بہترین ایثار بہترین تحفہ
ماہ ذی
الحجہ میں جہاں آیہ اکمال، مباہلہ، اور ولایت کے ذریعہ خدا نے حضرت امیرالمومنین اور
اہل بیت کرام(ع) کی فضیلتوں سے اہل عالم کو روشناس کرایا، 25 ذی الحجہ کو دنیا
نے عوج اخلاص و ایثار کا نظارہ کیا ، وہیں اس پر خدا کی جانب سے صاحبان ایثار و
اخلاص کے لئے سورہ دہرجیسا تحفہ بھی دیکھا۔
حضرت حسنین(ع) کا بیمار پڑنا
حضرت حسنین (ع)
بچپنے میں ایک روز بیمار ہوئے، پیغمبر اکرم(ص) اور بعض اصحاب عیادت کے لئے آئے، کسی
نے حضرت علی (ع) سے کہا:کاش آپ اپنے بچوں کے لئے نذر کرتے تاکہ خدا انہیں جلدی
شفا دیتا۔ امیرالمومنین(ع) نے فرمایا: میں نذرکرتا ہوں کہ اگر میرے بیٹے صحتیاب
ہوگئے تین دن روزہ رکھوں گا۔ حضرت زہرا(س)
اور دونوں بیٹوں نے اور آپ(ع) کی کنیز ’’جناب فضہ‘‘ نے بھی امام(ع) کی طرح نذر کی
۔ اورکچھ دنوں میں شہزادے صحتیاب ہوگئے، لہذا جن لوگوں نے نذر کی تھی روزہ رکھنا
شروع کیا۔
روزے کی شان
جب پہلے دن
روزہ رکھا گیا، حضرت امیرالمومنین(ع) نے دیکھا گھر میں افطار کے لئے کچھ نہیں،
لہذا اپنے ایک یہودی پڑوسی ’’شمعون‘‘ کے پاس گئے جس کا مشغلہ اون کاتنا تھا، اور اس سے کہا: کچھ اون ہمیں دےدو
تاکہ میری زوجہ اس کو کاتے اور اس کے بدلے تم ہمیں جو دے دو۔ اس نے قبول کرلیا۔
حضرت امیر(ع)
اون حضرت زہرا(س) کے پاس لائے ، آپ خوش ہوگئیں
اور ایک تہائی اون درست کیا ، اس کے بعد کچھ جو پیسا اور پانچ روٹیاں تیار
کیں ۔
مغرب کے وقت
امام(ع) نے مسجد النبی(ص) میں نماز ادا کی اور گھر تشریف لائے، افطار کا دسترخوان لگا ہوا تھا اور
سب دسترخوان کے پاس تشریف فرماہوئے۔
جیسے ہی
امام(ع) نے پہلا لقمہ اٹھایا کسی مسکین نے
دق الباب کیا اور کہا: اے اہل بیت محمد(ص)، آپ پر سلام ہو، میں مسلمانوں میں سے
ایک مسکین آدمی ہوں ، بھوکا ہوں ؛ جو آپ تناول فرمارہے ہیں اس میں سے ہمیں بھی
عطا کریں تاکہ خدا اس کے عوض جنت کے کھانے سے نوازے۔ امام(ع) نے اس کی آواز سنی ،
لقمہ رکھ دیا اور کچھ اشعار پڑھتے ہوئے حضرت فاطمہ(س) سے کہا کہ کھانا اسے دے دیں۔
حضرت زہرا(س) نے بھی قبول فرمایا اور ساری روٹیاں اسے دے دیں اور سب نے پانی سے
افطار کیا اور اسی حالت میں دوسرے دن کا روزہ رکھا۔
دوسرے دن
بھی حضرت زہرا(س) نے ایک تہائی اون کاتا اور کچھ مقدار میں جو پیسا اورروٹیاں تیار
کیں۔ جب امیرالمومنین(ع) مسجد سے تشریف لائے ، سب لوگ دسترخوان پر بیٹھے، جیسے ہی
پہلا لقمہ اٹھایا ایک یتیم نے دق الباب کیا اور کہا: اے اہل بیت رسول(ص)! آپ پر
سلام ہو، میں مسلمان یتیموں میں سے ایک یتیم ہوں، بھوکا ہوں؛ اپنے کھانے میں سے
مجھے بھی عطا کیجئے خدا اس کے بدلے جنت کا کھانا عطا کرے۔ انہوں نےپہلے کی طرح
ساری روٹیاں اس کے حوالے کردیں اور پانی کے ذریعہ افطار فرمایا اور دوسرے دن کا
روزہ رکھ لیا۔
تیسرے دن
بھی حضرت زہرا(س) نے باقی اون کاتا اور جو پیسا ، اس کی روٹیاں تیار کیں اور دونوں دنوں کی طرح افطارکے دسترخوان پر جمع
ہوئے، جیسے ہی پہلا لقمہ اٹھایا مشرکوں میں سے ایک اسیر نے دروازہ کھٹکھٹایا اور
بھیک مانگی۔ انہوں نے پھر ساری روٹیاں اس کو دے دیں۔
