علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعہ، 29 ستمبر، 2017

حضرت امام حسین علیہ السلام کی بعض خصوصیات

کچھ خاص چیزیں

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذات گرامی جہاں اتنے عظیم امتحان الٰہی میں کامیاب ہوئی اور اپنے کردار و گفتار سے رہتی دنیا کو ایک دو نہیں ہزارہا درس دے کر گئی جن سے تا قیام قیامت فیض حاصل کیا جاتارہے گا، وہیں معبود نے آپ کو کچھ خاص چیزوں سے نوازا  ، جس میں مشکل سے کوئی شریک ملتا ہے۔ یہاں ان میں سے بعض کوروایات کی روشنی میں پیش کیا جارہا ہے۔

خاک خاک شفا

حضرت امام صادق علیہ السلام :
عَنْ زَيْدٍ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ: كُنْتُ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ عِصَابَتِنَا بِحَضْرَةِ سَيِّدِنَا الصَّادِقِ ع فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ تُرْبَةَ جَدِّيَ الْحُسَيْنِ ع شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ وَ أَمَاناً مِنْ كُلِّ خَوْفٍ فَإِذَا تَنَاوَلَهَا أَحَدُكُمْ فَلْيُقَبِّلْهَا وَ يَضَعْهَا عَلَى عَيْنَيْهِ وَ لْيُمِرَّهَا عَلَى سَائِرِ جَسَدِه‏
زید ابی اسامہ سے روایت ہے کہ میں کچھ بزرگوں کے ہمراہ امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا ، امام صادق (ع) نے ہماری طرف رخ کیا اور فرمایا: بیشک خدا نے میرے جد حسین(ع) کی تربت کو ہر مرض کے واسطے شفا، اور ہر طرح کے ڈر اور خوف سے امان قرار دیا ہے ، جب کبھی  تم میں سے کوئی اس تربت کو حاصل کرے اس کا بوسہ دے ،اپنی آنکھوں پر رکھے ،اور پھر اپنے پورے بدن پہ پھیرے۔
الأمالي (للطوسي)، ص318، المجلس الحادي عشر؛ بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط - القديمة)،ص217۔
خدا نے خانہ کعبہ یا قبر مطہر نبی اکرم کی تربت کو بھی شفا قرار نہں دیا، فقط تربت امام حسین(ع)۔
عزاداری
اہل بیت کرام میں کسی کے لئے اس قدر عزاداری  اور گریہ کے سلسلہ سے تاکید نہیں ملتی جتنی تاکید امام حسین(ع) کے سلسلہ میں ہے، آپ(ع)  کی عزاداری و گریہ کی تاکید میں بہت سی روایتیں ہیں منجلہ:
یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع
ے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ  کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو
سائل الشيعة ، ج‏14، ص 502، باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛ الأمالي( للصدوق)،ص 130، المجلس السابع و العشرون۔
دوسری جگہ فرمایا:
فَعَلَى مِثْلِ الْحُسَيْنِ فَلْيَبْكِ الْبَاكُونَ فَإِنَّ الْبُكَاءَ يَحُطُّ الذُّنُوبَ الْعِظَامَ ثُمَّ قَالَ ع كَانَ أَبِي ع إِذَا دَخَلَ شَهْرُ الْمُحَرَّمِ لَا يُرَى ضَاحِكاً وَ كَانَتِ الْكِئَابَةُ تَغْلِبُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمْضِيَ مِنْهُ عَشَرَةُ أَيَّامٍ فَإِذَا كَانَ‏ يَوْمُ‏ الْعَاشِرِ كَانَ‏ ذَلِكَ‏ الْيَوْمُ‏ يَوْمَ‏ مُصِيبَتِهِ‏ وَ حُزْنِهِ وَ بُكَائِه‏
رونے والوں کو حسین جیسے پر آنسو بہانا چاہیے کیونکہ  یہ رونا گناہان کبیرہ کو گرا دیتا ہے  پھر فرمایا: جب محرم کا مہینہ آتا تھا، میرے والد (حضرت موسی بن جعفر ع) کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا جاتا تھا، ان پر حزن و اندوہ طاری ہوتا تھا یہاں تک کہ دس دن گذر جائیں، دسویں محرم جب ہوتی تھی وہ دن ان کے لئے مصیبت، حزن و اندوہ کا دن ہوتا تھا۔
أمالي الصدوق‏، ص111؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏44، ص284، باب 34 ثواب البكاء على مصيبته۔۔۔
حضرت امام صادق علیہ السلام :
كُلُ‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ مَكْرُوهٌ‏ سِوَى‏ الْجَزَعِ‏ وَ الْبُكَاءِ عَلَى‏ الْحُسَيْنِ‏ (عَلَيْهِ السَّلَامُ)
ہر طرح کا گریہ و فغاں مکروہ ہے سوائے امام حسین علیہ السلام پر گریہ و بکاکے۔
الأمالي (للطوسي)،ص162، المجلس السادس؛ وسائل الشيعة، ج‏3، ص282، 87 - باب جواز البكاء۔

زیارت کی شدید تاکید:

حضرت امام صادق علیہ السلام
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَثِيرٍ مَوْلَى أَبِي جَعْفَرٍ ع عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَوْ أَنَ‏ أَحَدَكُمْ‏ حَجَ‏ دَهْرَهُ‏ ثُمَ‏ لَمْ‏ يَزُرِ الْحُسَيْنَ‏ بْنَ‏ عَلِيٍ‏ ع لَكَانَ تَارِكاً حَقّاً مِنْ حُقُوقِ اللَّهِ وَ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِأَنَّ حَقَّ الْحُسَيْنِ ع فَرِيضَةٌ مِنَ اللَّهِ وَاجِبَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ.
اگر تم میں کوئی پوری عمر حج انجام دے لیکن حسین بن علی کی زیارت کے لئے نہ جائے اس نے حقوق اللہ اور حقوق رسول اللہ میں سےکوئی حق ضرور چھوڑا ہے اس لئے کہ حسین(ع) کا حق  اللہ کی جانب سے تمام  مسلمانوں واجب  قرار دیا گیا ہے۔
كامل الزيارات،ص122، الباب الثالث و الأربعون؛ كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،  ص27، باب وجوب زيارة الحسين؛ وسائل الشيعة،ج‏14، ص428، باب كراهة ترك زيارة الحسين ع
موسی بن قاسم خضرمی کہتے ہیں: منصور کے دور حکومت کے شروع کے دنوں میں ، امام صادق (ع)نجف تشریف لائے اور  فرمایا، راستے پر جائے اور اس شخص کا  انتظار کرے جو قادسیہ کی جانب سے آرہاہے، اور جب وہ آجائے تو اسے امام(ع) کا سلام پہونچائے اور امام کی خدمت میں لائے۔
وہ شخص جسکانام موسی تھا، کہتا ہے: حکم کی تعمیل کے لئے راستے میں بیٹھ گیا، سورج کی جھلسا دینے والی دھوپ میں مایوسی کی حد تک اس مسافر کا انتظار کیا اور آخرکار وہ آگیا۔ حضرت امام صادق(ع) کا پیغام پہونچانے کے بعد اسے آپ(ع) کے خیمے کی طرف لے گیا اور خود ان لوگوں سے دور اس طرح کہ ان لوگوں کو نہیں دیکھ رہا تھا خیمہ کے در پر کھڑا ہوگیا، لیکن ان کی آواز سن رہا تھا، وہیں پر بیٹھ گیا۔
امام صادق (ع) نے اس پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟
جواب دیا: یمن کے دوردراز علاقہ سے۔
اس وقت امام(ع) نے اس کے علاقہ کی باتیں اور خصوصیات اس سے بتائیں اور اس نے تائید کی، اس کے بعد آپ(ع) نے فرمایا: یہاں پر آنے کا مقصد کیا ہے؟
کہا: امام حسین (ع) کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔
فرمایا: فقط زیارت کے لئے؟
کہا: ہاں! فقط اپنے آقا کی زیارت اور ان کی قبر اطہر کے کنارے نماز پڑھنے اور قریب سے درود پڑھنے کے لئے۔۔۔
امام (ع) نے فرمایا: ان کی زیارت  کے عوض کون سے اجر و ثواب کے امید رکھتے ہو؟
کہا: ہم ان کی زیارت سے مال و اولاد میں برکت، سلامتی اور طول عمر اورحاجتوں کے پوری ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
فرمایا: اے یمنی بھائی! کیا میں اللہ کے فضل سے ان ثوابوں میں اور اضافہ کردوں؟
کہا: یابن رسول اللہ(ع) اضافہ فرمادیں۔
فرمایا: حضرت ابا عبداللہ (ع)کی زیارت کا ثواب حضرت رسول خدا(ص) کے ساتھ انجام دیے گئے حج مقبول کے برابر ہے۔
وہ متعجب ہوا۔
امام(ع) نے فرمایا: جی ہاں! بلکہ رسول خدا (ص) کے ساتھ دو حج مقبول کے برابر۔
اس کے استعجاب میں مزید اضافہ ہوگیا۔
اور امام صادق (ع) ثواب میں اضافہ کرتے چلے گئے یہاں تک کہ تیس پاک و پاکیزہ اور مقبول اور رسول خدا (ص) کے ساتھ انجام دیئے گئے حج کے برابر۔
كامل الزيارات،ص162، الباب السادس و الستون؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏98، ص37۔
حضرت امام حسین (ع) کی زیارت کی تاکید اور فضیلت و ثواب کے سلسلہ میں  کثیر تعداد میں روایتیں موجود ہیں، اور محبین اہل بیت (ع) نے اسی کے پیش نظر زیارت کا خوب اہتمام بھی کیا، اس کی  ایک شاہد مثال متوکل کا زمانہ ہے، وہ قبر امام حسین (ع) کو اپنی حکومت کے خلاف دیکھتا تھا کیونکہ وہ دیکھ رہا تھا لوگ دن و رات زیارت کے لئے جارہے ہیں۔ لہذا اس نے کربلا کے آس پاس سکیورٹی لگا دی، اس کے کارندے جیسے ہی دیکھتے تھے کوئی زیارت کے لئے جارہاہے گرفتار کرلیتے تھے۔
بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج45، ص397۔

