علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 25 نومبر، 2018

شان والا صفات حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم

#بڑی_شان_والے


🌸🌸شان والا صفات حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم🌸🌸


📗كانَ النَّبِيُّ ع قَبْلَ الْمَبْعَثِ مَوْصُوفاً بِعِشْرِينَ خَصْلَةً مِنْ خِصَالِ الْأَنْبِيَاءِ لَوِ انْفَرَدَ وَاحِدٌ بِأَحَدِهَا لَدَلَّ عَلَى جَلَالِهِ فَكَيْفَ مَنِ اجْتَمَعَتْ فِيهِ كَانَ نَبِيّاً أَمِيناً صَادِقاً حَاذِقاً أَصِيلًا نَبِيلًا مَكِيناً فَصِيحاً عَاقِلًا فَاضِلًا عَابِداً زَاهِداً سَخِيّاً كَمِيّاً قَانِعاً مُتَوَاضِعاً حَلِيماً رَحِيماً غَيُوراً صَبُوراً مُوَافِقاً مُرَافِقاً لَمْ يُخَالِطْ مُنَجِّماً وَ لَا كَاهِناً وَ لَا عَيَّافا۔۔۔۔۔۔

جمعہ، 16 نومبر، 2018

ذلت ہرگز

 

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام:



ما أقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ أنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ.

جمعرات، 15 نومبر، 2018

شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام

🔘 ۸ ربيع الاول #امام_حسن_عسکری_علیه_السلام  کی شہادت (۲۶۰ ق)


▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️▪️
▪️ ۱۰ ربیع الثانی ۲۳۲ھ میں سلسلہ امامت کا گیارہواں وارث پیغمبر(ص) اس دار دنیا میں تشریف فرما ہوا اور مدینہ کی سرزمیں نور جمال امامت سے منور ہوگئی۔

جمعہ، 9 نومبر، 2018

چھ چیزیں جنّت کی ضامن


🌸حضرت رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم🌸:

📗📗📗📖📗📖📗📖📗📖📗
📗📗
📗


🔺تقَبَّلُوا لِي بِسِتَّةٍ أَتَقَبَّلُ لَكُمْ بِالْجَنَّة🔺



🔺چھ چیزوں کو تم ہم سے قبول کرو، میں اس کے مقابل تمہارے لئےجنت قبول کرونگا🔺

منگل، 6 نومبر، 2018

آہ رسول خدا(ص) ہائے امام حسن(ع)


◼️آہ رسول خدا(ص) ہائے امام حسن(ع)◼️




🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴🏴
🏴🏴
🏴

رسول خدا(ص) جانتے تھے۔۔۔  اچھی طرح جانتے تھے کہ۔۔۔ دنیا سے جانے کا وقت قریب ہے، آخری مہینوں کے ایام۔۔۔۔ آپ(ص) کے ارشادات کا لہجہ۔۔۔۔ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔۔۔۔ایسا لگتا ہے۔۔۔ وصیتیں فرمارہے ہوں۔۔۔ حج کا زمانہ ہے۔۔۔۔ فرماتے ہیں:

أيها الناس اسمعوا قولي فلعلي لا ألقاكم بعد عامي هذا بهذا الموقف أبدا

اے لوگو! میری باتوں کو سنو شاید اس سال کے بعد یہاں پر ملاقات نہ ہوسکے۔

اتوار، 21 اکتوبر، 2018

خصائص حسینی

خصائص حسینی




🔹عنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع يَقُولَانِ:

إِنَّ اللَّهَ عَوَّضَ الْحُسَيْنَ ع مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْإِمَامَةَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدُّ أَيَّامُ زَائِرِيهِ جَائِياً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ.

🔸حضرت امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام فرماتے ہیں:

خدا نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض:
1️۔ امامت کو ان کی آل پاک میں قرار دیا،
2️۔ ان کی تربت میں شفا قرار دی،
3️۔ ان کی قبر مطہر کے پاس دعا کو مستجاب قرار دیا،
4️۔ اور ان کی زیارت کے لئے آنے جانے کے ایام کو زائر کی عمر میں حساب نہیں کیا جاتا۔

📚وسائل الشيعة، شيخ حر عاملى، ج‏14، ص423، باب تأكد استحباب زيارة الحسين بن علي ع و وجوبها كفاية


پیر، 15 اکتوبر، 2018

عزائےسیدالشہداء علیہ السلام

عزائےسیدالشہداء علیہ السلام


لمَّا أَخْبَرَ النَّبِيُّ ص ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ بِقَتْلِ وَلَدِهَا الْحُسَيْنِ وَ مَا يَجْرِي عَلَيْهِ مِنَ الْمِحَنِ‏بَكَتْ فَاطِمَةُ بُكَاءً شَدِيداً وَ قَالَتْ يَا أَبَهْ مَتَى يَكُونُ ذَلِكَ قَالَ فِي زَمَانٍ خَالٍ مِنِّي وَ مِنْكِ وَ مِنْ عَلِيٍّ فَاشْتَدَّ بُكَاؤُهَا وَ قَالَتْ يَا أَبَهْ فَمَنْ يَبْكِي عَلَيْهِ وَ مَنْ يَلْتَزِمُ بِإِقَامَةِ الْعَزَاءِ لَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ يَا فَاطِمَةُ إِنَّ نِسَاءَ أُمَّتِي يَبْكُونَ عَلَى نِسَاءِ أَهْلِ بَيْتِي وَ رِجَالَهُمْ يَبْكُونَ عَلَى رِجَالِ أَهْلِ بَيْتِي وَ يُجَدِّدُونَ الْعَزَاءَ جِيلًا بَعْدَ جِيلٍ فِي كُلِّ سَنَةٍفَإِذَا كَانَ الْقِيَامَةُ تَشْفَعِينَ أَنْتِ لِلنِّسَاءِ وَ أَنَا أَشْفَعُ لِلرِّجَالِ وَ كُلُّ مَنْ بَكَى مِنْهُمْ عَلَى مُصَابِ الْحُسَيْنِ أَخَذْنَا بِيَدِهِ وَ أَدْخَلْنَاهُ الْجَنَّةَ يَا فَاطِمَةُ كُلُّ عَيْنٍ بَاكِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا عَيْنٌ بَكَتْ عَلَى مُصَابِ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهَا ضاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ بِنَعِيمِ الْجَنَّةِ.

⚫️جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے حضرت زہرا سلام اللّہ علیہا کو انکے فرزند امام حسین علیہ السلام کی خبر شہادت سنائی اور ان پر پڑنے والی مصیبتوں سے آگاہ کیا، حضرت زہرا سلام اللّہ علیہا نے شدید گریہ کیا، اور پوچھا: بابا جان! یہ سب کب ہوگا؟ فرمایا: جب ہم، تم اور علی دنیا میں نہیں ہونگے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا گریہ شدید ہوگیا؛ اور فرمایا: اے بابا! تو اس پر کون روئے گا؟ کون اس کے لئے عزاء کا اہتمام کریگا؟؟

منگل، 4 ستمبر، 2018

عید مباہلہ

#مباہلہ


🌹رسول اکرم  (ص) کا نصاریٰ سے مباہلہ🌹

💬نجران کا علاقہ حجاز و یمن کے درمیان تقریبا 70 دیہاتوں پر مشتمل تھا اور یہ حجاز کا واحد علاقہ تھا جہاں کے لوگوں نے بت پرستی کو چھوڑ کر عیسائی مذہب کی پیروی اختیار کر رکھی تھی۔

📚معجم البلدان، یاقوت حموى، ج5، ص 267ـ 266.

