علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

ہفتہ، 5 مئی، 2018

عصر انتظار اور ہم

 

آج کے دور کو کوئی جدید و مارڈن دور سے تعبیر کرے یا ٹکنالوجی کے دور سے ایک منجی بشریت کا منتظر، اس دور کو عصرانتظار سے تعبیر کرتا ہے ،اسکی نظر میں یہ دور علمی ترقی کا ہو یا سائنس کی کرشما سازیوں کا یا ٹکنالوجی کی عظیم پیشرفت کا،کوئی بھی عنوان آج کے ترقی یافتہ دور کے لئے کیوں نہ ہو ، ایک منتظر کے لئے اسی وقت اس میں معنی پیدا ہوتے ہیں جب وہ اسے انتظار سے جوڑتا ہے ، ایسے میں اگر اس دور کو بھلے ٹکنالوجی کا دور کہا جائے لیکن ایک منتظر کے لئے اس ٹکنالوجی کا کوئی مطلب نہیں ہے جو مادہ سے گھوم کر مادہ پر ختم ہو جائے اور اسے کسی بڑے مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ نہ بنایا جا سکے ،اسی طرح دنیا میں یہ روز روز جو انکشافات ہو رہے ہیں اور علمی ترقی ہو رہی ہے اس کے بھی کوئی معنی نہیں ہیں اگر اس علمی ترقی کو انسان کی حقیقی روحانی ترقی سے نہ جوڑا جائے ،سائنس کی جولانیاں بھی لا یعنی ہیں اگر انکی تہوں میں خالق علم و حکمت کا شکریہ نہ ہو ، اور سائنس کے ذریعہ انسان اپنے رب تک نہ پہنچ سکے تو بھلے دنیا سائنس کو  کتنا بڑا ہوا بنا لے لیکن ایک منتظر کے لئے اسی وقت یہ مثبت اور لائق تعریف ہوگی جب یہ اعلی ترین مقصد کے لئے وسیلہ بنے لہذا ،ایک منتظر موجودہ دور کو کسی ایک عنوان کےماتحت نہ لا کر بس ایک ہی عنوان کے تحت دیکھتا ہے اور وہ ہے عصر انتظار ۔

اسکا عقیدہ یہ ہے کہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اب اگر انسانی معاشرہ کی علمی ترقیاں اسکے انتظار میں نکھارنے کا سبب ہیں تو بہت خوب ، اگر سائنس کی ہنر نمائیاں اسکے انتظار  کو بارور بنانے کا سبب ہیں تو بہت خوب اگر دنیا کے انکشافات اسکے انتظار میں کچھ رنگ بھرنے کا سبب ہیں تو بہت خوب ورنہ ان سب کی کوئی حیثیت نہیں ہے کہ اگر انکا سلسلہ روحانیت سے نہ ہو تو یہی ساری چیزیں انسانیت کی تباہی کا سبب ہیں ،جبکہ انتظار انہیں اس روحانی پیشوا سے جوڑنے کا سبب بنتا ہے   جسے منجی بشریت کہا جاتا ہے ،جس سے جڑ کر زندگی کو ایک نئے معنی ملتے ہیں ۔
 با اینکہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں اور ہمیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے لیکن جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالی الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لئیے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام ع کی سلامتی کی دعاوں اور اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئیے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا  جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں  بلکہ  انسان اپنے وجود کے سلسلہ سے اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا ، انسان طالب چین و سکون ہے ، اسے تحفظ چاہیے ، اسے امن چاہیے اسے مشکلوں سے نجات چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی  کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے

ادیان  ومذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:

شک نہیں کہ  ”انتظار“ انسانی فطرت میں شامل ھے اور ھر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ھے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے ؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے
اس لئیے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئیے یہ بہت اہم اس لئہے ہے کہ اسک کے سلسلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔

عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال :

ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال ؤئے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئگا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدو جہد نہیں کر پاتی
جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لئیے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دینا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو اس  قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتظار کہتے کسے ہیں

مفہوم انتظار

لغت میں انت‍ظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئہے چشم براہ ہو نے کے بیان ہوئے ہیں [1]۔
انتظار روح کي ایسی  کيفيت ہے جو انسان کی  آمادگي کا سبب بنتي ہے جبکہ اس کے مخالق مفہوم مایوسی کا ہے جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنا ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا ۔[2]
انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورت حال سے راضی نہیں ہے اورظلم  و جور کا مخالف ہے لہذا ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اور،اپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور روحانی، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے
اس لئہے کہ ”انتظار“ ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو بڑا یک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے ۔

عصر انتظار میں ہماری ذمہ داری :