ائمہ کرام آپ کی ذریت سے ہیں

محمد بن مسلم کہتےہیں:
سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ ع وَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع يَقُولَانِ‏ إِنَ‏ اللَّهَ‏ عَوَّضَ‏ الْحُسَيْنَ ع مِنْ قَتْلِهِ أَنَّ الْإِمَامَةَ مِنْ ذُرِّيَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِي تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ.
میں نے  امام باقر و امام صادق علیہما  السلام سے سنا کہ فرماتے ہیں امام حسین (ع) کو شہادت کے عوض یہ صلہ  عنایت فرمایا ہے کہ    امامت کو ان کی ذریت اور اولاد میں قرار دیا۔ ان کی تربت میں شفا قرار دی۔ (مٹی کھانا حرام ہے سوائے قبر امام حسین کی مٹی کے)۔ ان کی قبر کے پاس دعا مستجاب ہے۔
وسائل الشيعة،ج‏14، ص423، 37 - باب تأكد استحباب زيارة الحسين۔

وہ تنہا امام جس کا سر تن سے جدا ہوا

امام حسین (ع) وہ امام ہیں جن کا سر ان کی زندگی میں ان کے تن سے جدا کیا گیا۔
امام رضا(ع) نے فرمایا:
یا ابْنَ شَبِيبٍ إِنْ كُنْتَ بَاكِياً لِشَيْ‏ءٍ فَابْكِ لِلْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَإِنَّهُ‏ ذُبِحَ‏ كَمَا يُذْبَحُ‏ الْكَبْشُ
اے ابن شبیب: اگر کسی چیز کے لئے گریہ  کرنا چاہو، تو حسین ابن علي ابن ابی طالب(ع)کے لئے گریہ کرو کہ  انہیں اس طرح ذبح  کیا گیا جیسے گوسفند(بھیڑ) کو کیا جاتا ہے۔
وسائل الشيعة ، ج‏14، ص 502،  باب استحباب البكاء لقتل الحسين؛  الأمالي( للصدوق)،ص 130،  المجلس السابع و العشرون۔

سب سے عظیم یوم مصیبت:

عبد اللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں:
قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ الصَّادِقِ ع يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ كَيْفَ‏ صَارَ يَوْمُ‏ عَاشُورَاءَ يَوْمَ مُصِيبَةٍ وَ غَمٍّ وَ جَزَعٍ وَ بُكَاءٍ دُونَ الْيَوْمِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ص وَ الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَتْ فِيهِ فَاطِمَةُ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع وَ الْيَوْمِ الَّذِي قُتِلَ فِيهِ الْحَسَنُ ع بِالسَّمِّ فَقَالَ إِنَّ يَوْمَ الْحُسَيْنِ ع أَعْظَمُ مُصِيبَةً مِنْ جَمِيعِ سَائِر الْأَيَّامِ وَ ذَلِكَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكِسَاءِ الَّذِي كَانُوا أَكْرَمَ الْخَلْقِ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى كَانُوا خَمْسَةً فَلَمَّا مَضَى عَنْهُمُ النَّبِيُّ ص بَقِيَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ وَ فَاطِمَةُ وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَيْنُ ع فَكَانَ فِيهِمْ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَتْ فَاطِمَةُ ع كَانَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ لِلنَّاسِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى مِنْهُمْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا مَضَى الْحَسَنُ ع كَانَ لِلنَّاسِ فِي الْحُسَيْنِ ع عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَلَمَّا قُتِلَ الْحُسَيْنُ ع لَمْ يَكُنْ بَقِيَ مِنْ أَهْلِ الْكِسَاءِ أَحَدٌ لِلنَّاسِ فِيهِ بَعْدَهُ عَزَاءٌ وَ سَلْوَةٌ فَكَانَ ذَهَابُهُ كَذَهَابِ جَمِيعِهِمْ كَمَا كَانَ بَقَاؤُهُ كَبَقَاءِ جَمِيعِهِمْ فَلِذَلِكَ صَارَ يَوْمُهُ أَعْظَمَ مُصِيبَةً
امام صادق (ع) سے عرض کیا: یوم عاشورا کیسے یوم  مصیبت، یوم غم اور یوم گریہ و بکا ہوا، جبکہ وفات رسول، یا جس دن حضرت زہرا(س) شہید ہوئیں یا جس روز امیرالمومنین(ع) شہید ہوئے یا جس دن امام حسن(ع) مسموم ہوئے ایسا نہ ہوا؟  فرمایا: یوم شہادت امام حسین کی مصیبت تمام ایام کی مصیبت سے بڑھ کر ہے،اس لئے کہ اصحاب کساء خدا کے نزدیک تمام مخلوقات سے باعظمت ہیں، اور وہ پانچ لوگ تھے، جب پیغمبر (ص) دنیا سے گئے، ابھی امیر المومنین(ع)، فاطمہ(س)، حسن و حسین(ع) زندہ تھے تاکہ لوگوں کے واسطے تسلی خاطر بنیں، جب حضرت زہرا(س) رخصت ہوئیں، امیرالمونین(ع)، حسن، حسین(ع) باحیات تھے تاکہ لوگوں کو تسلی ملے اور صبر اختیار کریں، جب امیرالمونین(ع) لوگوں کے درمیان سے گئے، حسن و حسین تسلی کے لئے موجود تھے، جب حسن (ع) شہید ہوئے پھر بھی حسین موجود تھے لیکن جب حسین(ع) قتل ہوئے اب اصحاب کساء میں سے کوئی نہیں بچا تھا جو لوگوں کے لئے تسلی کا سبب بنے، لہذا ان کے(امام حسین (ع) کے نہ ہونے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب چلے گئے، جیسے ان کے رہنے پر ایسا تھا جیسے سب کے سب موجود ہوں، اسی بنا پر ان کی شہادت کا دن، سب سے عظیم مصیبت کا دن قرار پایا۔
علل الشرائع، ج‏1، ص225،162 باب العلة التي من أجلها صار يوم عاشوراء أعظم الأيام مصيبة؛ الفصول المهمة في أصول الأئمة،ج‏3، ص412، باب 136 - ان يوم عاشوراء اعظم الايام مصيبة۔
حضرت امام باقر علیہ السلام زیارت عاشورا میں فرماتے ہیں:
مُصِيبَةٍ مَا أَعْظَمَهَا وَ أَعْظَمَ‏ رَزِيَّتَهَا فِي الْإِسْلَام‏
مصیبت عاشورا اسلام اور زمین و آسمان میں اتنی عظیم مصیبت ہے جس سے  بڑی کوئی مصیبت نہیں۔
كامل الزيارات، ص177؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص775؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص235، الفصل الثاني في زيارة الإمام الحسين عليه السلام۔

