علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 26 نومبر، 2017

قرآن میں تناقض اور اسحاق کندی

#قرآن میں تناقض پر مفصل کتاب

#امام_عسکری (ع) کا چھوٹا سا جواب

✍🏻عراق کے فیلسوف عصر، اسحاق كِندى، نے ارادہ کیا قرآن میں موجود تناقضات کو جمع کرے، اسی غرض سے گھر میں بیٹھ گیا اور پوری محنت سے اس کام میں مشغول ہوگیا۔

🔸ایک دن اس کے چند شاگرد امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں آئے۔ امام (ع) نے ان سے فرمایا:

🔸« کیا تم میں سے کوئی اتنا قابل شخص نہیں جو اپنے استاد کندی کو اس کام سے روک سکے؟»

▪️شاگرد نے عرض کیا: ہم ان کے شاگرد ہیں، ہم سے کیسے ہوسکتا ہے اس میں یا کسی دوسرے مسئلہ میں ان پر اعتراض کریں؟

🔸امام عسكرى عليه السلام نے فرمایا: « کیا جو میں کہوں تم اسے انجام دے سکتے ہو؟ » عرض کیا: جی ہاں. 

🔸آپ(ع) نے فرمایا: 
« اس کے پاس جاؤ اور اس سے قربت اختیار کرو اور اس طرح سے پیش آؤ جیسے تم اس کے کام میں مدد کرنا چاہتے ہو۔ جب اس سے اچھی طرح گھل مل جاؤ، کہو: میرے ذہن میں ایک سوال ہے دل چاہتا ہے آپ سے پوچھ لوں۔ وہ کہے گا: ہاں پوچھو۔ اس سے کہنا: اگر قرآن کا نازل کرنے والا آپ کے پاس آئے، کیا یہ ممکن ہے کہ اس کے کہنے والے کا مقصد کوئی دوسرا معنی ہو جسے آپ نے سمجھا ہے؟ وہ کہے گا: ہاں ممکن ہے کیوں کہ سمجھدار آدمی ہے۔ 
تو جیسے ہی یہ جواب دے، اس سے کہنا: آپ کیا جانتے ہیں؟ شاید کہنے والے نے جو آپ نے سمجھا ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا معنی مراد لیا ہو۔»

🔹وہ کندی کے پاس گیا اور اچھے سے پیش آنے لگا اور پھر یہ سوال کردیا. 
كِندى نے کہا:

▫️- دوبارہ سوال کرو۔ اس نے دوبارہ سوال کیا۔ کندی سے فکر کرنا شروع کیا۔ لغت کے اعتبار سے بھی ممکن پایا اور عقلی لحاظ سے بھی جائز دیکھا۔ اپنے شاگرد سے کہا: 

▫️- تجھے قسم دیتا ہوں بتا یہ سوال کہاں سے لایا ہے؟ 

🔹شاگرد نے کہا: بس ایسے ہی ذہن میں آگیا لہذا آپ(ع) سے پوچھ لیا۔ كِندى نے کہا:

▫️- ہرگز نہیں،  ایسا سوال تم جیسوں کے ذہن میں نہیں آسکتا، اور نہ ایسی عظمت کو چھو سکتا ہے۔ بتاؤ یہ سوال کس سے لائے ہو؟

🔹شاگرد نے کہا: ابو محمد نے فرمایا تھا کہ اس سوال کو آپ سے پوچھوں۔ کندی نے کہا: اب سچ بولے ہو،

🔶ایسا نکتہ اس گھر کے علاوہ کسی اور خاندان سے نہیں نکل سکتا۔ پھر اس نے  آگ منگائی، جو چیزیں اس نے تالیف کی تھیں سب کو جلا کر راکھ کردیا۔

📚المناقب لابن شهرآشوب ج ۴ ص ۴۲۴
🔳🔳🔳🔳🔳

شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام

🏴

🔘 ۸ ربيع الاول #امام_حسن_عسکری_علیه_السلام  کی شہادت (۲۶۰ ق)

▪️ ۱۰ ربیع الثانی ۲۳۲ھ میں سلسلہ امامت کا گیارہواں وارث پیغمبر(ص) اس دار دنیا میں تشریف فرما ہوا اور مدینہ کی سرزمیں نور جمال امامت سے منور ہوگئی۔ 

▪️اسم گرامی حسن قرار پایا اور القاب زکی، عسکری اور ابن الرضا قرار پائے، کنیت ابومحمد تھی، اور مادر گرامی کا نام حدیثہ یا سلیل تھا۔ جن کے بارے میں امام علی نقی (ع) نے فرمایا کہ وہ جملہ عیوب و نقائص سے مبرا اور پاک و پاکیزہ خاتون ہیں۔

▪️لقب عسکری کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ کے محلہ کا نام عسکر تھا جہاں سامرہ میں آپ کا قیام تھا، اور شاید اسے عسکر اسی بنا پر کہا جاتا تھا کہ وہاں باشاہ وقت نے فوجی چھاؤنی بنا رکھی تھی، یا اس مقام پر متوکل نے اپنی فوجوں کی نمائش کی تھی جس کے ذریعہ امام علی نقی (ع) کو مرعوب کرنا چاہا تھا لیکن جب آپ نے آسمانی فوجوں کا مشاہدہ کرادیا تو وہ بیہوش ہوکر گرپڑا۔

📚علامہ جوادی، نقوش عصمت، ص۵۹۴۔

▪️جب معتمد عباسی کو لگا کہ لوگ امام کو دل سے چاہتے ہیں اور آپ(ع) کو زندان میں رکھنے سے آپ(ع) کی محبت کو دلوں سے ختم نہیں کیا جاسکتا، تو اپنی حکومت پر خطرہ منڈراتا ہوا محسوس کرنے لگا، لہذا کوشش کی نور امامت کو بجھادیا جائے یہاں تک کہ آپ(ع) کو مسموم کردیا، اور لوگوں کو خاموش رکھنے اور آپ کے شیعوں اور چاہنے والوں کے ذہنوں کو اصل ماجرا سے بھٹکانے کی غرض سے ایک چال چلی اور طبیبوں کا ایک گروہ آپ کے دولتکدہ کی طرف روانہ کردیا اور خود بھی عیادت کے لئے آتا جاتا رہا، لیکن زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور ۸ دن تک بستر بیماری پر رہنے کے بعد امام عسکری (ع) نے  ۸/ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کو جام شہادت نوش فرمالیا۔

▪️تاریخ کے جملے

جس وقت امام عسکری علیہ السلام کی بیماری مشہور ہوگئی، اور خلیفہ "معتمد" کے کانوں تک پہونچی، حکم دیا: حکومت کا وزیر "عبید اللہ خاقان" اپنے ساتھیوں کے ساتھ امام کے گھر کی طرف جائے اور امام کو تحت نظر رکھے؛  اس کے علاوہ چند طبیبوں کو حکم دیا کہ امام(ع) کے حالات کی مسلسل خبر دیتے رہیں، اور پوری طرح سے گھر کے حالات پر نظر رکھیں، ابھی دو دن نہیں ہوئے تھے کہ خبر عام ہوگئی کہ امام کی حالت مزید خراب ہورہی ہے، ڈاکٹروں کو حکم ہوا کوئی امام کے گھر کو کوئی نہیں چھوڑے گا اور شہر کے قاضی القضاۃ سے کہا گیا کہ دس قاضیوں کے ساتھ امام عسکری(ع) کے گھر جائیں اور شب و روز وہیں پر رہیں۔ جب امام کی شہادت ہوئی شہر سامرا غم میں ڈوب گیا، بازار بند ہو گئے اور تمام لوگوں نے امام کا سوگ منایا، نماز جنازہ کے لئے عیسی بن متوکل کھڑا ہوا اس نے چہرے سے کفن ہٹایا اور بنی ہاشم کو دکھایا تاکہ مطمئن کرسکے کہ امام کی وفات معمولی طور ہوئی ہے۔۔۔

▪️اکثر مورخوں کی تحریر سے واضح ہوجاتا ہے کہ امام(ع) کو حکومت کے کارندوں نے ہی زہر دیا ہے اور لوگ بھی اس کی طرف متوجہ تھے اسی بات نے حکومت کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا تھا اسی لئے اسے ذہنوں کو موڑنے کے لئے مختلف طرح کے انتظامات پر مجبور کردیا۔

📚زندگانی امام حسن عسکری ( علیه السلام ) - باقر شریف قرشی
🏴🏴🏴🏴🏴


💠قالَ الإمامُ الْحَسَنِ الْعَسْكَري  عليه السلام  : 

ما أقْبَحَ بِالْمُؤْمِنِ أنْ تَكُونَ لَهُ رَغْبَةٌ تُذِلُّهُ. 

امام حسن عسكری عليه السلام  فرماتے ہیں: 

مومن کے لئے کتنا برا ہے کہ ایسی چیز کی آرزو رکھتا ہو جو اس کی ذلت و خواری کا سبب بنے

📚[تحف العقول، ص 498] البتہ دوسری کتابوں میں امام صادق (ع) سے منسوب ہے۔

✍🏼مفضل  کہتے ہیں :

دَخَلْتُ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) فَشَكَوْتُ‏ إِلَيْهِ‏ بَعْضَ‏ حَالِي‏ وَ سَأَلْتُهُ الدُّعَاءَ، فَقَالَ يَا جَارِيَةُ هَاتِي الْكِيسَ الَّذِي وَصَلَنَا بِهِ أَبُو جَعْفَرٍ! فَجَاءَتْ بِكِيسٍ، فَقَالَ هَذَا كِيسٌ فِيهِ أَرْبَعُمِائَةِ دِينَارٍ فَاسْتَعِنْ بِهِ، قَالَ قُلْتُ لَا وَ اللَّهِ جُعِلْتُ فِدَاكَ مَا أَرَدْتُ هَذَا وَ لَكِنْ أَرَدْتُ الدُّعَاءَ لِي، فَقَالَ لِي وَ لَا أَدَعُ الدُّعَاءَ وَ لَكِنْ لَا تُخْبِرِ النَّاسَ بِكُلِّ مَا أَنْتَ فِيهِ فَتَهُونَ عَلَيْهِمْ.

امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی زندگی کی مشکلات کا شکوہ کیا اور دعا کی گزارش کی۔
امام عليه السلام نے کنیز کو ایک تھیلی لانے حکم دیا تو وہ تھیلی لے آئی آپ نے فرمایا: اس میں ۴۰۰ دینار ہیں اس سے خرچ چلا لو۔ 
عرض کیا: آپ پر قربان جاؤں! میرا یہ مقصود نہیں تھا تمنا کی تھی کہ آپ میرے حق میں دعا کردیجئے! 
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: ٹھیک ہے دعا بھی کرونگا۔
اور فرمایا:
▪️لیکن اپنے تمام حالات کو لوگوں کے سامنے بیان کرنے سے پرہیز کرو، اور اگر ایسا کروگے تو لوگوں کی نظروں سے گر جاؤگے۔ (لہذا رسوائی اور ذلت سے بچنا ہے، تو اپنی دل کی باتوں کو ہر کسی سے بیان نہ کرنا)

📚رجال الكشي - إختيار معرفة الرجال، ص184، في مفضل بن قيس بن رمانة ..... 