🔹نبی گرامی(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دینے اور پیغام الہی کو لوگوں تک پہونچانے کی غرض سے متعدد ممالک کو خط لکھا یا اپنا سفیر بھیجا،  انہیں میں سے ایک خط نجران کے پادری ’’ابوحارثہ ‘‘ کے نام بھی تھا جس کے ذریعہ آپ(ص) نے اہل نجران کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نجرانیوں نے مشورہ کیا اور طے کیا کہ کچھ لوگوں کو بھیج کر رسول اسلام (ص) کے دلائل کو سنیں اور حقانیت کا پتہ لگائیں۔

👈یہ واقعہ نویں ہجری کا ہے جسے ’’عام الوفود‘‘ کہا جاتا ہے اس لئے کہ اس سال جزیرۃ العرب  کے مختلف علاقوں سے مختلف وفد آنحضرت(ص) کی خدمت میں پہونچے، انہیں میں سے ایک وفد نجران کا تھا جو ساٹھ لوگوں پر مشتمل تھا، بعض نے کہا ہے کہ یہ وفد چودہ بڑی شخصیتوں پر مشتمل تھا جن میں سے ان کے سربراہ ’عبد المسیح‘ اور انکا مشاور۔ ’ایہب‘ جس کا لقب سید تھا اور تیسرا انکا  پادری تھا جو نصرانیوں میں عظیم المرتبت جانا جاتا تھا اور روم کے بادشاہ نے  اس کے لئے کئی مدارس اور کلیسا کھولے تھے اور مال و منصب سے نوازا تھا۔
پیغمبر اسلام(ص) نے ان کا استقبال کیا ، جب نماز کا وقت ہوا انہوں نے ناقوس بجانا شروع کردیا، اصحاب نے انہیں روکنا چاہا۔ آپ(ص) نے فرمایا: انہیں ان کے حال پر چھوڑدو۔

📚تفسير الكاشف‏، تفسير الكاشف‏، مغنيه، محمد جواد، دار الكتب الإسلامية، ج2، ص76۔

💬️جب وہ لوگ رسول اسلام(ص) کی خدمت میں پہونچے سوال کیا: ہمیں یہاں کس لئے دعوت دی گئی؟ فرمایا : اسلئے کہ اللہ کی وحدانیت کی گواہی دو میری رسالت پر ایمان لاؤ اور یہ کہ عیسیٰ بھی خدا کے بندے تھے دوسرے انسانوں کی طرح کھاتے پیتے  ، محدث ہوتے تھے، انہوں نے کہا : اگر وہ کسی کے بیٹے تھے تو ان کے والد کون تھے؟ آیت ’’ان مثل عیسی عند اللہ کمثل آدم ۔۔‘‘ نازل ہوئی اور آنحضرت (ص) نے فرمایا تمہارا ابوالبشرآدم کے سلسلہ میں کیا کہنا ہے؟ انکے والد کا کیا نام تھا ؟ وہ جواب نہ دے سکے ۔ ۔۔۔۔
نبی اکرم نے فرمایا: چلو مجھ سے مباہلہ کرلو، اگر میں سچا نکلا  تو تم پر لعنت ہوگی اور اگر میں جھوٹا نکلا تو مجھ پر۔ انہوں نے کہا: آپ نے انصاف سے کام لیا، اور مباہلہ کا وقت طے ہوگیا۔ جب وہ اپنی جائے قیام پر آئے تو ان کے بزرگوں سید، عاقب اور ایہم نے کہا: اگر وہ اپنی قوم کے ساتھ آئے تو ہم مباہلہ کریں گے کیونکہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ نبی نہیں ۔ لیکن اگر صرف اپنے گھر والوں کے ساتھ آئے تو مباہلہ نہیں کریں گے، اس لئے کوئی اپنے گھر والوں کو نہیں لاتا سوائے یہ کہ وہ سچا ہو۔جب صبح ہوئی رسول اکرم(ص) اس صورت میں تشریف لائے کہ ساتھ میں امیرالمومنین، حسن اور حسین تھے اوران کے پیچھے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہم) ۔ نصرانیوں نے کہا:یہ کون لوگ ہیں؟  بتایاگیا: یہ انکے جانشین اور بھائی  اور داماد علی بن ابی طالب ہیں،  اور وہ انکی لخت جگر فاطمہ ہیں  اور وہ ان کے بیٹے حسن اور حسین ہیں ، جیسے ہی انہوں نے انکو پہچانا،  کہنے لگے ہم مباہلہ نہیں کریں گے ،  لیکن جتنا جزیہ چاہیں آپ لے سکتے ہیں۔

📚تفسير القمي، ج‏1 ،ص104؛ تفسير نور الثقلين‏، انتشارات اسماعيليان، ج1، ص347؛  جامع البيان فى تفسير القرآن‏، طبرى، دار المعرفه‏، ج3، ص211؛ تفسير العياشي، ج‏1 ، ص176۔

👈انمیں سے بعض نے کہا اگر ان سے مباہلہ کیا تو روئے زمیں کوئی نصرانی نہیں بچے گا

📚التبيان فى تفسير القرآن‏، طوسى، دار احياء التراث العربى‏، بيروت، ج2، ص484۔

🌷اور انہوں نے اس بات پر صلح کی کہ ہر سال دوہزار حلے جن میں ہر ایک کی قیمت چالیس درہم ہے ادا کریں گے ہزار صفر میں اور ہزار رجب میں۔

📚الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏1، ص 166۔

🔘مباہلہ کیا ہے؟🔘

مباہلہ کی اصل ’’ بہل ‘‘ہے یعنی آزاد کردینا، کسی چیز سے قید و شرط کا ہٹا لینا۔اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا  نوزاد بچہ  آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں ، اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اگر اس کو نفرین اور خدا سے دوری کے معنی میں لیا جاتا ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا کے بندے کو بھی آزاد چھوڑ دینے کے یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
مباہلہ اصطلا ح میں  ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے اور نفرین کرنے کو کہتے ہیں۔ مباہلہ کی کیفیت یہ ہے کہ  لوگ جو اپنے مذہب اور عقیدہ  کے سلسلہ میں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں کہ جھوٹے کو ذلیل و رسوا کرے اور اس پر عذاب نازل کردے۔

📚تفسير نمونه، ج ‏2، ص579، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش۔

مباہلہ یعنی ایک دوسرے  پر نفرین کرنا تاکہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند عالم کا غضب نازل ہو اور جو حق پر ہو اسے پہچانا جائے  اور اس طرح حق و باطل کی پہچان ہوسکے۔

📚دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه بحار، ج13،  ص 636، ‏ دار الكتب الاسلاميه‏۔

