مباہلہ کیا ہے؟
مباہلہ کی اصل ’’ بہل ‘‘ہے یعنی آزاد کردینا، کسی چیز سے
قید و شرط کا ہٹا لینا۔اور
اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ
آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے ، اسے "باھل" کہتے ہیں ، اور دعا میں
"ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
اگر اس کو نفرین اور خدا سے دوری
کے معنی میں لیا جاتا ہے وہ اسی لئے ہے کہ خدا کے بندے کو بھی آزاد چھوڑ دینے کے
یہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
مباہلہ اصطلا ح میں
ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے اور نفرین کرنے کو کہتے ہیں۔ مباہلہ کی کیفیت یہ
ہے کہ لوگ جو اپنے مذہب اور عقیدہ کے سلسلہ میں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور خدا کی
بارگاہ میں تضرع و زاری کرتے ہیں اور اس سے دعا مانگتے ہیں کہ جھوٹے کو ذلیل و
رسوا کرے اور اس پر عذاب نازل کردے۔
تفسير نمونه، ج 2، ص579، دار الكتب
الإسلامية، تهران، 1374 هـ ش۔
مباہلہ یعنی ایک دوسرے
پر نفرین کرنا تاکہ جو باطل پر ہے اس پر خداوند عالم کا غضب نازل ہو اور جو
حق پر ہو اسے پہچانا جائے اور اس طرح حق و
باطل کی پہچان ہوسکے۔
دوانى، على، مهدى موعود-ترجمه
بحار، ج13، ص 636، دار الكتب الاسلاميه۔
مباہلہ کون کرسکتا ہے؟
اگرچہ آیہ مباہلہ میں کلی حکم کی طرف اشارہ نہیں ہے ، بلکہ
آیت کا خطاب رسول خدا(ص) سے ہے لیکن یہ موضوع اس بات سے مانع نہیں بنتا کہ
مخالفوں سے مباہلہ ایک عام حکم کی صورت میں ہواور صاحب ایمان جو تقوی پرہیز گاری اور خداپرستی میں کامل ہو ں
، جب وہ اپنی دلیلوں کے ذریعہ دشمن کو قانع
نہ کرسکیں، تو مباہلہ کی دعوت دے دیں۔
تفسير نمونه، ج 2، ص589، دار الكتب الإسلامية،
تهران، 1374 هـ ش۔
جیسا کہ روایت میں بھی آیا ہے کہ
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
قُلْتُ إِنَّا نُكَلِّمُ النَّاسَ فَنَحْتَجُّ عَلَيْهِمْ
بِقَوْلِ اللَّه……
فَقَالَ لِي إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَة…
عرض کیا : ہم ان پر قول خدا کے ذریعہ احتجاج کرتے ہیں
’’اطیعوااللہ۔۔۔‘‘ کہتے ہیں یہ امیر لشکر کے نازل ہوئی، ’’انما ولیکم۔۔۔‘‘ سے
استدلال کرتے ہیں، کہتے ہیں مومنین کی شان میں ہے۔۔۔۔ تو آپ نے فرمایا اگر ایسا
ہے تو انہیں مباہلہ کی دعوت دو۔
الكافي (ط - الإسلامية)، ج2،ص514، باب المباهلة ..
مباہلہ کے آداب
جیسا کہ معلوم ہوا : مباہلہ اس وقت کے لئے جب مذہب حقہ کی
پیروی کرنے والے کے سامنے کوئی راہ حل نہ
بچے اور باطل بات ماننے کو طیار نہ ہواس وقت مباہلہ کی دعوت دی جاسکتی ہے ، اس کے
لئے روایات میں کچھ آداب ذکر کئے گئے ہیں۔
جب امام صادق علیہ السلام سے سوال ہوا کہ کیسے مباہلہ کیا
جائے ؟ آپ نے فرمایا:
أَصْلِحْ نَفْسَكَ
ثَلَاثاً وَ أَظُنُّهُ قَالَ وَ صُمْ وَ اغْتَسِلْ وَ ابْرُزْ أَنْتَ وَ هُوَ
إِلَى الْجَبَّانِ فَشَبِّكْ أَصَابِعَكَ مِنْ يَدِكَ الْيُمْنَى فِي أَصَابِعِهِ
ثُمَّ أَنْصِفْهُ وَ ابْدَأْ بِنَفْسِكَ وَ قُلِ اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ
السَّبْعِ وَ رَبَّ الْأَرَضِينَ السَّبْعِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ
الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ إِنْ كَانَ أَبُو مَسْرُوقٍ جَحَدَ حَقّاً وَ ادَّعَى
بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً
ثُمَّ رُدَّ الدَّعْوَةَ عَلَيْهِ فَقُلْ وَ إِنْ كَانَ فُلَانٌ جَحَدَ حَقّاً وَ
ادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً
أَلِيماً ثُمَّ قَالَ لِي فَإِنَّكَ لَا تَلْبَثُ أَنْ تَرَى ذَلِكَ فِيهِ فَوَ
اللَّهِ مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْهِ.
1۔ تین دن اپنے نفس کی اصلاح کرو، 2 ۔ اور شاید کہا اور روزہ رکھو۔
3۔ غسل کرو۔ 4۔ مباہلہ کرنے والے کے ساتھ صحرا میں جاؤ۔ 5۔ اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں
ڈال دو۔ 6۔ اور پہلے تم شروع کرو اور کہو: باالہا جو کہ ساتوں زمین و آسمان کا
پالنے والا، غیب کی خبر رکھنے والا، رحمن و رحیم ہے!اگر میرا مخالف حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کا دعوی کرتا ہے
، تو آسمان سے اس پر بلاء کو نازل فرما یا دردناک عذاب میں مبتلا کردے، اس کے
دوبارہ دعا کو دہراؤ اور کہو: اگر وہ حق کا انکار کرتا ہے اور باطل کو دعوی کررہا
ہے تو اس پر آسمان سے بلا نازل فرما یا دردناک عذاب میں مبتلا فرما۔
پھر آپ(ع) نے فرمایا: پھر زیادہ وقت نہیں لگے گا اور نتیجہ دیکھ لوگے۔ اور خدا کی قسم لوگوں میں سے کسی کو نہیں پایا کہ اس طرح مجھ
سے مباہلہ کرے۔
الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، 514، باب المباهلة .....