مہینہ مومن روزہ دار کو افطار کرائے گا، اسے خدا کے نزدیک ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اسے تمام گذشتہ گناہوں سے مغفرت نصیب ہوگی؛ کسی نے کہا: اے نبی خدا(ص) ہم میں سے ہر ایک اس کام کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ آپ(ص) نے فرمایا: جہنم کی آگ سے بچو چاہے کچھ خرمے سے ہی کیوں نہ ہو، جہنم کی آگ سے ڈرو خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سے کیوں نہ ہو؛

🌴🌴🌴🌴اے لوگو! تم میں سے جو بھی اپنے اخلاق کو نیک بنائے گا اسے پل صراط سے آسانی کے ساتھ گذرجانے کی اجازت ہوگی جبکہ دوسروں کے قدم پھسل رہے ہونگے، اور جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے گا خدا اس کے حساب میں نرمی سے پیش آئے گا؛ اور جو شخص اس مہینہ لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے گا تو خداوند روز قیامت اس کو اپنے غضب سے بچائے گا؛ اور جو اس ماہ میں یتیموں پر مہربانی کریگا خدا روز قیامت اس پر مہربانی کریے گا؛ اور جو اس ماہ میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کریگا خداوندعالم روز قیامت اسے اپنی رحمت سے متصل کریگا؛ اور جو اس ماہ میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے توڑے گا خدا بھی روز ملاقات اس سے اپنی رحمت منقطع کردیگا؛ اور جو اس ماہ میں مستحب نمازیں ادا کریگا خدائے کریم اس کے لئے جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیگا؛ جو شخص اس میں واجب نمازیں ادا کریگا اسے دوسرے مہینوں میں پڑھی جانے والی واجب نمازوں سے ستّر گنا زیادہ ثواب ملے گا؛
جو شخص اس مہینہ مجھ پرکثرت سے صلوات بھیجے گا جس دن دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہونگے خدا اس کے پلڑے کو بھاری بنادیگا؛ اور جو شخص اس مہینے قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کریگا خدا اسے دوسرے مہینوں میں پڑھے جانے والے پورے قرآن کا ثواب عطا کریگا۔
اے لوگو! اس مہنیہ میں جنت دروازے کھلے ہوئے ہیں اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ دروازے تم پر بند نہ کرے، اور جہنم کے دروازے بند ہیں خدا سے درخواست کرو کہ ان دروازوں کو تم پر نہ کھولے؛ شیطانوں کو اس مہینہ میں جکڑلیا گیا ہے خدا سے دعا کرو کہ وہ تم پر ان کو مسلط نہ کردے۔

🌹🌹🌹🌹حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا:  اے نبی خدا(ص)! اس مہینہ میں سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟

🌱فرمایا: اے ابوالحسن اس ماہ میں سب سے بہتر عمل محرمات الہی سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔

🌧پھر آپ(ص) گریہ فرمانے لگے؛ عرض کیا: یا رسول اللّہ! کون سی چیز آپ کو رلا رہی ہے؟

💥 آپ(ص) نے فرمایا: یا علی! میں اس پر رورہا ہوں کہ اس مہینہ تمہارے ساتھ جو بے حرمتی کا سلوک ہوگا، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے پرودگار کے لئے نماز پڑھ رہے ہوگے، دنیا کا شقی ترین، بد بخت ترین، قاتل ناقۂ صالح تمہارے سر پر ضربت لگائے گا اور تمہاری داڑھی خوں سے رنگین ہوجائے گی؛

🌺امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں: عرض کیا یا رسول اللہ(ص)! کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ فرمایا: ہاں تمہارا دین سالم ہوگا۔ اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی! جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا، اور جس نے تم سے بغض اختیار کیا گویا اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس نے تم پر سبّ و شتم کیا اس نے مجھ پر سبّ و شتم کیا، کیوں کہ تم مجھ سے ہو، گویا میری جان ہو، تمہاری روح میری روح ، تمہاری طینت میری طینت ہے؛ خدائے متعال نے تمہیں اور ہمیں خلق کیا اور دونوں کو انتخاب کیا، مجھے اس نے نبوت کے لئے اختیار کیا اور تمہیں امامت کے لئے منتخب کیا؛ لہذا جس نے تمہاری امامت کا انکار کیا اس نے میری نبوت کا انکار کیا؛ اے علی! تم میرے وصی اور میری اولاد کے باپ ہو اور میری بیٹی کے شوہر ہو اور تم میری زندگی میں بھی اور میری وفات کے بعد بھی میرے جانشین و خلیفہ ہو، تمہارا حکم میرا حکم، اور تمہاری نہی میری نہی ہے؛ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا، اور سب سے بہتر قرار دیا، بیشک تم خدا کی مخلوقات پر اس کی حجّت ہو اور اسرار خداوندی کے امین، اور اس کے بندوں پر اس کے خلیفہ ہو۔