بحمد اللہ ہم عصر انتظار میں جی رہے ہیں وہ عصر انتظار جس میں دشمن اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ حق کے مقابل کھڑا ہے
اور ہمیں اس طرح میدان میں ڈٹے رہنا ہے کہ محاذ کمزور نہ پڑنے پائے قدم پیچھے نہ ہٹیں اور اس وقت تک دشمن کے مقابل ڈٹے رہیں جب تک ہمارا مولا و آقا پردہ غیب ہٹا کر نہ آ جائے ایسے میں دشمن کے سامنے اپنی صفوں کی شیرازہ بندی اور ان میں اتحاد کے لئیے ضروری ہے کہ ہم ان علماء و مراجع کے احکامات کے مطابق آگے بڑھیں جنہیں ہمارے امام ع نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور زمانہ غیبت میں امت کی باگ ڈور ان کے حوالے کی ہے ۔
آج بخوبی ہم مرجعیت کی طاقت کو محسوس کر سکتے ہیں  جو لوگ زیارت کربلا سے مشرف ہوئے ہیں وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ عراق کے حالات کیا ہیں ، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب کسی شہید کی لاش طواف کے لیءے نجف اشرف یا حرم امام حسین علیہ السلام میں نہ آتی ہو یہ جو ہم سکون کے ساتھ زیارت کر پا رہے ہیں یہ انہیں شہیدوں کے خون کا صدقہ ہےجنہوں نے عصر انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا گوارا نہیں کیا اور مراجع و علماء کے حکم پر اپنا گھر بار بال بچوں کو چھوڑ کر تکفیری دہشت گردوں سے مقابلہ کے لئیے محاذ جنگ پر نکل پڑے  آج ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہوگا جسکی جتنی توانائی اور وسعت ہے اسے بروئے کار لا کر شیعت کے دفاع میں آگے بڑھنا ہوگا ،ہم سب کو اس طرح آگے بڑھنا ہوگا کہ تکفیری دہشت گردوں سے لڑنے والے جوان خود کو تنہا نہ سمجھیں  آج  ہم  انتہائی سخت حالات سے گذر رہے ہیں تمام استعماری طاقتیں تکفیری گروہوں کے ذریعے پوری دنیا میں شیعہ نسل کشی میں سرگرم عمل ہیں ایسے دور میں ہم سب کو بیدار و ہوشیار رہ کر جینے کی ضرورت ہے یہ وہ دور ہے جس میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانی  ہوگی ہر  ایک کو اپنے وظیفہ کو پہچانتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہوگا دامے درہمے سخنے جس سے جو  بھی ممکن ہے وہ انجام دے  اور جس سے کچھ  ممکن نہ ہو وہ دعاء کرے  یوں تو بظاہر عراق کی سرزمین تکفیری ٹولوں پر اب تنگ ہو چکی ہے اور وہ بھاگنے پر مجبور ہیں لیکن اس کے باجود بھی انہیں جیسے جیسے موقع ملتا ہے دہشت گردانہ کاروائیوں کی انجام دہی سے نہیں رکتے ایسے میں یہ ہرگز نہیں سوچنا چاہیے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے ،یہ اور بات ہے کہ فی الحال پے در پے شکستوں کی وجہ سے دشمن اپنی طاقت کی تجدید میں مشغول ہے اور دوبارہ جنگ کے نئے نقشہ کو سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر تیار کر رہا ہے ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری ہے  اپنی صفوں کو متحد رکھیں اور فکری اختلافات کو ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل نہ کریں کہ ہمارا دشمن ہی ہم سے دشمنی کے لئے کافی ہے اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صفوں میں کھڑا نہ کریں ۔
موجودہ دور میں پوری دنیا کے اندر تشیع کے لیے بہت سخت حالات ہیں  با این ھمہ تشیع کے خلاف ہونے والی تمام تر سازشوں کے باوجود مکتب تشیع میں وسعت پیدا ہو رہی ہےشک نہیں ہے کہ  اس وقت ہم انتہائی سخت دور سے گذر رہے ہیں پوری دنیا میں مکتب تشیع پر ہر طرح کی یلغار کی جا رہی ہے عالمی استعماری طاقتیں اور عربی ضمیر فروش ممالک سب مل کر تکفیری ٹولیوں القاعدہ اور داعش کی کھلے عام حمایت کر رہے ہیں تا کہ اسلام حقیقی کا مقابلہ کریں آج پوری دنیا میں منصوبہ بند طریقہ سے  شیعہ نسل کشی پر کام ہو رہا ہے  سعودی عرب ہو کہ بحرین و پاکستان ، یمن ہو کہ نائجریا و افغانستان ہر جگہ محبان حیدر کرار کو ہی نشانہ بنایا جا رہا ہے ایسے میں آج کے اس عصر انتظار  میں ہمیں اپنے امام سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم آپکے واقعی منتظر ہیں اور اسی لئیے ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اپنے بھائیوں کا قتل عام نہیں دیکھ سکتے یہاں پر یہ بات بھی قابل ذخر ہے کہ  آج کچھ لوگوں نے اس فکر انتظار ہی کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا شروع کر دیا ہے انکا کہنا ہے  دنیا سے یہ قتل و غارت گری تبھی ختم ہوگی جب امام عصر ع کا ظہور ہوگا   اس چلیپائی فکر سے ہمارا سوال ہے کہ  اگر دنیا میں امن و امان امام ع کی آمد کے بعد قائم ہوگا تو کیا ہمیں اپنی طرف سے قیام امن کی کوششیں نہیں کرنا چاہیے ؟ جبکہ  اگر دیکھا جائے تو عصر غیبت میں ہماری ذمہ داری کچھ اور زیادہ ہے کیونکہ عصر حاضر میں جب کہ استعماری حکومتیں اپنے ناپاک حربوں سے بالعموم مسلمان اور بالخصوص نوجوان نسل کو انکی ذمہ داریوں سے دور کرنے پر کمر بستہ ہیں، ان استعماری طاقتوں کا اصل نشانہ جوانان ملت ہیں لہذا ہمیں مفہوم انتظار کی صحیح تشریح پیش کرنا ہوگی اوراستعمار کی ناپاک سازشوں کا توڑ بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بنیادی عمل (عمل انتظار) کی پرواز کو پہچانیں ا س کے معنی کو سمجھیں ، انتظار کے معانی و مفہوم جاننے کے بعد ضروری ہے کہ ہم  اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور قوم کی فرد فرد کو بتائیں کہ ہم اس لئیے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج ہیں کہ ہم حقیقی معنی میں منتظر ہیں  اگر ہم روایات میں فضیلت انتظار اور اس کے ثواب پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ انتظار محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کا نام نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو پھر سب سے افضل عمل انتظار نہ قرار پاتا جبکہ اگر ہم روایات پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ انتظار سے متعلق کہیں  رسول اکرم (ص) فرماتے ہیں کہ انتظار میری امت کے تمام اعمال سے افضل ہے اور وہ یوسف زہرا حجۃ ابن الحسن امام مہدی (عج) کے ظہور کا انتظار ہے۔ تو کہیں  امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں جو شخص نظام ولایت کا قائل ہوتے ہوئے حکومت حق کا منتظر ہو، اس کی مثال ایسے شخص جیسی ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سامنے راہ خدا میں جہاد میں مصروف ہو، نیز فرماتے ہیں کہ منتظر کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ جیسے رسول اکرم (ص) کے ہمراہ درجہ شہادت پر فائز ہو۔[3]
بلاشبہ اسلام کی نظر میں جو شخص امام (عج کی آمد اور انکی حکومت کا منتظر ہو وہ اعلٰی فضیلتوں اور روحانی بلندیوں کا حامل ہے، لیکن واضح رہے کہ ان درجات کے لئے آزمائشوں کے راستے سے گذرنا پڑتا ہے، اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ انتظار کس طرح کیا جائے۔؟ کیا انتظار سے مراد یہ ہے کہ مسلمان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور ان کے آس پاس گناہ و جرم، ظلم و جبر اور فساد انفرادی و اجتماعی سطح پر پھلتے پھولتے رہیں۔؟
کیا انتظار فرج کا مطلب یہ ہے کہ جب تک امام (عج) تشریف نہیں لاتے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اسلام کے اہم تربیتی، اصلاحی اور اجتماعی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر ظلم و ناانصافی کے خلاف جدوجہد کو منسوخ کر دیا جائے اور ان اسلامی قدروں کو لغو و مہمل قرار دیا جائے۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مکتب انتظار ، جمود، سکوت، ٹھہراو، مصلحت پسندی، مغربی و استعماری حکومتوں کی نوکری اور غلامی، فن خواجگی کا مکتب نہیں  ہے بلکہ انتظار در اصل شعوری عروج، حرکت، کربلائی روش، انقلاب، عزم پیہم وسعی مسلسل، بے باکی، کے ساتھ  نظام شہنشاہیت و ملوکیت کے خلاف سراپا احتجاج بن جانے  کا نام ہے انتظار چُپ سادھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ نظامِ امامت و نظامِ ولایت لیکر آنے والے کے زبردست استقبال سے شروع ہوتا ہے اب یہ  استقبال گھروں کی چاردیوای کے اندر نہیں کیا جاتا بلکہ اسکے لئے گھروں اور خانقاہوں سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ جس کا عملی ثبوت امام خمینی رہ نے انقلاب اسلامی ایران کے ذریعہ دنیا کو دیا, ہمیں گھروں سے نکل کر مقدمات ظہور  فراہم کرنے ہونگے اور تابناک و روشن نظامِ ولایت کے لئے کوشش کرنی ہوگی تب ہمارا انتظار واقعی انتظار کہلائے گا دور حاضر میں عالم اسلام پر ہونے والے استعماری و سامراجی حربوں سے ہمیں آگاہ ہونا ہوگا اور پھراس کے ازالے کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی، موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی، گروہ بندی، فرقہ واریت، حکمرانوں کی انا پرستی عروج پکڑ رہی ہے، جو دشمنان دین کے لئے باعث مسرت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مغرب و صہیونی طاقتیں مسلمانوں کو پیروں تلے روندے جا رہی ہیں اور ہر آئے دن ہمارے مقدسات کی توہین و پامالی کی جاتی ہے اور ہم سے کچھ بن نہیں پڑتا یہ مر جانے کا مقام ہے دور حاضر میں مسلمانوں کے اندر بے انتہاء غیر اسلامی رسم و رواج، توہمات  و اوہام پرستی ، بدعتیں  و خرافات رائج ہیں,جنہیں سیدھے سادے لوگ عین دین سمجھ کر اپنائے ہوئے ہیں ،  سماج کی صورت حال سے ہمارا یہ تغافل اور معاشرہ میں پھیلتی بدعتیں   و غیر آئینی رسومات  کیاہماری اور امام کی قربت اور ان کے ظہور میں مانع نہیں ہیں  ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا  اگر ہم خود کو جانِ جہاں امام زماں کا حقیقی منتظر تصور کرتے ہیں اور امام کے سپاہی بننے کی آرزو دل میں رکھتے ہیں تو ہمیں  ایسی بدعتوں اور خرافات سے خود کو ہرحال میں دور رکھنا ہوگاجو دینی تعلیمات کو مسخ کرنے   کے درپہ  ہیں تاکہ ہم امام زمانہ (عج) کے حقیقی پیروکار ثابت ہوسکیں۔ عصر حاضر کی مشکلات اور ان کے حل کے لئے علماء کرام، دانشوران قوم و ملت کے ساتھ قوم کی فرد فرد کو آگے بڑھنا ہوگا اگر ہم نے  مفہوم انتظار کو اس کی حقیقت کے ساتھ سمجھ لیا تو وہ دن دور نہیں جب  ہر طرف حسہینت کا سرخ پرچم لہرا رہا ہوگا اور دنیا ظہور منتقم خون حسینی کو آواز دے رہی ہوگی کہ بس آجاو اور عالمی حکومت عدل قائم کر کے انسانیت کے انتظارِ مسیحا کو اس کے معنی دے دو