جب صبح ہوئی
تو امام(ع) اپنے شہزادوں کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ دونوں شہزادے بھوک سے لرز رہے تھے، رسول
اکرم(ص) بہت غمگین ہوئے اور ساتھ میں حضرت امیرالمومنین(ع) کے گھر آئے، دیکھتے
ہیں کہ حضرت زہرا(س) اپنی محراب عبادت میں ہیں لیکن بھوک سے پیٹ پیٹھ سے ملا ہوا
ہے اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں، تبھی حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور انکی شان میں
سورہ ’’ہل اتی‘‘ لیکر آئے ۔
يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ
مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً (8) إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا
نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُوراً (9)
(8) یہ اس کی محبت میں مسکین یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے
ہیں (9) ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے
ہیں نہ شکریہ (10) ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ
جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی (11) تو خدا نے انہیں اس دن کی سختی سے بچالیا
اور تازگی اور سرور عطا کردیا(12) اور انہیں ان کے صبر کے عوض جنّت اور حریر جنّت عطا
کرے گا (13) جہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے نہ آفتاب کی گرمی دیکھیں گے
اور نہ سردی.
امالی (صدوق)، ص329-330؛ مناقب آل ابی طالب، ج3، ص147-149؛
بحارالانوار، ج35، ص237-241۔
نزول سورہ دہر اور چند اسباق
جیسا کہ
معلوم ہے سورہ دہر اہل بیت کرام(ع) کے واقعہ اور انکے اخلاص عمل پر ان کی شان میں
نازل ہوا۔ خود واقعہ اور مزید سورہ دہر سے دنیا و عقبیٰ کے لئے بہت سے دروس اخد
کئے جاسکتیں ہیں ہم یہاں پر چند نکتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔
1۔ اہل بیت (ع) نے اطعام کیا جبکہ وہ بھوکے تھے، اور جس چیز
کی ضرورت ہو اور قربان کردیا جائے تو اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
2۔ آیت کے نزول
اور اس میں اطعام کی کیفیت کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عمل
قابل قبول ہوتا ہے جس کی بنیاد اخلاص پر ہو۔
3۔ نیک افراد نہ
فقط یہ کہ خلوص دل سے عمل انجام دیتے ہیں بلکہ
اس پر سامنے والے سے شکریہ کی امید
بھی دل میں نہیں لاتے، ان کامعاملہ فقط خدا سے ہوتا ہے۔
4۔ اگر نذر کی ہے اس انجام دینا واجب ہے۔
5۔ ہمارا جو بھی عمل ہو اس میں صرف خدا سے ڈریں ، لوگوں سے ڈرنے سے کیا فائدہ۔
6۔ اہل بیت (ع) نے
اطعام کرکے بتایا کہ جو بھی ہمارے پاس ہے اگر کسی دوسرے کو بھی ان چیزوں کی ضرورت
ہو تو حتی الامکان اس کی مدد کرنا چاہئے اور یہ اہل بیت(ع) کی پیروی کہلائے گی۔
7۔ اس واقعہ سے یہ بھی سبق ملتا ہے کہ جب سخت گھڑی آئے تو
خدا سے لو لگانا چاہئے ۔
8۔ امام علی علیہ السلام جو نذر کی وہ روزہ کی تھی، روزہ
ایسی عبادت کا نام ہے جسمیں نفس پر قابورکھنا پڑتا ہے اور اس میں خدا سے خلوص
جھلکتا ہے، ہمیں بھی اگر زندگی میں کوئی مہم پیش آئے تو روزہ جیسی عبادت کی نذر
کریں۔