🔘مباہلہ کون کرسکتا ہے؟🔘

اگرچہ آیہ مباہلہ میں کلی حکم کی طرف اشارہ نہیں ہے ، بلکہ آیت کا خطاب رسول خدا(ص) سے ہے لیکن یہ موضوع اس بات سے مانع نہیں بنتا کہ مخالفوں سے مباہلہ ایک عام حکم کی صورت میں ہواور صاحب ایمان  جو تقوی پرہیز گاری اور خداپرستی میں کامل ہو ں ، جب وہ اپنی دلیلوں کے ذریعہ دشمن کو  قانع نہ کرسکیں، تو مباہلہ کی دعوت دے دیں۔

📚 تفسير نمونه، ج ‏2، ص589، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش۔

جیسا کہ روایت میں بھی آیا ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
📜قلْتُ إِنَّا نُكَلِّمُ النَّاسَ فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ بِقَوْلِ اللَّه‏…… فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَة…

🗒عرض کیا : ہم ان پر قول خدا کے ذریعہ احتجاج کرتے ہیں ’’اطیعواللہ۔۔۔‘‘ کہتے ہیں یہ امیر لشکر کے لئے نازل ہوئی، ’’انما ولیکم۔۔۔‘‘ سے استدلال کرتے ہیں، کہتے ہیں مومنین کی شان میں ہے۔۔۔۔ تو آپ(ع ) نے فرمایا اگر ایسا ہے تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2،ص514، باب المباهلة ..

🔘مباہلہ کے آداب🔘

جیسا کہ معلوم ہوا : مباہلہ اس وقت کے لئے ہے جب مذہب حقہ کی پیروی کرنے والے کے سامنے کوئی راہ حل  نہ بچے اور باطل بات ماننے کو تیار نہ ہو۔ اس وقت مباہلہ کی دعوت دی جاسکتی ہے ، اس کے لئے روایات میں کچھ آداب ذکر کئے گئے ہیں۔
👈جب امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کیسے مباہلہ کیا جائے ؟ آپ نے فرمایا:

📙أصْلِحْ نَفْسَكَ ثَلَاثاً وَ أَظُنُّهُ قَالَ وَ صُمْ وَ اغْتَسِلْ وَ ابْرُزْ أَنْتَ وَ هُوَ إِلَى الْجَبَّانِ فَشَبِّكْ أَصَابِعَكَ مِنْ يَدِكَ الْيُمْنَى فِي أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَنْصِفْهُ وَ ابْدَأْ بِنَفْسِكَ وَ قُلِ اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبَّ الْأَرَضِينَ السَّبْعِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ إِنْ كَانَ أَبُو مَسْرُوقٍ جَحَدَ حَقّاً وَ ادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً ثُمَّ رُدَّ الدَّعْوَةَ عَلَيْهِ فَقُلْ وَ إِنْ كَانَ فُلَانٌ جَحَدَ حَقّاً وَ ادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً ثُمَّ قَالَ لِي فَإِنَّكَ لَا تَلْبَثُ أَنْ تَرَى ذَلِكَ فِيهِ فَوَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْهِ.

🗒1۔تین دن اپنے نفس کی اصلاح کرو، 2 ۔ اور شاید کہا اور روزہ رکھو۔ 3۔ غسل کرو۔ 4۔ مباہلہ کرنے والے کے ساتھ صحرا میں جاؤ۔ 5۔ اپنے داہنے  ہاتھ کی انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دو۔ 6۔ اور پہلے تم شروع کرو اور کہو: بارالہا جو کہ ساتوں زمین و آسمان کا پالنے والا، غیب کی خبر رکھنے والا، رحمن و رحیم ہے!اگر میرا مخالف حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا دعوی کرتا ہے ، تو آسمان سے اس پر بلاء کو نازل فرما یا دردناک عذاب میں مبتلا کردے، اس دعا کو پھر دہراؤ اور کہو: اگر وہ حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا دعوی کررہا ہے تو اس پر آسمان سے بلا نازل فرما یا دردناک عذاب میں مبتلا فرما۔

🌹پھر آپ(ع) نے فرمایا: پھر زیادہ وقت نہیں لگے گا اور نتیجہ دیکھ لوگے۔ اور خدا کی قسم  لوگوں میں سے کسی کو نہیں پایا کہ اس طرح مجھ سے مباہلہ کرے۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، 514، باب المباهلة .....

🌹مباہلہ اور امیرالمومنین(ع) کی منزلت🌹

🔴ایک دن مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کہا: قرآن میں جو سب سے بڑی فضیلت امیرالمومنین کے لئے آئی ہے بیان کریں۔

🔵 امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: ان کی فضیلت مباہلہ میں ہے اس کے بعد آیہ مباہلہ کی تلاوت کی اور فرمایا:رسول خدا(ص) نے حسن و حسین کو لیا جو ان کے بیٹے تھے، حضرت فاطمہ کو دعوت دی جو نسائنا کی مصداق تھیں اور امیر المومنین کو ہمراہ لیا جو خدا کے حکم سے نفس پیغمبر(ص) ہیں، کوئی بھی مخلوق پیغمبر(ص) سے بڑھ کر نہیں؛ تو پھر لازم ہے کہ خدا کے حکم کے مطابق کوئی بھی نفس (جان) پیغمبر(ص) سے افضل نہ ہو۔

🔲جب امام(ع) نے یہاں تک فرمایا، مامون نے کہا: خدا نے ابناء یعنی جمع کا لفظ استعمال کیا جبکہ فقط دو بیٹے تھے اور نساء بھی جمع ہے جبکہ فقط اپنی بیٹی کو لے گئے ،تو کیوں نہ کہیں کہ نفس سے مراد خود ہی ہیں، اس صورت میں امیرالمومنین کے لئے کوئی فضیلت نہیں رہ جائے گی۔

💬امام رضا(ع) نے فرمایا: جو کہہ رہے ہیں صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ دعوت دینے والا اپنے سے غیر کو دعوت دیتا ہے خود کو نہیں؛ جس طرح حکم کرنے والا دوسرے کو حکم دیتا ہے۔ رسول خدا(ص) نے امیر المومنین کے علاوہ کسی مرد کو مباہلہ میں دعوت نہیں دی اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خدا نے قرآن میں جس کو نفس قرار دیا ہے اس سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔
🌸تو مامون نے کہا: جب جواب مل جائے سوال باطل ہے۔

📚الفصول المختارة، مفيد، محمد بن محمد، كنگره شيخ مفيد، قم، ص38، فصل حوار بين الرضا ع و المأمون في المباهلة