حضرت امام حسین (ع) تمام موجودات نے گریہ کیا:
امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
مَا بَكَتِ‏ السَّمَاءُ عَلَى أَحَدٍ بَعْدَ يَحْيَى بْنِ زَكَرِيَّا إِلَّا عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ع فَإِنَّهَا بَكَتْ عَلَيْهِ أَرْبَعِينَ يَوْماً.
یحیی بن زکریا کے آسمان نہیں رویا سوائے حسین بن علی (ع) پر، آسمان حسین بن علی(ع)پر  چالیس دن تک رویا۔
كامل الزيارات،ص90، الباب الثامن و العشرون۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
إِنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ لَمَّا قُتِلَ بَكَتْ عَلَيْهِ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَ الْأَرَضُونَ السَّبْعُ وَ مَا فِيهِنَّ وَ مَا بَيْنَهُنَّ وَ مَنْ يَتَقَلَّبُ فِي الْجَنَّةِ وَ النَّارِ وَ مَا يُرَى وَ مَا لَا يُرَى‏
جس وقت امام حسین (ع) کو قتل کیا گیا ساتوں زمین و آسمان ، اور جو چیز اس میں ہے اور جو بھی ان کے درمیان ہے اور جو جنت و جہنم میں ہے جو چیز دکھائی دیتی ہے اور جو دکھائی نہیں پڑتی سب نے گریہ کیا۔
بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏45، ص202۔
حضرت امام عصر عج:
بَكَتْهُ‏ السَّمَاءُ وَ مَنْ فِيهَا وَ الْأَرْضِ وَ مَنْ عَلَيْهَا
ان پر آسمان اور جو اس میں ہے اور زمین اور جو اس پر ہے سب نے گریہ کیا۔
مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص826؛ زاد المعاد - مفتاح الجنان، ص51، الفصل الثالث في الفضائل و الأعمال المختصة بأول الشهر حتى الأيام البيض۔

سر بریدہ کاقرآن کی تلاوت کرنا:

امام حسین(ع) کی وہ تنہا ذات گرامی ہے جس نے شہادت کے بعد بھی کلام کیا ہے، امام کا سر نیزہ پر تھا اور آیت کی تلاوت کررہا تھا:
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ أَنَّهُ قَالَ مُرَّ بِهِ عَلَيَّ وَ هُوَ عَلَى رُمْحٍ وَ أَنَا فِي غُرْفَةٍ فَلَمَّا حَاذَانِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ أَمْ‏ حَسِبْتَ‏ أَنَ‏ أَصْحابَ‏ الْكَهْفِ‏ وَ الرَّقِيمِ كانُوا مِنْ آياتِنا عَجَباً فَقَفَّ وَ اللَّهِ شَعْرِي وَ نَادَيْتُ رَأْسُكَ وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَعْجَبُ وَ أَعْجَب
زید بن ارقم کہتے ہیں وہ سر جو نیزہ پر تھا میرے سامنے سے گذارا گیا  اور میں بالاخانے پر تھا تبھی جب  وہ سر قریب پہونچا ،میں نے اسے تلاوت کرتے ہوئے سنا: ام حسب ان اصحاب۔۔۔۔  تو بخدا  ڈر سے میرے بدن کے روئیں کھڑے ہوگئے، اور  میں نے چلا کر کہا : خدا کی قسم یابن رسول اللہ آپ کا سر تو اس (واقعہ اصحاب کہف)سے بھی حیرت ناک ہے۔
 الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏2، ص117؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص252؛ الطرائف في معرفة مذاهب الطوائف، ج‏1، ص83۔
اربعین
اربعین (چہلم) اور زیارت اربعین بھی تمام ائمہ میں فقط امام حسین علیہ السلام سے مخصوص ہے یہاں تک کہ زیارت اربعین مومن کی علامتوں میں سے شمار کی گئی ہے۔
امام حسن عسکری (ع)سے روایت ہے:
عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ‏ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ‏.
پانچ چیزیں مومن کی علامتوں میں سے ہیں ۱۔ اکیاون رکعت نماز پڑھنا۔ ۲۔ زیارت اربعین۔ ۳۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا۔ ۴۔  سجدہ میں پیشانی کو خاک پر رکھنا۔ ۵۔ بلند آواز سے بسم اللہ کہنا۔
كتاب المزار- مناسك المزار(للمفيد)،ص53، باب فضل زيارة الأربعين؛ تهذيب الأحكام (تحقيق خرسان)، ج‏6، ص52؛ مصباح المتهجد و سلاح المتعبد، ج‏2، ص788۔
اس کے علاوہ خود زیارت اربعین اگر کسی امام کے لئے منصوص ہے تو وہ حضرت سید الشہداء کی ذات گرامی ہے۔