📚فضائل الاشھر الثلاثہ، شیخ صدوق،  دار المحجۃ البیضا ء، ص ۷۸ و۷۹، ح ۶۱۔
📚الأمالي( للصدوق)، ص 93،  المجلس العشرون
📚إقبال الأعمال (ط - القديمة)،  ج‏1، ص2 ، فصل في تعظيم شهر رمضان
📚وسائل الشيعة،  شيخ حر عاملى‏ ، ج‏10، ص 313،    18 - باب تأكد استحباب الاجتهاد في العبادة سيما الدعاء و الاستغفار و العتق و الصدقة في شهر رمضان و خصوصا ليلة القدر و آخر ليلة من الشهر






ہفتہ، 12 مئی، 2018

استقبال ماہ رمضان


#رمضان_کریم

✍🏼جناب ابا صلت فرماتے ہیں: 

ماہ شعبان کا آخری جمعہ تھا، میں حضرت ابو الحسن علی بن موسی الرضا (علیہ آلاف التحیۃ و الثناء) کی خدمت میں حاضر ہوا۔

🌹امام علیہ السلام نے فرمایا:

اے ابا صلت! ماہ شعبان کا بیشتر حصّہ جا چکا ہے، اور یہ آخری جمعہ ہے۔ لہذا اپنی گذشتہ کوتاہیوں کی شعبان کے ان بچے ہوئے ایّام میں تلافی کرلو۔
ان چیزوں کو انجام دو جو تمہارے واسطے مفید ہوں اور جس کا کوئی فائدہ نہیں انہیں چھوڑ دو۔

زیادہ سے زیادہ دعا کرو، کثرت سے استغفار کرو، خوب تلاوت قرآن کرو، اور خدا کی بارگاہ میں اپنے گناہوں سے توبہ کرو تاکہ خدا کا مہینہ اس طرح تمہاری طرف آئے کہ تم خدائے عزّ و جلّ کے لئے مخلص بن چکے ہو۔

اور تمہاری گردن پر کوئی ایسی امانت نہ ہو سوائے یہ کہ اسے ادا کردیا ہو، اور کوئی ایسا بغض و کنیہ نہ بچے مگر یہ کہ اسے دل سے نکال پھینکا ہو، اور کوئی ایسا گناہ نہ بچے مگر جسے تم نے ترک نہ کردیا ہو۔

خدا کا تقوی اختیار کرو اور خفیہ و علانیہ ہر کام میں خدا پر بھروسہ کرو۔ (اور جو خدا پر بھروسہ کرے گا خدا اس کے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہونچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے)

✅اور ماہ شعبان کے جو دن باقی رہ گئے ہیں اس میں دعا کرتے رہو:

📗اللَّهُمَّ إِنْ لَمْ تَكُنْ قَدْ غَفَرْتَ لَنَا فِي مَا مَضَى مِنْ شَعْبَانَ فَاغْفِرْ لَنَا فِيمَا بَقِيَ مِنْهُ۔

بارالہا! اگر تو نے شعبان کے گذرے ہوئے ایّام میں ہمیں اپنی مغفرت سے نہیں نوازا تو اس ماہ کے ان بقیہ دنوں میں بخش دے۔

🔺کیونکہ خدائے متعال اس مہینہ میں ماہ مبارک رمضان کے احترام میں عذاب جہنم سے نجات عطا کرتا ہے۔

📚عيون أخبار الرضا عليه السلام، ابن بابويه، محمد بن على، ج‏2، ص51، باب فيما جاء عن الرضا ع من الأخبار المجموعة

🍀🍃🌱🌿☘️



امام عصر عج کو اذیت


#مہدویت

🔸مہدوی سماج میں افراط و تفریط ممنوع❌


🔸ائمہ ہدی، رسول خدا اور خدا کی معرفت لازم✅

🔸ورنہ امام عصر عج کی اذیت دینے والا کوئی اور نہیں

📗قدْ آذانا جُهَلاءُ الشّیعَهِ وَحُمَقاؤُهُمْ، وَمَنْ دینُهُ جِناحُ الْبَعُوضَهِ أَرْجَحُ مِنْهُ

🌹حضرت ولی عصر عجّل اللہ تعالی فرجہ الشریف۔

🗒شیعوں میں سے نادان و جاہل اور احمق، اور اسی طرح وہ لوگ جنکی دینداری پر مچھر کا پَر بھی بھاری اور مضبوط ہے ہمیں اذیت پہونچاتے ہیں۔

📚الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي)، ج‏2، ص474، احتجاج الحجة القائم المنتظر المهدي صاحب الزمان صلوات الله عليه و على آبائه الطاهرين

📚بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏25، ص267، باب 10 نفي الغلو في النبي و الأئمة صلوات الله عليه و عليهم و بيان معاني التفويض و ما لا ينبغي أن ينسب إليهم منها و ما ينبغي 

