علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 22 اپریل، 2018

ولایت اہل بیت علیہم السلام کی اہمیت امام سجاد علیہ السلام کی زبانی

#ولایت_نہیں

تو‼️

#کچھ_نہیں

🌹حضرت علی بن الحسین امام زین العابدین علیہ السلام:

📗عنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ، قَالَ: قَالَ لَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ زَيْنُ الْعَابِدِينَ (عَلَيْهِمَا السَّلَامُ): أَيُ‏ الْبِقَاعِ‏ أَفْضَلُ‏ فَقُلْتُ: اللَّهُ وَ رَسُولُهُ وَ ابْنُ رَسُولِهِ أَعْلَمُ. فَقَالَ: إِنَّ أَفْضَلَ الْبِقَاعِ مَا بَيْنَ الرُّكْنِ وَ الْمَقَامِ، وَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا عُمِّرَ مَا عُمِّرَ نُوحٌ فِي قَوْمِهِ‏ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً، يَصُومُ النَّهَارَ وَ يَقُومُ اللَّيْلَ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ، ثُمَّ لَقِيَ اللَّهَ بِغَيْرِ وَلَايَتِنَا، لَمْ يَنْفَعْهُ ذَلِكَ شَيْئاً.

✍🏼جناب ابوحمزہ ثمالی کہتے ہیں: حضرت امام زین العبادین علیہ السلام نے ہم سے سوال کیا: کون سی سرزمیں سب سے زیادہ بافضیلت ہے؟

🔹میں نے عرض کیا: خدا، رسول خد(ص) اور فرزند رسول خدا علیہما السلام بہتر جانتے ہیں۔

🔸حضرت سجاد علیہ السلام نے فرمایا: بہترین اور بافضیلت ترین سرزمیں رکن و مقام کے درمیان ہے۔

♦️اور اگر کوئی شخص اپنی قوم میں حضرت نوح جیسی نو سو پچاس برس ۹۵۰ کی عمر پائے اور دنوں میں روزہ رکھے اور راتوں میں اس مقام پر عبادتیں بجا لائے ، پھر خدا سے اس عالم میں ملاقات کرے کہ ہماری ولایت کا اقرار نہ کرتا ہو، اسے یہ چیزیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہونچا سکتیں۔

📚المحاسن، برقى، احمد بن محمد بن خالد، ج‏1، ص91، عقاب من أنكر آل محمد ع حقهم و جهل أمرهم
📚شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام، ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى‏، ج‏3، ص479، [العبادة بدون الولاية]
📚من لا يحضره الفقيه، ابن بابويه، محمد بن على‏، ج‏2، ص245، باب ابتداء الكعبة و فضلها و فضل الحرم
📚ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، ابن بابويه، محمد بن على‏، ص204، عقاب من جهل حق أهل البيت ع
📚الأمالي، طوسى، محمد بن الحسن‏، ص132، [5] المجلس الخامس

🌷🌷🌷🌷🌷

ہفتہ، 14 اپریل، 2018

بحران معنویت کا واحد حل سیرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی طرف بازگشت


 





قافلہ انسانی آج جس تیزی سے یکے بعددیگرے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہو، اسکے عزم و ارادہ کے آگے ہر چیز بے بس ہے اس وسیع کائنات کی کوئی شے اسکے قلمروِ اختیار سے باہر نہیں، پوری کائنات میں اسی کے اختیار و عمل کا سکہ چلتا ہے ۔

 یہ سائنس کی ہنر نمائیاں ،یہ علم و حکمت کی جولانیاں ، یہ ترقی و کامیابی کی شہنائیاں، سب کے سب انسانیت کے شاندار مستقبل کی تعمیر کا عندیہ دے رہی ہیں ۔   
 نظر اٹھا کر تو دیکھیں ہرطرف کامیابیوںکی شہنائیاں بج رہی ہیں ، خوشیوں کے میلے ہیں ،انسانی خواہشات کے وسیع سمندر میں تکمیلِ آرزو کے سفینے رواں دواں ہیں، مسرتوں کی دل آویزیوں کے ساتھ ہرسو رونقوں کے دیپ جل رہے ہیں، انسان کی رنگ برنگی آرزوئیں تتلیوں کی طرح دنیاوی نعمات کے پھولوں سے لپٹی عرق تسکین تلاش کر رہی ہیں ، ہر طرف انسان کی ہنر نمائیوں کی چراغانی ہے۔
 آج نہ صرف پانی ہوا ،فضا اور خلا انسان کے قبضہ میں ہے بلکہ انسان نے چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر وہ کمال کی چوٹیوں کو طے کرنے کے لئے کمر ہمت باندھ لے تو اقالیم سبعہ اسکے قدموں میں سجدہ ریز نظر آئیں گے ۔

 بقول شہید مطہری ''انسان کی علمی اور فنی طاقت  کے لئے کوئی قلعہ نا قابل تسخیر نہیں ہے سوائے ایک قلعہ کے اور وہ ہے انسانی روح اور اسکے نفس کا قلعہ ۔
پہاڑ ، سمندر ، خلا ، زمین ، آسمان ، یہ سب کے سب اسکی علمی اور فنی جولانیوں کے سامنے بے بس ہیں واحد وہ مرکز جو اسکی عمل داری سے باہر ہے وہ وہی چیز ہے جو خود انسان سے سب سے نزدیک ہے لیکن اسے فتح کرنا آسان نہیں  بقول مولانا رومی  :
کشتن اين کار عقل و هوش نيست
شیر باطن سخرئہ خرگوش نیست ۔ (١

اب یہ اتفاق ہی ہے کہ انسان کے آرام و سکون ، امن و عدالت ، آزادی و مساوات اور انسان کی فلاح و کامیابی کا سب سے خطرناک دشمن خود اسی کے قلعہ میں چھپاہے اور اسکی گھات میں بیٹھا ہوا ہے '' اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا وہ نفس ہے جو تمہارے پہلو میں ہے ،، ٢  
 سب سے بڑے دشمن سے بے خبری ہی کا نتیجہ ہے کہ کائنات کو تسخیر کر لینے کے بعد بھی انسان اپنے سرکش نفس کو قابو کرنے میں ناکام ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ سائنس اور ٹکنالوجی کی کرشما سازیوں اور ہنر آفرینیوں کے باوجود آج انسانی اقدار انسانیت کا ماتم کرتے نظر آ رہے ہیں اسکی مثال وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو اقتصادی اور مالی و رفاہی اعتبار سے دنیا میں سر فہرست ہیں ۔انکی جیسی ٹکنالوجی کسی کے پاس نہیں ، انکے جیسے جنگی آلات کسی کے پاس نہیں انکا جیسا مضبوط مواصلاتی نظام کسی کے پاس نہیں، انکے جیسے ذرائع ابلاغ کسی کے پاس نہیں وہ رفاہی اور مالی اعتبار سے آج مثال بننے کے باوجود  اپنے عوام کو سکون مہیہ کرانے میں ناکام ہیں اور ماہرین نفسیات جب بھی سروے کرتے ہیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ بے چینی اور  depression) (میں بھی سب سے آگے یہی ممالک ہیں۔ معتبر رپورٹوں کے مطابق سب سے زیادہ خود کشی کی شرح بھی انہیں ممالک میں پائی جاتی ہے ۔

 خود کشی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ جب انہیں سکون نصیب نہیں ہوتا اور زندگی بیزار سی لگنے لگتی ہے تو اس بیزاری کاآخری حل خود کشی کے طور پر سامنے آتا ہے اور نہ صرف خود کشی بلکہ تدریجی اور خاموش موت کے ذمہ دار بھی یہی ممالک ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ''افغانستان ''اور'' کولمبیا ''جیسے منشیات کی پیداوار کے ممالک کا سب سے بڑا بازار بھی امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں دنیا کی سب سے زیادہ منشیات سپلائی ہوتی ہے  ۔

 اگر یہ باتیں افریقا کے قحط زدہ علاقوں، ہندوستان ،پاکستان  بنگلا دیش، یا دیگر غریب و فقیر ممالک کے لئے کہی جاتیں تو بات کچھ سمجھ یں آ سکتی تھی کہ فقیری ، غربت یا بیکاری سے تنگ آ کر لوگ منشیات کا استعمال کر رہے ہیں یا خود کشی کے ذریعہ خود کو ہلاک کر رہے ہیں مگرطرہ تو یہ ہے کہ جس طرح کی منشیات یہ ترقی یافتہ ملک استعمال کرتے ہیں ان کو استعمال کا سوچ کرہی غریب آدمی کوہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے کیونکہ انکی قیمت بھی ایک عام آدمی اپنا سب کچھ لٹا کر بھی ادا نہیں کر سکتا ۔
اسکا مطلب یہ ہے کہ غربت یا فقیری منشیات کے استعمال اور خود کشی کی علت نہیں ہے بلکہ اسکی وجہ کچھ اور ہے۔