👈🏼👈🏼کسی کو حق حاصل نہیں ہے کہ خود کو ذلیل و خوار کرے، یا کسی دوسرے کی تحقیر کرے۔

🏴🏴🏴🏴🏴

فائدہ مند علم

#علم

🌷جو ہر انسان کے لئے ضروری ہے🌷

👈🏼حضرت امام صادق علیہ السلام

📗عنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ (عَلَيْهِمَا السَّلَامُ) قَالَ: وَجَدْتُ عِلْمَ النَّاسِ كُلِّهِمِّ فِي أَرْبَعٍ: أَوَّلُهَا أَنْ تَعْرِفَ رَبَّكَ، وَ الثَّانِيَةُ أَنْ تَعْرِفَ مَا صَنَعَ بِكَ، وَ الثَّالِثَةُ أَنْ تَعْرِفَ مَا أَرَادَ مِنْكَ، وَ الرَّابِعَةُ أَنْ تَعْرِفَ مَا يُخْرِجُكَ مِنْ دِينِك‏

✍🏼میں نے علم کو چار چیزوں میں پایا:

1️⃣ اپنے رب کو پہچانو۔

2️⃣ تمہیں معلوم ہو کہ اس نے تمہارے لئے کیا انجام دیا ہے۔

3️⃣تمہیں معلوم ہو کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے۔

4️⃣تمہیں معلوم ہو کہ کون سی چیز تمہیں دین سے خارج کردیگی۔

📚الأمالي (للطوسي)، ص651، [34] مجلس يوم الجمعة السادس عشر من رجب سنة سبع و خمسين و أربعمائة

👈🏼یعنی:

⭕️ ہمارا رب کون؟

⭕️⭕️ ہم کون ہیں؟

⭕️⭕️⭕️ ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟

⭕️⭕️⭕️⭕️ ہمارے دشمن کون ہیں؟
🌾🌾🌾🌾🌾

شب ہجرت

#شب_ہجرت

✍🏼یکم ربیع ‏الاول بعثت کے تیرہویں سال پیغمبر اکرم (ص) نے مکہ سے ہجرت فرمائی اور حضرت علی(ع) رسول اکرم(ص) کے بستر پر سوئے جسے «لیلة المبیت» کہا جاتا ہے۔

ماہ صفر کے آخری ایام میں قریش کے سردار دارالندوہ میں جمع ہوئے تاکہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرسکیں جس کے ذریعہ رسول اکرم (ص) کے ساتھ صدائے توحید کو بھی ہمیشہ ہمشہ کے لئے خاموش کردیا جائے، جیسا کہ قرآں مجید میں بھی آیا ہے: 

📗«وَ اًّذ یَمكُرُ بِكَ الَّذیِنَ كَفَرُوا لِیُثبِتوكَ اَوْ یَقتُلوكَ أَو یُخْرِجُوكَ وَ یَمكُروُنَ وَ یَمكُرُ الله وَ الله خَیرُ المَاكِرینَ

 اور پیغمبرآپ اس وقت کو یاد کریں جب کفار تدبیریں کرتے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا شہر بدر کردیں یا قتل کردیں اور ان کی تدبیروں کے ساتھ خدا بھی اس کے خلاف انتظام کررہا تھا اور وہ بہترین انتظام کرنے والا ہے.

📚انفال/30

۔۔۔۔۔۔۔آخر کار قریش نے طے کیا کہ ہر قبیلہ سے ایک آدمی کا انتخاب ہو اور سب مل کر رسول اکرم (ص) کے گھر پر حملہ کریں، اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں۔ اس طرح سے ان کے دین سے بھی پناہ مل جائے گی اور ان کا خون کسی ایک  کی گردن پر نہیں ہوگا  تاکہ بنی ہاشم انتقام نہ لے سکیں۔ فرشتہ وحی نے پیغمبر اکرم(ص) کو مشرکوں کے اس ناپاک منصوبہ آگاہ کیا اور خدا کا حکم پہونچایا کہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں۔ پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی (ع) کو اس نقشہ سے  آگاہ کیا اور کہا: آج کی شب میرے بستر پر سو رہو اور میری سبز چادر اوڑھ لو تاکہ وہ سمجھیں کہ میں گھر پر ہی ہوں اور بستر پر سو رہا ہوں اور وہ ہمارا پیچھا نہ کرسکیں۔ اس کے بعد رسول اکرم(ص) غارثور کی جانب نکل پڑے اور خدا سے دعا کی کہ دشمن ان تک نہ پہونچنے پائے۔۔۔۔۔۔۔۔

📚لباب التأويل فى معانى التنزيل‏، بغدادی، ج2، ص307؛ التفسير المبين‏، مغنیہ، ج1، ص231؛ حجة التفاسير و بلاغ الإكسير، بلاغی، ج3، ص38؛ إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - القديمة)، ص480. 

اور امام علی علیہ السلام پورے اطمینان کے ساتھ بستر پر سو گئے، خدا نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے اس کام پر فرشتوں کے سامنے مباہات کیا اور جب رسول اکرم(ص) مدینہ کی جابت سفر کررہے تھے امام(ع) کی شان میں آیت نازل کی:

📗«وَ مِنَ النّاسِ مَن یشری نَفسَهُ ابتِغأَ مَرضاتِ الله و الله رَئوفٌ بالعباد[بقره/207]

اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں اور اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے.

📚تفسير نمونه‏، ج2، ص77؛ تفسير نور الثقلين‏، ج1، ص204؛ الجامع لأحكام القرآن‏، ج3، ص30؛ احیاءالعلوم، ج3، ص 378؛ تذكرہ الخواص، ص35؛ شواهد التنزیل، ج1، ص 123۔

✍🏼نکتہ

💎تلواروں کی چھاؤں جہاں بڑے بڑے لرزہ براندام ہوجایا کرتے ہیں وہاں پر امام علی (ع) کا کمال یقین یہ ہے کہ آرام سے بستر پر سو گئے۔ 

💎ایثار میں آپ (ع) کا ثانی نہیں۔

💎 آپ(ع) حکم رسول و خدا کے سامنے مطیع محض تھے۔

💎 اپنے وقت کے رہبر دیں نبی اکرم(ص) سے آپ کی الفت و محبت بیان نہیں کی جاسکتی۔

💎 اس سے یہ بھی درس ملتا ہے کہ جب دین پر وقت پڑے تو بے نظیر ہستیاں یہاں تک کہ حضرت علی(ع) جیسی گرامی ذات بھی فدا ہوجائیں جس کی ایک مثال کربلا ہے۔
🔸🔸🔸🔸🔸

اسوۃ حسنۃ

#اسوہ_حسنہ 

☀️سیرت رسول(ص) وصی رسول(ع) کی زبانی☀️

✍🏼حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:

❣️ كانَ دائِمَ البِشرِ، سَهلَ الخُلُقِ، لَيِّنَ الجانِبِ، لَيسَ بِفَظٍّ، ولا غَليظٍ، ولا صَخّابٍ ، ولا فَحّاشٍ، ولا عَيّابٍ، ولا مَدّاحٍ. 

رسول اکرم (ص) ہمیشہ خندہ رو، خوش اخلاق، مہربان اور نرم خو تھے ، نہ ہی سخت دل تھے نہ ہی بدمزاج، اور نہ چیخنے چلانے  والے تھے اور نہ ہی گالی بکنے والے، نہ عیبجو  تھے اور نہ ہی تعریفوں کے پل باندھنے والے۔

📚معاني الأخبار ،ص83، باب معاني ألفاظ وردت في صفة النبي ص 

❣️كانَ ع أَشْفَقَ‏ النَّاسِ‏ عَلَى‏ النَّاسِ‏ وَ أَرْأَفَ النَّاسِ بِالنَّاس‏

پيغمبر صلى اللہ علیہ و آلہ لوگوں پر سب سے زیادہ شفیق اور سب سے زیادہ مہربان تھے۔

📚الخصال، ج‏2، ص599، باب الواحد إلى المائة؛ إرشاد القلوب إلى الصواب (للديلمي)، ج‏2، ص319، في جوابه ع عن مسائل اليهوديين.

❣️ و هُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ أَجْوَدَ النَّاسِ كَفّاً وَ أَجْرَأَ النَّاسِ صَدْراً وَ أَصْدَقَ النَّاسِ لَهْجَةً وَ أَوْفَى‏ النَّاسِ‏ ذِمَّةً وَ أَلْيَنَهُمْ عَرِيكَةً وَ أَكْرَمَهُمْ عِشْرَة

اور وہ خاتم النبیین، سخاوت کے لحاظ سے سب سے زیادہ بخشنے والے، قلب کے لحاظ سب سے زیادہ جرأتمند، زبان کے اعتبار سے سب سے زیادہ سچے، عہد و پیمان میں وفادارترین، اخلاق میں سب زیادہ خوش مزاج، گھرانے کے لحاظ سے سب سے  زیادہ کریم و بزرگ تھے۔ 

📚الغارات (ط - القديمة)، ج‏1،ص 98، خطبة لأمير المؤمنين علي ع؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏16، ص194، باب 8 أوصافه ص في خلقته و شمائله و خاتم النبوة۔

❣️كانَ اِذا اَوى اِلى مَنْزِلِهِ جَزَّءَ دُخُولَهُ ثَلاثَةَ اَجْزاءَ: جُزْءا لِلّهِ عَزَّوَجَلَّ،وَ جُزْءا لِأَهْلِهِ وَجُزْءا لِنَفْسِهِ.

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب گھر تشریف لاتے تھے اپنے وقت کو تین حصوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ۱۔ ایک حصہ اللہ تعالی کے لئے ۲۔ ایک حصہ گھر والوں کے لئے۔ ۳۔ ایک حصہ اپنے کاموں کے لئے۔

📚مكارم الاخلاق، ص 13۔
💎💎💎💎💎

ایک مثال اچھے اخلاق کی

#اخلاق_حسنی

✔️امام حسن علیہ السلام اور مرد شامی

📗أنَ‏ شَامِيّاً رَآهُ‏ رَاكِباً فَجَعَلَ‏ يَلْعَنُهُ‏ وَ الْحَسَنُ‏ لَا يَرُدُّ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ الْحَسَنُ ع فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَ ضَحِكَ فَقَالَ أَيُّهَا الشَّيْخُ أَظُنُّكَ غَرِيباً وَ لَعَلَّكَ شَبَّهْتَ فَلَوِ اسْتَعْتَبْتَنَا أَعْتَبْنَاكَ وَ لَوْ سَأَلْتَنَا أَعْطَيْنَاكَ وَ لَوِ اسْتَرْشَدْتَنَا أَرْشَدْنَاكَ وَ لَوِ اسْتَحْمَلْتَنَا أَحْمَلْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ جَائِعاً أَشْبَعْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ عُرْيَاناً كَسَوْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ مُحْتَاجاً أَغْنَيْنَاكَ وَ إِنْ كُنْتَ طَرِيداً آوَيْنَاكَ وَ إِنْ كَانَ لَكَ حَاجَةٌ قَضَيْنَاهَا لَكَ فَلَوْ حَرَّكْتَ رَحْلَكَ إِلَيْنَا وَ كُنْتَ ضَيْفَنَا إِلَى وَقْتِ ارْتِحَالِكَ كَانَ أَعْوَدَ عَلَيْكَ لِأَنَّ لَنَا مَوْضِعاً رَحْباً وَ جَاهاً عَرِيضاً وَ مَالًا كَثِيراً فَلَمَّا سَمِعَ الرَّجُلُ كَلَامَهُ بَكَى ثُمَّ قَالَ أَشْهَدُ أَنَّكَ خَلِيفَةُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ‏ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسالَتَهُ‏ وَ كُنْتَ أَنْتَ وَ أَبُوكَ أَبْغَضَ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ وَ الْآنَ أَنْتَ أَحَبُّ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ وَ حَوَّلَ رَحْلَهُ إِلَيْهِ وَ كَانَ ضَيْفَهُ إِلَى أَنِ ارْتَحَلَ وَ صَارَ مُعْتَقِداً لِمَحَبَّتِهِمْ.