✍🏼حضرت امام عصر (عجّل اللّہ فرجہ الشریف) کی توقیع کا ایک جز ہے جسے آپ (عج) نے محمد بن علی بن ہلال کرخی کے جواب میں لکھا، یہ توقیع ان غالیوں کے مذمت میں ہے جو ائمہ علیہم السلام کو خدا کے علم و قدرت میں شریک ٹھہراتے ہیں اور اس طرح کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

⚠️شیعوں کی عظیم ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ائمہ کی معرفت حاصل کریں؛ نہ انہیں عام لوگوں کے برابر لے آئیں اور نہ ہی علم و قدرت۔۔۔۔ میں خدا کا شریک بنا دیں۔

⚠️ائمہ علیہم السلام کی معرفت اور ان کے مقام و منزلت اور ان کی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں کافی احادیث موجود ہیں کہ اگر ان کا صحیح مطالعہ کیا جائے تو قلب و جگر، روح و جان کی تطہیر ہوجائے گی، اور ائمہ و رسول و خدا پر جس طرح کا عقیدہ ہونا چاہئے، اس سے کافی حد تک قریب ہوجائیں گے۔

⚠️غالیوں کے اعمال و کردار اور ان کے اعتقاد ہی سبب بنے ہیں کہ مذہب حقّہ یعنی شیعیّت کے دشمن شیعوں پر کفر کی مہر لگادیں اور کچھ تو انہیں نجس ہی ماننے لگیں اور قتل کے فتوے صادر کرنے لگیں۔

🌹حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بھی اسی طرف متوجہ فرمایا تھا:

📗هلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَال‏

🗒میرے سلسلہ میں دو لوگ ہلاکت میں پڑے ہونگے۔ ۱۔ میرا ایسا چاہنے والا جو میری محبت میں غلو کرتا ہو۔ ۲۔ مجھ سے بغض و عناد رکھنے والا جو تفریط سے کام لے بیہودہ باتیں کرے۔

📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، حکمت117، ص489. 

🌷🌷🌷🌷🌷

بدھ، 9 مئی، 2018

#مہدویت

🔸مہدوی سماج کی ایک جھلک🔸

🌹حضرت امام باقر علیہ السلام:

🔹قيلَ لِأَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ ع إِنَّ أَصْحَابَنَا بِالْكُوفَةِ جَمَاعَةٌ كَثِيرَةٌ فَلَوْ أَمَرْتَهُمْ لَأَطَاعُوكَ وَ اتَّبَعُوكَ فَقَالَ يَجِي‏ءُ أَحَدُهُمْ إِلَى كِيسِ أَخِيهِ فَيَأْخُذُ مِنْهُ حَاجَتَهُ فَقَالَ لَا قَالَ فَهُمْ بِدِمَائِهِمْ أَبْخَلُ ثُمَّ قَالَ إِنَّ النَّاسَ فِي هُدْنَةٍ نُنَاكِحُهُمْ‏ وَ نُوَارِثُهُمْ‏ وَ نُقِيمُ عَلَيْهِمُ الْحُدُودَ وَ نُؤَدِّي‏ أَمَانَاتِهِمْ حَتَّى 

🌷إذَا قَامَ الْقَائِمُ جَاءَتِ الْمُزَايَلَةُ وَ يَأْتِي الرَّجُلُ إِلَى كِيسِ أَخِيهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ لَا يَمْنَعُهُ.🌷

🔸حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے کہا گیا کہ کوفہ میں ہماری کثیر تعداد موجود ہے کہ اگر آپ انہیں (قیام کا) کا حکم فرمائیں تو وہ آپ کی اطاعت اور پیروی کریں گے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا ایسا ہے کہ ان میں سے کوئی اپنے برادر ایمانی کی جیب سے اپنی ضرورت کی چیز نکال لے؟؟ ۔ اس نے کہا: نہیں۔ آپ (ع) نے فرمایا: تب تو (جو اپنی چیزوں کو بخش دینے میں اتنے بخیل ہیں) اپنا خون دینے میں اس کہیں زیادہ بخیل اور کنجوس ہونگے۔ اس کے بعد فرمایا: لوگ ابھی خاص شرائط میں زندگی بسر کررہے ہیں (اسلامی تربیت کی تحریک اپنی جگہ رکی ہوئی ہے) ہم ان سے شادیاں رچاتے ہیں، ایک دوسرے سے ارث لیتے ہیں، حدود الہی قائم کرتے ہیں، امانت کو واپس پلٹاتے ہیں۔ (یعنی ہماری اسلامی زندگی بس انہیں چیزوں میں سمٹی ہوئی ہے)

