کربلا ہر انسان کی ضرورت
حضرت آیۃ اللہ جوادی آملی دامت برکاتہ
کوئی بھی یہ نہیں کہ سکتا کہ میں حضرت سید الشہدا (ع)کا غم
منانے سے بے نیاز ہوں، چاہے شیعہ ہو یا سنی، یہودی ہو یا عیسائی، زرتشتی ہو یا
مسلمان یا غیرمسلم؛ اس لئے کہ حضرت حسین
ابن علی (ع) نے اپنے قول و فعل، خطبوں اور خطوط کے ذریعہ مختلف دروس کو پیش کیا ہے۔
کچھ لوگوں سے کہا: اگر مسلمان نہیں ہو، حریت پسندبنو، حریت
پسند اور آزادی طلبی کا مطلب یہ ہے : نہ کسی پر قبضہ کی چاہت ہو اور نہ تم پر
کوئی غلبہ پاسکے، ’’ ان لم یکن لکم دین و کنتم لاتخافون المعاد فکونوا احرارا فی
دنیاکم‘‘ درس حریت اس بات کی علامت ہے کہ انسانیت کا پہلو ابھی بھی محفوظ ہے۔ اور
اگر کوئی خدا کو نہیں مانتا ، نہ ہی قیامت
پر اعتقاد رکھتا ہے لیکن حریت اور آزادی بشر کا تو اعتقاد رکھتا ہے اور کربلا
عالم بشریت کے لئے معلم درس حریت ہے۔
لہذا، کوئی بھی کربلا سے درس حاصل کرنے کے سلسلہ میں بے
نیاز نہیں ملے گا اور کوئی بھی عالم اور
دانشور عاشورا کی ہدایات سے مستغنی نہیں
ہوسکتا، یہاں تک کہ زاہد و عابد جو اللہ
کی راہ میں نکلاہے ، حکماء اور متکلمیں جو خدا کی راہ کو طے کرچکے ، عرفاء جو اس
راہ کی بلندی تک پہونچ گئے، یہ سب کے سب بھی پیغام حسینی کے حقیقی سننے والوں میں
سے ہیں۔
اس لئے کہ کربلا، جہاد اصغر کے مجاہدین کی بھی تربیت کرتی
ہے، جہاد اوسط کے عالمان اخلاق اور
مجاہدین متخلق کو بھی ہدایت دیتی ہے تو
فنا فی اللہ کے مقام فنا میں عرفاء کی پرورش کرتی ہے اور انہیں’’ محو قبل الصحو و
صحو بعد المحو‘‘کا درس دیتی ہے۔
عرفاء بھی جہاد اصغر کے اہم اور باعظمت جہاد یعنی جہاد
اکبرکے میدان میں اس بات کو اچھی طرح
سمجھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ عقل و عشق کے فیصلہ میں عشق کوعقل پر حاکم بنائیں،
اور اس وقت جبکہ کے فکر و شہود کے درمیان گھمسان کی جنگ ہو ان پر لازم ہےشہود کو
فکرپر برتر ی دیں اور عرفان و حکمت کی لڑائی میں میں عرفان کو حکمت پر مقدم جانیں۔
معرکہ کربلا، عالی مقام شہیدوں کے لئے جہاد اصغر نہیں تھا
کہ وہ اپنے وطن، زمین کے لئے جنگ کررہے
ہوں، اور جہاد اوسط بھی نہیں تھا کہ فقط تزکیہ روح کے لئے جنگ کریں ، وہ جہاد اصغر
اور اوسط کو پہلے ہی انجام دے چکے تھے۔
اور چونکہ جہاد اکبر کے بھی مراتب ہیں، وہ اس بارگاہ میں
پہونچ گئے جہاں پر مشہود شاہد عارف
کو فہم حکیم و مدلل پر حاوی کردیں، اس کے
بعد اصحاب خود کو اس عظیم بلندی پر پہونچادیں،
اگر کوئی خود ہی شاہد ہو، وہ امام شاہدین بھی ہو، اس لئے کہ قرآن انسان کو
علم و معرفت کسب کرنے کے بعد ہجرت کی دعوت دیتا ہے، تاکہ اسے امامت کے منصب سے شرفیاب کرے۔
شکوفایی عقل درپرتو نھضت حسینی، اسراء، ص83