💢ایک دن حضرت امام مجتبي عليه السلام سواری پر تھے ایک شام کے شخص نے آپ (ع) کو دیکھا تو ناسزا گوئی شروع کردی۔ آپ(ع) نے کوئی جواب نہیں دیا۔

✅جب وہ گالی دے چکا امام علیہ السلام نے اس کی طرف دیکھا اور سلام کیا! مسکرائے اور فرمایا: اے شیخ! میرے خیال سے آپ کسی دوسرے شہر سے آئے ہیں اور شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہورہی ہے۔ اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو میں آپ کو دونگا اگر آپ کو رہمنائی کی ضرورت ہو تو میں رہنمائی کرونگا، اگر سواری چاہئے تو میں سوار کرلوں گا، اگر بھوکے ہیں تو کھانا کھلادوں گا، اگر کپڑے نہیں ہیں لباس دے دونگا، اگر ضرورتمند ہیں تو میں بے نیاز کردونگا، اگر کہیں سے بھگائے گئے ہیں میں پناہ دونگا، اور اگر کوئی خواہش کریں میں پورا کرونگا، تو آئیں ہمارے یہاں چلیں، اور جب تک یہاں ہیں میرے مہمان رہیں گے، یہ آپ کے لئے بہتر رہے گا کیونکہ ہمارے پاس رہنے کے لئے مکان، عزت و آبرو اور دولت موجود ہے۔

🔸جب اس شام کے شخص نے امام کے بیان کو سنا گریہ کرنے لگا۔ پھر کہا:

🌹میں گواہی دیتا ہوں آپ ہی روئے زمیں پر خلیفۃ اللہ ہیں، اور خدا بہتر جانتا ہے کہ مقام خلافت اور رسالت کہاں قرار دے، میں پہلے آپ اور آپ کے والد سے سب سے زیادہ بغض رکھتا تھا اور اب میں آپ کو محبوب ترین خلق خدا سمجھتا ہوں۔

✔️اس کے بعد اس نے امام کے دولتکدہ کا رخ کیا اور مدینہ سے کوچ کرنے تک امام کا مہمان رہا اور امام کے محبین میں سے ہوگیا۔ 

📚مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج‏4، ص19، فصل في مكارم أخلاقه ع؛ بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج‏43، ص344، باب 16 مكارم أخلاقه و عمله و علمه و فضله و شرفه و جلالته و نوادر احتجاجاته صلوات الله عليه.
🔳🔳🔳🔳🔳

دولت رائگاں نہیں ہوتی مگر

#کیوں❓#قرآن کی آیتوں سے #فائدہ نہیں ملتا

📗عنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ‏ آيَتَانِ‏ فِي‏ كِتَابِ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَ‏ أَطْلُبُهُمَا فَلَا أَجِدُهُمَا قَالَ‏ وَ مَا هُمَا قُلْتُ‏ قَوْلُ‏ اللَّهِ‏ عَزَّ وَ جَلَّ- ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ‏ فَنَدْعُوهُ وَ لَا نَرَى إِجَابَةً قَالَ أَ فَتَرَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَخْلَفَ وَعْدَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَمِمَّ ذَلِكَ قُلْتُ لَا أَدْرِي قَالَ لَكِنِّي أُخْبِرُكَ مَنْ أَطَاعَ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ فِيمَا أَمَرَهُ ثُمَّ دَعَاهُ مِنْ جِهَةِ الدُّعَاءِ أَجَابَهُ قُلْتُ وَ مَا جِهَةِ الدُّعَاءِ قَالَ- تَبْدَأُ فَتَحْمَدُ اللَّهَ وَ تَذْكُرُ نِعَمَهُ عِنْدَكَ ثُمَّ تَشْكُرُهُ ثُمَّ تُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ ص ثُمَّ تَذْكُرُ ذُنُوبَكَ فَتُقِرُّ بِهَا ثُمَّ تَسْتَعِيذُ مِنْهَا فَهَذَا جِهَةُ الدُّعَاءِ ثُمَّ قَالَ وَ مَا الْآيَةُ الْأُخْرَى قُلْتُ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ- وَ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ‏ وَ هُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ‏ وَ إِنِّي أُنْفِقُ وَ لَا أَرَى خَلَفاً قَالَ أَ فَتَرَى اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَخْلَفَ وَعْدَهُ قُلْتُ لَا قَالَ فَمِمَّ ذَلِكَ قُلْتُ لَا أَدْرِي قَالَ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمُ اكْتَسَبَ الْمَالَ مِنْ حِلِّهِ وَ أَنْفَقَهُ فِي حِلِّهِ لَمْ يُنْفِقْ دِرْهَماً إِلَّا أُخْلِفَ عَلَيْهِ.

✍🏼ایک شخص کہتا ہے میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: قرآن میں دو آیتیں ہیں جن کے مطابق عمل کرتا ہوں لیکن ان سے فائدہ نہیں ملتا۔

امام صادق (ع) نے فرمایا: وہ کون سی آیتیں ہیں؟

عرض کیا:

«ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَكُمْ». مجھ سے دعا کرو میں قبول کرونگا۔ ⁉️میں دعا کرتا ہوں لیکن قبول نہیں ہوتی۔

امام (ع) نے فرمایا: تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ اس نے وعدہ خلافی کی ہے؟

عرض کیا: نہیں۔

امام (ع) نے فرمایا: پھر دعا قبول نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

عرض کیا: نہیں جانتا۔

امام(ع) نے فرمایا:  لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں جو شخص خدا کے حکم کو بجا لائے پھر دعا کے شرائط کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا قبول ہوگی۔

عرض کیا: دعا کے شرائط کیا ہیں؟

امام(ع) نے فرمایا: 1️⃣پہلے خدا کی حمد انجام دو، 2️⃣اس کے سامنے اس کی نعمتوں کو یاد کرو، 3️⃣پھر شکر بجالاو، 4️⃣اس کے بعد پیغمبر(ص) پر صلوات بھیجو، 5️⃣پھر اپنے گناہوں کو یاد کرو، 6️⃣ان کا اقرار کرو  7️⃣اور ان سے توبہ کرو،⏪ یہ دعا کے شرائط ہیں۔

💯یعنی دعا کی قبولیت کے لئے لازمی ہے کہ آداب دعا کی پابندی کی جائے۔

پھر فرمایا: وہ دوسری آیت کون سی ہے؟

عرض کیا:

«وَ ما أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْ‏ءٍ فَهُوَ یُخْلِفُهُ وَ هُوَ خَیْرُ الرَّازِقِینَ». اور جو کچھ اس کی راہ میں خرچ کروگے اس کا بدلہ بہرحال عطا کریگا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔ ⁉️میں خرچ کرتا ہوں لیکن اس کے عوض کچھ نہیں پاتا۔

امام(ع) نے فرمایا: تو کیا سمجھتے ہو خدا وعدہ خلافی کررہا ہے؟

عرض کیا: نہیں۔

امام(ع) نے فرمایا: پھر کیا وجہ ہے؟

عرض کیا: نہیں جانتا۔

امام(ع) نے فرمایا: اگر آپ لوگوں میں سے کوئی 1️⃣حلال کمائی کرے اور 2️⃣حلال چیزوں میں خرچ کرے، ⏪ایک درہم بھی خرچ نہیں کریگا مگر یہ کہ اس کا بدلہ ملے گا۔

💯یعنی انفاق تبھی فائدہ مند یے جب حلال کا پیسہ ہو اور حلال کام میں خرچ ہو۔

📚كلينى‏، الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص486؛ مجلسى‏، مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول، ج‏12، ص72 . 
💧💧💧💧💧

یزید اور توبہ

#یزید_اور_توبہ❗️

کیوں اتنی زیادہ یزید پر لعنت بھیجی جاتی ہے⁉️ شاید اس نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد توبہ کرلی ہو اور خدا نے اس کی توبہ قبول کرلی ہو ❗️ کیا خدا تواب الرحیم نہیں ہے ‼️

👌ایسی الٹی سیدھی باتیں بس ابن تیمیه جیسوں کے دماغ میں ہی آسکتی ہیں اور یہ سوال بھی وہیں سے نکلا ہے:

📓فالذي يجوز لعنة يزيد وأمثاله يحتاج إلى شيئين إلى ثبوت أنه كان من الفساق الظالمين الذين تباج لعنتهم وأنه مات مصرا على ذلك والثاني أن لعنة المعين من هؤلاء جائزة والمنازع يطعن في المقدمتين لا سيما الأولى

📓جو یزید اور اس کے جیسوں پر لعنت کو جائز جانتا ہے اس کے لئے لعنت ثابت کرنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہونگی ایک یہ کہ وہ ایسے فاسقوں میں سے تھا جس کے نتیجہ میں لعنت کے مستحق ہوتے ہیں اور وہ اس فسق پر اصرار کرتے ہوئے مرا ہو۔ (یعنی کیا معلوم اس نے توبہ کرلی ہو!!) دوسرے یہ کہ ایسے لوگوں پر نام بنام لعنت کرنا جائز ہو۔ اور یہاں دونوں مقدمے کمزور ہیں خاص کر پہلا۔

📚منهاج السنه ج4 ص571

🔘اس کے جواب میں ملحوظ خاطر رہے کہ توبہ کرنا بھی دلیل چاہتا ہے اور تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ واقعا یزید نے توبہ کی ہو، اور اگر مان لیا جائے اس نے ظاہرا توبہ کرلی، توبہ کے خدا کی طرف سے قبول کرنے میں جبران مافات کی شرط بھی ہے۔

👈🏼اللہ تعالی فرماتا ہے؛

☑️كتَبَ‏ رَبُّكُمْ‏ عَلى‏ نَفْسِهِ‏ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءاً بِجَهالَةٍ ثُمَّ تابَ مِنْ بَعْدِهِ وَ أَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيم‏

📜تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے کہ تم میں جو بھی ازروئے جہالت برائی کرے گا 
اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے

📚انعام 54 

❕اسی طرح دوسری آیتوں میں بھی ماضی کی اصلاح اور جبران مافات کی شرط لگی ہوئی ہے یعنی توبہ تبھی قبول ہوگی جب گذشتہ کی اصلاح کرلے:

📚بقره160- آل عمران 89- نساء146- نحل119- طه82

❓تو اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یزید نے کب توبہ کی؟ کون سے اصلاحی قدم اٹھائے❗️ آیا حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو سزا دی❕ کیا ان کے وارثین یعنی اہل بیت حسینی سے معافی کا طلبگار ہوا اور انہوں نے بخش دیا❕آیا اہل بیت حسینی کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا❕کیا غاصبانہ خلافت کو چھوڑا یا اسے صاحبان حقیقی کے سپرد کیا ❕۔

👌بلکہ اس کے برخلاف اس نے اپنی عمر کے آخری دو برسوں میں اسلام کو مزید شرمسار کیا اور واقعہ کربلا کے بعد: ۱۔ واقعہ حرہ جس میں اس نے مدینہ الرسول کو خوں سے رنگیں کیا، مدینہ کی مسلمان مستورات کے ساتھ حد درجہ بدسلوکی کی اور اپنی فوج پر مباح کردیا۔ ۲ دار الامن مکہ مکرمہ پر حملہ اور بیت اللہ الحرام پر منجنیق سے آگ اور پتھروں کی بارش جیسی گھناونی حرکت کی۔

📚الكامل في التاريخ، ابن الأثير، ج۲، ص۱۸۹: البدایه و النهایه، بن كثير، ج8، ص221: الامامة والسياسة، ابن قتيبة الدينوري، تحقيق الشيري ج۲، ص۱۹۔۲۱

❕اور آخرکار واصل جہنم ہوگیا۔

❗️آلوسی نے نام لیکر لعن کی بحث میں ابن جوزی کے قول کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:   

📔و الظاهر أنه لم يتب، و احتمال توبته أضعف من إيمانه، و يلحق به ابن زياد و ابن سعد و جماعة فلعنة اللّه عز و جل عليهم أجمعين، و على أنصارهم و أعوانهم و شيعتهم و من مال إليهم إلى يوم الدين ما دمعت عين على أبي عبد اللّه الحسين‏

📖ظاہر یہ ہے کہ اس نے توبہ نہیں کی، توبہ کا گمان اس کے ایمان سے بھی سے کمتر ہے، اور اس حکم میں ابن زیاد، ابن سعد، اور دوسرے لوگ بھی ہیں، پس قیامت تک جب تک ابی عبد اللہ الحسین کے لئے اشک بہتے رہیں خدا کی لعنت ہو ان پر ان کے اعوان و انصار، انکے پیروکاروں اور ان سے عقیدت رکھنے والوں پر۔

📚روح المعانى فى تفسير القرآن العظيم، ج‏13، ص229
⁉️⁉️⁉️⁉️⁉️

اچھا کردار اچھا لباس

✅جس طرح رہتے ہیں

🔍وہی ہیں

🌷امام جعفر صادق علیہ السلام 

📕« عَنِ السَّكُونِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِهِ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ لَا تَلْبَسُوا لِبَاسَ‏ أَعْدَائِي‏ وَ لَا تَطْعَمُوا طَعَامَ أَعْدَائِي وَ لَا تَسْلُكُوا مَسَالِكَ أَعْدَائِي فَتَكُونُوا أَعْدَائِي كَمَا هُمْ أَعْدَائِي‏»

📜خدا نے اپنے انبیاء میں ایک نبی کو وحی کی کہ صاحبان ایمان سے کہو: میرے دشمنوں کا لباس نہ پہنو، میرے دشمنوں کا کھانا(ان کی طرح) نہ کھاو، میرے دشمنوں کے مسلک اور راہ و روش پر مت چلو، اگر ایسا کرتے ہو تم تو بھی میرے دشمن ہوگے جس طرح وہ میرے دشمن ہیں۔

📚علل الشرائع، ج‏2، ص348؛ قصص الأنبياء عليهم السلام (للراوندي)، ص279؛ سفينة البحار، ج‏7، 584، مدح أخذ الشارب و إعفاء اللحى .....