👈🏼لیکن

🌷جب امام قائم (عجلّ اللّہ تعالی فرجہ الشریف) قیام فرمائیں گے  سب چیز مساوات اور یکسانیت پر ہوگی( صداقت و رفاقت کا دور دورہ ہوگا) ، اور ضرورتمند شخص اپنے برادر ایمانی کی جیب سے اپنی ضرورت کا پیسہ نکال لے گا اور وہ اسے منع نہیں کرے گا۔🌷

📚الإختصاص، شیخ مفید، ص24، طائفة من أقوال النبي ص و الأئمة ع
📚وسائل الشيعة، شيخ حر عاملى‏، ج‏5، ص121۔ (کچھ کمی بیشی کے ساتھ)
📚بحار الأنوار (ط - بيروت)، علامہ مجلسى‏، ج‏52، ص372، باب 27 سيره و أخلاقه و عدد أصحابه و خصائص زمانه و أحول أصحابه صلوات الله عليه و على آبائه

🌷🌷🌷🌷🌷

ہفتہ، 5 مئی، 2018

عصر انتظار اور ہم

 

آج کے دور کو کوئی جدید و مارڈن دور سے تعبیر کرے یا ٹکنالوجی کے دور سے ایک منجی بشریت کا منتظر، اس دور کو عصرانتظار سے تعبیر کرتا ہے ،اسکی نظر میں یہ دور علمی ترقی کا ہو یا سائنس کی کرشما سازیوں کا یا ٹکنالوجی کی عظیم پیشرفت کا،کوئی بھی عنوان آج کے ترقی یافتہ دور کے لئے کیوں نہ ہو ، ایک منتظر کے لئے اسی وقت اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں جب وہ اسے انتظار سے جوڑتا ہے ، ایسے میں اگر اس دور کو بھلے ٹکنالوجی کا دور کہا جائے لیکن ایک منتظر کے لئے اس ٹکنالوجی کا کوئی مطلب نہیں ہے جو مادہ سے گھوم کر مادہ پر ختم ہو جائے اور اسے کسی بڑے مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ نہ بنایا جا سکے ،اسی طرح دنیا میں یہ روز روز جو انکشافات ہو رہے ہیں اور علمی ترقی ہو رہی ہے اس کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں اگر اس علمی ترقی کو انسان کی حقیقی روحانی ترقی سے نہ جوڑا جائے ،سائنس کی جولانیاں بھی لا یعنی ہیں اگر انکی تہوں میں خالق علم و حکمت کا شکریہ نہ ہو ، اور سائنس کے ذریعہ انسان اپنے رب تک نہ پہنچ سکے تو بھلے دنیا سائنس کو  کتنا بڑا ہوا بنا لے لیکن ایک منتظر کے لئے اسی وقت یہ مثبت اور لائق تعریف ہوگی جب یہ اعلی ترین مقصد کے لئے وسیلہ بنے لہذا ،ایک منتظر موجودہ دور کو کسی ایک عنوان کےماتحت نہ لا کر بس ایک ہی عنوان کے تحت دیکھتا ہے اور وہ ہے عصر انتظار ۔

اسکا عقیدہ یہ ہے کہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اب اگر انسانی معاشرہ کی علمی ترقیاں اسکے انتظار میں نکھارنے کا سبب ہیں تو بہت خوب ، اگر سائنس کی ہنر نمائیاں اسکے انتظار  کو بارور بنانے کا سبب ہیں تو بہت خوب اگر دنیا کے انکشافات اسکے انتظار میں کچھ رنگ بھرنے کا سبب ہیں تو بہت خوب ورنہ ان سب کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اگر انکا سلسلہ روحانیت سے نہ ہو تو یہی ساری چیزیں انسانیت کی تباہی کا سبب ہیں ،جبکہ انتظار انہیں اس روحانی پیشوا سے جوڑنے کا سبب بنتا ہے   جسے منجی بشریت کہا جاتا ہے ،جس سے جڑ کر زندگی کو ایک نئے معنی ملتے ہیں ۔
 با اینکہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اور ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے لیکن جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالی الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لئیے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام ع کی سلامتی کی دعاوں اور اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئیے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا  جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں  بلکہ  انسان اپنے وجود کے سلسلہ سے اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا ، انسان طالب چین و سکون ہے ، اسے تحفظ چاہیے ، اسے امن چاہیے اسے مشکلوں سے نجات چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی  کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے

ادیان  ومذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:

شک نہیں کہ  ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ھے اور ھر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ھے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے ؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے
اس لئیے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئیے یہ بہت اہم اس لئہے ہے کہ اسک کے سلسلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔

عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال :

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ؤئے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئگا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدو جہد نہیں کر پاتی
جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لئیے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دینا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو اس  قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتظار کہتے کسے ہیں