ہفتہ، 11 اگست، 2018

شہادت امام محمد تقی علیہ السلام


🏴🏴🏴🏴🏴




🏴29/ ذی القعدہ

شہادت امام محمد تقی علیہ السلام

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت ۱۰رجب ۱۹۵ھ اور دوسری روایت کے مطابق ۱۰ یا ۱۵ رمضان المبارک کو مدینہ منورہ میں  ہوئی، آپ(ع) کے والد محترم  عرش علوم الہی کے وہ آفتاب درخشاں حضرت امام رضا علیہ السلام ہیں، مادر گرامی اپنے زمانے کی عظیم خاتون جناب سبیکہ ، جنہیں امام رضا علیہ السلام نے ’’خیزران، نام دیا تھا۔
 آپ علیہ السلام کی کنیت ابوجعفر اور منجملہ القاب میں سے جواد، تقی ، باب المراد، قانع، مرتضی ہیں جن میں سے ہرلقب  آپ (ع) کے فضائل و کمالات کی ترجمانی کرتا ہوا نظر آتاہے۔
حضرت امام تقی علیہ السلام کی شخصیت کئی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے: انمیں سے دوپہلوکی طرف یہاں پر اشارہ مقصود ہے۔

🔳ایک تو یہ کہ آپ (ع) حضرت امام رضا علیہ السلام کے وہ فرزند ہیں جنکا انتظار خود امام رضا علیہ السلام کررہے تھے کیونکہ امام ہشتم چالیس برس کے سن مبارک میں لوگوں کی زباں سے اپنے جانشیں کے سلسلہ میں تشویش سن رہے تھے ، اسی لئے جب کسی نے آپ سے امام جواد علیہ السلام کے سلسلہ میں سوال کرلیا۔ جواب دیا: خدا کی قسم کچھ ہی دنوں میں مالک مجھے ایسا فرزند عطا کریگا  جس کے ذریعہ حق و باطل میں جدائی ڈالے گا۔

📚کافی، ج۱، ص۳۲۰۔

🔳دوسرا اہم پہلو آپ کا کمسنی کے عالم میں درجہ امامت پر فائز ہوناہے جو عالم تشیع اور خود امام علیہ السلام کے لئے ایک سخت مرحلہ تھا، یہاں تک کہ آپ کے اصحاب بھی اس تشویش میں مبتلا تھے۔ لیکن اگر حضرت امام جواد علیہ السلام کی ولادت کے واقعہ ،سوانح حیات اور امامت پر نظر ڈالی جائے  تو بخوبی معلوم ہوگا کہ آپ(ع) کی کمسنی ہی عالم تشیع کے لئے باعث سربلندی اور باطل کے لئے  سبب  ذلت و خواری رہی ہے، کیونکہ آپ (ع)کی علمی، عرفانی ، اور سیاسی شخصیت اسی کمسنی میں جلوہ فگنی کرتی نظر آئی اور دنیا کوبتا گئی کہ امام برحق کے لئے سن و سال کی قید نہیں ہوتی بلکہ وہ تو خدا کا نمائندہ ہوتا ہے تو علم بھی خدا سے لیتا ہے۔ اس بات پر آپ (ع)کے وہ جوابات اور مناظرے گواہ ہیں جو آپ نے اثبات امامت  کے سلسلہ میں پوچھے گئے سوالوں  کے جوابات عنایت فرمائے اور کمسنی کے عالم میں زمانے کے بزرگ اور سن رسیدہ علماء کو مناظرہ میں پچھڑنے پر مجبور کردیا اسکی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔  علامہ مجلسی فرماتے ہیں شیعہ حضرات  آپ (ع) کی کمسنی کے باعث تشویش میں مبتلا تھے،  لہذا انہوں حج کے بعد مدینہ کا رخ کیا ، اور آپ (ع) سے ملاقات کے ذریعہ فضائل و کمالات کا مشاہدہ کیا اور شک و تردید کی دھول کو آئینہ سے صاف کیا یہاں تک کہ شیخ کلینی اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ آپ نے ایک ہی نشست میں تیس ہزار پیچیدہ سوالوں کاجواب دیا۔

📚منتہی الامال، دوجلدی، ص۱۹۲۵.

۲۔ مامون نے امام علیہ السلام کو مدینہ سے طلب کیا اوراپنی بیٹی ام فضل سے شادی کی پیشکش کی جس پر عباسیوں نے اعتراض کیا،  مامون نے جواب دیا:  ابو جعفر کا انتخاب میں نے اس لئے کیا کہ وہ   اپنی کمسنی کے ساتھ تمام صاحبان علم و فضل سے ممتاز، اور  غیر معمولی اور حیرت انگیز شخصیت کے مالک ہیں۔  افسوس ہے تم پر! میں اس جوان کو تم سب سے زیادہ جانتا ہوں، وہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے  جو علم و دانش اور الہام خدا سے پاتے ہیں، اس کے اجداد ہمیشہ علم دین اور ادب میں لوگوں سے بے نیاز رہے ہیں۔

📚محمد بن  محمد بن نعمان عکبری بغدادی، الارشاد، ج۲، ص۲۸۲۔

اس نے امتحان کے لئے مناظرہ کا اہتمام کیا اور علماء نے اپنے سب سے بڑے عالم یحیی ابن اکثم کا انتخاب کیا ۔ خلاصہ یہ کہ یحیی نے  ایک سوال کیا کہ حالت احرام میں شکار کرنا کیسا ہے اس کے جواب میں امام علیہ السلام نے  اس سے سوال کرلیا کہ واضح کریں حل میں کیا یا حرم میں ؟ عالم تھا یا جاہل، عمدا تھا یا سہوا، آزاد تھا یا غلام۔۔۔۔۔ جس سے سب مات و مبہوت رہ گئے۔

📚منتہی الامال، دوجلدی، ص۱۹۳۰.

۳۔ عیاشی نے زرقان صدیق سے روایت کی ہے کہ ابن ابی داود، عباسی حکومت کے قاضی غم و غصہ سے چور گھر آئے ۔میں نے سوال کیا: کہتے ہیں: آج ابوجعفر سے اتنی سخت ناگواری ملی ہے کہ تمنا کررہا تھا کہ کاش بیس سال پہلے مر گیا ہوتا۔ پوچھا ایسا کیا ہوگیا؟ کہا کہ خلیفہ کے دربار میں تھا اور ایک چور پر حد جاری کرنے کا مسئلہ پیش ہوا، فقہاء اور علماء کے ساتھ خلیفہ نے محمد بن علی کو بھی طلب کیا۔ سوال کیا : ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ میں نے کہا:’’ ہاتھ گٹے سے کاٹا جائے اس کی  دلیل آیت تیمم ہے: (فامسحوا بوجهوکم وایدیکم) [مائدہ،۶]  جلسہ میں موجود دیگر فقہاء نے اس کی تائید کی؛ لیکن بعض علماء نے کہا :’’ کہنی سے کاٹا جائے؛ اس لئے آیت کہتی ہے (فاغسلوا وجوهکم و ایدیکم الی المرافق) [مائدہ، ۶ ] معتصم امام علیہ السلام کی طرف دیکھا اور کہا: اے ابو جعفر! آپ کی کیا رائے ہیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’حضرات نے رائے دے دی ہے‘‘ معتصم نے کہا: ’’ ان کی آراء کو چھوڑیں ۔ آپ کیا کہتے ہیں؟ امام علیہ السلام نے  فرمایا: ’’ مجھے اس سلسلہ میں کچھ کہنے سے معاف رکھیں‘‘ معتصم نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں اپنی نظر کا اعلان فرمائیں‘‘۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ’’ اب جب کہ تو نے خدا کی قسم دی ہے، میری نظر یہ ہے ان سب نے  غلط فتوی دیا ہے: چور کا ہاتھ اس کی انگلیوں کے پور سے کاٹا جائے اور ہاتھ کی ہتھیلی باقی رہے۔ اس کی دلیل ایک تو یہ کہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ کافرمانا ہے کہ: سجدہ کی حالت میں سات اعضاء کو زمین پر ہونا چاہئے: چہرہ(پیشانی) ، دونوں ہاتھ، دونوں زانو، اور دونوں پیر کے انگوٹھےتاکہ ان کے ساتھ سجدہ کرے۔ دوسرے یہ کہ خدا فرماتا ہے(وان المساجدلله فلاتدعوا مع الله احدا) [جن، ۱۸،] مساجد سے مراد یہی سات اعضائے سجدہ ہیں ۔ معتصم نے آپ (ع) کے استدلال پسند کیااور  حکم دیا کہ امام علیہ السلام کی رائے کے مطابق چور کی انگلیوں کو کاٹاجائے۔