ِ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَات‏

حضرت ابوالفضل العباس


۔۔۔ مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ شَبِيهُونَ
حضرت ابوالفضل العباس
انسان جب کسی کو پہچنوانا چاہتا ہے تو اس کی واضح ترین صفت کا انتخاب کرتا ہے ،لیکن اگر کسی ذات میں تمام  صفات اعلی ترین حد  امکان پر موجود ہوں تو عقل حیران رہ جاتی ہے اور انتخاب نہیں ہوپاتا۔
حضرت علمدار کربلا (ع) کی شخصیت کچھ ایسی ہی ہے جہاں ہماری ظاہربین نگاہیں نہ انکے فضائل کو احاطۂ دید میں لاسکتی ہیں اور نہ ہی طائر فکر ان کے کمالات کے حدود تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔
آپ(ع) کے فضائل کا ادراک اور ان کی تفسیر اگر ممکن کی ہے تو ائمۂ طاہرین علیہم السلام سے ہی ہے ،چنانچہ صادق آل محمد(ع) علمدار کربلا(ع)  کے بارے میں فرماتے ہیں: كان عمّنا العبّاس‏ نافذ البصيرة، صلب الايمان، جاهد مع أبى عبد اللَّه، و ابلى بلاء حسنا، و مضى شهيدا.
میرے چچا عباس گہری بصیرت اور مضبوط تکیہ گاہ ایمانی کے حامل تھے ،آپنے اپنے بھائی امام حسین(ع) کے ساتھ جہاد کیا اور اس امتحان گاہ میں سرفراز و سربلند ہوئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
در سوگ امير آزادى ( ترجمه مثير الأحزان )، ص 254؛ ابصار العين، ص 30؛ مقتل الحسين، ابومخنف، ج1، ص176۔
امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔ إِنَّ لِلْعَبَّاسِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى مَنْزِلَةً يَغْبِطُهُ‏ بِهَا جَمِيعُ الشُّهَدَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
خدا کے نزدیک روز قیامت جناب عباس علیہ السلام کی عظمت اسقدر عظیم ہوگی جس پر تمام شہداء رشک کریں گے۔
الأمالي( للصدوق)، ص463،المجلس السبعون؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏22،ص274۔
امام سجاد علیہ السلام نے واضح لفظوں میں تمام شہداء کہا ہے جسمیں سید الشہداء جناب حمزہ اور جناب جعفر طیار بھی شامل جیسی عظیم شخصیتیں بھی شامل ہیں جو آپ کی پروقار اور بلند و بالا شخصیت کے لئے ایک دلیل ہے۔ اس کے علاوہ امام سجاد(ع) نے اپنے عمل کے ذریعہ بھی علمدار کربلا  کا تعارف کرایا ہے۔ جب شہداء کی تدفین کے وقت امام حسین (ع) اور جناب عباس (ع) کی تدفین کا مسئلہ پیش آیا، کسی کو شریک نہ کیا اور فرمایا: ان معی من یعنینی  میرے ساتھ مدد کرنے والے افراد موجود ہیں۔
  قہرمان علقمہ، ص65 بحوالہ العباس۔
اس اختصارنامہ  میں آپ کے فضائل و کمالات  پر روشنی ڈالنے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا، بس چند مشہور خصوصیات کو بطور نمونہ پیش کرنا مقصود ہے:
شجاعت:
تہور اور جبن کے درمیانی صفت کو شجاعت کہتے ہیں، شجاعت اعتدال کی اس منزل کا نام ہے جہاں نہ افراط کا کچھ گذر ہے اور نہ ہی تفریط کی کوئی خبر، جہاں کہیں بھی اگر کسی والا مقام شخصیت کا تذکرہ ہوگا اسکی صفات میں ذکر شجاعت بھی برملا ہوگا اس لئے کہ انسان کی شخصیت تبھی سنور پاتی ہے جب اس میں حق و ناحق کی شناخت کے ساتھ ساتھ حق کو اپنانے اور باطل و ناحق کو دور کرنے کی قوت بھی موجود ہو، اور یہ انجام و گریز کی کیفیت شجاعت کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
حضرت علمدار کربلا کی ذات گرامی شجاعت کا ایک بہترین اور منفرد نمونہ ہے۔ جیسا کہ صاحب منتہی الآمال آپ (ع) کے نام مبارک ’’عباس کی وجہ تسمیہ میں فرماتے ہیں: عباس صیغہ مبالغہ ہے، آپ(ع) کو آپ کی منفرد شجاعت کی بنیاد پر عباس کہا گیا ہے۔
آپ نے دوسری فیوض کےساتھ شجاعت بھی اپنے والد گرامی حضرت علی مرتضی سے وراثت میں پائی تھی ، دوسری طرف مادر گرامی بھی اس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جنکے شہسوار دنیائے عرب میں اپنی شجاعت کا کلمہ پڑھواچکے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ کی شجاعت کی اچھی سے اچھی تربیت دینے والی شخصیت بھی حضرت امیر المومنین(ع) کی ذات تھی۔