مفہوم انتظار

لغت میں انت‍ظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئہے چشم براہ ہو نے کے بیان ہوئے ہیں [1]۔
انتظار روح کي ایسی  کيفيت ہے جو انسان کی  آمادگي کا سبب بنتي ہے جبکہ اس کے مخالق مفہوم مایوسی کا ہے جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنا ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا ۔[2]
انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورت حال سے راضی نہیں ہے اورظلم  و جور کا مخالف ہے لہذا ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اور،اپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے
اس لئہے کہ ”انتظار“ ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو بڑا یک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے ۔

عصر انتظار میں ہماری ذمہ داری :

بحمد اللہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں وہ عصر انتظار جس میں دشمن اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ حق کے مقابل کھڑا ہے
اور ہمیں اس طرح میدان میں ڈٹے رہنا ہے کہ محاذ کمزور نہ پڑنے پائے قدم پیچھے نہ ہٹیں اور اس وقت تک دشمن کے مقابل ڈٹے رہیں جب تک ہمارا مولا و آقا پردہ غیب ہٹا کر نہ آ جائے ایسے میں دشمن کے سامنے اپنی صفوں کی شیرازہ بندی اور ان میں اتحاد کے لئیے ضروری ہے کہ ہم ان علماء و مراجع کے احکامات کے مطابق آگے بڑھیں جنہیں ہمارے امام ع نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور زمانہ غیبت میں امت کی باگ ڈور ان کے حوالے کی ہے ۔
آج بخوبی ہم مرجعیت کی طاقت کو محسوس کر سکتے ہیں  جو لوگ زیارت کربلا سے مشرف ہوئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ عراق کے حالات کیا ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب کسی شہید کی لاش طواف کے لیءے نجف اشرف یا حرم امام حسین علیہ السلام میں نہ آتی ہو یہ جو ہم سکون کے ساتھ زیارت کر پا رہے ہیں یہ انہیں شہیدوں کے خون کا صدقہ ہےجنہوں نے عصر انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا گوارا نہیں کیا اور مراجع و علماء کے حکم پر اپنا گھر بار بال بچوں کو چھوڑ کر تکفیری دہشت گردوں سے مقابلہ کے لئیے محاذ جنگ پر نکل پڑے  آج ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا جسکی جتنی توانائی اور وسعت ہے اسے بروئے کار لا کر شیعت کے دفاع میں آگے بڑھنا ہوگا ،ہم سب کو اس طرح آگے بڑھنا ہوگا کہ تکفیری دہشت گردوں سے لڑنے والے جوان خود کو تنہا نہ سمجھیں  آج  ہم  انتہائی سخت حالات سے گذر رہے ہیں تمام استعماری طاقتیں تکفیری گروہوں کے ذریعے پوری دنیا میں شیعہ نسل کشی میں سرگرم عمل ہیں ایسے دور میں ہم سب کو بیدار و ہوشیار رہ کر جینے کی ضرورت ہے یہ وہ دور ہے جس میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانی  ہوگی ہر  ایک کو اپنے وظیفہ کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہوگا دامے درہمے سخنے جس سے جو  بھی ممکن ہے وہ انجام دے  اور جس سے کچھ  ممکن نہ ہو وہ دعاء کرے  یوں تو بظاہر عراق کی سرزمین تکفیری ٹولوں پر اب تنگ ہو چکی ہے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باجود بھی انہیں جیسے جیسے موقع ملتا ہے دہشت گردانہ کاروائیوں کی انجام دہی سے نہیں رکتے ایسے میں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے ،یہ اور بات ہے کہ فی الحال پے در پے شکستوں کی وجہ سے دشمن اپنی طاقت کی تجدید میں مشغول ہے اور دوبارہ جنگ کے نئے نقشہ کو سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر تیار کر رہا ہے ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے  اپنی صفوں کو متحد رکھیں اور فکری اختلافات کو ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل نہ کریں کہ ہمارا دشمن ہی ہم سے دشمنی کے لئے کافی ہے اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صفوں میں کھڑا نہ کریں ۔
موجودہ دور میں پوری دنیا کے اندر تشیع کے لیے بہت سخت حالات ہیں  با این ھمہ تشیع کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کے باوجود مکتب تشیع میں وسعت پیدا ہو رہی ہےشک نہیں ہے کہ  اس وقت ہم انتہائی سخت دور سے گذر رہے ہیں پوری دنیا میں مکتب تشیع پر ہر طرح کی یلغار کی جا رہی ہے عالمی استعماری طاقتیں اور عربی ضمیر فروش ممالک سب مل کر تکفیری ٹولیوں القاعدہ اور داعش کی کھلے عام حمایت کر رہے ہیں تا کہ اسلام حقیقی کا مقابلہ کریں آج پوری دنیا میں منصوبہ بند طریقہ سے  شیعہ نسل کشی پر کام ہو رہا ہے  سعودی عرب ہو کہ بحرین و پاکستان ، یمن ہو کہ نائجریا و افغانستان ہر جگہ محبان حیدر کرار کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے میں آج کے اس عصر انتظار  میں ہمیں اپنے امام سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم آپکے واقعی منتظر ہیں اور اسی لئیے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اپنے بھائیوں کا قتل عام نہیں دیکھ سکتے یہاں پر یہ بات بھی قابل ذخر ہے کہ  آج کچھ لوگوں نے اس فکر انتظار ہی کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے انکا کہنا ہے  دنیا سے یہ قتل و غارت گری تبھی ختم ہوگی جب امام عصر ع کا ظہور ہوگا   اس چلیپائی فکر سے ہمارا سوال ہے کہ  اگر دنیا میں امن و امان امام ع کی آمد کے بعد قائم ہوگا تو کیا ہمیں اپنی طرف سے قیام امن کی کوششیں نہیں کرنا چاہیے ؟ جبکہ  اگر دیکھا جائے تو عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری کچھ اور زیادہ ہے کیونکہ عصر حاضر میں جب کہ استعماری حکومتیں اپنے ناپاک حربوں سے بالعموم مسلمان اور بالخصوص نوجوان نسل کو انکی ذمہ داریوں سے دور کرنے پر کمر بستہ ہیں، ان استعماری طاقتوں کا اصل نشانہ جوانان ملت ہیں لہذا ہمیں مفہوم انتظار کی صحیح تشریح پیش کرنا ہوگی اوراستعمار کی ناپاک سازشوں کا توڑ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بنیادی عمل (عمل انتظار) کی پرواز کو پہچانیں ا س کے معنی کو سمجھیں ، انتظار کے معانی و مفہوم جاننے کے بعد ضروری ہے کہ ہم  اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور قوم کی فرد فرد کو بتائیں کہ ہم اس لئیے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کہ ہم حقیقی معنی میں منتظر ہیں  اگر ہم روایات میں فضیلت انتظار اور اس کے ثواب پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ انتظار محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نام نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر سب سے افضل عمل انتظار نہ قرار پاتا جبکہ اگر ہم روایات پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ انتظار سے متعلق کہیں  رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ انتظار میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے اور وہ یوسف زہرا حجۃ ابن الحسن امام مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار ہے۔ تو کہیں  امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں جو شخص نظام ولایت کا قائل ہوتے ہوئے حکومت حق کا منتظر ہو، اس کی مثال ایسے شخص جیسی ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد میں مصروف ہو، نیز فرماتے ہیں کہ منتظر کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جیسے رسول اکرم (ص) کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہو۔[3]
بلاشبہ اسلام کی نظر میں جو شخص امام (عج کی آمد اور انکی حکومت کا منتظر ہو وہ اعلٰی فضیلتوں اور روحانی بلندیوں کا حامل ہے، لیکن واضح رہے کہ ان درجات کے لئے آزمائشوں کے راستے سے گذرنا پڑتا ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظار کس طرح کیا جائے۔؟ کیا انتظار سے مراد یہ ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور ان کے آس پاس گناہ و جرم، ظلم و جبر اور فساد انفرادی و اجتماعی سطح پر پھلتے پھولتے رہیں۔؟
کیا انتظار فرج کا مطلب یہ ہے کہ جب تک امام (عج) تشریف نہیں لاتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اسلام کے اہم تربیتی، اصلاحی اور اجتماعی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کو منسوخ کر دیا جائے اور ان اسلامی قدروں کو لغو و مہمل قرار دیا جائے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مکتب انتظار ، جمود، سکوت، ٹھہراو، مصلحت پسندی، مغربی و استعماری حکومتوں کی نوکری اور غلامی، فن خواجگی کا مکتب نہیں  ہے بلکہ انتظار در اصل شعوری عروج، حرکت، کربلائی روش، انقلاب، عزم پیہم وسعی مسلسل، بے باکی، کے ساتھ  نظام شہنشاہیت و ملوکیت کے خلاف سراپا احتجاج بن جانے  کا نام ہے انتظار چُپ سادھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ نظامِ امامت و نظامِ ولایت لیکر آنے والے کے زبردست استقبال سے شروع ہوتا ہے اب یہ  استقبال گھروں کی چاردیوای کے اندر نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے لئے گھروں اور خانقاہوں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جس کا عملی ثبوت امام خمینی رہ نے انقلاب اسلامی ایران کے ذریعہ دنیا کو دیا, ہمیں گھروں سے نکل کر مقدمات ظہور  فراہم کرنے ہونگے اور تابناک و روشن نظامِ ولایت کے لئے کوشش کرنی ہوگی تب ہمارا انتظار واقعی انتظار کہلائے گا دور حاضر میں عالم اسلام پر ہونے والے استعماری و سامراجی حربوں سے ہمیں آگاہ ہونا ہوگا اور پھراس کے ازالے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی، موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی، گروہ بندی، فرقہ واریت، حکمرانوں کی انا پرستی عروج پکڑ رہی ہے، جو دشمنان دین کے لئے باعث مسرت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب و صہیونی طاقتیں مسلمانوں کو پیروں تلے روندے جا رہی ہیں اور ہر آئے دن ہمارے مقدسات کی توہین و پامالی کی جاتی ہے اور ہم سے کچھ بن نہیں پڑتا یہ مر جانے کا مقام ہے دور حاضر میں مسلمانوں کے اندر بے انتہاء غیر اسلامی رسم و رواج، توہمات  و اوہام پرستی ، بدعتیں  و خرافات رائج ہیں,جنہیں سیدھے سادے لوگ عین دین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ،  سماج کی صورت حال سے ہمارا یہ تغافل اور معاشرہ میں پھیلتی بدعتیں   و غیر آئینی رسومات  کیاہماری اور امام کی قربت اور ان کے ظہور میں مانع نہیں ہیں  ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا  اگر ہم خود کو جانِ جہاں امام زماں کا حقیقی منتظر تصور کرتے ہیں اور امام کے سپاہی بننے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں تو ہمیں  ایسی بدعتوں اور خرافات سے خود کو ہرحال میں دور رکھنا ہوگاجو دینی تعلیمات کو مسخ کرنے   کے درپہ  ہیں تاکہ ہم امام زمانہ (عج) کے حقیقی پیروکار ثابت ہوسکیں۔ عصر حاضر کی مشکلات اور ان کے حل کے لئے علماء کرام، دانشوران قوم و ملت کے ساتھ قوم کی فرد فرد کو آگے بڑھنا ہوگا اگر ہم نے  مفہوم انتظار کو اس کی حقیقت کے ساتھ سمجھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب  ہر طرف حسہینت کا سرخ پرچم لہرا رہا ہوگا اور دنیا ظہور منتقم خون حسینی کو آواز دے رہی ہوگی کہ بس آجاو اور عالمی حکومت عدل قائم کر کے انسانیت کے انتظارِ مسیحا کو اس کے معنی دے دو

