#قرآن میں تناقض پر مفصل کتاب
#امام_عسکری (ع) کا چھوٹا سا جواب
✍🏻عراق کے فیلسوف عصر، اسحاق كِندى، نے ارادہ کیا قرآن میں موجود تناقضات کو جمع کرے، اسی غرض سے گھر میں بیٹھ گیا اور پوری محنت سے اس کام میں مشغول ہوگیا۔
🔸ایک دن اس کے چند شاگرد امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں آئے۔ امام (ع) نے ان سے فرمایا:
🔸« کیا تم میں سے کوئی اتنا قابل شخص نہیں جو اپنے استاد کندی کو اس کام سے روک سکے؟»
▪️شاگرد نے عرض کیا: ہم ان کے شاگرد ہیں، ہم سے کیسے ہوسکتا ہے اس میں یا کسی دوسرے مسئلہ میں ان پر اعتراض کریں؟
🔸امام عسكرى عليه السلام نے فرمایا: « کیا جو میں کہوں تم اسے انجام دے سکتے ہو؟ » عرض کیا: جی ہاں.
🔸آپ(ع) نے فرمایا:
« اس کے پاس جاؤ اور اس سے قربت اختیار کرو اور اس طرح سے پیش آؤ جیسے تم اس کے کام میں مدد کرنا چاہتے ہو۔ جب اس سے اچھی طرح گھل مل جاؤ، کہو: میرے ذہن میں ایک سوال ہے دل چاہتا ہے آپ سے پوچھ لوں۔ وہ کہے گا: ہاں پوچھو۔ اس سے کہنا: اگر قرآن کا نازل کرنے والا آپ کے پاس آئے، کیا یہ ممکن ہے کہ اس کے کہنے والے کا مقصد کوئی دوسرا معنی ہو جسے آپ نے سمجھا ہے؟ وہ کہے گا: ہاں ممکن ہے کیوں کہ سمجھدار آدمی ہے۔
تو جیسے ہی یہ جواب دے، اس سے کہنا: آپ کیا جانتے ہیں؟ شاید کہنے والے نے جو آپ نے سمجھا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا معنی مراد لیا ہو۔»
🔹وہ کندی کے پاس گیا اور اچھے سے پیش آنے لگا اور پھر یہ سوال کردیا.
كِندى نے کہا:
▫️- دوبارہ سوال کرو۔ اس نے دوبارہ سوال کیا۔ کندی سے فکر کرنا شروع کیا۔ لغت کے اعتبار سے بھی ممکن پایا اور عقلی لحاظ سے بھی جائز دیکھا۔ اپنے شاگرد سے کہا:
▫️- تجھے قسم دیتا ہوں بتا یہ سوال کہاں سے لایا ہے؟
🔹شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی ذہن میں آگیا لہذا آپ(ع) سے پوچھ لیا۔ كِندى نے کہا:
▫️- ہرگز نہیں، ایسا سوال تم جیسوں کے ذہن میں نہیں آسکتا، اور نہ ایسی عظمت کو چھو سکتا ہے۔ بتاؤ یہ سوال کس سے لائے ہو؟
🔹شاگرد نے کہا: ابو محمد نے فرمایا تھا کہ اس سوال کو آپ سے پوچھوں۔ کندی نے کہا: اب سچ بولے ہو،
🔶ایسا نکتہ اس گھر کے علاوہ کسی اور خاندان سے نہیں نکل سکتا۔ پھر اس نے آگ منگائی، جو چیزیں اس نے تالیف کی تھیں سب کو جلا کر راکھ کردیا۔
📚المناقب لابن شهرآشوب ج ۴ ص ۴۲۴
🔳🔳🔳🔳🔳