📚تفسیر عیاشی، ج۱، ص۳۱۹و۳۲۰؛بحارالانوار، ج۵۰، ص۵الی۷۔


🏴🏴شہادت:
ایسے ہی آپ (ع) کے دیگر مناظروں، علمی بحثوں اور مزید شیعوں کی  ہدایت اور رہمنائی کوئی معمولی چیز نہیں تھی جس پر خلافت باطل خاموش رہے، مامون بھی اس چیز کے فراق میں تھا لیکن چونکہ امام رضا علیہ السلام کو شہید کرچکا تھا آپ اس کے ظلم سے محفوظ رہے لیکن آخرکار معتصم نے اس کام کو پورا کیا اور آپ سے نجات حاصل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنانے لگا، کیفیت شہادت کے سلسلہ میں روایات مختلف ہیں، بعض روایات میں ہے کہ معتصم نے مہمان بلاکر زہر سے شہید کیا(منتہی الامال) اور دوسری روایت میں اس طرح سے ہے: کہ معتصم نے اس پلید سازش کے لئے ام فضل کا انتخاب کیا کیوں کہ ام فضل اول ازدواج سے امام (ع) سے ناراض تھی اور بارہا مامون سے شکایت کی تھی۔

📚کشف الغمہ، ج۳ ص ۱۴۸و۱۵۵و۱۵۶۔

اسکے علاوہ امام نہم علیہ السلام کا ’’سمانہ مغربیہ‘‘ سے شادی کرنا اور ان کی تعظیم و تجلیل ، دوسرے ام فضل کا بے اولاد ہونا بھی کینہ کا سبب تھا۔

📚محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۷۔

لہذا  اس نے معتصم کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اس سے حاصل کئے گئے زہر کو انگور میں ملادیا اور اس سے امام (ع) کو مسموم کردیا، جب امام جواد علیہ السلام نے ان انگور کو نوش فرمالیا، ام فضل (ظاہری طور پر) شرمندہ ہوئی اور رونے لگی۔۔۔۔۔۔؛ لیکن حکومت کے ناپاک نقشہ کو جامہ عمل پہنا چکی تھی.

📚بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۷، محمد بن جریر طبری، دلائل الامامہ، ص۲۰۹.

#بارگاہ_عصمت_میں

👈👈حضرت امام جواد علیہ السلام کے بعض  ارشادات۔

 ⚫️الْمُؤمِنُ یَحْتاجُ إلی ثَلاثِ خِصال: ١- تَوْفیق مِنَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ ٢- وَواعِظ مِنْ نَفْسِهِ ٣- وَقَبُول مِمَّنْ یَنْصَحُهُ.

🗒مومن تین خصلتوں کا ہر حال میں محتاج رہتا ہے۔ ۱۔اللہ تعالی کی طرف سے توفیق۔ ۲۔ خود کا اندرسے  وعظ کرنے والا۔ ۳۔ نصیحت کرنے والی کی نصیحت کو قبول کرنا۔

📚بحارالأنوار، ج ۷۲، ص ۶۵، ح ۳۔

⚫️لوْسَكَتَ الْجاهِلُ مَااخْتَلَفَ النّاسُ.

🗒اگر جاہل خاموش رہے، لوگوں میں اختلاف نہیں ہوگا۔

📚كشف الغمّه، ج ۲، ص ۳۴۹۔

⚫️منِ اسْتَحْسَنَ قَبیحاً كانَ شَریكاً فیهِ.

🗒جس نے فعل قبیح کی تعریف اور تائید کی وہ اس کے عذاب میں شریک ہوگا۔

📚كشف الغمّه، ج ۲، ص ۳۴۹۔

⚫️منِ اسْتَغْنی بِاللهِ إفْتَقَرَ النّاسُ إلَیْهِ، وَ مَنِ اتَّقَی اللهَ أحَبَّهُ النّاسُ وَ إنْ كَرِهُوا.

🗒جو شخص خود کو اللہ کے ذریعہ بے نیاز کرے لوگ اس کے محتاج ہونگے اور جو اللہ کا تقوی اختیار کرے لوگ اس سے محبت کریں گے اگرچہ خود صاحب تقوی نہ ہوں۔

📚بحارالأنوار، ج ۷۵، ص ۷۹، ح ۶۲۔

⚫️موْتُ الاْنْسانِ بِالذُّنُوبِ أكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالاْجَلِ، وَحَیاتُهُ بِالْبِرِّ أكْثَرُ مِنْ حَیاتِهِ بِالْعُمْرِ.

🗒انسان کی موت معمولی موت سے زیادہ اس کے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہے، اور طول عمر سے زیادہ اس کی عمر اسکی نیکی اور احسان کے سبب سے ہوتی ہے۔

📚كشف الغمّه، ج ۲، ص ۳۵۰۔




پیر، 6 اگست، 2018

دحو الارض

#دحو_الارض

🌹مناسبت 25ذیقعده، یوم دحوالارض۔

💐دحوالارض وہ دن ہے جس دن رحمت خدا زمیں پر نازل ہوئی۔ 

📜عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ يَقُولُ‏ إِنَّ أَوَّلَ رَحْمَةٍ نَزَلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ فِي خَمْسٍ‏ وَ عِشْرِينَ‏ مِنْ‏ ذِي‏ الْقَعْدَة۔

👈👈امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں بیشک سب سے پہلی رحمت جو آسمان سے زمین پر نازل ہوئی وہ ذیقعدہ کی 25ویں تاریخ ہے۔

📚إقبال الأعمال( ط- القديمة)،ج1، ص312۔

💐ایسا دن جس روز خدائے منان نے زمیں کو حیات بخشی، اس دن سے زمیں جو کہ پوری کی پوری پانی تھی، خشکی میں تبدیل ہونا شروع ہوئی۔ اور آہستہ آہستہ پھیلنا شروع ہوئی۔

💐روایت کے مطابق سب سے پہلے زمیں نمودار ہوئی وہ کعبہ اور بیت اللہ کی سرزمیں تھی۔

💐اسی روز حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی ولادت ہوئی۔ جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: 