 ان ممالک کے تجزیاتی مطالعہ کی روشنی میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مادیت کی چکا چوند میں یہ بھول گئے ہیں کہ جس طرح انسان کے جسم کو رشد و نمو کے لئے غذا کی ضرورت ہے اسی طرح انسان کی روح بھی بغیر غذا کے رشد و نمو حاصل نہیں کر سکتی اورروح اس وقت تک پرسکون نہیں ہو سکتی جب تک اسکے معنوی تقاضوںکو پورا نہ کیا جائے۔
 انہوں نے جسمانی تقاضوں کی تسکین کے وسائل پر تو افراط کی حد تک توجہ کی لیکن روح کے تقاضوں کو بھول گئے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ مادی اعتبار سے تو بہت آگے ہیں لیکن روحی اعتبار سے قحط زدہ علاقوں میں بسنے والے ننگے بھوکوں سے بھی زیادہ بھوکے ہیں یہ اپنی روحانیت کی بھوک مٹانے کے لئے ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتے ہیں اور جب کہیں سکون نہیں ملتا تو موت سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں ہماری اس بات کا ثبوت وہ جدید تحقیقات ہیں جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ شراب اور دوسری منشیات کا استعمال مذہبی افراد میں دوسروں سے کم  ہے ۔

آج تیزی کی ساتھ ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن قافلہ انسانی گرچہ ظاہری ترقی کے زیورروں سے خود کو آراستہ کئے ایک دلفریب نظارہ پیش کر رہاہے اور اپنے حسن و جمال ،اپنی رعنائیوں اور دلربا ادوائوں سے ہر ایک کو مسحور کئے ہوئے انسانی ذہن کی کرشماتی صلاحیتوں کے بل پر داد تحسین حاصل کر کے خود میں مست مگن اپنی ظاہری کامیابیوں پر ناز کرتا نظر آرہا ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ جانے کتنے ایسے ز خم ہیں جو اس انسانی قافلہ کی زخمی روح میں پھیلتے چلے جا رہے ہیں اور اسے انکی خبر بھی نہیں، مادیت کے جھلماتے حسین اور دبیز پردوں نے اسکی آنکھوں کے پتلیوں میں ایسا جال تان دیا ہے کہ یہ چاہ کر بھی حقیقتوں کا سامنا نہیں کر سکتا ۔

یہ چاہتے ہوئے بھی مچلتی ہوئی روح کے زخموں سے رستا ہوالہو نہیں دیکھ سکتا، یہ چاہتے ہوئے بھی نالہ و شیون کرتی ہوئے انسانی اقدار کی چیخ پکار کو نہیں سن سکتا  ۔یہ بھوک و افلاس سے تڑپتے ہوئے ناداروں کو دیکھتا ہے تو اسکی روح بے چین ہو جاتی ہے لیکن ایک ہی لمحے میں منظر بدل جاتا ہے ،پردہ ذہن پر بننے والی بے یارو مدد گار ننگے بھوکے دو روٹی کے محتاج لوگوں کی تصویر ابھی اس کے قرطاس دل پر ٹھہر نہیں پاتی کہ موسیقی کے دھن پر تھرکتے ہوئے بدن اسکے ذہن و دل و دماغ پر مسلط ہو کر اسے بھی زمانے کے ساتھ تھرکنے پر مجبور کر دیتے ہیں ، جذبہ ہم دردی سسکیاں لے کر دم توڑ دیتا ہے بے یار و مددگار فقیر و نادار لوگ اپنی آنکھوں میں مایوسیوں کے بادل لئے پیٹ پر پتھر باند کر سو جاتے ہیں اور یوںروح  کے تقاضوںکا گلا گھونٹ کر روح و جسم کے ما بین متضاد خواہشات کا طلاطم تھم جاتا ہے ۔

 یہ ظلم و ستم کی چکی میں پستے ہوئے یتیم ،لاوارث غریب ،پسماندہ اور ناتواں لوگوںکی فریادوں کو سنتا ہے لیکن اس سے پہلے کہ اسکی انسانیت ،اسکا ضمیر انکے لئے کچھ کرنے پر وادار کرے چھلکتے جاموں کی کنھکھناہٹ اور کیف و سرور میں مدہوش نغموں کی مترنم آزوازیں اسے اپنے ساتھ اتنی دور لے جاتی ہیں جہاں یہ خود اپنی روح کی چیخ پکار بھی نہیں سن پاتا جو انسانیت کی دہائی دے کر اسے من مانی کرنے سے روکتی ہے لیکن یہ ہر حد کو پار کرتے ہوئے حیوانیت و درندگی کاپجاری بن جاتا ہے  اور جب حیوانیت  کے دیو کے چرنوں میں اپنا سر رکھ کر اٹھاتا ہے تو اسکے نس نس میں درندگی جاگ اٹھتی ہے ۔
اب یہ ظاہر میں تو انسان ہوتا ہے لیکن حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی اس لئے اندر سے خنزیر بن جاتا ہے، اپنے پیٹ کے لئے ہر ایک سے لڑتا ہے ظاہر میں انسان ہوتا ہے لیکن اندر سے سگ آوارہ بن جاتا ہے، مظلوموں پر ظلم کرتا ہے اور کوئی روکے ٹوکے تو بھونکتا ہوا کاٹنے ڈوڑتا ہے، چھین جھپٹ کر اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے، ظاہری طور پر تو انسان نظرآتا ہے لیکن اندر سے بھیڑیا بن جاتا ہے یہ کہیں سانپ ،کہیں بچھو، کہیں گرگٹ بنتا ہے لیکن انسان کہیں نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہیں باپ اور بیٹی کے مقدس رشتہ کی دھجیاں اڑاتا ہے تو کہیں بہن بھائی کے تقدس کو سر بازار نیلام کرتا ہے ۔

مختصر یہ کہ جو انسان چاند اور سورج پر کمندیں ڈال رہا تھا اگر اسکے پاس واضح اور روشن اخلاقی نمونے نہ ہوں تو وہ خود اپنے وجود کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتا بلکہ جتنا زیادہ دنیاوی علم و ٹکنالوجی کو استعمال میں لاتا ہے اتنا ہی زیادہ بڑی تباہی کو بھی وجود میں لاتا ہے ۔   

  دنیا چاہے جتنا بھی قافلہ انسانی کی ترقی کے گن گائے لیکن یہ بات کسی بھی صاحب بصیرت کی نظروں سے پوشیدہ نہیں کہ جتنا علم و صنعت کی کرشما سازیاں انسانیت کو بام عروج پر پہونچا رہی ہیں اتنا ہی انسانیت اخلاق و معنویت کے بحران میں مبتلا ہوتی جا رہی ہے ۔
دنیا میں تمام تر ترقیوں کے باوجود ، جرائم ، فساد، تباہی ، قتل ، خود کشی ، کی شرحوں میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمنائوں کے ہجوم اور آرزووں کے حصول کے سیلاب میں کوئی بھی ایسا ساحل امن نہیں جہاں انسانیت خود کومحفوظ سمجھ سکے ۔
ا
نسان کی سرکش روح جب سرکشی پر آمادہ ہو جائے اور اسکی بلا خیز تمنائوں میں جب طغیانی آ جائے تو علم وصنعت کی یہ روز افزوں ترقی بھی تخریب میں تیزی کا باعث بن جاتی ہے اور آج یہی ہو رہا ہے۔ شہید مطہری رح  نے سالہا سال پہلے انسانیت کے درد کو سمجھتے ہوئے انہیں باتوں کے پیش نظر کہا ہوگا : '' اسی لئے آج کا انسان اس قدر علمی کامیابیوں کے باوجود درد انگیز نالے بلند کر رہا ہے ،یہ کیوں نالہ کناں ہے ؟ اس میں کس پہلو سے کمی اور نقص پایا جاتا ہے ؟ کیا اخلاق و عادات اور انسانیت  کے بحران کے علاوہ بھی اس میں کوئی کمی پائی جا رہی ہے ؟ آج انسان علمی اور فکری اعتبار سے اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اب وہ آسمانوں پر سفر کا ارادہ رکھتا ہے، سقراط اور افلاطون جیسے لوگ اسکی شاگردی کا اعزاز قبول کرنے کو تیار ہیں لیکن روحانیت و اخلاق اور عادات و اطوار کے اعتبار سے وہ ایک شمشیر بدست وحشی کی مانند ہونے سے زیادہ نہیں ہے  اگرچہ ا نسان نے حتی الامکان اپنے ارد گرد کے ماحول کو تبدیل کیا ہے لیکن اپنے آپ کو اور اپنے انداز فکر کو اپنے جذبات و رجحانات کو تبدیل نہیں کر سکا آج کے انسان کی مشکلات کی جڑ اسی جگہ تلاش کرنا چاہیے   ٣

