🏴🏴🏴🏴🏴
🏴29/
ذی القعدہ
شہادت امام محمد تقی علیہ السلام
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی
ولادت با سعادت ۱۰رجب ۱۹۵ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۱۰ یا ۱۵ رمضان المبارک کو مدینہ
منورہ میں ہوئی، آپ(ع) کے والد
محترم عرش علوم الہی کے وہ آفتاب درخشاں
حضرت امام رضا علیہ السلام ہیں، مادر گرامی اپنے زمانے کی عظیم خاتون جناب سبیکہ ،
جنہیں امام رضا علیہ السلام نے ’’خیزران، نام دیا تھا۔
آپ علیہ السلام کی کنیت ابوجعفر اور منجملہ
القاب میں سے جواد، تقی ، باب المراد، قانع، مرتضی ہیں جن میں سے ہرلقب آپ (ع) کے فضائل و کمالات کی ترجمانی کرتا ہوا
نظر آتاہے۔
حضرت امام تقی علیہ السلام کی شخصیت کئی
لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے: انمیں سے دوپہلوکی طرف یہاں پر اشارہ مقصود ہے۔
🔳ایک
تو یہ کہ آپ (ع) حضرت امام رضا علیہ السلام کے وہ فرزند ہیں جنکا انتظار خود امام
رضا علیہ السلام کررہے تھے کیونکہ امام ہشتم چالیس برس کے سن مبارک میں لوگوں کی
زباں سے اپنے جانشیں کے سلسلہ میں تشویش سن رہے تھے ، اسی لئے جب کسی نے آپ سے
امام جواد علیہ السلام کے سلسلہ میں سوال کرلیا۔ جواب دیا: خدا کی قسم کچھ ہی دنوں
میں مالک مجھے ایسا فرزند عطا کریگا جس کے
ذریعہ حق و باطل میں جدائی ڈالے گا۔
📚کافی،
ج۱، ص۳۲۰۔
🔳دوسرا
اہم پہلو آپ کا کمسنی کے عالم میں درجہ امامت پر فائز ہوناہے جو عالم تشیع اور
خود امام علیہ السلام کے لئے ایک سخت مرحلہ تھا، یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی اس
تشویش میں مبتلا تھے۔ لیکن اگر حضرت امام جواد علیہ السلام کی ولادت کے واقعہ
،سوانح حیات اور امامت پر نظر ڈالی جائے
تو بخوبی معلوم ہوگا کہ آپ(ع) کی کمسنی ہی عالم تشیع کے لئے باعث سربلندی
اور باطل کے لئے سبب ذلت و خواری رہی ہے، کیونکہ آپ (ع)کی علمی،
عرفانی ، اور سیاسی شخصیت اسی کمسنی میں جلوہ فگنی کرتی نظر آئی اور دنیا کوبتا
گئی کہ امام برحق کے لئے سن و سال کی قید نہیں ہوتی بلکہ وہ تو خدا کا نمائندہ
ہوتا ہے تو علم بھی خدا سے لیتا ہے۔ اس بات پر آپ (ع)کے وہ جوابات اور مناظرے
گواہ ہیں جو آپ نے اثبات امامت کے سلسلہ
میں پوچھے گئے سوالوں کے جوابات عنایت
فرمائے اور کمسنی کے عالم میں زمانے کے بزرگ اور سن رسیدہ علماء کو مناظرہ میں
پچھڑنے پر مجبور کردیا اسکی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔
علامہ مجلسی فرماتے ہیں شیعہ حضرات
آپ (ع) کی کمسنی کے باعث تشویش میں مبتلا تھے، لہذا انہوں حج کے بعد مدینہ کا رخ کیا ، اور
آپ (ع) سے ملاقات کے ذریعہ فضائل و کمالات کا مشاہدہ کیا اور شک و تردید کی دھول
کو آئینہ سے صاف کیا یہاں تک کہ شیخ کلینی اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ آپ نے ایک
ہی نشست میں تیس ہزار پیچیدہ سوالوں کاجواب دیا۔
📚منتہی
الامال، دوجلدی، ص۱۹۲۵.
۲۔ مامون نے امام علیہ السلام کو مدینہ
سے طلب کیا اوراپنی بیٹی ام فضل سے شادی کی پیشکش کی جس پر عباسیوں نے اعتراض کیا، مامون نے جواب دیا: ابو جعفر کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ
وہ اپنی کمسنی کے ساتھ تمام صاحبان علم و
فضل سے ممتاز، اور غیر معمولی اور حیرت
انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔ افسوس ہے تم پر!
