اورپھر کافر مایوس ہوگیا۔
سید ذیشان حیدر
حجاز میں قتل و غارتگری، عورتوں کی بے حرمتی، بچیوں کو زندہ درگور کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر برسہا برس لڑنا معمول کی بات تھی؛ دین ابراہیمی بت پرستی کی ظلمت میں گم ہوچکا تھا ، دوسرے الہی مذاہب بھی تحریف کی نذر ہوچکے تھے ،شرک بنام توحید ان کا نصب العین تھا، کفر کے بادل ہر جگہ چھائے ہوئے تھے، ، ہاں ابھی بھی کچھ تھے جو دین ابراہیمی پر عمل پیرا تھے۔
ایسے میں خدا نے اپنے قانون بے مثال دین لازوال کا مرکز مکہ کو بنایا ، وہ دین جو تمام علوم کاحامل اور انسان کو انسان بنانےکے لحاظ سے کامل تھا۔ اس دین کی رسالت حضرت خاتم المرسلین حضرت محمد بن عبد اللہ(ص) کے سپرد کی گئی۔ پیغمبر اکرم(ص) نے تبلیغ دین کا آغاز کیا اور مختلف قسم کی رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے، پوری جانفشانی کے ساتھ کار تبلیغ کو آگے بڑھایا، جس کے آغاز میں جناب ابوطالب اور جناب خدیجہ کی مشقتیں بھی آپ کے ساتھ رہیں اور آخر تلک حضرت امیرالمومنین(ع) جیسی شخصیت آپ(ص) کی قوت بازو بنی رہی۔
آنحضرت(ص) نے آہستہ آہستہ لوگوں کو اللہ کے دین سے روشناس کرایا، الہی احکام بتائے ،جینے کا سلیقہ سکھایا ؛ اس طر ح عالمی اور فکر ساز، روح پرور اور ہمشیہ باقی رہنے والے دین کی داغ بیل ڈال دی۔ ہجرت سے پہلے تقریبا تیرہ سال آپ (ص)نے مکہ معظمہ میں تبلیغ کی ، بہت سے لوگوں کو دین اسلام کاگرویدہ بنالیا؛ کچھ نے صدق دل سے اسلام قبول کیا تو کچھ نے اپنے جاہلی افکار کے ساتھ اپنے مفاد کی خاطر۔
ہجرت کے بعد اسلام کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا ، اب صرف مکہ کے بت پرست ہی نہیں دور دراز کے رہنے والے صنم کدوں کے پجاریوں ، یہودیوں اور نصرانیوں نے بھی اسلامی شوکت کا نظارہ کیا اور جوق در جوق اس کی طرف کھچتے چلے آئے ، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سب کے سب خلوص دل سے اللہ پر ایمان لائے ہوں، بلکہ تاریخ شاہد ہے کسی نے مال ودولت کے لئے، غنائم جنگی کے لئے تو کسی نے اپنے قبیلہ کی پیروی کرتے ہوئے اورکسی نے اپنی جان کی حفاظت کے واسطے اسلام قبول کیا۔ اس طرح اسلامی معاشرہ جو کبھی شعب ابوطالب تک محدود تھا، مکہ کے حدود کو توڑتے ہوئے یثرت کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے افریقہ ، روم، بلادفارس کی سرحدوں سے ٹکرانے لگا۔ یہ کارنامہ رسول اکرم کی جانفشانیوں، سچے مسلمانوں کی قربانیوں، شجاعت علوی کے جلووں کے سایہ میں انجام پایا۔
لیکن اتنے کم عرصہ میں مختلف جنگیں، اسلامی معاشرہ کی معاشی اور سماجی مشکللات ، اس کے علاوہ منافقوں کی سرگرمیاں وغیرہ ، ان سب کو اگر یکجا کیاجائے تو کوئی صاحب عقل یہ نہیں کہے گا کہ اسلام کے سارے قوانین واضح کردئے گئے اور سارے احکام جاری بھی ہوگئے، اگر ایسا ہوتا تو آج اسلام کی اتنی غلط تفسیریں نہ ہوتیں،پرچم اتحاد نہ جھکا ہوتا اور نہ ہی مسلمان اس قدر مختلف فرقوں میں بٹا ہوا ہوتا۔