 آج کے انسان نے علم و فن میں اپنی تمام ترکرشمہ ساز ترقیوں کے باوجود آدمیت اور انسانیت کے اعتبار سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے بلکہ وہ اپنے تاریک ترین دور کی جانب پلٹ گیا ہے'' .. ٤ سوال یہ ہے کہ اس انسان کو اسکے تاریک دور سے واپس آج کی دنیا میں کیسے لایا جائے ؟ علامہ اقبال اسکا حل یوں بیان کرتے ہیں ''انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے ، دنیا کی روحانی تعبیر، فرد کی روحانی آزادی اور دنیا پر اثر انداز ہونے والا ایسابنیادی اصول جو روحانی بنیاد پر انسانی سماج کے کمال تک پہونچنے کی نھج اور اسکے مبنا کو بیان کر سکے'' ٥ ۔

یہ تینوں چیزیں صرف دین کے ذریعہ حاصل ہو سکتی ہیں ''مختلف مکاتب ، ادیان اور مذاہب کے درمیان صرف اسلام ہے جو ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے٦    
آج انسانیت کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ معنویت اور اخلاق ہے ۔ در حقیقت انسان اپنے گم شدہ وجود کی تلاش میں سرگرداں ہے جو بغیر اخلاق و معنویت کے متصور نہیں ہے ،انسان کی پیاسی روح کو شدت کے ساتھ الہامی تعلیمات کے ان برستے بادلوںکی ضرورت ہے جو ذہن و دل و دماغ کی مرجھائی کلیوں کے ہونٹوں پر بھی زندگی کی مسکراہٹ بکھیر دیں اور یہ کام عقل محض کے خشک جھلستے بیابانوں میں صحرا نوردی سے ممکن نہیں ، چنانچہ علامہ اقبال فرماتے ہیں: '' شک نہیں کہ جدید یورپ نے نظریاتی اور مثالی نظام مدون کئے ۔ لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ جو حقیقت صرف اور صرف عقل محض کے رستہ حاصل کی جائے اس میں زندہ اعتقاد کی حرارت نہیں ہو سکتی جو صرف الہام سے ہوتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ عقل محض نے نوع بشر پر کوئی اثر نہیں ڈالا جبکہ دین ہمیشہ لوگوں کی ترقی اور انسانی معاشرے میں تبدیلی کا باعث رہا ہے اسی لئے یورپ کی کارگزاریوں کا نتیجہ ایک حیران '' میں '' کی صور ت میں سامنے آتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ ناہم آہنگ جمہوریتوں کے درمیان اپنی تلاش میں سرگرداں ہے ،میری بات پر یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسانیت کے اخلاق کی ترقی میں سب سے بڑی رکا وٹ ہے ' (٧)  وہ ساحل نجات جہاں یہ'' میں ''  دریائے حیرت میں غوطہ ور ہونے سے بچکر ابدی سکون سے ہم کنار ہو سکتا ہے وہ''ایمان ''ہے، اگر زندگی کو کوئی چیز حسین بنا سکتی ہے تو وہ ایمان ہے ۔جسکے پاس ایمان نہیں وہ با مقصد و با معنی زندگی کے مفہوم سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتا اس لئے شہید مطہری کے بقول '' ا یمان کے علاوہ جو کچھ بھی ہے خواہ وہ عقل ہو یا علم ،ہنر ہو یا صنعت، قانون ہو یا کچھ اور!یہ سب انسان کی جبلی خواہشات کی تسکین اور انکی تکمیل کے لئے اسکے ہاتھ میں آلہ کار ہیں، صرف قوت ایمانی وہ چیز ہے جو روح کو نئی زندگی دیتی ہے  ۔

اخلاق و معنویت کا بحران اس وقت تک نہیں حل ہو سکتا جب تک بنی نوع بشر اپنی پیاسی روحوں کو ایمان  کے چشمہ طمانیت سے سیراب نہ کرے اور ان تعلیمات سے آشنا نہ ہو جائے جہاں روح و جسم دونوں کے تقاضوں کے مد نظر ان جامع اصولوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو انسان کو انسان بناتے ہیں ۔
آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سر جوڑے بیٹھے ہیں کہ اخلاق اور معنویت کے بحران سے کیسے مقابلہ کیا جائے ایسے میں ضرورت ہے اس اخلاق کے پیکر کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی جس نے جاہلی رسموں اور خود ساختہ سماجی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس عرب کے جاہلی سماج کی علم و اخلاق و تہذیب کے بل پر تعمیر کر کے جینے کے لائق بنا دیا جو فتنہ و فساد کی آگ میں جل رہا تھا، خرافات اور اوہام پرستی کی خار دار جھاڑیوں میں اپنا وجود کھو چکا تھا جھلستے ہوئے بیابانوں ، لق و دق صحرائوں اور ریگزاروں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان اخلاق و معنویت کانمونہ بن جانا قبائلی نظام میں اخلاقی انحطاط و تنزلی کے باوجود اسی نظام کے اندر سے اخلاق و معنویت کے نمونوں کو پیش کرنا معمولی کارنامہ نہیں ہے ۔

 یہی وجہ ہے کہ جاہلیت کی سر زمین کو قیصر و کسری و روم کے لئے قابل رشک بنانے والی ذات کو قرآن کریم نے پوری کائنات کے لئے رحمت قرار دیا
''وما ارسلناک الا رحمة للعالمین'' اور انسانیت کے لئے اس ذات کو نمونہ عمل بنایا ''ولکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ ''
 اسلام کے ظہور کو چودہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی دنیا اسی قدر اسکی تعلیمات کی محتاج ہے جتنا روز اول تھی ۔ جس دن ان ضروریات کا احساس عام ہو جائیگا اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ ہوگا'' ٨۔  اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان تعلیمات کو کس طرح عام کریں جنکی تشنگی آج  ہرمعاشرہ محسوس کر رہا ہے ۔
کل اگر بدو عرب پیغمبر اسلامۖ کی شخصیت سے حاصل ہونے والے دروس کے سرچشمہ سے فیضیاب ہو کرانسانی اقدار پر مشتمل سماج کی تشکیل دے سکتے ہیں تو یقینا آج بھی ہم پوری دنیا میںتعلیمات نبی رحمت ۖ کی روشنی  پھیلا کر  انسانیت کے مستقبل کے خطوط کو روشن کر سکتے ہیں۔
پروردگارا! اس معنویت کے موجودہ بحران میں، بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک و مسعود موقع پر ہمیں بہتر سے بہتر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو سمجھنے اور سمجھ کر اس پر عمل کے ساتھ دوسروں تک اس سیرت طیبہ کے ان مختلف گوشوں کو منتقل کرنے کی توفیق عنایت فرما جنکی چھائوں میں انسانیت کو سکون ملتا ہے ، جسکے سایہ میں آ کر انسان حقیقت انسانیت سے روشناس ہوتا ہے

آمین یا رب العالمین ۔

📚📚حواشی:

 ١۔  مفہوم یہ ہے'' اسکو مارنا اور اس سے نبٹ پانا عقل و ہوش کے بس کا کام نہیں ہے کہ نفس کا شیر خرگوش کا تر نوالہ یا اسکا مذاق نہیں ہے  ، مولانا رومی  ،حکایت نخچیران و شیر، مثنوی معنوی، دفتر اول ۔
٢۔ شہید مطہری ، سیری در سیرہ نبوی  مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٤
٣۔ سیری در سیرئہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ۔  ص، ٢٧ ۔
٤۔ سیری در سیرہ نبوی ، مجموعہ آثار جلد ١٦ ص ٢٥
 ٥۔احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٦۔ سیری در سیرہ نبوی  ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧ 
٧۔ احیاء فکر دینی در اسلام ۔ ص ٢٠٣۔ ٢٠٤
٨۔ سیری در سیرہ نبوی  ،مجموعہ آثار جلد ١٦ ص،٢٧