میں اس جوان کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، وہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو علم و دانش اور الہام خدا سے پاتے ہیں، اس
کے اجداد ہمیشہ علم دین اور ادب میں لوگوں سے بے نیاز رہے ہیں۔
📚محمد
بن محمد بن نعمان عکبری بغدادی، الارشاد،
ج۲، ص۲۸۲۔
اس نے امتحان کے لئے مناظرہ کا اہتمام
کیا اور علماء نے اپنے سب سے بڑے عالم یحیی ابن اکثم کا انتخاب کیا ۔ خلاصہ یہ کہ یحیی
نے ایک سوال کیا کہ حالت احرام میں شکار
کرنا کیسا ہے اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے
اس سے سوال کرلیا کہ واضح کریں حل میں کیا یا حرم میں ؟ عالم تھا یا جاہل،
عمدا تھا یا سہوا، آزاد تھا یا غلام۔۔۔۔۔ جس سے سب مات و مبہوت رہ گئے۔
📚منتہی
الامال، دوجلدی، ص۱۹۳۰.
۳۔ عیاشی نے زرقان صدیق سے روایت کی ہے
کہ ابن ابی داود، عباسی حکومت کے قاضی غم و غصہ سے چور گھر آئے ۔میں نے سوال کیا:
کہتے ہیں: آج ابوجعفر سے اتنی سخت ناگواری ملی ہے کہ تمنا کررہا تھا کہ کاش بیس
سال پہلے مر گیا ہوتا۔ پوچھا ایسا کیا ہوگیا؟ کہا کہ خلیفہ کے دربار میں تھا اور ایک
چور پر حد جاری کرنے کا مسئلہ پیش ہوا، فقہاء اور علماء کے ساتھ خلیفہ نے محمد بن
علی کو بھی طلب کیا۔ سوال کیا : ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ میں نے کہا:’’ ہاتھ گٹے
سے کاٹا جائے اس کی دلیل آیت تیمم ہے:
(فامسحوا بوجهوکم وایدیکم) [مائدہ،۶] جلسہ
میں موجود دیگر فقہاء نے اس کی تائید کی؛ لیکن بعض علماء نے کہا :’’ کہنی سے کاٹا
جائے؛ اس لئے آیت کہتی ہے (فاغسلوا وجوهکم و ایدیکم الی المرافق) [مائدہ، ۶ ]
معتصم امام علیہ السلام کی طرف دیکھا اور کہا: اے ابو جعفر! آپ کی کیا رائے ہیں؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’حضرات نے رائے دے دی ہے‘‘ معتصم نے کہا: ’’ ان کی
آراء کو چھوڑیں ۔ آپ کیا کہتے ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ مجھے اس سلسلہ میں کچھ کہنے سے معاف
رکھیں‘‘ معتصم نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں اپنی نظر کا اعلان فرمائیں‘‘۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اب جب کہ تو نے خدا کی قسم دی ہے، میری نظر یہ ہے
ان سب نے غلط فتوی دیا ہے: چور کا ہاتھ اس
کی انگلیوں کے پور سے کاٹا جائے اور ہاتھ کی ہتھیلی باقی رہے۔ اس کی دلیل ایک تو یہ
کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کافرمانا ہے کہ: سجدہ کی حالت میں سات اعضاء کو زمین
پر ہونا چاہئے: چہرہ(پیشانی) ، دونوں ہاتھ، دونوں زانو، اور دونوں پیر کے
انگوٹھےتاکہ ان کے ساتھ سجدہ کرے۔ دوسرے یہ کہ خدا فرماتا ہے(وان المساجدلله
فلاتدعوا مع الله احدا) [جن، ۱۸،] مساجد سے مراد یہی سات اعضائے سجدہ ہیں ۔ معتصم
نے آپ (ع) کے استدلال پسند کیااور حکم دیا
کہ امام علیہ السلام کی رائے کے مطابق چور کی انگلیوں کو کاٹاجائے۔
📚تفسیر
عیاشی، ج۱، ص۳۱۹و۳۲۰؛بحارالانوار، ج۵۰، ص۵الی۷۔
🏴🏴شہادت:
ایسے ہی آپ (ع) کے دیگر مناظروں، علمی