💎انسان کی شخصیت میں لباس کا کیا کردار ہے؟ سب کے لئے واضح ہے۔ لباس کا اثر اسقدر زیادہ ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کے خطبہ متقین جس میں مومنین کی ایک سو دس صفتوں کا تذکرہ ہے اس میں مومنین کی دوسری صفت میں لباس کا ذکر کرتے ہیں۔

📕«فَالْمُتَّقُونَ … وَ مَلْبَسُهُمُ الاْقْتِصادُ»

📜اور متقین۔۔۔ اور ان کا لباس معمولی ہوتا ہے (نہ ہی افراط اور نہ ہی تفریط) ۔

📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص303، خ193 و من خطبة له ع يصف فيها المتقين

👈🏼لباس کا سیدھا اثر انسان کی شخصیت پر ہوتا ہے۔

💥اگر ایسا لباس پہنے ہوئے ہوں جو ایک نیک با اخلاق، خوش مزاج اور مومن انسان کا ہوتا ہے وہ اپنی تاثیر دکھائے گا۔

💥اسی طرح اگر کوئی ایسی اسٹائل کا لباس پہنے جو کسی بدکردار، فاسق، ناچنے گانے والے کا لباس ہو ٗٗ، واضح رہے کہ اس کا اپنا اثر ہوگا۔

💥لباس بدن پر فٹ ہے؟ قد سے بڑا ہے یا بہت ہی چست ہے یہ بھی شخصیت پر اثر چھوڑتا ہے۔

📔« من‏ تشبّه‏ بقوم‏ فهو منهم‏»؛ 

📜جو کسی قوم سے شباہت اختیار کرے وہ اسی قوم سے ہے۔

📚نهج الفصاحة (مجموعه كلمات قصار حضرت رسول صلى الله عليه و آله)، ص737.

💎یعنی چاہے جس قدر قلب پاک و صاف ہو، آہستہ آہستہ رغبت میں تبدیلی رونما ہوگی اور اس کے رنگ میں رنگ جائے گا۔

🌹🌹اگر ہماری زندگی اولیائے الہی جیسی ہو تو؟؟؟؟
💫💫💫💫💫

زائر امام حسین علیہ السلام


👈🏼صحابی رسول اکرم (ص) مجاہد صدر اسلام جناب جابر بن عبد اللہ انصاری

📜عنِ الْأَعْمَشِ عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ قَالَ: خَرَجْتُ‏ مَعَ‏ جَابِرِ بْنِ‏ عَبْدِ اللَّهِ‏ الْأَنْصَارِيِ‏ زَائِرَيْنِ‏ قَبْرَ الْحُسَيْنِ‏ بْنِ‏ عَلِيِ‏ بْنِ‏ أَبِي‏ طَالِبٍ‏ ع‏ فَلَمَّا وَرَدْنَا كَرْبَلَاءَ دَنَا جَابِرٌ مِنْ‏ شَاطِئِ‏ الْفُرَاتِ‏ فَاغْتَسَلَ‏ ثُمَ‏ اتَّزَرَ بِإِزَارٍ وَ ارْتَدَى‏ بِآخَرَ ثُمَ‏ فَتَحَ صُرَّةً فِيهَا سُعْدٌ فَنَثَرَهَا عَلَى بَدَنِهِ ثُمَّ لَمْ يَخْطُ خُطْوَةً إِلَّا ذَكَرَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَ الْقَبْرِ قَالَ أَلْمِسْنِيهِ فَأَلْمَسْتُهُ فَخَرَّ عَلَى الْقَبْرِ مَغْشِيّاً عَلَيْهِ فَرَشَشْتُ عَلَيْهِ شَيْئاً مِنَ الْمَاءِ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ يَا حُسَيْنُ ثَلَاثاً ثُمَّ قَالَ حَبِيبٌ لَا يُجِيبُ حَبِيبَهُ ثُمَّ قَالَ وَ أَنَّى لَكَ بِالْجَوَابِ وَ قَدْ شُحِطَتْ أَوْدَاجُكَ عَلَى أَثْبَاجِكَ وَ فُرِّقَ بَيْنَ بَدَنِكَ وَ رَأْسِكَ فَأَشْهَدُ أَنَّكَ ابْنُ خَاتِمِ النَّبِيِّينَ وَ ابْنُ سَيِّدِ الْمُؤْمِنِينَ وَ ابْنُ حَلِيفِ التَّقْوَى وَ سَلِيلُ الْهُدَى وَ خَامِسُ أَصْحَابِ الْكِسَاءِ وَ ابْنُ سَيِّدِ النُّقَبَاءِ وَ ابْنُ فَاطِمَةَ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ وَ مَا لَكَ لَا تَكُونُ هَكَذَا وَ قَدْ غَذَّتْكَ كَفُّ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَ رُبِّيتَ فِي حَجْرِ الْمُتَّقِينَ وَ رَضَعْتَ مِنْ ثَدْيِ الْإِيمَانِ وَ فُطِمْتَ بِالْإِسْلَامِ فَطِبْتَ حَيّاً وَ طِبْتَ مَيِّتاً غَيْرَ أَنَّ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ طَيِّبَةٍ لِفِرَاقِكَ وَ لَا شَاكَّةٍ فِي الْخِيَرَةِ لَكَ فَعَلَيْكَ سَلَامُ اللَّهِ وَ رِضْوَانُهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّكَ مَضَيْتَ عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ أَخُوكَ يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ثُمَّ جَالَ بَصَرَهُ حَوْلَ الْقَبْرِ وَ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيَّتُهَا الْأَرْوَاحُ الَّتِي حَلَّتْ بِفِنَاءِ الْحُسَيْنِ‏ وَ أَنَاخَتْ بِرَحْلِهِ وَ أَشْهَدُ أَنَّكُمْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَ آتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَ أَمَرْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَيْتُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ جَاهَدْتُمُ الْمُلْحِدِينَ وَ عَبَدْتُمُ اللَّهَ حَتَّى أَتَاكُمُ الْيَقِينُ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِيّاً لَقَدْ شَارَكْنَاكُمْ فِيمَا دَخَلْتُمْ فِيهِ قَالَ عَطِيَّةُ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَابِرُ كَيْفَ وَ لَمْ نَهْبِطْ وَادِياً وَ لَمْ نَعْلُ جَبَلًا وَ لَمْ نَضْرِبْ بِسَيْفٍ وَ الْقَوْمُ قَدْ فُرِّقَ بَيْنَ رُءُوسِهِمْ وَ أَبْدَانِهِمْ وَ أُوتِمَتْ أَوْلَادُهُمْ وَ أَرْمَلَتْ أَزْوَاجُهُمْ؟ فَقَالَ يَا عَطِيَّةُ سَمِعْتُ حَبِيبِي رَسُولَ اللَّهِ ص يَقُولُ مَنْ أَحَبَّ قَوْماً حُشِرَ مَعَهُمْ وَ مَنْ أَحَبَّ عَمَلَ قَوْمٍ أُشْرِكَ فِي عَمَلِهِمْ وَ الَّذِي بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِيّاً أَنَّ نِيَّتِي وَ نِيَّةَ أَصْحَابِي عَلَى مَا مَضَى عَلَيْهِ الْحُسَيْنُ ع وَ أَصْحَابُهُ خُذْنِي نَحْوَ إلى أَبْيَاتِ كُوفَانَ فَلَمَّا صِرْنَا فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ قَالَ يَا عَطِيَّةَ هَلْ أُوصِيكَ وَ مَا أَظُنُّ أَنَّنِي بَعْدَ هَذِهِ السَّفْرَةِ مُلَاقِيكَ أَحْبِبْ مُحِبَّ آلِ مُحَمَّدٍ ص مَا أَحَبَّهُمْ وَ أَبْغِضْ مُبْغِضَ آلِ مُحَمَّدٍ مَا أَبْغَضَهُمْ وَ إِنْ كَانَ صَوَّاماً قَوَّاماً وَ ارْفُقْ بِمُحِبِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ فَإِنَّهُ إِنْ تَزِلَّ لَهُ قَدَمٌ بِكَثْرَةِ ذُنُوبِهِ ثَبَتَتْ لَهُ أُخْرَى بِمَحَبَّتِهِمْ فَإِنَّ مُحِبَّهُمْ يَعُودُ إِلَى الْجَنَّةِ وَ مُبْغِضَهُمْ يَعُودُ إِلَى النَّارِ

▪️عطیہ عوفی کہتے ہیں: 
ہم جابر بن عبداللہ کے ساتھ زیارت امام حسین علیہ کی غرض سے نکلے، جب کربلا پہونچے جابر فرات کی طرف گئے اور غسل کیا ایک کپڑا کمر میں باندھا اور دوسرا شانہ پر ڈالا اور خود معطر کیا۔ پھر ذکر خدا کرتے ہوئے قدموں کو آگے بڑھایا، یہاں تک کہ قبر مبارک تک پہونچے، کہا: میرے ہاتھ کو قبر سے رکھ کردو، میں نے ان کے ہاتھ کو قبر پر رکھا، جابر نے خود کو قبر پر گرادیا اور (اتنا زیادہ گریہ کیا) کہ بے ہوش ہوگئے، میں ان پر پانی چھڑکا تو انہیں غش سے افاقہ ہوا، انہوں نے تین بار کہا: یاحسین! پھر کہا کیا دوست اپنے دوست کو جواب نہیں دیگا؟! اور کیسے جواب دیں گے جب کہ آپ کی گردن کی رگوں کو کاٹ ڈالاگیا اور سر کو تن سے جدا کردیا گیا۔

میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ خاتم النبیین کے فرزند، سید الوصیین کے دلبند نسل ہدایت، ہم پیمان تقوی، خامس اصحاب کساء ہیں۔

💫کلام نور💫, [۰۹.۱۱.۱۷ ۰۸:۳۵]
فرزند سید نقیبان ہے سیدۃ النساء حضرت فاطمہ کے لخت جگر ہیں اور کیوں ایسے نہ ہوں، کہ سید المرسلین نے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، اور دامان متقین میں آپ کی پرورش ہوئی سینہ ایمان سے دودھ پیا اور دامن اسلام میں رہے، آپ نے پاک زندگی گزاری اور خوشی کے ساتھ گئے۔ لیکن مومنین کے قلوب آپ کے فراق پر غمگین ہیں، اور جو آپ پر گذری اس میں آپ کے لئے خیر کے سلسلہ میں کوئی شک نہیں، پس خدا کی خوشنودی اور سلام ہو آپ پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے وہی راستہ انتخاب کیا جس پر آپ کے بھائی یحیی بن زکریا چلے تھے۔

اسکے بعد انہوں نے قبر کے اطراف پر نظر ڈالی اور کہا:

سلام ہو آپ پر اے پاک روحیں جو امام حسین علیہ السلام سے مل گئیں آستان حسین علیہ السلام پر وارد ہوئیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی، زکات ادا کی، نہی عن المنکر اور امر بالمعروف انجام دیا، اور ملحدوں سے جہاد کیا، اور خدا کی عبادت کی یہاں تک کہ موت کا وقت آگیا۔ اس خدا کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو نبی برحق بناکر بھیجا، جس راستے پر آپ چلے ہم بھی اس میں شریک ہیں۔

▪️عطیہ کہتے ہیں: میں نے جابر سے کہا: ہم کیسے ان کے کام میں شریک ہیں جبکہ نہ ہم نے کسی وادی کو طے کیا، نہ پہاڑوں کی بلندیوں کو سر کیا، نہ ہی تلوار چلائی؛ لیکن ان کے سروں کو جدا کردیا گیا، ان کے بچے یتیم ہوگئے اور ان کی مخدرات کی مانگیں اجڑ گئیں؟

جابر نے عطیہ کو جواب دیا:

اے عطیہ! اپنے حبیب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ فرمارہے تھے:  جو شخص کسی گروہ کو دوست رکھتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا اور جو شخص کسی گروہ کے عمل کو دوست رکھتا ہو وہ اس عمل میں شریک ہے۔ قسم اس خدا کی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنا نبی بناکر بھیجا، میری اور میرے اصحاب کی نیت وہی ہے جو حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی تھی۔

اور کہا:

مجھے کوفیوں کے گھروں کی طرف لے چلو۔ جب ہم نے کچھ راستہ طے کرلیا، مجھ سے کہا:

اے عطیہ! شاید اس سفر کے بعد تم سے ملاقات نہ کرسکوں میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے محبین کو دوست رکھنا جب تک وہ ان کی محبت پر باقی ہوں، اور خاندان محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا جب تک وہ دشمنی پر باقی رہیں اگرچہ کثیر الصوم و صلواۃ ہوں، اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) کے دوستداروں کے ساتھ رفاقت سے پیش آنا، اگرچہ گناہوں کی وجہ سے ان کے قدم میں لغزش آگئی ہو، لیکن دوسرا قدم ان کی محبت کی وجہ سے ثابت رہے گا، اہل بیت محمد علیہم السلام  کا چاہنے والا جنت کی طرف جائے گا اور ان کا دشمن دوزخ کی طرف۔