 ✍🏼عاليجناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب قبلہ



جمعہ، 13 اپریل، 2018

نقوش حیا ت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ہم

ہم ترقی کی طرف تیزی سے گامزن برق رفتار دنیا میں کمال کی جستجو میں در در کی خاک چھان رہے ہیں، ہمیں  تلاش ہے ایک ایسے کمال کی  جہاں پہنچ  کرہماری بے چین روح پرسکون ہو جائے اور ہمیں محسوس ہو کہ ہم نے وہ سب کچھ پا لیا ہے جس کی تگ و دو میں ہم نے دن کو دن اور رات کو رات نہ جانا شب وروز کی گردشوں کا تسلسل اپنا سفر طے کرتا رہا ہم اپنی منزل کی طرف گامزن رہے  لیکن انجام کار ہمیں وہ گوہر طمانیت مل ہی گیا جس کی تلاش میں ہم نے اپنی زندگی گزار دی ۔
لیکن افسوس کے ہم میں سے بہت کم ہیں جو انجام کار گوہر سکون کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو  پاتے ہیں اکثر و بیشتر عصری جراحتیں ہمیں اس قابل بھی نہیں چھوڑتیں کہ اپنے واقعی کمال کے بارے میں سوچ بھی سکیں ۔حصول کمال کے لئے ہمارا یہ سفر بہت آسان ہو جائے اگر ہم ان شخصیتوں کو اپنا آیڈیل بنا لیں جنکی زندگی کا ہر رخ ایک جلوہ کمال اپنے دامن میں لئے ہمیں دعوت فکر و عمل دے رہا ہے ۔
ولقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنہ صرف ایک قرآن کا نعرہ نہیں بلکہ  ایسی حقیقت ہے کہ جس پر ہم اگر غور کرنے کو تیار ہو جائیں تو زندگی کا رنگ ہی بدل جائے زندگی کے ہر گام پر ہمیں کمال ملے ہر موڑ پر ہمیں کامیابی ملے ۔شک نہیں کہ رسول اکرم (ص) کی ذات ان مفاہیم کا سب سے بڑا مظہر ہے جنکے ذریعہ انسان کمال کی بلندیوں تک پہونچتا ہے .
 ان اعلی ٰ مفاہیم کو  پختگی عطا کرنے کے ساتھ جو قدرت نے فطری طور پر ہمارے وجود میں نہاں رکھے ہیں  پیغمبر کی زندگی ہمارے لئے ان جذبوں میں حدت عطا کرنے کا ذریعہ ہے جو نہ صرف شمع دل پگھلانے کا سبب ہیں انکو اتنا روشن بھی بنا دیتے ہیں کہ اندھیروں کا وجود نہیں رہتا اور یہ روشن جذبات شمع دل کو یوں منور کئے رہتے ہیں کہ انسان کبھی جہالت کی تاریکی کی طرف بھولے سے قدم نہیں بڑھاتا ، حیات پیغمبر کے درخشان اصول ہمارے وجود میں ایسی حقیقتوں کو مجسم کرتے ہیں کہ انسان کبھی جھوٹی دنیا کے جھوٹے زرق برق کی طر ف نہیں بڑھتا  اس لئے کہ انسانی وجود کی گہرائیوں آنحضرت(ص) کی سیرت کے تابندہ اصول ان کمالات کی  فصل اگا دیتے ہیں جن پر جن کا ثمر انسانیت کی کمال کی ضمانت ہوتا ہے،                                                                                                                                                                                                                        
اگر ہم پیغمبر اسلام ( ص) کی حیات طیبہ پر ایک نظر ڈالیں تو واضح طور پر ہمیں حق ، عدالت ، عشق ، رحمت ، جیسی حقیقتوں کے جلوے  نظر آئیں گے اور ہم آپ کو مکارم اخلاق کو پایہ تکمیل تک پہونچانے والا  ایسا صاحب کمال رہبر پائیں گے جو پوری صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ  پوری انسانیت کو تحفہ میں عطا کیا گیا ہے ۔
اور یہ بات صرف ہم نہیں آلفویس جیسے  فرانس  کے عظیم اسکالرز بھی ببانگ دہل کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بقول  ''اگر ہم  ایک بڑے ہدف کو سامنے رکھیں اورسایل کی قلت کے ساتھ اس ہدف کے نتیجہ کی عظمت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی پیمانہ بنانا چاہیں جسکی روشنی میں کامیابی کی پیمایش کی جا سکے تو تاریخ میں ہمیں محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم ) کی ذا ت کے علاوہ کوئی دوسری ہستی نظر نہیں آئے گی جس نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو متحرک بنا دیا ،،
شک نہیں کہ یہ شخصیت اس سے کہیں بڑھ کر ہے کہ ہمارا طائر فکر اسکے کمال کی بلندیوں رسائی حاصل کر سکے ۔
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نہج البلاغہ کے بعض  ان اقوال کا مطالعہ کریں جن میں حضرت علی  نے اپنے استاد ، معلم ، پیغمبر( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم )   ،اپنے محبوب رسول خدا( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم )  کو عظیم ترین اوصاف سے متصف کرتے ہوئے فرمایا : '' خداوند سبحان نے محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم )   کو مبعوث کیا تاکہ اپنے وعدہ کو پورا کرے اور ان کی نبوت کو تکمیل تک پہونچائے اس نے آپ کے سلسلہ میں گزشتہ پیغمبروں سے بھی عہد لیا آپ کی خصوصیات انبیائے ما سبق کی کتابوں میں بیان کیں آپ کی آمد کی بشارت دی  ( نھج البلاغہ، صبحی صالح ، ٤٤)
 ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں :'' تیرے فرمان کو پیغمبر ( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم ) نے شائستہ طریقہ سے  انجام دیا ورتیری رضا و خوشنودی کے لئے سب سے زیادہ کوشش کی چاہیے .لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرے ، اور کبھی بھی کاہلی و سستی کا شکار نہیں ہوئے ،تیرے پیغام اور وحی کو نہیں چھپایا اور اسے دل و جان سے قبو ل کیا ۔ اور تیرے احکامات پر عمل کے لئے اس قدر زور دیا کہ باطن تیرے آئین کی روشنی سے منور ہو گئے۔کائنات اور خلقت کے رازوں سے سب کوآگاہ کیااور اپنی تابناکی سے زندگی کی تاریکیوںکو روشن کر دیا ۔ وہ لوگ جو فتنہ و آشوب کے گندے پانی میں ڈوب گئے تھے دوبارہ باہر آئے اور پر سکون ہو گئے جو لوگ نادانی میں غوطہ ور تھے وہ رہائی پا گئے ۔
آپ کی روش استقامت اور پائداری ہے اور آپ کا طریقہ کار لوگوں کی راہنمائی، انکی ہدایت اور انکے ساتھ نیکی کا برتائو ہے آپ کی باتیں دل پراثر کرنے والی اور رسا ہیں اور آپ کا فرماں روان اور نا انصافی کے خلاف ہے ۔ 
ایک اور مقام پر امیر المومین علیہ السلام یوں فرماتے ہیں :
''آنحضرت ( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم )   نصیحت ،اور اچھی باتیں بیان کرنے میں اصرا رکرتے رہے اور اسی روش کو آپ نے جاری رکھاسب کو عقل ،حکمت اور اچھائیوں کی دعوت دی۔
 یا ایک اور مقام پر مولائے کائنات ذات پیغمبر کا تعارف کراتے ہوئے فرماتے ہیں :
''یہاں تک کے خداوند تعالی نے محمد ( صلی اللہ علیہ و آلہ سلم )  کو پیغمبری پر مبعوث کیا اور دہر کے تصدیق نامہ کو آپ کے ہاتھ میں دیا اور آپ سے کہا کہ اعمال خیر کرنے والوں کو اسکی جزا کا مژدہ سنائیں ، اور ڈھیٹ ، کج فکر لوگوںکو اسکے عذاب سے ڈرائیں ، آپ عہد طفلی میں سب سے بہترین خدا کی مخلوق تھے اوربڑھاپے وضعیفی میں سب سے محترم نظر آتے تھے ،آپکی سرشت و فطرت دوسرے پاک طینت لوگوں سے زیادہ پاک و صاف تھی ، آپکی بخشش عطا کہ شان یہ تھی کہ کسی کو اس کا پتہ نہ چلتا اور ضرورت مندوں کی آرزوو خواہش سے کہیں زیادہ ہوتی ،،۔
ایک دوسری منزل پر آپ کہتے ہیں :
''.... آپ کی زندگی کا نصب العین لوگوں کی بھلائی اور اچھائی ہے آپ کی آرزو کامیابی کی موت ہے ، آپ دنیا کو رنج و محن کی جگہ سمجھتے ہیں اور قیامت کو انصاف ملنے اور حساب و کتاب کی جگہ ، اور جنت کو اپنی اور دیگر نیک اعمال کرنے والوں کی کاوشوں کا صلہ ... یقینا یہ خدا کی جانب سے بھیجا گیا رسول حریت اپنی پیدائش کے ذریعہ دیگر مخلوقات کے لئے نعمت و شرف اور خوشیوں کا سبب بن گیا ...ایک حاذق اور تجربہ کارطبیب  جس نے اپنے مرہم کو خود ہی تیار کیا اور اپنے دیگر آلات طبابت کو اس طرح  تیار کیا  جس کے ذریعہ  دل کے اندھوں بہروں اور گونگوں کو شفامل گئی ۔
آپکے اخلاق و کردار کو نہج البلاغہ میں اس طرح پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
''آپ زمین پر بیٹھتے تھے اور ایک بندہ کی طرح کھاتے تھے ، دو زانو ہو کر زمین پر بیٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی جوتیاںٹانکتے تھے۔ اپنے پھٹے ہوئے لباس کو خود ہی سیتے تھے ، برہنہ و بغیر پالان کی سواری پر سوار ہوتے تھے ۔
یقینا ایسی عظیم ہستی اس لایق ہے کہ اس کی زندگی کو نمونہ بنا پر ان نقوش پر قدم رکھا جاے  جو جاتے جاتے اس عظیم ہستی نے ہمارے لئے چھوڑیں ہے کہ صرف یہ نقوش نہیں ہماری کامیاب زندگی گزارنے کا وہ نسخہ ہیں جن پر جو بھی چلا ہے وہ کامیاب ہوا ہے ۔