بحثوں اور مزید شیعوں کی ہدایت اور رہمنائی
کوئی معمولی چیز نہیں تھی جس پر خلافت باطل خاموش رہے، مامون بھی اس چیز کے فراق میں
تھا لیکن چونکہ امام رضا علیہ السلام کو شہید کرچکا تھا آپ اس کے ظلم سے محفوظ
رہے لیکن آخرکار معتصم نے اس کام کو پورا کیا اور آپ سے نجات حاصل کرنے کا ناپاک
منصوبہ بنانے لگا، کیفیت شہادت کے سلسلہ میں روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں ہے
کہ معتصم نے مہمان بلاکر زہر سے شہید کیا(منتہی الامال) اور دوسری روایت میں اس
طرح سے ہے: کہ معتصم نے اس پلید سازش کے لئے ام فضل کا انتخاب کیا کیوں کہ ام فضل
اول ازدواج سے امام (ع) سے ناراض تھی اور بارہا مامون سے شکایت کی تھی۔
📚کشف
الغمہ، ج۳ ص ۱۴۸و۱۵۵و۱۵۶۔
اسکے علاوہ امام نہم علیہ السلام کا
’’سمانہ مغربیہ‘‘ سے شادی کرنا اور ان کی تعظیم و تجلیل ، دوسرے ام فضل کا بے
اولاد ہونا بھی کینہ کا سبب تھا۔
📚محمد
باقر مجلسی، بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۷۔
لہذا
اس نے معتصم کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اس سے حاصل کئے گئے زہر کو انگور میں
ملادیا اور اس سے امام (ع) کو مسموم کردیا، جب امام جواد علیہ السلام نے ان انگور
کو نوش فرمالیا، ام فضل (ظاہری طور پر) شرمندہ ہوئی اور رونے لگی۔۔۔۔۔۔؛ لیکن
حکومت کے ناپاک نقشہ کو جامہ عمل پہنا چکی تھی.
📚بحار
الانوار، ج۵۰، ص۱۷، محمد بن جریر طبری، دلائل الامامہ، ص۲۰۹.
#بارگاہ_عصمت_میں
👈👈حضرت
امام جواد علیہ السلام کے بعض ارشادات۔
⚫️الْمُؤمِنُ یَحْتاجُ إلی ثَلاثِ خِصال:
١-
تَوْفیق مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ٢-
وَواعِظ مِنْ نَفْسِهِ ٣- وَقَبُول مِمَّنْ یَنْصَحُهُ.
🗒مومن
تین خصلتوں کا ہر حال میں محتاج رہتا ہے۔ ۱۔اللہ تعالی کی طرف سے توفیق۔ ۲۔ خود کا
اندرسے وعظ کرنے والا۔ ۳۔ نصیحت کرنے والی
کی نصیحت کو قبول کرنا۔
📚بحارالأنوار،
ج ۷۲، ص ۶۵، ح ۳۔
⚫️لوْسَكَتَ
الْجاهِلُ مَااخْتَلَفَ النّاسُ.
🗒اگر
جاہل خاموش رہے، لوگوں میں اختلاف نہیں ہوگا۔
📚كشف
الغمّه، ج ۲، ص ۳۴۹۔
⚫️منِ
اسْتَحْسَنَ قَبیحاً كانَ شَریكاً فیهِ.
🗒جس
نے فعل قبیح کی تعریف اور تائید کی وہ اس کے عذاب میں شریک ہوگا۔
📚كشف
الغمّه، ج ۲، ص ۳۴۹۔
⚫️منِ
اسْتَغْنی بِاللهِ إفْتَقَرَ النّاسُ إلَیْهِ، وَ مَنِ اتَّقَی اللهَ أحَبَّهُ
النّاسُ وَ إنْ كَرِهُوا.
🗒جو
شخص خود کو اللہ کے ذریعہ بے نیاز کرے لوگ اس کے محتاج ہونگے اور جو اللہ کا تقوی
اختیار کرے لوگ اس سے محبت کریں گے اگرچہ خود صاحب تقوی نہ ہوں۔
📚بحارالأنوار،
ج ۷۵، ص ۷۹، ح ۶۲۔
⚫️موْتُ
الاْنْسانِ بِالذُّنُوبِ أكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالاْجَلِ، وَحَیاتُهُ بِالْبِرِّ
أكْثَرُ مِنْ حَیاتِهِ بِالْعُمْرِ.
🗒انسان
کی موت معمولی موت سے زیادہ اس کے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہے، اور طول عمر سے زیادہ
اس کی عمر اسکی نیکی اور احسان کے سبب سے ہوتی ہے۔
📚كشف
الغمّه، ج ۲، ص ۳۵۰۔