۔انتظار اور اسکا وزن:

انتظار کا وزن اس کے متعلق سے بخوبی واضح ہے ، جس شخصیت کا ہم انتظار کر رہے ہیں انتظار میں اسی کے مطابق شدت و وسعت ہونا چاہیے چونکہ متعلق انتظار کی بنیاد پر کیفت انتظار تبدیل ہوتی ہے اسکا وزن معین ہوتا ہے ، ایک عام مصلح کے انتظار کا وزن اور ہے ، ایک گھر ، محلہ ، خاندان ،شہر  اور صوبہ اور ملک میں امن و امان کا پیغام لانے والے کا انتظار اور ہے اور ساری دنیا میں پرچم امن بلند کرنے والے کے انتظار کا وزن کچھ اور ہے ۔ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے ۔ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔اسکا انداز مختلف ہے
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اورہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے  ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں  اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تواسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی  منتظر نہیں ۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے ، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ ریا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے اس لئیے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا  چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جا ئے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی،کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے
 جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فو جی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسو ئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائدہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہای حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی سیاسی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں
البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اورآمادہ و تیار ہوں فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قومیت ،نسل پرستی و عصبیت کے  ، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیںہیں  ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔ہم سب الگ الگ نسلوں ،خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس
اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے  لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کی باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ  نے اسرائیل کے ساتھ کیا ،یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا کے ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی  ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ ہے ،اس لئے  وہ حقیقی منتظر ہیں اور انہیں پتہ ہے کب کیا کرنا ہے ۔

✍🏼عاليجناب مولانا  سید نجیب الحسن زیدی  صاحب



[1] ۔زبیدی، تاج العروس، ج7، ص539۔
[2] ۔موسوی اصفهانی، مکیال المکارم، ج2، ص218۔
[3] ۔بحار الانوار ج 52 ص 142
http://klmnoor.blogspot.com

https://t.me/klmnoor