✍🏼عاليجناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب



حضرت ابوطالب علیہ السلام

#مناسبت 

#وفات_جناب_ابوطالب_سلام_اللہ_علیہ

🔳 26/ رجب المرجب، مومن قریش، یاور حبیب کبریا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ، پدر وصی رسول خدا(ص) حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام یعنی حضرت ابوطالب سلام اللہ علیہ کی وفات کا دن ہے۔ 

➖جن کے ایمان کے بارے میں حضرت محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

📗و اللَّهِ إِنَّ إِيمَانَ أَبِي طَالِبٍ لَوْ وُضِعَ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ وَ إِيمَانَ هَذَا الْخَلْقِ فِي كِفَّةِ مِيزَانٍ لَرَجَحَ إِيمَانُ أَبِي طَالِبٍ عَلَى إِيمَانِهِم‏.

📜خدا کی قسم اگر ایمان ابوطالب (سلام اللہ علیہ) کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور لوگوں کے ایمان کو ترازو کے دوسرے پلڑے میں تو ایمان ابوطالب ان سب پر بھاری ہوگا۔ 

📚إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب)، فخار بن معد، مصحح: محمد بحرالعلوم، ص85، حديث الضحضاح
📚الدر النظيم في مناقب الأئمة اللهاميم، شامي، يوسف بن حاتم‏، ص221، فصل في ذكر نسبه عليه السلام


▪️اگرچہ آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مشرکین قریش کے دست ظلم سے محفوظ رکھنے جیسی عظیم ذمہ داری کی بنا پر اپنے ایمان کو مشرکین قریش پر ظاہر نہیں فرمایا کرتے تھے، پھر بھی کتب میں اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ پر آپ کے اعتقاد راسخ پر محکم دلائل موجود ہیں۔

💢جیسے خود آپ سلام اللہ علیہ کا شعر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ کی مدح میں: 

📗« حمیتُ الرسولَ رسولَ الإله ببیض تلألأ مثلَ البروق 
أذبّ و أحمی رسول الإلـه حمایة عَمّ علیه شفوق» 

📜«میں نے رسول کی، رسول اللہ کی ایسی سفید شمشیر سے حمایت کی جو بجلی کی طرح چمک رہی تھی۔
میں رسول اللہ کا دفاع کرونگا اور اور ان کی حمایت کرونگا ایسی حمایت جو ایک شفیق و مہربان چچا کی ہوتی ہے۔» 

📚مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج‏1، ص61، فصل في استظهاره ع بأبي طالب
📚الدر النظيم في مناقب الأئمة اللهاميم، شامي، يوسف بن حاتم‏، ص207، فصل في ذكر نسبه عليه السلام

💠حضرت أمیرالمومنین عليه السلام آپ سلام اللہ علیہ کی عظمت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

📗 « وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِيّاً، لَوْ شَفَعَ أَبِي فِي كُلِّ مُذْنِبٍ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ لَشَفَّعَهُ اللَّهُ (تَعَالَى) فِيهِم‏. 

📜« اس پرودگار کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو نبی برحق بنا کر بھیجا، اگر میرے والد روئے زمیں پر ہر عاصی و گنہگار کی شفاعت کرنا چاہیں، خدا ان سب کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔» 

📚الأمالي (للطوسي)، ص305، [11] المجلس الحادي عشر
📚إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب)، ص74، الأخبار الدالة على إيمانه

🔳رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ کے لئے اپنے شفیق و مہربان اور ہرہر قدم پر ساتھ دینے والے، تبلیغ دین مبین اسلام میں رسول اسلام کی خدمت میں رہنے والے چچا اور اسی طرح حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے بچھڑ جانا اس قدر سخت اور المناک تھا کہ اس سال کا نام  "عام الحزن" رکھ دیا۔

📚إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، طبرسى‏، ص10، الفصل الثالث في ذكر مدة حياته ص
📚قصص الأنبياء عليهم السلام (للراوندي)، ص317، الباب العشرون في أحوال محمد ص

🔳جناب ابوطالب کی وہ پشت پناہی تھی جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم اس طرح یاد فرماتے ہیں: مَا زَالَتْ قُرَیْشٌ کَاعَّةً عَنِّی حَتَّی تُوُفِّیَ اَبُو طَالِبٍ 
جب تک ابوطالب (علیہ السلام) باحیات تھے قریش مجھ سے خوف کھا رہا تھا، 

📚إيمان أبي طالب (الحجة على الذاهب إلى كفر أبي طالب)، ص261، موقف الرسول بعد وفاة أبي طالب
📚إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص10، الفصل الثالث في ذكر مدة حياته ص

▪️جب آپ کی وفات ہوگئی تو جبرئیل امین رسول اکرم (ص) پر نازل ہوئے اور فرمایا:

👈🏼يا مُحَمَّدُ اخْرُجْ مِنْ مَكَّةَ فَلَيْسَ لَكَ فِيهَا نَاصِر 

اے محمد! آپ مکّہ سے نکل جائیں کیونکہ اب وہاں آپ کا کوئی ناصر نہیں ہے۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏1، ص449، باب مولد النبي ص و وفاته

🏴🏴آخرالامر جناب ابوطالب سلام اللہ علیہ نے شیخ طوسی کے قول کے مطابق بعثت کے دسویں سال بتاریخ 26/ رجب المرجب وفات پائی، اور آپ کو اپنے بابا جناب عبدالمطلب کے کنارے قبرستان ابوطالب "حجون" میں سپرد خاک کیا گیا۔

📚مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص812، يوم النصف من رجب
📚بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏19، ص24، باب 5 دخوله الشعب و ما جرى بعده إلى الهجرة و عرض نفسه على القبائل و بيعة الأنصار و موت أبي طالب و خديجة رضي الله عنهما