📚 بشارة المصطفى لشيعة المرتضى،‏ عماد الدين طبرى،‏ ناشر: المكتبة الحيدرية، چاپ دوم، نجف اشرف، 1383ق، ص74-75

🏴🏴🏴🏴🏴

بدھ، 8 نومبر، 2017

بہتر زندگی کے لئے

#پانچ_چیزیں

☘️اچھی زندگی کے واسطے☘️

🌷امام علی علیہ السلام

📒يا كُمَيْلُ قُلِ‏ الْحَقَ‏ عَلَى‏ كُلِّ حَالٍ وَ وَادِّ الْمُتَّقِينَ وَ اهْجُرِ الْفَاسِقِينَ وَ جَانِبِ الْمُنَافِقِينَ وَ لَا تُصَاحِبِ الْخَائِنِين‏

🗒اے کمیل! ہر صورت میں حق بات بولو، اور متقی و پرہیزگار لوگوں سے دوستی رکھو، فاسق اور گنہگار لوگوں کو ترک کردو، اور منافق اور ریاکار لوگوں سے ہوشیار رہو، اور خیانت کرنے والوں غدار لوگوں کے ساتھ مت رہو۔

📚تحف العقول، ص173،وصيته ع لكميل بن زياد مختصرة؛ بشارة المصطفى لشيعة المرتضى (ط - القديمة)، ص 26، وصية أمير المؤمنين«ع» لكميل بن زياد(رض)

✍🏼حضرت علی علیہ السلام نے اس روایت کے مطابق اچھی زندگی کے لئے اپنے محبوب صحابی جناب کمیل کو پانچ ہدایتیں دے رہے ہیں۔

1️⃣اے کمیل! کبھی بھی حق بات کہنے سے پیچھے نہ ہٹنا۔ اپنی پوری زندگی میں حق کے طرفدار رہنا؛ وہ مشکل کی گھڑی ہو یا امن و امان کی جگہ، مختار ہو یا مجبور ، تخت حکومت پر ہو یا خاک مذلت پر، خلاصہ یہ کہ پوری عمر میں جب تک اس دنیا میں جی رہے ہو، حرف حق اور قول حق کہنا، اس کے بعد آپ ع تاکید فرماتے ہیں کہ کس کے ساتھ رہنا چاہئے اور کس سے دوری بنانا چاہئے:

2️⃣اے کمیل! متقی اور پرہیزگار کے ساتھ رہو اور اس کو دوست رکھو۔ اس لئے کہ متقی اور پرہیزگار دوست، چونکہ خدا کی رضا کے واسطے تمہارا دوست بنا ہے، مشکل گھڑی میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑے گا، اور اسی بنیاد پر تمہیں گناہ کی طرف نہیں لے جائے گا، اور اطاعت و بندگی میں خلل بھی نہیں ڈالے گا۔ جی ہاں اپنے خزانہ قلب میں ہمیشہ پرہیزگاروں کی محبت رکھنا۔ اس کے بعد جناب کمیل کو ہدایت دیتے ہیں کہ تین طرح کے لوگوں سے اپنے کو بچائے رکھو۔

3️⃣اے کمیل ! اپنی زندگی کو فاسقوں اور گناہ کرنے والوں سے الگ رکھو، گناہ کرنے والا آخرکار تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو گناہوں میں ملوث کردیگا، لہذا اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت کے واسطے ایسے لوگوں سے دور رہو اور ان سے قطع تعلق کرلو۔

4️⃣اے کمیل! منافقوں کے مکر و فریب سے ہوشیار رہنا، امام علیہ السلام فاسقوں سے دور رہنے اور قطع تعلق کی بات کرتے ہیں، لیکن منافقوں سے ہوشیار رہنے اور اپنی حفاظت کی بات کرتے ہیں، اس لئے کہ ہر سماج میں منافق پائے جاتے ہیں ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا اور ان کا پہچاننا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ہے کہ مسلمانوں نے سب سے زیادہ منافقوں سے نقصان اٹھایا ہے، لہذا جبکہ ایسے لوگوں سے سماج کو پاک نہیں بنایا جاسکتا، ان سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، 

5️⃣اے کمیل! خیانت کرنے والوں کے ساتھ مت رہو، خائن صفت اور غدار لوگ اس قابل نہیں کہ ان سے دوستی کی جائے، ساتھ رہا جائے، ساجھے داری وغیرہ میں ان کا ہاتھ ہو۔

⬅️اگر امام علیہ السلام کے قول پر غور پر کیا جائے اور کسی معاشرہ اور سماج میں اس پر عمل ہونے لگے، یقینا اس سماج کا نقشہ ہی بدل جائے گا، اس لئے کہ جو معاشرہ اور سماج خیانت، نفاق، گناہ اور کتمان حق کا شکار ہوجائے وہ تقوی، پرہیزگاری، بیان حق اور نیک انسانوں کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر سماج کو بری صفتوں سے پاک و صاف بنادیا جائے اور اس کی جگہ اچھی صفتیں لے لیں وہ سماج بیشک نمونہ ہوگا۔

📚۱۱۰سرمشق ازسخنان حضرت علی علیہ السلام، آیۃ۔۔ مکارم شیرزای دامت برکاتہ، ص۱۰۳
⚡️⚡️⚡️⚡️⚡️⚡️

بے تکی دعا

#استغفر_اللہ

♦️شیطان کو دور بھگانے کے لئے ضروری ہے اس کی پسندیدہ چیزوں کو دور پھینک دیں۔

🔹ﺍﮔﺮ ایک کتا بھوکا ہو اور ہمارے پاس اس کے لئے غذا فراہم ہو، مثلا ایک گوشت کا ٹکڑا۔۔۔۔ اب ہم اس کو زبان سے دھتکارتے رہیں۔ کیا وہ بھوکا کتا ہم سے دور ہوگا؟

🔹ڈنڈا اٹھائیں پھر بھی کوئی فائدہ نہیں۔

🔹وہ بھوکا ہے اور اس کی آنکھوں میں کھانا ہے اور بس۔

🔹لیکن اگر اس کے مطلب کی چیز ہمارے پاس نہ ہو تو۔۔۔۔۔۔آئے گا چلا جائے گا۔

💢ہمارے پاس شیطان کے مطلب کی چیز ہمارا قلب ہے۔

✍️اپنے قلب میں جھانک کر دیکھیں، کون سا لقمہ تر موجود ہے
‏( ﻣﺎﻝ، ﺯﺭ، ﺯﯾﻮﺭ سے محبت، ﺷﻬﻮﺕ، کنجوسی، کینہ، ﺣﺴﺩ... ‏)
 اگر ہے تو بس اس کا ہونا بھی طے ہے۔۔۔۔۔

💢اب ہم کہتے رہیں : "ﺍﻋﻮﺫﺑﺎﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﺍﻟﺸﯿﻄﺎﻥ ﺍﻟﺮﺟﯿﻢ "... کیا فائدہ؟

💢ہاں ﺍﮔﺮ پہلے اسکے مطلب کی چیز کو خود سے دور کردیا، اﯾﮏ مرتبہ ﺍﺳﺘﻐﻔﺎﺭ کیا۔ ﻓﺮﺍﺭ کرتا ہوا نظر آئے گا۔

💢 یعنی استغفرالله کہنا اسی وقت اثر دکھائے گا جب اس دعا کے قبول ہونے کی شرطیں بھی فراہم کردی جائیں۔۔۔۔🌹

💫💫💫💫💫

زیارت کا مقصد

#زیارت_کا_مقصد

✍🏻یقینا اہل بیت علیہم السلام کی زیارت فضیلت رکھتی ہے اور اور ایسے اجر و ثواب کی حامل ہے جس کا شمار نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے زیارت میں کون سی چیزیں مضمر ہیں جس کی بنیاد پر اتنا زیادہ اجر و ثواب ہے؟

➕زیارت ایسی ہو جو زائر پر اپنا نقش چھوڑ جائے اور اس کا کردار معصوم کے کردار میں ڈھل جائے، اس کے لئے ضروری ہے جب ہم زیارت کے لئے جائیں تو کچھ چیزیں ہمارے ذہنوں میں رہیں:
۱۔ جس کی زیارت کے لئے گئے ہیں وہ کون ہے؟ اس کی عظمت کیا ہے؟

۲۔ کس عظیم مقصد کی خاطر انہوں نے اپنی جاں نثار کی اور کیوں؟

۳۔جنہوں نے ان پر جفا کی اور انہیں شہید کیا ان کا کردار کیا تھا؟

۴۔ وہ مسلمانوں سے کیا چاہتے تھے؟

۵۔ ہم سے ان کا مطالبہ کیا ہے؟

۶۔ ہم ان سے کیا طلب کر رہے ہیں؟

۷۔ کیا حقیقت میں ہم ان کے شیعوں میں سے ہیں؟

۸۔ کیا وہ ہمارے طرز زندگی سے راضی اور خوشنود ہیں؟

۹۔ انکا کردار کیا تھا اور ہمارا کردار کیا ہے؟

۱۰۔ آیا ہماری عبادتیں اسی طرح کی ہیں جیسا وہ چاہتے تھے؟

۱۱۔ کون سے اعمال ہیں جو ہمیں ان سے دور کردیتے ہیں اور ان کو ٹھیس پہونچاتے ہیں؟

۱۲۔ ان کے بتائے ہوئے راستے پر ہم نے کس قدر چلنے کی کوشش کی ہے؟
وغیرہ۔۔۔

🔸یوں تو شیعیان اہل بیت علیہم السلام کو ہمیشہ صاحب کردار ہونا چاہئے، لیکن زیارت وہ عظیم موقع ہے جب اپنے کردار پر صیقل کی جائے، اور ہماری زندگی معصوم کی زندگی سے درس لے، ہمارا کام اللہ کی رضا، اس کی اطاعت میں ہو۔ اور جب زیارتنامہ کے فقرے زبان پر جاری ہوں:

▪️ أشْهَدُ أَنَّكَ‏ قَدْ أَقَمْتَ‏ الصَّلَاة

▪️و آتَيْتَ الزَّكَاة

▪️و أَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَيْتَ عَنِ الْمُنْكَر

▪️و اتَّبَعْتَ الرَّسُولَ، 

▪️و تَلَوْتَ الْكِتَابَ حَقَّ تِلَاوَتِهِ، 

▪️و دَعَوْتَ إِلى‏ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَة

🌹تو ہماری زندگی میں اترتے چلے جائیں۔
💎💎💎💎💎

زیارت کے لئے کیوں جائیں

❓کیا امام #حسین علیہ السلام اور دیگر #ائمہ طاہرین ہمارے حالات سے باخبر نہیں اور ہماری آواز نہیں سنتے جو ہم ان کی قبر پر جائیں وہاں جاکر باتیں کریں؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟؟؟‼️

✍🏼اس میں شک نہیں کہ ائمہ طاہرین ہمارے حالات سے باخبر ہیں، لیکن کثیر تعداد میں زیارت کی فضیلت میں روایتیں موجود ہیں:

📚وسائل الشیعه،ج14 ص320 باب2

📚بحار الانوار ج97 ص116 باب 2

🔷امام #رضا علیه السلام نے فرمایا:

📗سمِعْتُ الرِّضَا ع يَقُولُ‏ إِنَّ لِكُلِّ إِمَامٍ عَهْداً فِي عُنُقِ أَوْلِيَائِهِ وَ شِيعَتِهِ وَ إِنَّ مِنْ تَمَامِ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَ حُسْنِ الْأَدَاءِ زِيَارَةَ قُبُورِهِمْ فَمَنْ زَارَهُمْ رَغْبَةً فِي زِيَارَتِهِمْ وَ تَصْدِيقاً بِمَا رَغِبُوا فِيهِ كَانَ أَئِمَّتُهُمْ شُفَعَاءَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

📖حسن بن علی وشاء کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام کویہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امام کے لئے ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ایک عہد و پیمان ہے اور وعدہ وفائی کے کمال میں سے یہ ہے کہ ان کی قبروں کی زیارت کریں پس جو پورے شوق اور تصدیق کے ساتھ ان کی زیارت کرے ان کے امام قیامت کے ان کے شفیع ہونگے۔

📚الكافي( ط- الإسلامية)، ج4، ص567۔ 

🔷اسحاق بن عمار امام #صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

📒مرُّوا بِالْمَدِينَةِ فَسَلِّمُوا عَلَى‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ ص‏ مِنْ قَرِيبٍ وَ إِنْ كَانَتِ الصَّلَاةُ تَبْلُغُهُ مِنْ بَعِيدٍ.