۔انتظار اور اسکا وزن:

انتظار کا وزن اس کے متعلق سے بخوبی واضح ہے ، جس شخصیت کا ہم انتظار کر رہے ہیں انتظار میں اسی کے مطابق شدت و وسعت ہونا چاہیے چونکہ متعلق انتظار کی بنیاد پر کیفت انتظار تبدیل ہوتی ہے اسکا وزن معین ہوتا ہے ، ایک عام مصلح کے انتظار کا وزن اور ہے ، ایک گھر ، محلہ ، خاندان ،شہر  اور صوبہ اور ملک میں امن و امان کا پیغام لانے والے کا انتظار اور ہے اور ساری دنیا میں پرچم امن بلند کرنے والے کے انتظار کا وزن کچھ اور ہے ۔ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے ۔ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔اسکا انداز مختلف ہے
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اورہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے  ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں  اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تواسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی  منتظر نہیں ۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے ، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ ریا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے اس لئیے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا  چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جا ئے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی،کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے
 جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فو جی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسو ئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہای حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی سیاسی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں
البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اورآمادہ و تیار ہوں فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قومیت ،نسل پرستی و عصبیت کے  ، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیںہیں  ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔ہم سب الگ الگ نسلوں ،خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس
اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے  لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کی باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ  نے اسرائیل کے ساتھ کیا ،یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا کے ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی  ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ ہے ،اس لئے  وہ حقیقی منتظر ہیں اور انہیں پتہ ہے کب کیا کرنا ہے ۔

✍🏼عاليجناب مولانا  سید نجیب الحسن زیدی  صاحب



[1] ۔زبیدی، تاج العروس، ج7، ص539۔
[2] ۔موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص218۔
[3] ۔بحار الانوار ج 52 ص 142
http://klmnoor.blogspot.com

https://t.me/klmnoor

#مہدویت

🔸کس نے ہمارے آقا کو ہم دور کر رکھا ہے؟🔸

♦️ و لَوْ أَنَّ أَشْيَاعَنَا وَفَّقَهُمُ اللَّهُ لِطَاعَتِهِ عَلَى اجْتِمَاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ عَلَيْهِمْ لَمَا تَأَخَّرَ عَنْهُمُ‏ الْيُمْنُ بِلِقَائِنَا وَ لَتَعَجَّلَتْ لَهُمُ السَّعَادَةُ بِمُشَاهَدَتِنَا عَلَى حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِهَا مِنْهُمْ بِنَا فَمَا يَحْبِسُنَا عَنْهُمْ إِلَّا مَا يَتَّصِلُ بِنَا مِمَّا نَكْرَهُهُ وَ لَا نُؤْثِرُهُ مِنْهُمْ‏ وَ اللَّهُ الْمُسْتَعانُ‏ وَ هُوَ حَسْبُنَا وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ

🌹حضرت ولی عصر عجل اللّہ تعالی فرجہ الشریف:

🗒اگر ہمارے شیعہ -خدا انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے- اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے پر  یکدل اور یکجا ہوجاتے تو ہماری ملاقات کی نعمت میں تاخیر نہ ہوتی، اور انہیں ہمارے دیدار کی سعادت بہت جلد نصیب ہوتی۔ جو کہ ہماری صحیح معرفت اور صداقت کی بنیاد پر ہے۔

⚠️ہمیں کوئی چیز ان سے دور نہیں رکھتی سوائے انکے برے اعمال اور ناپسند کردار جو ہم تک پہونچتے ہیں۔

🔻جو نہ ہم پسند کرتے ہیں،

🔻اور نہ ہی ان سے اس قسم کے اعمال کی توقع رکھتے ہیں۔ 

📚الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي)، صج‏2، ص499، ذكر طرف مما خرج أيضا عن صاحب الزمان ع من المسائل الفقهية و غيرها في التوقيعات على أيدي الأبواب الأربعة و غيرهم

🌷🌷🌷🌷🌷
#مہدویت

🔸غیبت حضرت مہدی -عجل اللّہ تعالی فرجہ🔸

🌹حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:

🔹 حدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ الْمُتَوَكِّلِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ صَالِحٍ الْهَرَوِيِّ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا عَنْ أَبِيهِ عَنْ آبَائِهِ عَنْ عَلِيٍّ عليهم السلام قَالَ:

قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ بَشِيراً لَيَغِيبَنَّ الْقَائِمُ مِنْ وُلْدِي بِعَهْدٍ مَعْهُودٍ إِلَيْهِ مِنِّي حَتَّى يَقُولَ أَكْثَرُ النَّاسِ مَا لِلَّهِ فِي آلِ مُحَمَّدٍ حَاجَةٌ وَ يَشُكُّ آخَرُونَ فِي وِلَادَتِهِ فَمَنْ أَدْرَكَ زَمَانَهُ فَلْيَتَمَسَّكْ بِدِينِهِ وَ لَا يَجْعَلْ لِلشَّيْطَانِ إِلَيْهِ سَبِيلًا بِشَكِّهِ فَيُزِيلَهُ عَنْ مِلَّتِي وَ يُخْرِجَهُ مِنْ دِينِي فَقَدْ أَخْرَجَ أَبَوَيْكُمْ مِنَ الْجَنَّةِ مِنْ قَبْلُ وَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ الشَّياطِينَ أَوْلِياءَ لِلَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ.

🔸 حضرت امام رضا علیہ السلام اپنے والد اور آپ (ع) کے والد اپنے آباء علیہم السلام اور وہ امام علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ: حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے مجھے بشیر قرار دیتے ہوئے مبعوث کیا، یقینا میرا بیٹا امام قائم (علیہ السلام) میرے اس عہد و پیمان کے مطابق جو میری سے اس پر ہے غیبت اختیار کرے گا یہاں تک کہ اکثر لوگ کہنے لگیں گے: اب آل رسول علیہم السلام سے خدا کا کوئی کام نہیں، اور دوسرے لوگ تو ان کی  ولادت میں شک کر بیٹھیں گے؛ تو جو شخص اس زمانے کو درک کرے اسے چاہئے کہ اپنے دین سے متمسک رہے اور اپنے شک و شبہات کے ذریعہ شیطان کے لئے موقع فراہم نہ کرے، کہ وہ اس کو میری ملت (مہدویت) سے دور کردے اور میرے دین سے خارج کردے، جان لو کہ اس نے تمہارے ماں باپ (حضرت آدم و حوا) کو بھی اس سے پہلے جنت سے نکالا تھا، اور خدائے عزّ و جلّ نے شیطانوں کو بے ایمان لوگوں کا ولی قرار دیا ہے۔ 

📚 كمال الدين و تمام النعمة، شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ، ج‏1، ص51، الشبهة حول ادعاء الإمام في هذا الوقت الإمامة أم لا 

✅ امام زمانہ عج کی غیبت حتمی تھی جسکی خبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ آلہ نے دی ہے۔

✅زمانہ غیبت میں سب سے پہلی ذمہ داری اپنے ایمان کی حفاظت، عقیدہ مہدویت پر پختہ اعتقاد۔

✅زمانہ غیبت میں امام آخر عج کی ولادت پر شک و شبہہ ارشاد نبوی کے خلاف ہے۔

✅زمانہ غیبت میں مہدویت کے سلسلہ سے لوگوں کو شکوک و شبہات میں ڈالنا ابلیسی چال ہے۔

✅عقیدہ مہدویت پر ایمان نہ رکھنا شیطانی کام ہے۔
🌷🌷🌷🌷🌷