🏴🏴🏴🏴🏴

جمعرات، 12 اپریل، 2018

امام کاظم علیہ السلام، اور سخت ترین حالات میں غریبوں و ناداروں کی مسیحائی





عالیجناب مولانا سید نجیب الحسن زیدی صاحب قبلہ


امام کاظم علیہ السلام کی ولادت کی معروف تاریخ ۷ صفر المظفر ہے ،آپ نے ۱۲۸ ہجری ابواء کے مقام پر اس دنیا میں آنکھیں کھولیں آپ اپنے حلم کے سبب کاظم کے طور پر پہچانے گئے جبکہ آپکی کنیت ابو الحسن اور ابو ابراہیم بیان کی گئی ہے[1]
آپ نے اپنی زندگی کے ۲۰ سال اپنے والد ماجد کی دامن تربیت و تحت امامت گزارے آپ  اپنی اس بیس سالہ زندگی میں نے مختلف علمی حلقوں کو سجے دیکھا ، کہیں مناظرے کہیں علمی گھتیوں کو سلجھایا جانا ، کہیں کلامی و فقہمی مباحث کی گہماگہمی ، آپ نے اپنے والد ماجد امام صادق علیہ السلام کے دور میں انکی علمی مجاہدتوں کا نزدیک سے مشاہدہ کیا ۔
آپ کی امامت کے ۳۵ سالوں میں ۱۰ سال ایسے ہیں جو منصور دوانقی کی خلافت میں گزرے ، منصور ایسا شخص ہے جس نے اپنی خلافت میں  شیعوں کے قتل اور انکی سرکوبی کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزار نہ کیا  ، ۱۳۷ ھ میں اس نے ابو مسلم خراسانی کو قتل کیا اور اس کے بعد ابو مسلم کی خونخواہی  میں جو بھی تحریک اٹھی اسے سختی سے دبا دیا ،منصور کا دور گھٹن و سختی کا دور تھا ، منصور دوانقی نے آپکی نگرانی کے لئے مدینہ میں ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا رکھا تھا یہ جاسوس آپ سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھتے اور حکومت وقت کو اسکی اطلاع دیتے جسکی بنا پر موقع پاتے ہی حکومت آپکے پاس نشست و برخاست کرنے والوں کو گرفتار کر لیتی ،آپ کی نگرانی اس قدر سخت تھی کہ ایک دور ایسا بھی آیا جب آپ کچھ مدت کے لئے  غار میں  رو پوش ہو گئے[2] مرگ منصور کے بعد ۱۵۸ ھ میں اسکا بیٹا مہدی اسکا جانشین ہوا  اور امام کاظم علیہ السلام کے دور امامت کے ۱۱ سال مہدی عباسی کی حکومت کے دور میں گزرے([3] مہدی عباسی کی خلافت میں منصور کی حکومت جیسی گھٹن نہ تھی چنانچہ اس کے حکم سے بہت سے شیعوں کو جیلوں سے رہا کر دیا گیا[4]امام کاظم علیہ السلام نے نسبتا اس دور کو اپنے حق میں بہتر پاتے ہوئے اس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور شیعوں کو نظم و نسق دینے کے لئے ممکنہ اقدامات کئے لیکن آپکے یہ بہتر حالات زیادہ دن نہ چل سکے کہ  مہدی کے بعد ہادی عباسی نے ۱۵ مہینے خلافت کی اور ۱۷۰ میں ہلاک ہوا [5] اس دور میں بھی حکومت کی جانب سے نگرانی ہوتی رہی اسکے بعد شہادت تک ہارون کی خلافت میں  آپکی زندگی کے باقی ایام گزرےجو بہت سخت تھے  چنانچہ آپکو ہارون کے دور میں کئی بار زندان جانا پڑا ہارون نے مہدی کی سیاست کے برخلاف اپنی حکومت کی بقا آپ پر سختی میں جانتے ہوئے شرائط کو بہت سخت بنا دیا  کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ آپ کو آپکے ثقافتی و فرہنگی کاموں کی بنا پر بغداد حاضر ہونے کاحکم دیتا اور زندان میں ڈال دیتا[6]اور پھر خود ہی پشیمان ہو کر آپکی رہائی کا حکم دیتا چنانچہ ملتا ہے کہ ایک بار آپکو بغداد طلب کیا اور زندان میں ڈال دیا لیکن خواب میں امام علی علیہ السلام کو ناراض و غمگین اس حالت میں دیکھا کہ فرماتے ہیں : تونے قطع رحم کیا ،لہذا فورا آپکی آزادی کا حکم دیا اور بصد احترام مدینہ واپس بھیجا [7] ہارون کے دور کے ۱۴ سال آپکی زندگی کے سخت ترین سال تھے جس میں آپکی  ایک طرف تو کڑی نگرانی ہوتی  دوسری طرف ہارون دکھانے کے لئے آپ کے ساتھ اظہار محبت بھی کرتا ،اور اس ٹوہ میں رہتا کہ آپ سے تعلق کی بنیاد پر اپنے ہی کارندوں کا اور اپنی ہی حکومتی اہلکاروں تک کا امتحان لے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت میں اسکی ہیں لیکن اندر سے بات آپکی مانتے ہیں اسی بنیاد پر علی ابن یقطین کا بارہا امتحان کیا کہ پتہ چلے علی ابن یقطین کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے اور وہ کس کی اطاعت کرتے ہیں ،لیکن یہ امام کی دقت نظر تھی کہ بروقت علی ابن یقطین کو متوجہ کر دیا اور ہارون کو علی ابن یقطین پر شک کے باوجود کوئی ایسا ثبوت نہ مل سکا جس کے چلتے وہ انکے سلسلہ سے کاروائی کرتا [8] ۔ان تمام حالات کے پیش نظرامام علیہ السلام نے خود بھی ایسی سیاست اختیار کی کہ حکومت وقت کو شبہہ نہ ہو کہ اس کے خلاف آپ کچھ منصوبہ بندی کر رہے ہیں ۔

سیاسی تدبیر  :

آج ہمارے معاشرہ میں یہ بڑا سوال ہے کہ موجودہ دور کے سیاسی حالات کے پیش نظر صاحبان اقتدار کے ساتھ کیسا سلوک اختیار کرنا چاہیے ، آیا مکمل طور پر اس لئے ان سے ملنا جلنا بند کر دیا جائے کہ وہ ظالم ہیں یا پھر قوم و معاشرہ کی بقا کے لئے بوقت ضرورت ان سے ملاقات تو کی جائے لیکن اپنے اصولوں سے ہرگز سودا نہ کیا جائے ، اور جب موقع و محل ہو اپنی فکر و اپنے نظریہ کا اظہار کر دیا جائے جب ہم امام کاظم علیہ السلام کا دور دیکھتے ہیں تو سخت ترین گھٹن کے دور میں بھی ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ آپ نے گرچہ حکومتی معاملات سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی لیکن بعض مقامات پر مصلحتا آپ خلیفہ وقت کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے تھے ۔
حکام جور کے ساتھ ہمیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے اسکی بہترین مثال امام کاظم علیہ السلام کی زندگی ہے  جسکے آئینہ میں ہم اپنی ذمہ داریوں کو معین کر سکتے ہیں ۔ منصور دوانقی نے نوروز  کے ایا م میں  امام علیہ السلام سے درخواست کی کہ اس عید کی مبارک بار دینے کے لئے جو محفل سجی ہے آپ بھی اس میں تشریف لائیں اور لوگ جو ہدایا و تحائف لا رہے ہیں انہیں قبول کریں
امام علیہ السلام نے اس درخواست پر فرمایا: ''میں نے اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس عید کے سلسلہ سے کوئی بات نہیں سنی ہے یہ ایرانیوں کی عید ہے  اسلام نےاسے عید قرار نہیں دیا ہے میں خدا کی بارگاہ میں اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں جسکی تائید اسلام نے نہیں کی ہے اور میں اسے احیاء کروں ،،منصور نے جب امام علیہ السلام کا انکار دیکھا تو کہا : میں یہ کام سپاہیوں کی دلجوئی کے لئے کر رہا ہوں لشکر کو مجذوب کرنے کے لئے کر رہا ہوں آپکو خدا کی قسم دیتا ہوں آپ اس نشست میں ضرور تشریف لائیں ،امام کاظم علیہ السلام نے جب منصور کا یہ اصرار دیکھا تو مصلحتا قبول کر لیا آپ اس پروگرام میں تشریف لے گئے اور حاکم وقت کے ہمراہ بیٹھ گئے لوگ زیارت کے لئے آتے اور تحفے تحائف دیتے جب سارے لوگ رخصت ہو گئے تو ایک بوڑھا  فقیر نزدیک آیا اور اس نے کہا میرے پاس آپکو دینے کے کوئی ہدیہ و تحفہ تو نہیں ہے لیکن میں نے آپکے جد کے لئے یہ تین بیت کہیں ہیں انہیں ہی آپکی اجازت سے بطور ہدیہ آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں پھر اس نے  یہ اشعار پڑھے :
عجبت لمصقول علاک فرنده
یوم الهیاج و قد علاک غبار
و لا سهم نفذتک دون حرائر
یدعون جدّک و الدموع غزار
الا تغضغضت السهام و عاقها
عن جسمک الإجلال و الإکبار
 ان اشعار کا مفہوم یہ ہے :''میں اس تیغ سے حیرت و تعجب میں ہوں جو آپ پر بلند ہوئی ، اور جنگ کے دن جب آپکا وجود غبار آلود تھا
اس تیر پر میں حیرت و تعجب میں ہوں جو اہل حرم کے سامنے برسے ، جبکہ انصار اشکبار اآنکھوں کے ساتھ مدد کے لئے پکار رہے تھے لیکن تیر نہیں ٹوٹے اور رکاوٹ نہ بن سکے کہ آپ کے جسم میں پیوست نہ ہوں آپکی ہیبت وو جلال و منزلت کی خاطر ''
امام علیہ السلام نے جب یہ اشعار سنے تو اشعار پڑھنے والے فقیر سے کہا : بیٹھ جاو میں نے تمہار ہدیہ و تحفہ قبول کر لیا ہے اس کے بعد جتنے بھی ہدایا آپکے پاس آئے تھے سب کو جمع کرنے کا حکم دیا سب کو جب ایک جگہ جمع کر دیا گیا تو کہا منصور ان ہدایا کا کیا ہوگا ، منصور نے لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی دکھانے کی خاطر کہا یہ یہ سب آپکے لئے ہیں  جو چاہیں کریں ، مولا نے سب کے سب ہدیے و تحائف  ایک جگہ جمع کر کے اس بوڑھے فقیر کے حوالے کر دئے [9]
چونکہ منصور کی فوج میں بہت سے لوگ ایرانی تھے ظاہر ہے کہ اپنے اپنے اعتبار سے حاکم وقت کو خوش کرنے کی انہوں نے کوشش کی ہوگی اور قیمتی تحائف دئے ہونگے  لیکن کسی بھی ہدیہ و تحفے پر امام علیہ السلام نے قبولیت کی مہر نہ لگاتے ہوئے ایک فقیر شخص کے تحفہ پر مہر قبولیت لگائی اور وہ بھی اس چیز پر جو ظاہر میں وجود نہیں رکھتی تھی اشعار کی صورت تھی لیکن امام علیہ السلام نے اسی کو بطور ہدیہ قبول کر کے یہ واضح کر دیا کہ حکومت کی نظر میں ہدایا و تحائف کا معیار اور کچھ ہے امامت کی نظر میں معیار کچھ او ر ہے