اس وقت کے کفار، مشرکین اور وہ جو اسلام کے لبادے میں اپنے مشرکانہ عقائد چھپائے ہوئے تھے اسی طرح اسلام کے نیست و نابود ہوجانے کی امید لگائے بیٹھے تھے ، انہوں نے رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں چو طرفہ کوشش کی لیکن ہر سمت سے نامراد لوٹے ،کیونکہ ابھی اسلام کا محافظ یعنی رسول اکرم جیسی ذات باحیات تھی لیکن ابھی بھی ان کی آس یاس میں تبدیل نہیں ہوئی تھی اس لئے کہ اک نہ اک دن آنحضرت کو جانا تھا تو دوسری طرف آپ(ص) کے پاس اولاد نرینہ نہ تھی، لہذا ایسا نقشہ کھینچتے رہے کہ آپ(ص) کی رحلت کے بعد اسلام باقی نہ رہے، لیکن انہیں نہیں معلوم تھا کہ اسلام میں نہ قبائلی سوچ کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی جاہلانہ طرز کی کوئی اوقات، بلکہ اسلام میں معیار بزرگی صرف اور صرف تقوی ہے ۔ اس مرحلہ میں ارباب حل و عقد کا بھی کوئی کام نہیں حتی مبلغ اسلام کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی کو الہی منصب عطا کرے ۔
لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی ایسا موقع آئے تاکہ جہاں پر کفار و منافقین و مشرکین کی ساری سازشیں پوری طرح ناکام ہوجائیں اور دنیا تک یہ خبر پہونچ جائے کہ اسلام کا وارث موجود ہے ۔
رسول اسلام (ص) بھی اس بات سے باخبر تھے کہ آئندہ اسلام پر کیا گذرنے والی ہے، لہذا انھوں نے اپنے جانشین کا تعارف تو واقعہ ذوالعشیرہ سے شروع کردیا تھا لیکن اب آخری ایام میں جب اسلام پھیل چکا ہے شریعت کا نفاذ ہوچکا ہے کفار و منافقین رحلت رسول کے بعد کی سازشیں رچ رہے ہیں توکوئی ایسی خاص جگہ ہو جہاں پر آپکے جانشین کا اعلان ہوجائے اور عالم اسلام اپنے ہادی و امام کو پہچان لے اور اسلام کا دشمن پسپا ہوجائے ۔ اس کے لئے آپ کے بیت اللہ کےآخری سفرحجۃ الوداع کے بعد کے زمانہ سے بہتر کون سا زمانہ ہوگا۔ جیسا کہ روایت میں بھی اشارہ ہے: لم یناد بشی مثل مانودی بالولایۃ یوم الغدیر اصول (کافی: ج۲، ص۲۱)۔ اس کے علاوہ اگر تاریخ کی اوراق پلٹے جائیں تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے تو اعلان ولایت کے سلسلہ میں رسول گرامی کا اہتمام ایک خاص نوعیت کا دکھائی پڑے گا۔ رسول خدا نے حج سے پہلے ہی لوگوں کے ذہنوں کو ولایت علی (ع) کی جانب موڑنا شروع کر دیا تھا۔
۱۔ منی میں اعلان ولایت: پیغمبر اکرم (ص) نے منی میں ایک خطبہ دیا جس میں سب سے پہلے لوگوں کی آبرو عزت ، جان و مال کی حفاظت کی طرف اشارہ کیا، زمانہ جاہلیت کے خون کو بخش دیا تاکہ مسلمانوں سے کدورت کا خاتمہ ہوجائے پھر مسلمانوں کو تفرقہ سے پچنے کی تلقین کی ۔یہاں تک کہ فرمایا: ثُمَّ قَالَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَوْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِب اگر میں نہ رہوں تو علی بن ابی طالب مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔ بحارالانوار، ج37، ص113۔
