علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 10 ستمبر، 2017

جینے کا سلیقہ🌹یعنی حسن معاشرت🌹



👈👈بدکردار اور بداخلاق لوگوں سے اجتناب کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمیشہ ان سے اظہار دشمنی کی جائے اور سخت رویہ اختیار کیا جائے کیونکہ سماجی زندگی میں ایسے لاتعداد موارد پیش آتے ہیں جب مومن کے لئے کسی کام کی غرض سے ایسے افراد سے ملاقات ضروری ہوجاتی ہے، لہذا ایسے مواقع پر اسے دیکھنا پڑتا ہے کہ لوگوں سے کیسا سلوک اختیارکیا جائے۔

🔹اسی سلسلہ میں امام باقر علیہ السلام نے اشارہ فرمایا ہے

📜صانِعِ الْمُنَافِقَ بِلِسَانِكَ وَ أَخْلِصْ‏ وُدَّكَ‏ لِلْمُؤْمِنِ‏ وَ إِنْ جَالَسَكَ يَهُودِيٌّ فَأَحْسِنْ مُجَالَسَتَه‏.

🗒منافق سے اپنی زبان کے ذریعہ مناسب طریقہ سے پیش آؤ  اور مومن کے لئے اپنی محبت کو خالص بناؤ اور اگر یہودی تمہارا ہمنشیں ہو تو اس  کے ساتھ اچھےاخلاق  کا مظاہرہ کرو۔

📚الزهد، ص22؛ الأمالي (للمفيد)،ص185؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)،ج‏71، ص162؛ مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل،ج‏8، ص316. (یہی روایت حضرت امام صادق علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے)

🌿کچھ مومنین امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں تھے، آپ نے ہمیشہ کی طرح انہیں وعظ و نصیحت سے نوازا؛ جس میں آپ نے تین پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو معاشرہ میں حسن سلوک کے لئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
۱۔ منافق جو کردار و زبان سے دورخا اور دورنگا ہوتا ہے جو کافر سے بدتر ہوتا ہے اس سے دوری اختیار کی جائے اور اس سے جب بھی ملاقات ہو، احتیاط کا دامن تھامتے ہوئے نرمی کا برتاؤ کیا جائے، کیونکہ ایسے لوگ بہت ہی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔
۲۔ مومنین اور صاحب تقوی سے اظہار محبت، ان کی مدد کرنا جس کی قرآن کریم اور سیرت اہل بیت علیہم السلام میں کافی تاکید کی گئی ہے۔
۳۔ غیرلوگوں سے ہمنشینی اور ملاقات میں بھی ہمیں چاہئے کہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کریں، جس سے ان کو ہدایت کا سبق مل سکے۔
📙ایک واقعہ:
🍀حضرت امام علی علیہ السلام  اپنی خلافت کے ایام میں کسی سفر سے کوفہ کی طرف واپس آرہے تھے۔ اسی راستے پر ایک یہودی (یا عیسائی) بھی تھا اور کوفہ کی طرف جارہا تھا، وہ امام کے پاس آیا اور کہنے لگا اے بندہ خدا! کہاں کا ارادہ رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کوفہ کا قصد ہے۔ دونوں نے ایک ساتھ سفر جاری رکھا یہاں تک کہ ایک دوراہے پر پہونچے جہاں سے ایک راستہ کوفہ کی سمت اور دوسرا کوفہ کے اطراف میں جارہا تھا، وہ اپنے راستے کی طرف مڑ گیا۔ اس شخص نے دیکھا کہ ان کا ہمسفر(حضرت علی علیہ السلام) بھی اسی کے راستہ پر چلا آرہا ہے۔ آپ سے پوچھا: کیا آپ نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو کوفہ جاناہے؟
امام نے جواب دیا : ہاں یہی کہا تھا۔
یہودی نے کہا: پھر آپ نے اپنا راستہ ترک کردیا، آپ نے فرمایا: جانتا ہوں۔ اس نے کہا: پھر کوفہ کے راستے پر کیوں نہیں گئے اور میرے ہمراہ چل رہے ہیں؛ جبکہ آپ کو کوفہ کا راستہ معلوم ہے؟ امام علی علیہ السلام نے فرمایا: یہ کام حسن رفاقت کو انجام کی منزل تک پہونچانے میں سے ہے۔ کہ انسان اپنے ہمسفر کو کچھ قدم ہمراہی اور مشایعت کے ساتھ رخصت کرے؛ کیونکہ میرے پیغمبر نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ یہودی نے کہا: کیا واقعا آپ کے رسول نے ایسا حکم دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ یہودی نے کہا: یعنی پھر جس نے بھی آپ کے پیغمبر کی پیروی کی ہے وہ ان جیسے بافضیلت اعمال اور اچھے اخلاق کی بنا ہر ہی ہے،(اسی وقت اس کے دل تک نور اسلام کی کرنیں پہونچ گئیں) کہا: میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں آپ کے دین پر ہوں۔
اس کے بعد حضرت امیر المومنین کے ساتھ کوفہ آیا، کوفہ میں اس نے آپ کو پہچانا اور سمجھا کہ آپ ہی امیرالمومنین ہیں، اس نے اسلام قبول کرلیا اور مسلمان ہوگیا۔

📚اصول کافی، ج 2، ص 670، ح 5؛ قرب‏الاسناد، ص 11 -10، ح 33.

جیسا کہ حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا ہے:
💫۔۔۔۔وَ رَأْسُ‏ الْعَقْلِ‏ مُعَاشَرَةُ النَّاسِ‏ بِالْجَمِيل‏۔

🍀لوگوں سے حسن معاشرت عاقل کی سب سے بڑی نشانی ہے۔🌷🌷

📚كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)،ج‏1، ص571؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)،ج‏75،ص111۔