حکومت تحفہ و ہدیہ کی دنیاوی قیمت کو دیکھتی ہے جبکہ امامت کی نظر نیت اور اسکی معنویت پر ہوتی ہے ،ا سکےساتھ ہی امام علیہ السلام نے یہ بھی ثابت کر ددیا کہ ہمیں دنیاوی تحفے تحائف کی ضرور ت نہیں ہوتی ہے اور دنیا کے زرق برق سے ہمارا تعلق نہیں ، یوں امام نے علیہ السلام نے منصور کی سیاست کو ناکام بناتے ہوئے اپنے طرز عمل سے اس محفل جشن کو ویسا بنا دیا جیسا آپ چاہتے تھے جبکہ منصور اسی محفل جشن کے ذریعہ ایرانیوں کے درمیان آپکو حقیر دکھانا چاہتا تھا ، اور چاہتا تھا کہ ایک ایسی عید میں جسکا تعلق اسلام سے نہیں ہے امام کو مدعو کر کے یہ دکھانے کی کوشش کرے کہ گویا مجوسیوں کی عید میں امام علیہ السلام نے شرکت کی ہے جبکہ امام علیہ السلام نے پہلے ہی اس عید کو مسترد کرتے ہوئے اس میں آمد کو انسانی تقاضوں پر متوقف کر دیا اور اس لئے اس میں آنے کی حامی بھری کہ اسکا تعلق ایرانی لشکر سے تھااور امام اس لئے آئے کہ لشکر کی دلجوئی ہو سکے   اس طرح امام علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنے حق میں استعمال کیا کہ منصور دوانقی دیکھتا رہ گیا ۔

محروموں اور ناداروں کی پناہ گاہ :

امام علیہ السلام سخت ترین گھٹن کے ماحول میں بھی سماج و معاشرہ کے محروم طبقے سے غافل نہ رہے اور مختلف موقعوں پر غریبوں و ناداروں کے لئے جو بن پڑا انجام دیتے نظر آئے ہمیشہ غریب و بے سہارا لوگوں کا سہارا بنے [10] آپ نے وکالت کے نظام کے ذریعہ ان تمام لوگوں تک رسائی حاصل کی جنہیں ائمہ طاہرین علیھم السلام نے ہر دور میں مدد پہنچانا اپنی اولین ترجیح قرار دیا [11]
آپکی سیرت میں ملتا ہے کہ راتوں کو چہرے پر نقاب ڈال کر مدینہ کے کوچوں میں نکل پڑتے اور ضرورت مندوں تک انکی ضرورت کی اشیاء پہنچاتے اپنے کاندھے پر انکا آذوقہ و سامان خود ڈھوتے فقراء تک انکی خوردو نوش کی اشیاء بھی پہنچاتے اور ضرورت کی چیزوں کو خریدنے کے لئے انہیں پیسے بھی دیتے ، تاریخ کہتی ہے کہ سو سے لیکر ۳۰۰ دیناروں کی تھیلیاں بناتے اور انہیں ضرورت مندوں کے یہاں پہنچا دیتے
آپ کی یہ تھیلیاں اس قدر مشہور ہوئیں مدینہ میں ان کا نام ہی موسی ابن جعفر کی تھیلیاں پڑ گیا تھا اور لوگ آپس میں تذکرہ کرتے کہ فلاں تک موسی بن جعفر کی تھیلی پہنچی یا نہیں وغیرہ ۔۔۔
آپ جہاں لوگوں کی مدد خود کرتے وہیں عبادت و بندگی پروردگار کے ساتھ زندگی کو چلانے والے امور سے بھی غافل نہیں تھےچنانچہ ملتا ہے کہ مدینہ سے باہر ایک کھیت تھا جس میں آپ بنفس نفیس زراعت کرتے اور  محنت کرکے رزق حلال کماتے [12]۔آپ نے کھیتی باڑی و زراعت کو لوگوں کی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیا تھا اور اسکے ذریعہ آپ لوگوں کی مدد کرتے ،یہ مدد محض ایک بار کی نہ تھی بلکہ بعض مقامات پر تو کتنے ہی ایسے خاندان تھے جنہیں ہر مہینہ کا خرچ آپ دیتے تھے مثلا بعض وہ گھرانے جو حکومت وقت کے لئے زیادہ مورد عتاب تھے آپ کی توجہ ان پر زیادہ تھی مثلا جناب زید ابن علی ابن الحسین علیہ السلام کے قیا م کے بعد جب انکے گھر والوں پر حکومت نے دباو بنایا تو انکے وارثوں اور اہل خانہ کو ضرورت تھی کہ کوئی انکے سر پر ہاتھ رکھتا ایسی صورت میں امام کاظم علیہ السلام نے ابو خالد کابلی کے ذریعہ ان تک رقم پہنچائی [13]
اسی طرح دیگر ان علویوں کی پرسان حالی کی جنکے ملکیتوں کو حکومت وقت کی جانب سے قرق و ضبط کر لیا گیا تھاجیسے حسین بن علی شہید فخ وغیرہ [14]
امام علیہ السلام کے دور امامت میں جہاں حاکمان وقت کی طرف سے آپ کے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جا تی اور آپکی نقل و حرکت پر پوری نظر رکھی جاتی آپ کی کڑی نگرانی ہوتی وہیں  غریبوں اور ضرورت مندوں کی امداد رسانی میں بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ شیعوں کی تعداد دور دور تک پھیلی ہوئی تھی اور شیعہ کسی ایک بڑی آبادی کی صورت میں نہ ہو کر بکھرے ہوئے تھے جبکہ انکی تعدا د بھی پہلے سے کافی زیادہ ہو چکی تھی [15] ایسے میں امام علیہ السلام کے لئے بہت سخت تھا کہ دور دراز کے دیہاتوں میں شیعوں اور ضرورت مندوں تک امداد پہنچائی جا سکے ،ان تمام سختیوں کے باوجود آپ نے نظام وکالت کے ذریعہ بنحو احسن یہ کام  انجام دیا جبکہ بارہا ایسا بھی ہوا کہ ہارون کے جاسوس آپ کے طریقہ کار کو دیکھ کر مشکوک ہوئے اور انہوں نے حکومت وقت تک مخبری بھی کی کہ امام علیہ السلام اس طرح اپنے چاہنے والوں کی مالی مدد کر رہے ہیں لیکن اسکے باجود آپ نے اتنا مضبوط نطام وکالت قائم کیا تھا کہ اگر خراسان کے علاقے  نیشابور میں بی بی شطیطہ[16] کے ذریعہ آپ لوگوں کی مدد کرتے تو ہارون کے دربار میں  علی ابن یقطین  [17]و جعفر ابن محمد بن اشعث[18] جیسی شخصتییں تھیں جو بظاہر وزیر و  کارندے حکومت کے تھے لیکن کام امام کا انجام دیتے تھے  جنکے  ذریعہ آپ ضرورت مندوں کی مشکلات دور کرتے تھے اور یہ مدد اس انداز سے تھی کہ ہارون جیسا شاطر خلیفہ بھی پریشان تھا کہ ہو کیا رہا ہے اسکو ملنے والی خبریں یہ کہتیں کہ امام علیہ السلام ہر اس جگہ موجود ہیں جہاں انکے شیعہ ہیں جبکہ وہ خود دیکھتا کہ امام علیہ السلام کو اس نے ہی زندان  میں ڈالا ہوا ہے اور ان کی کڑی نگرانی ہو رہی ہے اسے سمجھ نہیں آتا کہ زندان میں رہتے ہوئے یہ کیسا مضبوط وکالتی نیٹ ورک ہے جو اپنے رہبر کے قید میں ہونے کے باوجود اپنا کام کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک دن اس نے امام علیہ السلام سے  کہا : کیا آپ کو یہ گمان ہے  کہ ہم دو الگ الگ خلیفہ ہیں ، چونکہ خراج اگر میرے لئے آتا ہے تو آپکے لئے بھی آتا ہے  یہ کیا ماجرا ہے [19]

غلاموں کا خیال :