۲۔ مسجد خیف میں: آنحضرت (ص) نے لوگوں کو مسجد خیف میں جمع ہونے کا حکم دیا ،خطبہ ارشاد فرمایا اور تاکید کی کہ ان باتوں کو ذہن نشین کرلیں اور دوسروں کو بتائیں، اس خطبہ میں بھی آپ(ص) نے تفرقہ پر روشنی ڈالی، امامت کے سلسلہ میں اخلاص عمل کی تاکید کی اور اسکے بعد حدیث ثقلین پیش کی: أَیُّهَا النَّاسُ إِنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ الثَّقَلَیْنِ قَالُوا یَا رَسُولَ اللَّهِ وَ مَا الثَّقَلَانِ فَقَالَ کِتَابُ اللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلُ بَیْتِی۔۔۔ اے لوگو! میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ کے جارہا ہوں۔ کہا: کون سی دوگراں قدر چیزیں۔ فرمایا: کتاب خدا اور میرے اہل بیت۔۔۔ کچھ لوگ جمع ہوئے اور کہنے لگے محمد امامت کو اہل بیت میں قرار دینا چاہتے ہیں انمیں سے چار لوگ مکہ کی طرف آئے اور معاہدہ کیا کہ اگر محمد وفات پاگئے یا قتل ہوگئے تو امامت کو ہرگز اہل بیت کی جانب نہیں جانے دینگے۔ بحارالانوار، ج37، ص114۔
۳۔ امیر المومنین جیسے لقب کا استعمال: حجۃ الوداع، 14ذی الحجہ ، آنحضرت(ص) مکہ میں تشریف فرما تھے اور دوسرے دن حاجیوں کو مکہ سے نکلنا تھا۔ جبرئیل امین نازل ہوئے اور حضرت علی (ع) سے مخصوص لقب ’’ امیرالمومنین‘‘ کا ہدیہ لے کر آئے اور خودجبرئیل نے اسی لقب کے ساتھ سلام کیا۔ حضرت امیر المومنین (ع) نے عرض کیا: یارسول اللہ میں ایک آوز سن رہا ہوں لیکن کوئی دکھائی نہیں پڑتا؟! آنحضرت (ص) نے جواب دیا: یہ جبرئیل ہے جو خدا کی طرف سے جسکا اس نے وعدہ فرمایا تھا لیکر آیا ہے۔
آنحضرت (ص) نے اصحاب کو حکم دیا: علی (ع) کے پاس حاضر ہوں اور انہیں ’’السلام علیک یا امیرالمونین‘‘ کہیں۔ اصحاب آئے اور انہوں نے ایسا ہی سلام کیا۔ الأمالی( للصدوق)،ص355؛ البرهان فی تفسیر القرآن،ج2، ص398۔ اسی لقب کے ذریعہ بریدہ اور عمران بن حصین نے حضرت ابوبکر سے احتجاج کیا تھا۔ بحارالانوار، ج37، ص309۔ یہ لقب رسول خدا(ص) کے بعد صرف حضرت علی (ع) کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ معصوم ائمہ اطہار نے بھی حکم دیا کہ اس لقب کو ان کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ وسائل الشیعة،ج14، ص600۔
۴۔ اسی دن ایک بار پھر جبرئیل خدا کی جانب سے فرمان لیکر آئے: آپ کی نبوت کا وقت ختم ہوگیا اور رحلت کا وقت قریب ہے ۔۔۔انبیائے ماسبق کی میراث ،علم، اسلحہ اور تابوت(صندوق) اور وہ چیز جو انبیاء کی نشانیوں میں سے آپ کے پاس ہیں اپنے بعد کے وصی اور خلیفہ کے حوالہ کردیں۔
رسول اکرم(ص) نے امیرالمومنین(ع) کو بلوایا اور ایک خصوصی نشست میں اسم اعظم، علم، حکمت، کتب انبیاء اور ان کی نشانیوں جیسی امانات الاہیہ کو ان کے سپرد کیا اور جبریل کے فرمان کو پہونچایا۔ بحارالانوار، ج28، ص96؛ عوالم العلوم، ج15، ص176
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اب نبی کریم بیت اللہ میں ہیں ،حجاج کرام لمبے لمبے سفر طے کرکے آئیں ہیں حج کے بعد کچھ دن وہاں ٹھہرتے ۔لیکن نہیں، بلال کو حکم دیا صبح کوچ کرنے کا اعلان کردومریضوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہے ، یہ خود بتا رہا ہے ابھی کوئی اہم کام باقی ہے جسے معینہ وقت پر انجام دینا ہے، لہذا قافلہ مکہ سے روانہ ہوا اور جب'' کراع غمیم'' نامی جگہ پر پہونچا ، جبرئیل امین نازل ہوئے ''اے رسول !اس پیغام کو پہونچا دیجئے جو آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوچکا ہے ''۔