📜كُنْتُ مَعَ أَبِي وَ أَنَا غُلَامٌ فَتَعَشَّيْنَا عِنْدَ الرِّضَا ع لَيْلَةَ خَمْسٍ‏ وَ عِشْرِينَ‏ مِنْ‏ ذِي‏ الْقَعْدَةِ فَقَالَ لَهُ لَيْلَةُ خَمْسٍ‏ وَ عِشْرِينَ‏ مِنْ‏ ذِي‏ الْقَعْدَةِ وُلِدَ فِيهَا إِبْرَاهِيمَ ع وَ وُلِدَ فِيهَا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ- وَ فِيهَا دُحِيَتِ الْأَرْضُ مِنْ تَحْتِ الْكَعْبَةِ۔

👈👈حسن بن وشاء کہتے ہیں: میں جوانی کے زمانے میں اپنے والد کے ساتھ 25ویں شب ذیقعدہ کو حضرت رضا علیہ السلام کی خدمت تھا، آپ علیہ السلام نے ان سے فرمایا: ذیقعدہ کی پچیسسویں تاریخ کی شب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اسی رات کعبہ کے نیچے سے زمیں کو پھیلایا گیا۔

📚وسائل الشیعہ، ج10، ص449؛ ثواب الأعمال و عقاب الأعمال‏، ص79۔

💐مکہ کا نام بھی اسی دحو الارض کی بنیاد پر ہے:

📜سُئِلَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع لِمَ سُمِّيَتْ مَكَّةُ قَالَ لِأَنَّ اللَّهَ مَكَّ الْأَرْضَ مِنْ تَحْتِهَا أَيْ‏ دَحَاهَا۔

👈👈حضرت علی(علیہ السلام) سے کسی نے سوال کیا کہ مکہ کو مکہ کیوں کہتے ہیں؟  آپ علیہ السلام نے فرمایا: اس لئے کہ خدا نے مکہ کے نیچے سے زمین  پھیلانا شروع کی۔

📚بحار الانوار،ج۵۴، ص۶۴۔

💐حضرت امام رضا علیہ السلام نے 25ویں ذیقعدہ کے روزہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس دن کے فضائل کو اس طرح بیان فرمایا:

📜خرج علينا أبو الحسن- يعني الرضا- عليه السلام بمرو في يوم خمس‏ و عشرين‏ من‏ ذي‏ القعدة، فقال: صوموا فإني أصبحت صائما، قلنا: جعلت فداك أيّ يوم هو؟ قال:
يوم نشرت فيه الرحمة و دحيت فيه الأرض و نصبت فيه الكعبة و هبط فيه آدم عليه السلام‏

👈👈امام رضا(علیہ السلام )نے جب خراسان کا سفر کیا، اس سفر کے دوران پچیس ذیقعدہ کو آپ مرو میں پہنچے اور  آپ علیہ السلام نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے، راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ آج کونسا دن ہے؟  فرمایا: وہ دن جس میں اللہ کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا کعبہ نصب کیا گیا اور اسی روز جناب آدم علیہ السلام زمیں پر تشریف لائے۔

📚الإقبال بالأعمال الحسنة( ط- الحديثة)، ج2، ص23کافی اور تہذیب سے نقل کرتے ہوئ۔
💫💫💫💫💫

http://klmnoor.blogspot.com


اتوار، 13 مئی، 2018

ماہ مبارک رمضان بزبان رسول خدائے منان


🍃 #خطبہ_شعبانیہ 🍃

☘️ماہ مبارک رمضان بزبان رسول خدائے منان (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)☘️