📃مدینہ جاو اور قریب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ پر سلام کرو اگرچہ دور سے بھی درود ان تک پہونچتا ہے۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏4، ص552، باب دخول المدينة و زيارة النبي ص و الدعاء عند قبره؛ وسائل الشيعة، ج‏14، ص338، 4 - باب استحباب زيارة النبي ص و لو من بعيد و التسليم عليه و الصلاة عليه۔

👌اس طرح کی اور بھی روایتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قبور اہل بیت علیہم السلام پر حاضر ہونا فضیلت رکھتا ہے اور اس کے کئی فائدے ہیں منجملہ:

 1️⃣زیارت، ان بزرگ ہستیوں کی تعظیم و تکریم کا سبب اور ان سے محبت کی ایک علامت ہے۔

❗️دنیا کی مختلف قومیں اپنے بزرگوں کے آثار کو زندہ رکھنے اور ان کی حفاظت کی کوشش کرتی ہیں یہ بھی اکابرین مذہب کے احترام اور تعظیم میں سے ہے۔

 2️⃣ روایات کے مطابق مراقد مشرفہ اور حرم ائمہ طاہرین علیہم السلام  فرشتوں، ارواح انبیاء و اولیاء کی جائے نزول ہے اور زیارت، اس سے مستفیض ہونے کا سبب ہوگی اور ان مقامات پر دعا مستجاب ہوگی۔ 

📚ثواب الاعمال ص96

3️⃣ ان کی زیارت کرنا حقیقت میں اس راہ میں پڑنے والے شہروں قریوں میں وحدانیت خدا اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کی ترویج ہے۔

4️⃣یہ زائرین کی اپنے ائمہ سے محبت اور دوستی کی صداقت کی علامت ہے کہ رنج سفر برداشت کرتے ہیں اور زیارت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تاکہ ان کے حکم کی اطاعت کریں

5️⃣زیارت پر جانا سبب بنتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں مختلف قوموں اور علاقوں کے حالات سے واقف ہوں اور مشکلات کو سمجھیں۔

6️⃣زیارت، امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق ایک عہد و پیمان ہے جو اماموں کے ساتھ انجام پایا۔ 

7️⃣ ائمہ طاہرین کے روضے ہمیشہ تبلیغ و ترویج دین، علم ... کا مرکز رہے ہیں. یہ سب ان کی زیارتوں کی برکت اور انہیں آباد رکهنے کے طفیل میں ہے 

📚 مزید تفصیلات کے لئے: ادب فنای مقربان،جوادی آملی ج1 ص18 

حضرت امام صادق[ع] کی مناجات

🔹حضرت امام صادق[ع] کی مناجات🔹

🌹زائرین امام حسین [ع] کے لئے🌹

👈🏻معاویه بن وهب کہتے ہیں:

امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی، کہا گیا اندر آجاو، میں خدمت میں پہونچا تو آپ (ع) کو نماز کی حالت میں پایا، میں بیٹھ گیا یہاں تک کہ امام نے نماز تمام کی، میں نے سنا کہ آپ(ع) دعا کررہے تھے اور فرمارہے تھے:

▪️بارالہا، جس نے ہمیں کرامت سے نوازا اور وصیت کو ہم سے مخصوص کیا [ہمیں پیغمبر کا وصی قرار دیا] شفاعت کا وعدہ کیا، ماضی و مستقبل کا علم عطا کیا، لوگوں کے دلوں کو ہماری طرف مائل کیا۔ میری، میرے بھائیوں اور میرے جد حسین علیہ السلام کے زوّار کی مغفرت فرما؛ جنھوں نے اپنی دولت خرچ کی؛ اور ہمارے احسان کی راہ میں، ہمارے اس صلہ کی امید میں جو تیرے پاس ہے، اور رسول کو خوش کرنے کی غرض سے، ہمارے حکم کی اطاعت کے لئے اور ہمارے دشمنوں کو غیظ میں مبتلا کرنے کے واسطے خود کو رنج و مشقت میں ڈالا۔

اس فداکاری میں ان کی نیت تیری رضا اور خوشنودی کا حاصل کرنا ہے، تو بھی اپنی رضا کے ذریعہ ہماری طرف سے صلہ عطا فرما اور شب و روز ان کی حفاظت فرما اور ان کی آل و اولاد کو ان کا بہترین جانشیں قرار دے، ان کو اپنی حفاظت میں رکھ اور ان سے ہر ظلم کرنے والے، منحرف، اور اپنی تمام کمزور اور طاقتور مخلوقات کے شر سے امان میں رکھ، اور جن و انس کے شر سے محفوظ فرما، اور انہوں نے اپنے وطن سے دور آکر  جس چیز کی آرزو کی ہے اس سے زیادہ عطاکر، اور انہوں نے اپنے بچوں، گھر والوں اور رشتہ داروں پر جس چیز کے ذریعہ ہمیں ترجیح دی ہے اس  سے کہیں زیادہ جزا عنایت فرما۔

▪️بارالہا، ہمارے لئے گھر سے نکلنے پر ہمارے دشمنوں نے ان کی سرزنش کی لیکن دشمنوں کی ملامت انہیں ہماری طرف آنے سے روک نہ سکی، یہ ہمارے مخالفوں سے ان کی مخالفت میں ثبات قدم کا مظاہرہ ہے۔ تو تو بھی سورج کی گرمی سے جھلسے ہوئے ان چہروں پر رحمت نازل فرما اور جن رخساروں نے قبر ابی عبداللہ علیہ السلام کو مس کیا ہے ان پر لطف فرما اور جن آنکھوں نے ہمارے واسطے اشک بہایا ہے ان پر کرم فرما اور ان دلوں پر رحم فرما جو ہمارے لئے ٹرپے اور جلے ہیں۔ ان آوازوں پر کرم فرما جو ہمارے واسطے بلند ہوئیں۔

▪️خدایا، میں ان جسموں اور ان روحوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں تاکہ عطش اکبر [محشر] کے دن حوض کوثر پر وارد ہوں انہیں سیراب کرے۔ 

👈🏻امام مسلسل حالت سجدہ میں اس دعا کو پڑھ رہے تھے، جب آپ سجدہ سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاوں، جو میں آپ سے سن رہا تھا اگر اس کو بھی شامل ہوجائے جو خدا کو نہیں پہچانتا میرا خیال ہے جہنم کی آگ اسے بھی نہیں جلا سکتی، خدا کی قسم  میں تمنا کررہا تھا حج کے بجائے [حضرت امام حسین علیہ السلام کی] زیارت کے لئے جاتا۔

🔸امام[ع] نے مجھ سے فرمایا: تم ان کی قبر سے کتنے قریب ہو، کس چیز نے تمہیں زیارت سے روک رکھا ہے؟

پھر فرمایا: اے معاویہ کیوں تم نے زیارت کو ترک کیا؟

عرض کیا: آپ پر قربان جاوں میں نہیں جانتا تھا کہ مسئلہ یہ ہے اور اس کا اجر و ثواب اس قدر زیادہ ہے۔

🔶آپ[ع] نے فرمایا: اے معاویہ امام حسین علیہ السلام کے زوّار کے لئے آسمان پر دعا کرنے والے ان سے کہیں زیادہ ہیں جو زمیں پر دعا کررہے ہیں۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏4، ص582، باب فضل زيارة أبي عبد الله الحسين ع؛ كامل الزيارات، ص116، الباب الأربعون دعاء رسول الله ص و علي و فاطمة و الأئمة لزوار الحسين‏ع

جمعرات، 2 نومبر، 2017

سفیر کربلا، زینب سلام اللہ علیہا

.

 زینب (س) سفیر کربلا
 
سید ذیشان حیدر زیدی
کربلا کبھی ایک صحرا ہوا کرتا تھا، ایک زمین تھی، ایک علاقہ کا نام تھا، لیکن تاریخ کا ایک ایسا موڑ آیا کہ کربلا ایک تحریک میں بدل گئی، ایک عالمی یونیورسٹی کی صورت اختیار کرگئی جہاں ایک دونہیں ہزارہا درس عمل ملتے ہیں، جہاں بغیر تفریق مذہب و ملت سبھی زانوئے ادب تہ کئے نظر آتے ہیں، ایک ایسی کتاب بن گئی کہ جس کا جتنا بھی مطالعہ کیا جائے علم  کی پیاس بجھ نہ سکے، جتنا پڑھا جائے وہ کتاب تازی ہی رہے۔
یزید نابکار اور ابن مرجانہ نے اپنے خیال میں یہی سمجھ رکھا تھا کہ یہ چند لوگوں کا لشکر ہے  اور کچھ روز کی بات، ادھر حسین(ع) شہید ہوئے ادھر درس ایمان و دین،پیغام حریت کا گلا  گھونٹ دیا جائے گا؛ لیکن جتنا ظالموں نے تحریک کربلا کو دبانا چاہا، شمع ہدایت کو بجھانا چاہا، اس کی روشنی بڑھتی گئی۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغام کربلاکے عام کرنے میں عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب(س) کا نمایاں کردار رہا ہے۔
کوئی بھی تحریک ہو،  اسکا  ایک حصہ خون  ہے تو دوسرا اس کا پیغام، کربلا کی تحریک کو بھی جتنی خون حسین(ع) کی ضرورت تھی اتنا ہی زینب (س) کے خون جگر کی۔ چنانچہ اس کے آثار  آپ (س)کے بچپنے سے ہی دیکھے جاسکتے ہیں: مورخین  لکھتے ہیں کہ امام حسین(ع) جناب زینب(س) کے لئے خاص احترام کے قائل تھے اور جب بھی آپ(س) ان کے پاس آتی تھیں کھڑے ہوجاتے، اپنی جگہ بٹھاتے تھے۔(۱)
ایک مرتبہ حضرت زہرا(س) نے  حضرت رسول خدا(ص) سے ان بہن بھائی کی محبت پر اظہار تعجب فرمایا، تو  حضرت رسول خدا(ص) نے آہ سر دکھینچی، آنکھیں اشکبار ہوگئیں؛ فرمایا: میری بیٹی زینب(س) حسین(ع) کے ساتھ کربلا جائے گی اور مختلف طرح کی مصیبتیں برداشت کرے گی۔ (۲)
مقاتل میں ذکر ہے جب حضرت علی (ع) نے عبداللہ بن جعفر سے جناب زینب(س) کی شادی کی، تو یہ شرط رکھی کہ اگر حسین  سفر کا ارادہ کریں اور زینب ساتھ میں جانا چاہیں تو عبد اللہ اسے نہ روکیں۔(۳)
 جب عبد اللہ بن عباس نے امام حسین(ع) سے کہا: ’’ فما معنی حملک ھولاء النساء‘‘ خواتین کو لے جانے کا مقصد کیا ہے؟  تو جناب زینب(س) نے محمل سے آواز دی: اے ابن عم! مجھ سے میرے بھائی کو علاحدہ کرنا چاہتے ہو۔(۴) اور پھر  ورود کربلا سے  لے کرعاشور تک  کے واقعات اور لمحہ بہ لمحہ آپ کا اور امام حسین(ع) کا ساتھ اس بات پر گواہ ہے کہ یہ سب تمہید تھی اس رسالت کے لئے جو عصر عاشور کے بعد آپ(س) کے کاندھوں پر آنے والی تھی۔ جہاں  ایک طرف امامت کی حفاظت کرنا تھی اور اسے ظلم کے سفاک ہاتھوں سے بچا کر لیجانا تھا، تو دوسری طرف کاروان اہل حرم کی رہبری بھی کرنا تھی، اس کے علاوہ  ایک عظیم ذمہ داری اور بھی تھی وہ تھا پیغام کربلا کو عام کرنا۔  
اسی لئے جب جناب زینب(س)  امام سجاد(ع)  کی تیمار داری میں لگی ہوئی تھیں، فکر امام حسین(ع) کی طرف تھی جیسے ہی کچھ  اشعار امام حسین (ع) سے سنے دوڑ پڑیں۔  امام(ع)  نے دلاسہ دیا، صبر کی تلقین کرتے ہوئے وصیت فرمائی: میری  بہن! تمہیں قسم دیتا ہوں، اور چاہتا ہوں کہ تم اس قسم پر عمل کرو کہ اگر شہید کر دیا  گیا، تو گریبان چاک نہیں کروگی، چہرہ نہیں پیٹو گی اور میرے سوگ میں نہیں بیٹھوگی۔(۵)
بہن بھائی کے درمیان ایک عہد و پیمان ہوگیا: حسین(ع) شہید ہونگے اور زینب صبر کرینگی۔ شہید مطہری کے بقول: عصر عاشور سے زینب کا کردار سامنے آتاہے اس کے بعد کی ذمہ داریاں آپ کے کاندھوں پر تھی، وہ قافلہ سالار تھیں۔(۶)
زینب(س) نے اس عہد پر قائم رہتے ہوئے وہ نمایاں کام انجام دیئے کہ رہتی دنیا یاد کریگی اس طرح کہ اگر زینب نہ ہوتی تو شاید بنی امیہ کے چہرے سے ظلم کی نقاب نہ اٹھتی، جہالت کے پردے لوگوں کی نگاہوں پر پڑے رہ جاتے اور امام حسین (ع) کا قیام باطل کی غلط بیانیوں اور جھوٹی تبلیغ میں گم ہوکر رہ جاتا۔ کیونکہ حکومت بنی امیہ کی تھی، کارندے اسکے تھے، جیسا کہ پہلے بھی ہوتا آرہاتھا، وہ جو بھی تبلیغ کرتے کامیاب ہوجاتے، لیکن جناب زینب(ع)نے  ایسا کام کیا کہ باطل اپنا منہ نہ چھپا سکے، اور دنیا اسے اچھی طرح پہچان سکے۔