جناب عباس کی شجاعت کا ایک نمونہ جنگ  صفین ہے، جہاں پر آپ نے میدان جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھاکر دشمن کیا امیرالمومنین کے اصحاب کو بھی متحیر کردیا تھا، جب معاویہ کے لشکر نے فرات پر قبضہ جماکر لشکر حیدر کرار کی کمر ہمت توڑنے کی بے سود کوشش کرڈالی تو امام حسین (ع) کی سربراہی میں نہرفرات کو آزاد کرالیا گیا، جناب عباس بھی اس حملہ میں امام حسین(ع) کے ساتھ موجود تھے۔ جنگ صفین میں ہی ایک مرتبہ آپ (ع) چہرے پر نقاب ڈال کر میدان جنگ میں آگئے اور مبارز طلب کرلیا، اگر چہ دشمن آپ(ع) کو پہچان نہ سکا لیکن آپ کی شجاعت اور ہیبت سے لرزہ بر اندام تھا، معاویہ نے ابو الشعشاء کو مقابلہ میں جانے کا حکم دیا۔ ابوالشعشاء کہنے لگا: شام کے لوگ مجھے دس ہزار سواروں کے برابر سمجھتے ہیں اور آپ مجھے ایک بچے کے مقابل بھیج رہے ہیں میرے سات فرزند ہیں کسی ایک کو بھیج کر اس کا  کام تمام کردونگا  اور اس نے ایک کے بعد ایک اپنے بیٹوں کو بھیجنا شروع کردیا اور نقاب پوش نے سب کو ٹھکانے لگانا، یہ دیکھ کر ابو الشعشاء کی نظروں میں دنیا تاریک ہوگئی تو خود ہی جناب عباس کے مدمقابل آکھڑاہوالیکن آپ(ع) نے اس کو بھی اس کے بیٹوں کے پاس پہونچا دیا ۔ اب کسی میں جرات نہ تھی جو میدان میں آتا، اصحاب امیرالمومنین بھی حیرت میں تھے کہ آخر یہ نقابدار ہے کون؟تبھی حضرت علی (ع) نے جناب عباس کو اپنے پاس بلاکر چہرے سے نقاب ہٹادی، لوگوں نے دیکھا کہ وہ نقابدار کوئی اور نہیں بلکہ حضرت عباس ہیں۔
چہرہ درخشان، حضرت ابوالفضل العباس، ج1، ص167۔
آپ کی شجاعت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ کربلا میں دشمن ہمیشہ مختلف حیلوں، بہانوں کے ذریعہ آپ (ع) کو امام حسین (ع) کے لشکر سے جدا کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا ، اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ جب تک عباس کے دم میں دم ہے لشکرمخالف کی پسپائی کا تصور بھی بیکار ہے، اسی سلسلہ میں شمر بھی رشتہ داری کو وسیلہ بناکر اپنے ناپاک عزائم کو امان نامہ کی شکل میں عملی جامہ پہنانے آگیا لیکن آپ نے دندان شکن جواب دیتے ہوئے الٹے منھ واپس کردیا: تَبَّتْ يَدَاكَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ أَ تَأْمُرُنَا أَنْ نَتْرُكَ سَيِّدَنَا وَ أَخَانَا وَ نَدْخُلَ‏ فِي‏ طَاعَةِ اللُّعَنَاء۔ اے دشمن خدا تیرے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور لعنت ہو تیرے لائے ہوئے امان نامہ پر، تو مجھے حکم دیتا ہے کہ اپنے بھائی اور آقا حسین علیہ السلام کو ساتھ چھوڑدوں اور لعینوں کی اطاعت کروں؟
مثير الأحزان، ص56؛ غم نامه كربلا / ترجمه اللهوف على قتلى الطفوف، ص112،رد شديد امان نامه شمر۔
وفاداری:
میدان کربلا وفاداری کی زندہ مثال ہے جہاں پر امام حسین (ع) کے تمام اصحاب ایمان کی دولت سے مالامال، خلوص دل سے ہمیشہ کے لئے حکم امام کے تابع تھے۔ اس طرح کہ شب عاشورکا یہ عالم تھا کہ ایک طرف حضرت عباس اپنے خیمہ میں اقرباء کو جنگ کی ترغیب دے رہے تھے تو دوسری جانب اصحاب حبیب ابن مظاہر کے پاس ہمہ تن گوش تشریف فرماتھے۔ وفاداری کے یہ چراغ اس طرح روشن ہوئے کہ دشمن کی طرف سے ظلم و ستم کی ہزارہا آندھیاں چلیں لیکن ان چراغوں کو بجھانہ سکیں ۔امام حسین (ع)  نےبھی  اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: فَإِنِّي‏ لَا أَعْلَمُ‏ أَصْحَاباً أَوْفَى‏ وَ لَا خَيْراً مِنْ أَصْحَابِي. میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفاشعار کسی کے اصحاب کو نہیں جانتا ۔
 الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،ج‏2، ص91؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص238۔
 لیکن لفظ وفا عباس سے اس طرح جڑ گیا کہ ادھر وفا کا تذکرہ ہوا ادھر نظروں میں عباس آجائیں۔اس لئے کہ کربلا میں نہ صرف آپ خود موجود تھے بلکہ اپنے تین بھائیوں کو بھی ساتھ لائے تھے اور ہمیشہ انہیں جنگ کی ترغیب کرتے رہتے تھے: يَا بَنِي‏ أُمِّي‏ تَقَدَّمُوا حَتَّى أَرَاكُمْ قَدْ نَصَحْتُمْ لِلَّهِ وَ لِرَسُولِه‏
 اے میرے بھائیو! آگے بڑھو تاکہ میں اللہ اور اس کے کے لئے تمہارے خلوص کو دیکھوں۔
الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد،ج‏2، ص109؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص248۔