غلاموں کی آزادی کے سلسلہ سے آپ کی فکر ہمیشہ مشغول رہتی ، آپ پر سختیاں ہوں یاآپ زندان میں ہوں آپکو کی آزادی کی فکر ستاتی رہتی اور آپ اس جوڑ توڑ میں رہتے کہ کیسے غلاموں کو آزاد کرایا جا سکے ، یوں تو عصر ائمہ طاہرین علیھم السلام میں ہر ایک امام کی خدمات میں ایک خدمت یہ رہی کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے اور غلاموں کو خرید کر انکو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے انہیں آزاد کرنا ائمہ طاہرین علیھم السلام نے ہمیشہ خود پر فرض جانا کہ اس کے ذریعہ شیعت کی بہت ترویج ہوئی ، ظاہر سی بات ہے جب کوئی غلام زندگی کے کچھ ہی سال سہی لیکن امام وقت کے ساتھ گزارے گا ، انکی عملی زندگی کو دیکھے گا انکے ساتھ نشست و برخاست کرے گا انکے اخلاق حسنہ کو دیکھے گا تو کچھ نہ کچھ تو سیکھے گا ہی ،اور جب حقیقی اسلامی تعلیمات سے آشنا ہو جائے گا تو کیا بہتر کہ دوسروں کو بھی آشنا کرے ،اس طرح خود اپنے بل بوتے اپنی زندگی بھی گزارے گااور دوسروںکو بھی دین حقیقی کی دعوت دے گا، شاید یہی وجہ ہے بعض دانشور یہ مانتے ہیں کہ شیعت کی ترویج میں ایک اہم ہاتھ ان غلاموں کا ہے جنہیں ائمہ طاہرین نے خریدا ، ان کی تربیت کی اور پھر انہیں آزاد کر دیا [20] چنانچہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سلسلہ سے ملتا ہے آپ نے ہزار غلاموں کو آزاد کیا[21] اسی طرح امام سجاد علیہ السلام نے بھی ہزار سے زیادہ کی تعداد میں غلاموں کو آزاد کیا دیگر ائمہ اطہار علیھم السلام نے بھی اسی طرح اس تحریک کو زندہ رکھا [22]
چنانچہ امام کاظم علیہ السلام نے بھی اپنے اجداد کی روش و انکے طریقہ کار کو باقی رکھتے ہوئے غلاموں کی آزادی کواپنی اولویت قرار دیا ،اور نہ صرف خود اس کام میں حصہ لیا بلکہ اپنے فرزندوں کی تربیت بھی اس طرح کی کہ انہوں نے بھی اپنی زندگی کی ایک بڑی ذمہ داری  غلاموں کی آزادی کو جانتے ہوئے اس راہ میں کسی کوشش سے دریغ نہ کیا  جناب احمد جو شاہ چراغ کے نام سے مشہور ہیں انکے سلسلہ سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کی مالی حمایت کے چلتے ہزار غلاموں کو آزاد کیا [23] صرف اتنا ہی  نہیں کہ امام کاظم علیہ السلام نے غلاموں کی آزادی کے سلسلہ سے اقدام کیا اور غلاموں کو آزاد کیا یا اپنے گھر والوں کی کا پیسوں  سے یوں مالی تعاون کیا کہ وہ غلاموں کو آزاد کرائیں  بلکہ غلاموں کو انکی خدمت کے دور میں بھی غلام نہیں سمجھا چنانچہ آپکی با برکت زندگی میں ملتا ہے کہ آپ غلاموں کو اپنے اہل و عیال کے طور پر متعارف کراتے اور کہتے یہ میرے اہل خانہ ہیں یہ میرے گھر والے ہیں  تاریخ بتاتی ہے کہ آپ نے چار سو سے زیادہ غلاموں کے سلسلہ سے کہا کہ یہ میرے عیال کی حیثیت سے ہیں [24]

حاصل مضون  :

امام کاظم علیہ السلام نے دشوار ترین حالات میں اپنی زندگی کو اس طرح گزارا کہ نہ تو دشمن کو موقع دیا کہ وہ آپکے وجود کو اپنے حق میں استعمال کر سکے اور نہ آپ شیعوں کی ضرورتوں سے غافل رہے ، ضرورت پڑی تو سلاطین وقت کے ساتھ ایک مسند پر بیٹھے بھی لیکن کیا وہی جو مشیت پروردگار کے مطابق تھا حاکمان وقت کو خوش کرنے کی فکر میں لوگ کیا سے کیا کرتے ہیں اور کرتے بھی رہے چنانچہ لوگوں نے قیمتی ہدایا و تحائف دئے کہ سلطان وقت کو خوش کر دیں لیکن آپ نے خوش کیا تو ایک ایسے فقیر کو جس نے آپ کے جد کے سلسلہ سے مرثیہ کے کچھ بیت پڑھے ، آپ نے خوش کیا تو اسے جسکے پاس خلوص و محبت کے سوا کچھ نہ تھا جو خالی ہاتھ تھا لیکن دل میں محبت حسین علیہ السلام تھی
امام کا یہ طرز عمل ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے پیش نظر بھی یہی ہونا چاہیے کہ کس کے دل میں محبت امام حسین علیہ السلام ہے کس کے دل میں محبت اہلبیت اطہار علیھم السلام ہے اس لئے کہ یہ وہ سرمایہ ہے کہ جسکی قیمت ممکن ہے ہم نہ جانتے ہوں لیکن امام علیہ السلام پہچانتے ہیں اس کی کیا قیمت ہے۔ علاوہ از یں سخت و دشوار ترین دور میں بھی ضرورت مندوں اور محتاجوں کو امام علیہ السلام نے فراموش نہیں کیا ، زندگی میں مشکلات تو سبھی کے یہاں آتی ہیں لیکن امام علیہ السلام کا عمل یہ بتاتا ہے کہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم مشکلوں میں گھرے رہنے کے باجود مشکلات میں گھر جانے والے ضرورت مندوں و محتاجوں کی مشکلوں کو آسان کرتے ہیں ، لہذا ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سے جتنا ممکن ہے امام علیہ السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے غریبوں ، محتاجوں اور ناداروں کا خیال رکھیں کہ ہمارے ائمہ طاہرین علیھم السلام کا یہی شیوہ رہا ہے اور شیعہ کہتے ہی اسے ہیں جو اپنے اسی راہ و ڈگر پر چلے جس پر اسکا امام چلا ہے ۔

حوالے و حواشی

[1]  ۔ (1)کلینی ، اصول کافی، جلد ۳ ص ۳۸۰، سبط ابن جوزی۔ تذکرۃ الخواص، ص ۳۱۳
[2] (۲)ابن شہر آشوب ، مناقب آل ابی طالب ع جلد ۴ ص ۳۱۱
[3] ۔ (3)یعقوبی،جلد ۲ ص ۴۰۰
[4] (۴)ابو الفرج اصفہانی ، مقاتل الطالبین ، ص ۳۴۲
[5] ۔ (۵)مسعودی ، مروج الذہب جلد ۳ ص ۳۳۴
[6] (۶)کلینی ، اصول کافی ، جلد ۳ ، ص ۳۸۴
[7] (۷)سبط ابن جوزی ، تذکرۃ الخواص ، ص ۲۱۸
[8] ۔ (۸)شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ، ص ۲۱۸
[9] (۹)ابن شہر آشوب ، مناقب آلی ابی طالب ، جلد ۴ ص ۳۴۴
[10] (۱۰)شیخ مفید ، ارشاد ، جلد ۲ ص ۱۰۹
[11]  ۔ (11)جباری ، محمد رضا ، سازمان وکالت ونقش آن در عصر ائمہ  ، موسسہ  امام خمینی رح  ص ۲۹۶ ، چاپ اول
[12] (۱۲)مفید ، الارشاد جلد ۲ ، ص ۲۲۷
[13] (13)رک:  سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۱
 [14]  (14)ایضا
[15]  ۔ (15)مدرسی، مکتب در فرایند تکامل ، ص ۲۰ ،  جباری ، محمد رضا ، سازمان وکالت ونقش آن در عصر ائمہ  ، موسسہ  امام خمینی جلد ۱ ص ۵۱ ، چاپ اول
[16] ۔(16)راندی ، الخرائج و الجرائح، جلد ۱ ص ۳۲۹
[17]  ۔ (17)تاریخ طبری ، جلد ۸ ص ۱۸۹
[18] ۔ (18)شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ص ۲۳۷
[19]  ۔ (19)سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۰،
[20]، ۔(20)تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو :سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،
[21] ۔  (21)ثقفی ، الغارات ، جلد ۱ ص ۵۹
[22]  ۔ (22)رک:  سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،
[23]  ۔ (23)شیخ مفید ، الارشاد، جلد ۲ ص ۲۴۴ ، اربلی، کشف الغمہ ، جلد ۲ ص ۲۳۶
[24]  ۔(24) رک:  سیرہ و زمانہ امام کاظم علیہ السلام ، انجمن تاریخ پژوہان حوزہ علمیہ قم ، محمد مقالہ : سعید نجاتی ، تحلیلی از سیرہ اقتصادی امام کاظم علیہ السلام ، ص ۳۹۴،