جب خداوندعالم کا تاکیدی حکم آگیا، آپ(ص) نے لوگوں کو غدیر کے مقام پر جمع ہونے کی تاکید فرمائی اور اصحاب کو حکم دیا کہ وہ اونٹوں کے کجاووں کا منبر بنائیں ۔ظہر کی نماز کا وقت ہوا ، آنحضرت (ص) نے جناب بلال کو بلا کر اذان کہنے کا حکم دیا ۔اور پھر لوگوں نے رسول (ص) کی قیادت میں اپنی زندگی کی سب سے یادگار نماز ادا کی ۔ پیغمبر خدا(ص) نماز کے بعد کجاووں کے بنائے گئے منبر پر تشریف لے گئے ،اپنی آواز لوگوں تک پہونچانے کے لئے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو حکم دیا کہ منبر کے پاس کھڑے ہو کر میرے کلمات کی تکرار کرو تاکہ جو لوگ منبر سے دور ہیں وہ بھی اس خطبہ کو سن سکیں۔پھر آپ نے حضرت علی(ع) کو بلاکر منبر کے داہنی طرف کھڑا کردیا ، سب کی نگاہیں رسول خدا (ص) کی جانب تھیں ۔ آنحضرت (ص) نے فراز منبر پر پہونچ کر بلند آواز سے خطاب فرمایا: تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ہیں ، ہم اسی سے مدد مانگتے ہیں ، اسی پر ایمان لائے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ، ۔۔۔۔۔۔ اما بعد !اے لوگو!ان اللہ مولای و انا مولی المومنین و انا اولیٰ بھم من انفسہم فمن کنت مولاہ فعلی مولاہ ''خدا میرا مولا ہے ، میں مومنین کا مولا ہوں اور خود ان سے زیادہ ان پر اختیار رکھتاہوں ، جس کا میں مولاہوں اس کے یہ علی مولا ہیں۔۔۔ جبرئیل آیت لیکر آئے: الْیَوْمَ یَئِسَ الَّذینَ کَفَرُوا مِنْ دینِکُمْ ۔مائدہ 3۔اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں۔
کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے اسلام ایک اسی شخصیت کی بنیاد پر ہے جہاں یہ گیا اسلام بھی ختم ہوجائے گا، لیکن جیسے ہی رسول نے اپنے جانشین کا اعلان کیا اور لوگوں سے بیعت لی اور ’’سحاب‘‘ علی(ع) کے سر پہ رکھا، سمجھ گئے یہ مذہب مذہب لازوال ہے کیونکہ اس کی باگ ڈور صاحب علم و تقوی کے ہاتھوں میں دے دی گئی، جو اسے پایۂ تکمیل تک پہونچادیگا۔ تفسیر نمونہ، ج4، ص265۔ بڑے تعجب کی بات ہے، آیت اپنے ماقبل و مابعد سے ایک دم الگ ہے اس کا مطلب کسی خاص معنی کی طرف اشارہ ہے جب کفار مایوس ہوگئے، کیا وہ دن یوم بعثت تھا؟ نہیں، کیا فتح مکہ تھا؟ نہ ۔ کیونکہ حجۃ الوداع سے پہلے فتح ہوا۔ کیا وہ یوم برأت تھا؟ نہیں ، کیوں کہ نویں ہجری میں انجام پایا۔ تو پھر کب مایوس ہوئے؟ واضح جواب ہے: ادیان ماسبق کی بربادی انہیں کے پیروکاروں نے کی تھی، اگر دین اسلام بھی یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ، رسول رحلت فرما جاتے اور کوئی جانشین معین نہ ہوتا تو کسی کو بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں تھی ،بس غدیر نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ رجوع کریں:تفسیر المیزان، ج5، ص168۔ تبھی تو شیطان چیخ اٹھا۔بحارالانوار، ج37، ص121۔