آپ کی وفاداری کا یہ عالم تھا کہ جب آپ کا پرچم دربار یزید میں پہونچا، کسی جگہ سے سالم نہیں بچا تھا۔ یزید نے سوال کیا یہ پرچم کس کے ہاتھ میں تھا؟ جواب ملا: عباس بن علی کے ہاتھوں میں تویزید جیسا شقی بھی کہتا ہے: ھکذایکون وفاء الاخ لاخیہ۔ بھائی سے بھائی کی وفاداری اس طرح ہوتی ہے۔
 سوگنامہ آل محمد، اشتہاردی، ص300۔
جب آپ کو پانی لانے کی اجازت ملی اور آپ نہر فرات تک پہونچ گئے اس وقت تو وفاداری کی انتہا ہوگئی، نہایت تشنگی کے باوجود پانی سے منہ پھیر لیا، زباں پر جملہ تھا: و الله لا اذوق الماء و سیدی الحسین عطشانا . خدا کی قسم جبکہ میرا آقا حسین پیاسا ہے میں پانی نہیں پی سکتا۔
 سوگنامہ آل محمد(ص)، اشتہاردی، ص304؛
ایمان و معرفت:
حضرت عباس مظہر ایمان کامل اور یقین محکم ہیں، آپ کی زندگی دریائے معرفت کو سمیٹے ہوئے نظر آتی ہے،  محدث نوری کشکول شہید سے نقل کرتے ہیں کہ ایک روز علی مرتضی جناب عباس اور حضرت زینب (ع) کو پہلو میں بیٹھائے ہوئے تھے حضرت عباس نے بولنا شروع کردیا تھا علی (ع)نے عباس(ع) سے فرمایا: کہو ’’واحد‘‘ عباس (ع)نے واحد کہا پھر آپ (ع)نے عباس(ع) سے کہا: کہو ’’اثنین‘‘ لیکن عباس (ع) نے اس کلمہ کو نہ دہرایا اور کہا مجھے شرم آتی ہے کہ جس زباں سے خدا کو واحد کہاں ہے اسی زباں سے دو کہوں۔فرسان الہیجاء، ج1، ص191۔
آپ(ع) کے ایمان محکم کی تصدیق میں صادق آل محمد کا یہ جملہ کافی ہے: کان عمنا العباس نافذۃ البصیرۃ، صلب الایمان۔ ہمارے عم محترم عباس پختہ بصیرت اور مستحکم ایمان کے حامل تھے۔ یہ آپ(ع) کی معرفت اور محکم ایمان کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ ہمیشہ کے لئے سخت سے سخت دوران زندگی میں امام کی حمایت میں مصروف رہے اور ان کی اطاعت میں سر خم کئے رہے، آپ پر کسی کی بھی شیطنت کارگر نہ ہوسکی۔ ظاہر ہے جہاں پر ایمان مستحکم ہوتاہے، معرفت منزل عروج پرہوتی ہے وہاں پر اس طرح کی اطاعت اور اعمال کی تجلی دکھائی پڑتی ہے۔
آپ (ع)کے تاریخی رجز کو آپ(ع) کے مستحکم ایمان کی دلیل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جب آپکا داہنا بازو قلم ہوا تو آپ نے فرمایا:
 واللہ ان قطعتم یمینی
 انی احامی ابداعن دینی
و عن امام الصادق الیقین
 نجل النبی المصطفی الامین
خدا کی قسم اگر تم نے میرے داہنے ہاتھ کا قطع کردیا میں پھر بھی اپنے دین  اور یادگار پیغمبر اور اپنے رہبر حق کی حمایت کرتا رہوں گا۔
اور جب بایاں بازو بھی قلم ہوگیا تو اس طرح گویا ہوئے:
یانفس لاتخشی من الکفار
وابشری برحمۃ الجبار
مع النبی السید المختار
قد قطعوا ببغیھم یساری
فاصلھم یارب حرالنار
اے نفس کافروں سے خوف نہ کھا، تجھے خدائے جبار کی بشارت ہو نبی اکرم کے ساتھ، انہوں نے تیغ ظلم سے میرا بایاں بازو قلم کردیا، پروردگار انہیں دوزخ کی آگ کامزہ چکھائے۔
بحار الأنوار( ط- بيروت)، ج45، ص40
عزت نفس:
حضرت ابوالفضل (ع)نے میدان کربلا میں عزت نفس کے ذریعہ جاہ و منصب کو ٹھکرایا اور آخرت کو دار فانی پر ترجیح دی، نااہلوں کی اطاعت کو ٹھکراکر اللہ اور اس کے ولی کی اطاعت کو اپنا شعار بنایا ،امام کی حفاظت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے عزت نفس کی بہترین مثال پیش کیا
اگر آپ کو عزت نفس کا خیال نہ ہوتا تو آپ کربلا سے پہلے بھی اپنا راستہ بدل سکتے تھے، شب عاشور امام حسین(ع) کے بیعت اٹھا لینے پر جاسکتے تھے، شمر کا امان نامہ لانا یا اموی لشکر کہ جو ہمیشہ اپنے مخالف لشکر کے سرداروں کو لالچ کے ذریعہ جداکرتا رہا ہے یہاں بھی کارگر ثابت ہوجاتا اس طرح ممکن ہے آسایش فراہم ہوجاتی لیکن عزت نفس پائمال ہوجاتی۔ اور یہ چیزیں اس شخص سے محال ہیں جو ہر لحاظ سے پاک و پاکیزہ اور پورے عالم کے لئے نمونہ عمل ہو۔
صبروضبط:
صبر ایمان کے ارکان میں سے ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: الصبرراس الایمان، دوسری جگہ فرماتے ہیں الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الجسد۔۔۔
الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص87،باب الصبر .....