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى الرِّضَا عَنْ أَبِيهِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ الْبَاقِرِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ زَيْنِ الْعَابِدِينَ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص خَطَبَنَا ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهُ قَدْ أَقْبَلَ إِلَيْكُمْ شَهْرُ اللَّهِ بِالْبَرَكَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ شَهْرٌ هُوَ عِنْدَ اللَّهِ أَفْضَلُ الشُّهُورِ وَ أَيَّامُهُ أَفْضَلُ الْأَيَّامِ وَ لَيَالِيهِ أَفْضَلُ اللَّيَالِي وَ سَاعَاتُهُ أَفْضَلُ السَّاعَاتِ هُوَ شَهْرٌ دُعِيتُمْ فِيهِ إِلَى ضِيَافَةِ اللَّهِ وَ جُعِلْتُمْ فِيهِ مِنْ أَهْلِ كَرَامَةِ اللَّهِ أَنْفَاسُكُمْ فِيهِ تَسْبِيحٌ وَ نَوْمُكُمْ فِيهِ عِبَادَةٌ وَ عَمَلُكُمْ فِيهِ مَقْبُولٌ وَ دُعَاؤُكُمْ فِيهِ مُسْتَجَابٌ فَاسْأَلُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ بِنِيَّاتٍ صَادِقَةٍ وَ قُلُوبٍ طَاهِرَةٍ أَنْ يُوَفِّقَكُمْ لِصِيَامِهِ وَ تِلَاوَةِ كِتَابِهِ فَإِنَّ الشَّقِيَّ مَنْ حُرِمَ غُفْرَانَ اللَّهِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْعَظِيمِ وَ اذْكُرُوا بِجُوعِكُمْ وَ عَطَشِكُمْ فِيهِ جُوعَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَ عَطَشَهُ وَ تَصَدَّقُوا عَلَى فُقَرَائِكُمْ وَ مَسَاكِينِكُمْ- وَ وَقِّرُوا كِبَارَكُمْ وَ ارْحَمُوا صِغَارَكُمْ وَ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ وَ احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ غُضُّوا عَمَّا لَا يَحِلُّ النَّظَرُ إِلَيْهِ أَبْصَارَكُمْ وَ عَمَّا لَا يَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إِلَيْهِ أَسْمَاعَكُمْ وَ تَحَنَّنُوا عَلَى أَيْتَامِ النَّاسِ يُتَحَنَّنْ عَلَى أَيْتَامِكُمْ وَ تُوبُوا إِلَى اللَّهِ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَ ارْفَعُوا إِلَيْهِ أَيْدِيَكُمْ بِالدُّعَاءِ فِي أَوْقَاتِ صَلَاتِكُمْ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ السَّاعَاتِ يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيهَا بِالرَّحْمَةِ إِلَى عِبَادِهِ يُجِيبُهُمْ إِذَا نَاجَوْهُ وَ يُلَبِّيهِمْ إِذَا نَادَوْهُ وَ يُعْطِيهِمْ إِذَا سَأَلُوهُ وَ يَسْتَجِيبُ لَهُمْ إِذَا دَعَوْهُ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَنْفُسَكُمْ مَرْهُونَةٌ بِأَعْمَالِكُمْ فَكُفُّوهَا بِاسْتِغْفَارِكُمْ وَ ظُهُورُكُمْ ثَقِيلَةٌ مِنْ أَوْزَارِكُمْ فَخَفِّفُوا عَنْهَا بِطُولِ سُجُودِكُمْ وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى ذِكْرُهُ أَقْسَمَ بِعِزَّتِهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ الْمُصَلِّينَ وَ السَّاجِدِينَ وَ أَنْ لَا يُرَوِّعَهُمْ بِالنَّارِ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ فَطَّرَ مِنْكُمْ صَائِماً مُؤْمِناً فِي هَذَا الشَّهْرِ كَانَ لَهُ بِذَلِكَ عِنْدَ اللَّهِ عِتْقُ نَسَمَةٍ وَ مَغْفِرَةٌ لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ لَيْسَ كُلُّنَا يَقْدِرُ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ ص اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ حَسَّنَ مِنْكُمْ فِي هَذَا الشَّهْرِ خُلُقَهُ كَانَ لَهُ جَوَازٌ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُّ فِيهِ الْأَقْدَامُ وَ مَنْ خَفَّفَ فِي هَذَا الشَّهْرِ عَمَّا مَلَكَتْ يَمِينُهُ خَفَّفَ اللَّهُ عَلَيْهِ حِسَابَهُ وَ مَنْ كَفَّ فِيهِ شَرَّهُ كَفَّ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ أَكْرَمَ فِيهِ يَتِيماً أَكْرَمَهُ اللَّهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ وَصَلَ فِيهِ رَحِمَهُ وَصَلَهُ اللَّهُ بِرَحْمَتِهِ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ قَطَعَ فِيهِ رَحِمَهُ قَطَعَ اللَّهُ عَنْهُ رَحْمَتَهُ يَوْمَ يَلْقَاهُ وَ مَنْ تَطَوَّعَ فِيهِ‏ ِصَلَاةٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بَرَاءَةً مِنَ النَّارِ وَ مَنْ أَدَّى فِيهِ فَرْضاً كَانَ لَهُ ثَوَابُ مَنْ أَدَّى سَبْعِينَ فَرِيضَةً فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الشُّهُورِ وَ مَنْ أَكْثَرَ فِيهِ مِنَ الصَّلَوَاتِ عَلَيَّ ثَقَّلَ اللَّهُ مِيزَانَهُ يَوْمَ تَخِفُّ الْمَوَازِينُ وَ مَنْ تَلَا فِيهِ آيَةً مِنَ الْقُرْآنِ كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي غَيْرِهِ مِنَ الشُّهُورِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِي هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُغَلِّقَهَا عَلَيْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّيرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُفَتِّحَهَا عَلَيْكُمْ وَ الشَّيَاطِينَ مَغْلُولَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا يُسَلِّطَهَا عَلَيْكُمْ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع فَقُمْتُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي هَذَا الشَّهْرِ فَقَالَ يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ فِي هَذَا الشَّهْرِ الْوَرَعُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ بَكَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُبْكِيكَ فَقَالَ يَا عَلِيُّ أَبْكِي لِمَا يُسْتَحَلُّ مِنْكَ فِي هَذَا الشَّهْرِ كَأَنِّي بِكَ وَ أَنْتَ تُصَلِّي لِرَبِّكَ وَ قَدِ انْبَعَثَ أَشْقَى الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ شَقِيقُ عَاقِرِ نَاقَةِ ثَمُودَ فَضَرَبَكَ ضَرْبَةً عَلَى قَرْنِكَ فَخَضَبَ مِنْهَا لِحْيَتَكَ قَالَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَ ذَلِكَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِي فَقَالَ فِي سَلَامَةٍ مِنْ دِينِكَ ثُمَّ قَالَ ص يَا عَلِيُّ مَنْ قَتَلَكَ فَقَدْ قَتَلَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ سَبَّكَ فَقَدْ سَبَّنِي لِأَنَّكَ مِنِّي كَنَفْسِي رُوحُكَ مِنْ رُوحِي وَ طِينَتُكَ مِنْ طِينَتِي إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى خَلَقَنِي وَ إِيَّاكَ وَ اصْطَفَانِي وَ إِيَّاكَ وَ اخْتَارَنِي لِلنُّبُوَّةِ وَ اخْتَارَكَ لِلْإِمَامَةِ فَمَنْ أَنْكَرَ إِمَامَتَكَ فَقَدْ أَنْكَرَ نُبُوَّتِي يَا عَلِيُّ أَنْتَ وَصِيِّي وَ أَبُو وُلْدِي وَ زَوْجُ ابْنَتِي وَ خَلِيفَتِي عَلَى أُمَّتِي فِي حَيَاتِي وَ بَعْدَ مَوْتِي أَمْرُكَ أَمْرِي وَ نَهْيُكَ نَهْيِي أُقْسِمُ بِالَّذِي بَعَثَنِي بِالنُّبُوَّةِ وَ جَعَلَنِي خَيْرَ الْبَرِيَّةِ إِنَّكَ لَحُجَّةُ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ وَ أَمِينُهُ عَلَى سِرِّهِ وَ خَلِيفَتُهُ عَلَى عِبَادِهِ.

🌿حضرت امیرالمومین علیہ السلام فرماتے ہیں:

🍂 ایک دن رسول خدا (ص) نے ہمارے لئے خطبہ دیا اورفرمایا:

🌴🌴🌴اے لوگو! بتحقیق خدا کا مہینہ اپنی برکت و رحمت اور مغفرت کے ہمراہ تم تک آن پہونچا ہے، ایسا مہینہ جو خدا کے نزدیک تمام مہینوں سے بہتر اور اس کے ایام تمام ایام سے افضل اور اس کی راتیں ساری راتوں سے بہتر اور اس کے لمحات تمام لمحوں سے بہتر ہیں۔ ایسا مہینہ جس میں تم کو اللہ کی ضیافت میں بلایا گیا ہے، اور اس مہنیہ میں اللہ کی جانب سے شرف و کرامت بخشے جانے والوں میں قرار دیا گیا؛ اس میں تمہاری سانسیں تسبیح خدا، تمہارا سونا عبادت، تمہارے اعمال قبول اور تمہاری دعائیں مستجاب ہیں؛

   🌹لہذا صدق نیت اور پاکیزہ دلوں کے ساتھ اللہ تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس مہینہ میں روزہ رکھنے اور اس کی کتاب کی تلاوت کی توفیق عطا فرمائے، بدبخت ہے وہ شخص جو اس عظیم مہینہ میں بھی اللہ کی مغفرت سے محروم رہے؛

⚡️اور اس مہینہ میں اپنی بھوک اور پیاس سے روز قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو، اور اپنے فقرا و مساکین کو صدقہ دو، اپنے بڑوں کا احترام کرو اور اپنے چھوٹوں پر مہربانی، اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو، اور اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو، اور اپنی نگاہوں کو ان چیزوں سے محفوظ رکھو جسے دیکھنا جائز نہیں، اور جس کو سننا تمہارے کانوں کے لئے جائز نہیں اس سے باز رہو، اور لوگوں کے یتیموں کے ساتھ مہربانی سے پیش آو تاکہ تمہارے یتیموں پر بھی مہربانی کی جائے، اور خدا کے سامنے اپنے گناہوں سے توبہ کرو، اور اپنی نماز کے وقت اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کرو کیونکہ اوقات نماز وہ بہترین لمحات ہیں کہ خدائے عز وجل اپنے بندوں کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے، اگر بندے مناجات کرتے ہیں تو اجابت کرتا ہے اور جب اسے پکارتے ہیں تو انکی آواز پر لبیک کہتا ہے، جب دعا کرتے ہیں تو قبول فرماتا ہے؛