زینب (س)بازار کوفہ میں:

چنانچہ جب لٹاہوا قافلہ کوفہ پہونچا، مجمع عام تھا، کچھ لوگ رو رہے تھے تو بعض کو معلوم بھی نہ تھا کہ یہ کون ہیں؛ اسی وقت جناب زینب(س) پیغام کربلا عام کرنے کے لئے کھڑی ہوئیں: لوگوں کو خاموش کیا یہاں تک کہ اونٹوں کی گھنٹیاں بھی خاموش ہوگئیں؛ حمد وثنائے الہی کے بعد  لوگوں سے مخاطب ہوئیں: اے کوفہ کے لوگو! اے اہل مکر و فریب، اب رورہے ہو؟ تم لوگ ہمیشہ روتے رہو، تمہاری آنکھیں کبھی خشک نہ ہوں، تمہاری مثال اس عورت جیسی ہے جو مظبوط رسی بنانے کے بعد خود ہی کھول دے۔۔۔۔ تم رورہے ہو؟؟؟ ہاں تم رونے کے مستحق ہوخدا کی قسم تم خوب گریہ کرو بہت کم ہنسو۔۔۔ ۔افسوس ہے تم پر، کچھ جانتے بھی ہو تم نے رسول(ص) کے کس جگر کو پارہ پارہ کیا؟ اس کی حرمت کو پامال کیا اور اس کا خون بہایا؟ ان کی مستورات کو بے پردہ کیا ؟ ۔۔۔۔۔  بشیر بن حذیم اسدی کہتا ہے: اس سے پہلے میں نے اس طرح کسی خاتون کو خطاب کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ایسا خطاب جیسے علی(ع) بول رہے ہوں۔ (۷)

زینب(س)  دربار ابن زیاد میں:

جب جناب زینب (س) وارد دربار ہوئیں، معمولی لباس میں تھیں لیکن باوقار شخصیت۔ابن زیاد نے تحقیر کرنا چاہی، نام پوچھا، جواب نہ ملا۔ تین بار نام پوچھا تو کسی نے کہا یہ زینب بنت علی ہیں۔ اس نے کہا: خدا کا شکر اس نے تمہیں رسوا کیا اور تمہارا جھوٹ ظاہر کردیا۔ جناب زینب (س)نے فرمایا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَكْرَمَنَا بِمُحَمَّدٍ ص وَ طَهَّرَنَا تَطْهِيراً إِنَّمَا يَفْتَضِحُ الْفَاسِقُ وَ يَكْذِبُ الْفَاجِر۔ خدا کا شکر کہ اس نے ہمیں رسول کے ذریعہ فضیلت بخشی اور پاک و پاکیزہ بنایا نہ کہ جیسا تو کہہ رہا ہے، رسوا تو فاسق ہوتا ہے اور بدکار جھوٹ بولتا ہے۔
ابن زیاد نے کہا: خدا نے جو تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیسا پایا؟ جواب ملا: ’’مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِيلا ‘‘  خدا سے نیکی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، شہادت ان کے لئے مقرر تھی اور وہ اس راہ میں چل پڑے، عنقریب خدا تمہارے درمیان فیصلہ کریگا،  اس دن دیکھنا کون کامیاب ہے، تیری ماں تیرے غم میں بیٹھے اے پسر مرجانہ۔ اس کو غصہ آگیا عمروبن حریث نے قابو کیا تو بولا: خدا نے تیرے مغرور و متکبر بھائی کے قتل کے ذریعہ میرے دل کو سکون بخشا، جناب زینب (س)نے اسے دنداں شکن جواب دیتے ہوئے کہا: خدا کی قسم تونے ہمارے سید و سردار کوقتل کیا، شاخوں کو کاٹ ڈالا اور جڑکو اکھاڑ ڈالا، اگر اس سے تجھے شفا ملتی ہے تو اسی میں خوش رہ۔(۸)   ابن مرجانہ نے جب  تشنگی، اسیری اور دوسری رنج و مصیبت کے باوجود حق بیانی کا یہ انداز دیکھا تو اس  کی ساری خوشیوں پر پانی پھر گیا۔
 
جناب زینب  (س)دربار یزید میں:
جب دربار یزید میں وارد ہوئیں، دربار سجا ہوا تھا، لوگوں کو فتح کے خوشی کی دعوت دی گئی تھی ، یزید سربریدہ سے نازیبا سلوک کررہا تھا اور عبداللہ بن زبعری کے اشعار پڑھتا جاتا تھا: اے کاش جنگ بدر کے لوگ آج  زندہ ہوتے ۔۔۔  پیغام حسینی کے عام کرنے کا بہترین وقت آگیا تھا، شیر دل خاتون نے یزید کو ایسا جواب دیا کہ اسلام آج تک اس کی رہین منت ہے:  الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِين‏ ۔۔۔۔۔ اے  یزید! کیا تو سمجھتا ہے تو نے ہم پرعرصہ حیات تنگ کردیا، لہذا ہم تمہارے اسیربن گئے ہیں اور ہمیں ایک قطار میں لایا جارہاہے اور تم صاحب اقتدار ہوگئے ہو، (تمہارے خیال میں) یہ ہمارے لئے خدا کی طرف سے ننگ و عار ہے اور تیرے لئےفضیلت؟ ۔۔۔۔۔۔ ذراٹھہر، جلدبازی نہ کر، کیا تو فرمان خدا کو بھول گیا: وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً(9)  
اور خبردار یہ کفاّر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان کے حق میں کوئی بھلائی ہے- ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ جتنا گناہ کرسکیں کرلیں ورنہ ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔
اے آزاد شدہ غلام کی اولاد! یہ کہاں کا عدل ہے کہ کنیزوں کو پردہ میں رکھا جائے اور اہل بیت رسول(ص) کو بے پردہ پھرایا جائے؟  تم نے رسول زادیوں کو بے ردا اور ان کے چہروں کو بے پردہ کیا، دشمنوں کے ہاتھوں  پھرایا؟ جب کہ قرب و جوار کے شریف و پست لوگ ان کا تماشا دیکھنے  آئے۔۔۔۔۔ تیری بدکاریوں پر تعجب ہے اور نہ حیرت،  اس سے کیا امید لگائی جاسکتی ہے جس (کی دادی) نے شہیدوں کا جگر چباکر تھوکا ہو، جس(کے دادا) نے سید الانبیاء) ص) سے جنگ کی ہو۔۔۔۔۔  اے  یزید!  آل رسول پر ظلم کرنے کے باجود ایسے اشعار پڑھ رہا ہے  اور جنگ بدر والوں کو پکار رہا ہے کہ اگر وہ ہوتے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے۔۔۔۔۔ تم نے جوانان جنت کے سردار، فرزند یعسوب الدین اور آل عبد المطلب کے چشم و چراغ کا خون بہاکر مندمل زخم کو ہرا کرڈالا ۔۔۔۔اے یزید: تم نے اپنی ہی کھال ادھیڑی اور اپنا ہی گوشت ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے، عنقریب تم رسول خدا (ص)کے پاس جاؤگے جبکہ تم نے ان کی اولاد کا خون اپنی گردن پر لیا، ان کی حرمت کو پامال کیا اور ان کی عترت کا خون بہایا۔۔۔۔۔اے یزید پھر بھی جو مکر و فریب کرسکتے ہو کرلو، اور پوری کوشش کرکے دیکھ لو، لیکن خدا کی قسم !تم ہماری انتہا کو درک نہیں کرسکتے اور نہ ہماری بلندی کو چھو سکتے ہو اور نہ ہی ہمارا ذکر مٹاسکتے ہو (پورے خطبہ کےلئے: مثير الأحزان ،ص101؛  اللهوف على قتلى الطفوف، ص 181)
اس طرح جناب زینب (س)نے اپنے مدبرانہ کردار و گفتار سے باطل کے تمام حربوں کو ناکام کردیا ، کوفہ میں ایسا خطاب کہ لوگ نہ صرف اہل بیت (ع)کے غم کی طرف متوجہ ہوئے بلکہ امام علی (ع) کی یاد تازہ ہوگئی اور اگر کہا جائے کہ قیام توابین کی اصل داغ بیل اسی خطبہ نے ڈالی تو بیجا نہ ہوگا۔ ابن زیاد اپنے مکر فریب سے قیام کربلا اور شہادت امام حسین(ع) کی نسبت خدا کی طرف دے کر عقیدہ جبر کی ترویج کرنا چاہا لیکن جناب زینب نے بیباکانہ انداز میں ایک آفاقی جملہ’’و ما رایت الا جمیلا‘‘ کے ذریعہ عقیدہ جبر پر خط بطلان کھینچتے ہوئے اسے اپنے منحوس عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیا نیز ’’ابن مرجانہ‘‘ کے ذریعہ خطاب بھی اس کی فضیحت کے لئے کم نہ تھا۔   
جب شام میں پہونچیں تووہاں سرور و شادمانی کا عالم تھا اس لئے کہ انہیں جو سکھایا اور بتایا گیا تھا اس کے لحاظ سے حاکم اسلام کے خلاف خروج کرنے والا مارا گیا تھا لیکن جب جناب زینب(ع) نے دربار  میں خطاب کیا تو اس میں ’’بنات رسول‘‘ ذریہ رسول خدا‘‘ جیسے الفاظ  استعمال کرکے واضح کیا کہ بنی امیہ نے کس کو ماراہے۔ لفظ ’’ یابن الطلقاء‘‘ کے ذریعہ یزید کی حیثیت بھی بتائی جس سے پوری تاریخ بنی امیہ سامنے آگئی۔ اور خطبہ میں قرآنی آیات  کا سہارا لےکر ایک طرف اپنی حقانیت کا کلمہ پڑھوایا تو دوسری طرف واضح کردیا یہ جس کو تم اپنے لئے فخر سمجھ رہے حقیقت میں خدا کی جانب سے ’’مہلت ‘‘ ہے تاکہ مزید گناہوں کے دلدل میں دھنستے چلے جاؤ، جس طریقہ سے امام حسین (ع) نے نعرہ دیا تھا ’’هيهات منا الذلۃ‘‘ جناب زینب(ع) نے اس کو پورا کردکھایا’’ کد کیدک ۔۔۔۔جو دل چاہے کرلے ہمارے ذکر کو نہیں مٹا سکتا، اور ثابت کردیا کہ رہبری اور امامت کا حق صرف اور صرف  خاندان نبوت کا حق ہے۔
* اس لئے کہ جب مکہ فتح ہوا تھا تو رسول اسلام (ص)نے مشرکین سے فرمایا تھا ’’انتم الطلقاء‘‘  آج  یزید انہیں کی نسل کا ہوکر اہل بیت(ع) کی بے حرمتی کررہا تھا۔