ایمان کے ساتھ صبر کو وہی مقام حاصل ہے جو سر کو بدن کے ساتھ، اگر سر نہیں ہوتا ہے تو انسان کا جسد بھی بیکار ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر ایمان کے ساتھ صبر نہ ہوتو ایمان ایمان نہیں رہ جاتا۔ جناب عباس کی خصوصیات میں سے ایک صبروضبط ہے۔ آپ کی شہرت خاص شجاعت اور غیض سے ہے اور کسی طاقتور سے شخص سے بعید ہوتا ہے کہ وہ ظلم دیکھتا رہے اور برداشت کرتا رہے، ظلم ہوتا رہے اور شجاعت بت بنی بیٹھی رہے، طاقتور شخص تو ایسے موقع کی تلاش میں ہوتا ہے کہ اسے کب شجاعت کے جوہر دکھانے کو ملے، کب زور بازو کے اظہار کا وقت آئے۔ لیکن شاید یہ استنباط صحیح نہ ہو، اس لئے کہ ہم طاقت اور شجاعت دونوں کو ایک سمجھ رہے ہیں، شجاعت کے لئے اگرچہ طاقت ضروری ہو لیکن صاحب قدرت کے پاس ضروری نہیں کہ شجاعت بھی ہو، لیکن شجاعت ایسی صفت ہے جہاں شجاعت ہوگی وہاں پر صبر بھی ہوگا اور جہاں صبر ملے گا شجاعت بھی ہوگی۔ اس لئے کہ صبر ہاتھ ہر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نام نہیں ہے بلکہ استقامت اور حق پر ثابت قدم رہنے کا نام ہے ، کربلا میں ظلم کی آندھیاں چلتی رہیں لیکن چہرہ ٔصبر عباس کو غبارآلود بھی نہ بنا سکیں، آپ نے ایسے جانگداز ماحول میں بھی اپنے آقا سے کچھ نہ کہا، باوفا اصحاب، اعزاو اقربا کو خون میں غلطاں دیکھتے رہے، العطش العطش کی صدائیں کانوں سے ٹکراتی رہیں، جگر ٹکڑے ٹکڑے ہورہاتھا، لیکن سر امام کی اطاعت میں خم تھا، یہاں پر صرف اور صرف امام برحق اور خدا کی رضا مدنظر تھی۔

منگل، 26 ستمبر، 2017

کشتہ گریہ

حضرت امام صادق علیہ السلام

عَنْ هَارُونَ بْنِ خَارِجَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: كُنَّا عِنْدَهُ فَذَكَرْنَا الْحُسَيْنَ ع‏ وَ عَلَى قَاتِلِهِ لَعْنَةُ اللَّهِ فَبَكَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ بَكَيْنَا قَالَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ قَالَ الْحُسَيْنُ ع أَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ لَا يَذْكُرُنِي‏ مُؤْمِنٌ‏ إِلَّا بَكَى‏

ہم  حضرت امام صادق علیہ السلام کی بارگاہ میں تھے ہم نے امام حسین علیہ السلام اور انکے قاتل لعنۃ اللہ علیہ کا ذکر کیا، حضرت ابو عبداللہ (ع)نے گریہ فرمایا اور ہم بھی روئے، پھر امام (ع) نے سر اٹھایا اور فرمایا: حضرت حسین(ع) نے فرمایا ہے: میں کشتہ گریہ ہوں، کوئی مومن مجھے یاد نہیں کریگا مگر یہ کہ آنسو بہائے گا۔

كامل الزيارات،ص 109، الباب السادس و الثلاثون