🌴🌴🌴اے لوگو!تمہاری جانیں تمہارے اعمال کی مرہون منت ہیں، تو استغفار کے ذریعہ انہیں نجات دلاؤ؛ اور تمہاری پشت تمہارے گناہوں سے بھاری ہو رہی ہے، اسے اپنے طولانی سجدوں سے ہلکا کرو؛ اور جان لو کہ اللّہ تعالی نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ہرگز نمازیوں اور سجدہ کرنے والوں پر عذاب نہیں کرے گا، اور اس دن کہ جب سب لوگ بارگاہ رب العزت میں ہونگے انہیں عذاب جہنم سے نہیں ڈرائے گا؛

🌴🌴🌴🌴اے لوگو! تم میں سے اگر کوئی اس مہینہ مومن روزہ دار کو افطار کرائے گا، اسے خدا کے نزدیک ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اسے تمام گذشتہ گناہوں سے مغفرت نصیب ہوگی؛ کسی نے کہا: اے نبی خدا(ص) ہم میں سے ہر ایک اس کام کو انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ آپ(ص) نے فرمایا: جہنم کی آگ سے بچو چاہے کچھ خرمے سے ہی کیوں نہ ہو، جہنم کی آگ سے ڈرو خواہ ایک گھونٹ پانی ہی سے کیوں نہ ہو؛

🌴🌴🌴🌴اے لوگو! تم میں سے جو بھی اپنے اخلاق کو نیک بنائے گا اسے پل صراط سے آسانی کے ساتھ گذرجانے کی اجازت ہوگی جبکہ دوسروں کے قدم پھسل رہے ہونگے، اور جو اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے گا خدا اس کے حساب میں نرمی سے پیش آئے گا؛ اور جو شخص اس مہینہ لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے گا تو خداوند روز قیامت اس کو اپنے غضب سے بچائے گا؛ اور جو اس ماہ میں یتیموں پر مہربانی کریگا خدا روز قیامت اس پر مہربانی کریے گا؛ اور جو اس ماہ میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحم کریگا خداوندعالم روز قیامت اسے اپنی رحمت سے متصل کریگا؛ اور جو اس ماہ میں اپنے رشتہ داروں سے رابطے توڑے گا خدا بھی روز ملاقات اس سے اپنی رحمت منقطع کردیگا؛ اور جو اس ماہ میں مستحب نمازیں ادا کریگا خدائے کریم اس کے لئے جہنم سے چھٹکارے کا پروانہ لکھ دیگا؛ جو شخص اس میں واجب نمازیں ادا کریگا اسے دوسرے مہینوں میں پڑھی جانے والی واجب نمازوں سے ستّر گنا زیادہ ثواب ملے گا؛
جو شخص اس مہینہ مجھ پرکثرت سے صلوات بھیجے گا جس دن دوسرے لوگوں کے پلڑے ہلکے ہونگے خدا اس کے پلڑے کو بھاری بنادیگا؛ اور جو شخص اس مہینے قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت کریگا خدا اسے دوسرے مہینوں میں پڑھے جانے والے پورے قرآن کا ثواب عطا کریگا۔
اے لوگو! اس مہنیہ میں جنت دروازے کھلے ہوئے ہیں اپنے رب سے دعا کرو کہ وہ دروازے تم پر بند نہ کرے، اور جہنم کے دروازے بند ہیں خدا سے درخواست کرو کہ ان دروازوں کو تم پر نہ کھولے؛ شیطانوں کو اس مہینہ میں جکڑلیا گیا ہے خدا سے دعا کرو کہ وہ تم پر ان کو مسلط نہ کردے۔

🌹🌹🌹🌹حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں: میں کھڑا ہوا اور عرض کیا:  اے نبی خدا(ص)! اس مہینہ میں سب سے بہتر عمل کون سا ہے؟

🌱فرمایا: اے ابوالحسن اس ماہ میں سب سے بہتر عمل محرمات الہی سے بچنا اور پرہیز کرنا ہے۔

🌧پھر آپ(ص) گریہ فرمانے لگے؛ عرض کیا: یا رسول اللّہ! کون سی چیز آپ کو رلا رہی ہے؟

💥 آپ(ص) نے فرمایا: یا علی! میں اس پر رورہا ہوں کہ اس مہینہ تمہارے ساتھ جو بے حرمتی کا سلوک ہوگا، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنے پرودگار کے لئے نماز پڑھ رہے ہوگے، دنیا کا شقی ترین، بد بخت ترین، قاتل ناقۂ صالح تمہارے سر پر ضربت لگائے گا اور تمہاری داڑھی خوں سے رنگین ہوجائے گی؛

🌺امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں: عرض کیا یا رسول اللہ(ص)! کیا اس وقت میرا دین سالم ہوگا؟ فرمایا: ہاں تمہارا دین سالم ہوگا۔ اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی! جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا، اور جس نے تم سے بغض اختیار کیا گویا اس نے مجھ سے بغض رکھا، جس نے تم پر سبّ و شتم کیا اس نے مجھ پر سبّ و شتم کیا، کیوں کہ تم مجھ سے ہو، گویا میری جان ہو، تمہاری روح میری روح ، تمہاری طینت میری طینت ہے؛ خدائے متعال نے تمہیں اور ہمیں خلق کیا اور دونوں کو انتخاب کیا، مجھے اس نے نبوت کے لئے اختیار کیا اور تمہیں امامت کے لئے منتخب کیا؛ لہذا جس نے تمہاری امامت کا انکار کیا اس نے میری نبوت کا انکار کیا؛ اے علی! تم میرے وصی اور میری اولاد کے باپ ہو اور میری بیٹی کے شوہر ہو اور تم میری زندگی میں بھی اور میری وفات کے بعد بھی میرے جانشین و خلیفہ ہو، تمہارا حکم میرا حکم، اور تمہاری نہی میری نہی ہے؛ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبوت پر مبعوث کیا، اور سب سے بہتر قرار دیا، بیشک تم خدا کی مخلوقات پر اس کی حجّت ہو اور اسرار خداوندی کے امین، اور اس کے بندوں پر اس کے خلیفہ ہو۔

📚فضائل الاشھر الثلاثہ، شیخ صدوق،  دار المحجۃ البیضا ء، ص ۷۸ و۷۹، ح ۶۱۔
📚الأمالي( للصدوق)، ص 93،  المجلس العشرون
📚إقبال الأعمال (ط - القديمة)،  ج‏1، ص2 ، فصل في تعظيم شهر رمضان
📚وسائل الشيعة،  شيخ حر عاملى‏ ، ج‏10، ص 313،    18 - باب تأكد استحباب الاجتهاد في العبادة سيما الدعاء و الاستغفار و العتق و الصدقة في شهر رمضان و خصوصا ليلة القدر و آخر ليلة من الشهر