منابع:
۱) جعفر نقدی، حیاۃ زینب الکبریٰ، ص22)
۲) ( ریاحین الشریعه ج 3 ص 41)
۳) )(رسولی محلاتی، زینب عقیلہ بنی ہاشم، ص 40؛ زینب الکبری، ط نجف، ص129)
۴) ( ریاحین الشریعہ، ج3، ص41)
۵) (الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، كنگره شيخ مفيد، ج2،ص94)
۶) ( حماسہ حسینی، ج1، ص232)
۷) (پورے خطبہ کےلئے: الأمالي (للمفيد)،ص 321؛  الإحتجاج على أهل اللجاج (للطبرسي)، ج‏2، ص 303؛ مثير الأحزان،  86؛  اللهوف على قتلى الطفوف ، ص 146)
۸)  مثير الأحزان،  86؛  اللهوف على قتلى الطفوف ، ص 146)
۹) (آل عمران، 176)

زیارت کے فوائد

❓کیا امام #حسین علیہ السلام اور دیگر #ائمہ طاہرین ہمارے حالات سے باخبر نہیں اور ہماری آواز نہیں سنتے جو ہم ان کی قبر پر جائیں وہاں جاکر باتیں کریں؟ اس کی کیا ضرورت ہے؟؟؟‼️

✍🏼اس میں شک نہیں کہ ائمہ طاہرین ہمارے حالات سے باخبر ہیں، لیکن کثیر تعداد میں زیارت کی فضیلت میں روایتیں موجود ہیں:

📚وسائل الشیعه،ج14 ص320 باب2

📚بحار الانوار ج97 ص116 باب 2

🔷امام #رضا علیه السلام نے فرمایا:

📗سمِعْتُ الرِّضَا ع يَقُولُ‏ إِنَّ لِكُلِّ إِمَامٍ عَهْداً فِي عُنُقِ أَوْلِيَائِهِ وَ شِيعَتِهِ وَ إِنَّ مِنْ تَمَامِ الْوَفَاءِ بِالْعَهْدِ وَ حُسْنِ الْأَدَاءِ زِيَارَةَ قُبُورِهِمْ فَمَنْ زَارَهُمْ رَغْبَةً فِي زِيَارَتِهِمْ وَ تَصْدِيقاً بِمَا رَغِبُوا فِيهِ كَانَ أَئِمَّتُهُمْ شُفَعَاءَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

📖حسن بن علی وشاء کہتے ہیں: میں نے امام رضا علیہ السلام کویہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امام کے لئے ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ایک عہد و پیمان ہے اور وعدہ وفائی کے کمال میں سے یہ ہے کہ ان کی قبروں کی زیارت کریں پس جو پورے شوق اور تصدیق کے ساتھ ان کی زیارت کرے ان کے امام قیامت کے ان کے شفیع ہونگے۔

📚الكافي( ط- الإسلامية)، ج4، ص567۔ 

🔷اسحاق بن عمار امام #صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

📒مرُّوا بِالْمَدِينَةِ فَسَلِّمُوا عَلَى‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ ص‏ مِنْ قَرِيبٍ وَ إِنْ كَانَتِ الصَّلَاةُ تَبْلُغُهُ مِنْ بَعِيدٍ.

📃مدینہ جاو اور قریب سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ پر سلام کرو اگرچہ دور سے بھی درود ان تک پہونچتا ہے۔

📚الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏4، ص552، باب دخول المدينة و زيارة النبي ص و الدعاء عند قبره؛ وسائل الشيعة، ج‏14، ص338، 4 - باب استحباب زيارة النبي ص و لو من بعيد و التسليم عليه و الصلاة عليه۔

👌اس طرح کی اور بھی روایتیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قبور اہل بیت علیہم السلام پر حاضر ہونا فضیلت رکھتا ہے اور اس کے کئی فائدے ہیں منجملہ:

 1️⃣زیارت، ان بزرگ ہستیوں کی تعظیم و تکریم کا سبب اور ان سے محبت کی ایک علامت ہے۔

❗️دنیا کی مختلف قومیں اپنے بزرگوں کے آثار کو زندہ رکھنے اور ان کی حفاظت کی کوشش کرتی ہیں یہ بھی اکابرین مذہب کے احترام اور تعظیم میں سے ہے۔

 2️⃣ روایات کے مطابق مراقد مشرفہ اور حرم ائمہ طاہرین علیہم السلام  فرشتوں، ارواح انبیاء و اولیاء کی جائے نزول ہے اور زیارت، اس سے مستفیض ہونے کا سبب ہوگی اور ان مقامات پر دعا مستجاب ہوگی۔ 

📚ثواب الاعمال ص96

3️⃣ ان کی زیارت کرنا حقیقت میں اس راہ میں پڑنے والے شہروں قریوں میں وحدانیت خدا اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کی ترویج ہے۔

4️⃣یہ زائرین کی اپنے ائمہ سے محبت اور دوستی کی صداقت کی علامت ہے کہ رنج سفر برداشت کرتے ہیں اور زیارت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں تاکہ ان کے حکم کی اطاعت کریں

5️⃣زیارت پر جانا سبب بنتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو پہچانیں مختلف قوموں اور علاقوں کے حالات سے واقف ہوں اور مشکلات کو سمجھیں۔

6️⃣زیارت، امام رضا علیہ السلام کی روایت کے مطابق ایک عہد و پیمان ہے جو اماموں کے ساتھ انجام پایا۔ 

7️⃣ ائمہ طاہرین کے روضے ہمیشہ تبلیغ و ترویج دین، علم ... کا مرکز رہے ہیں. یہ سب ان کی زیارتوں کی برکت اور انہیں آباد رکهنے کے طفیل میں ہے 

📚 مزید تفصیلات کے لئے: ادب فنای مقربان،جوادی آملی ج1 ص18 

نہی عن المنکر

🔘کلام امام حسین علیہ السلام سے🔘

📕لایَنبَغی لِنفسٍ مُؤمِنَةٍ تَری مَن یَعصِی اللهَ فَلا تُنکِرَ؛

🗒مومن کی شان یہ نہیں ہے کہ کسی کو گناہ کرتے دیکھے اور اس پر اعتراض نہ کرے

📚کنزالعمّال، ج 3، ص 85

✍🏼اگر امام حسین علیہ السلام کے ارشادات کو ملاحظہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے ایک زندہ قوم میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت ہے۔

امربالمعروف اور نہی المنکر حقیقت میں معاشرہ اور سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے، معاشرہ کی ترقی بھی اسی میں مضمر دکھائی پڑتی ہے۔

جو شخص اسلام، قرآن، خدا، اور رسول پر اعتقاد رکھتا ہوگا، اس سے بعید ہے کہ معاشرہ میں اخلاقی، اعتقادی، سماجی برائیوں کی جڑوں کو مضبوط ہوتا دیکھتا رہے اور اس سے کوئی مطلب نہ رکھے، گویا کوئی بات ہی نہ ہو۔

جس سماج میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو وہ سماج گویا مردہ اور بے حس ہے۔

نہی عن المنکر یعنی جو کشتی میں سوراخ کرناچاہتا ہو جو سب کو لے ڈوبے، یا صاف پانی کو زہرآلود کرنا چاہتا ہو جس سے پورا شہر ہی بیمار پڑجائے اسے اس کام سے روک دینا۔

فسق کرنے والوں اور گناہ کے شکار لوگوں کو گناہ اور معصیت سے روکنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے درختوں پر زہر کا چھڑکاو کردیا جائے تاکہ اس کے پھل مختلف آفتوں سے محفوظ رہیں۔

 گندی نالیوں کو صاف کردینا چاہئے جہاں سے گناہ جیسے ملیریا سے بہت سے لوگوں کے مریض ہوجانے کا خطرہ ہو، ایسے کوڑے کو دفن کردینا چاہئے جس سے ہوس کے کیڑوں کے پھیلنے کا خطرہ ہو۔ تبھی ایمان و تقوی کے پھول کھلتے نظر آئیں گے۔

▫️ایمان اور اسلام نے نہی عن المنکر جیسی عظیم ذمہ داری مسلمانوں کے حوالے کی ہے تاکہ نہ جرم کریں نہ ہی جہاں تک ممکن ہو جرم ہونے دیں▫️

حسینی کون؟

⁉️⁉️ #کیا_ہم_حسینی_ہیں

 🔹ہمارا دعوی تو یہی ہے: ہم حسینی ہیں۔

👈 حضرت امام حسین (ع) سے محبت کا دم بھرتے ہیں، علی الاعلان کہتے ہیں ہم حسین(ع ) کے ماننے والے ہیں، ان کے عزادار ہیں۔

🌹ہونا ہی چاہئے🌹

⁉️ لیکن کیا واقعاً، #کتنے_حسینی_ہیں؟!

💢ہاں قرآن کریم میں ایک معیار ہے، سمجھ سکتے ہیں: حسینی ہیں یا نہیں؟!

💢حضرت ابراہیم(ع ) تمام انبیاء کے درمیان، ایک خاص مقام و منزلت کے حامل تھے۔

🔹قرآن کریم میں خدا فرماتا ہے:

👈 یہودی‌ اور عیسائی آپس میں دعوی کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (ع ) یہودی تھے یا عیسائی!!

👈دونوں مذہب والے کوشش کررہے تھے کہ خود کو جناب ابراہیم (ع) سے منسوب کریں، اور کہیں کہ ابراہیم (ع) ہم میں سے ہیں اور ہم ابراہیمی ہیں۔

✅ یہودی‌ کہتے تھے: 
ابراہیم یہودی ہیں۔

✅ عیسائی کہتے تھے:
نہ، ابراہیم مسیحی تھے۔

💢لیکن قرآن کریم فرماتا یے:
🔹یہ کیسا لڑائی جھگڑا ہے کیوں لڑ رہے ہو؟؟!
🔹آخر کیوں تھوڑا فکر نہیں کرتے؟؟؟!

🔹مسیحیت اور یہودیت ابراہیم کے بعد معرض وجود میں آئی!!
🔹تم کیسے دعوی کرسکتے ہو کہ ابراہیم(ع) یہودی تھے یا عیسائی؟!


🕋 یا أَهْلَ الْکِتَابِ! لِمَ تُحَاجُّونَ فِی إِبْرَاهِیمَ؟!
🕋 و مَا أُنزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَ الْإِنجِیلُ إِلَّا مِن بَعْدِهِ! أَفَلَا تَعْقِلُون؟!َ...
🕋 ما كٰانَ إِبْرٰاهِيمُ يَهُودِيًّا وَ لاٰ نَصْرٰانِيًّا وَ لٰكِنْ كٰانَ حَنِيفاً مُسْلِماً وَ مٰا كٰانَ مِنَ اَلْمُشْرِكِينَ.

💢 اے اہل کتاب! آخر ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیوں بحث کرتے ہو؟! (اور تم میں ہر کوئی انہیں اپنے دین کا پیرو سمجھتا ہے؟!)
💢جب کہ توریت اور انجیل ان کے بعد نازل ہوئی! کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے؟!
💢ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے نہ عیسائی، بلکه وہ 🔸مسلمان 🔸حق پرست باطل سے کنارہ کش تھے اور 🔸مشرکین میں سے ہرگز نہیں تھے۔

📚 سوره آل عمران، آیات ۶۵ 

🌹🌹اب اس سے جو درس ملتا ہے بہت اہم ہے.

💠 قرآن کہتا ہے:
🔹بہت چاہتے ہو خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاؤ؟! ٹھیک ہے

🔹اگر یہ سمجھتا چاہتے ہو کہ حضرت ابراہیم (ع) کے قریب ہو کہ نہیں۔۔۔۔؟؟ اس کا یہ معیار ہے:

🕋 إنَّ أَوْلَی اَلنّٰاسِ بِإِبْرٰاهِیمَ لَلَّذِینَ اِتَّبَعُوهُ... 

💢 یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام  سے قریب تر ان کے پیرو ہیں۔جو ان کی اتباع کرتے ہیں۔
📚 آل عمران آیه ۶۸

✅✅ یعنی جس کا عمل ابراہیم (ع) سے قریب تر ہو وہ شخص ابراہیمی ہے۔

🌹🌹تو ہم اگر جاننا چاہتے  ہیں کہ  ہم کتنے اور کس قدر حسینی ہیں؟! یا حسینی ہونے کا فقط دعوی ہے؟
✅ سب سے پہلے اپنے اعمال و کردار کو دیکھیں..

✅✅✅ جتنا زیادہ ہم حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیروی اور اتباع کررے ہونگے، جتنا ہمارے اعمال امام حسین(ع) کے اعمال سے قریب ہونگے، ہمارا کردار جتنا زیادہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے کردار سے ملتا ہوگا؛

👈👈اتنے  ہی ہم حسینی ہونگے۔