۲۱/ رمضان
۱ - #شہادت_امیر_المؤمنین_علیہ_السلام
🏴🏴🏴🏴🏴
امام المتقین امیر المومنین علیہ السلام نے اکیسویں ماہ رمضان کی رات میں طلوع فجر کے نزدیک جام شہادت نوش فرمایا، اس وقت آپ کا سن مبارک ۶۳ سال تھا۔
[کافی، ج۱، ص۴۵۲؛ اعلام الوري، ج1، ص309؛ کشف الغمه، ج1، ص۴۳۶؛ العدد القویۃ، ص۲۳۵؛ بحار الانوار، ج۴۲، ج۹۵، ص۱۹۶؛ روضۃ الواعظین، ص۱۳۲؛ مسار الشیعہ، ص۱۰...]
بیسویں شب میں زہر کا اثر امیر المومنین علیہ السلام کے پاہائے اقدس پر ظاہر ہونے لگا، اور ان پر ورم آگیا۔
[الوقایع و الحوادث، ج1، ص265]
اکیسویں شب میں آپ علیہ السلام کے بدن مبارک پر زہر کا اثر شدید ہوگیا۔ آپ ع نے اہل بیت اور بچوں کو اپنے پاس بلایا، اپنی وصیتیں فرمائیں اور ان سے وداع ہوئے۔
اس رات جو بھی کھانے پینے کی چیز پیش کی گئی آپ علیہ السلام نے تناول نہ فرمایا، لب ہائے مبارک مسلسل ذکر میں مشغول تھے، اور جبین اقدس سے پسینے کے موتی بکھر رہے تھے، جنہیں آپ دست مبارک سے صاف کررہے تھے۔
آپ ع نے امام مجتبیٰ ع سے فرمایا: تمہیں تمہارے برادر حسین کے سلسلہ میں وصیت کرتا ہوں،
اور اپنے دوسرے فرزندوں سے فرمایا: آپ لوگوں کو حسن و حسین کی اطاعت کی وصیت کرتا ہوں؛ اس کے بعد فرمایا:
خداوند تمہیں صبر جمیل مرحمت کرے۔ آج کی رات میں تمہارے درمیان سے چلا جاؤں گا اور اپنے حبیب محمد مصطفیٰ ص سے ملحق ہوجاؤں گا جیسا کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔
اہل بیت کی صدائے گریہ بلند ہوگئی۔
پھر امام مجتبیٰ ع سے غسل، کفن، نماز اور محل دفن کے سلسلہ میں وصیت فرمائی اور امام حسین علیہ السلام و حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے کربلا کے بارے میں گفتگو کی۔
سب سے وداع ہونے کے بعد ہاتھ اور پائے مبارک کو قبلہ رخ کیا اور فرمایا:
اشهد ان لا اله الا اللَّه وحده لا شریک له و اشهد ان محمداً عبده و رسوله؛ اور آنکھوں کو بند فرمایا اور بہشت کو اپنے قدوم اقدس سے مبارک کیا۔
بیت اقدس سے نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہوئیں،
اہل کوفہ کو خبر لگی، گریہ و بکا کی صدائیں پورے شہر سے اٹھنے لگیں، بالکل اس روز کی طرح جب حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔
اس رات آسمان کا رنگ متغیر ہوا، زمیں کانپی، اور فضاؤں سے فرشتوں کی تسبیح و تقدیس کی آوازیں سنی گئیں۔
پھر آپ علیہ السلام کو غسل دیا گیا، غسل و کفن کے بعد حضرت امام حسن و حسین علیہما السلام نے امام علیہ السلام کی نصیحت کے مطابق تابوت کو پچھلے سرے سے اٹھایا، آگے سے تابوت خودبخود چل رہا تھا، یہاں تک کہ وہ ایک مقام پر رک گیا۔
امام مجتبیٰ علیہ السلام کے ذریعہ نماز میت کے بعد تابوت کے نیچے سے تھوڑی مٹی ہٹائی گئی تو قبر پہلے سے تیار ملی جس میں ایک تختی پر تحریر تھا:
بسم اللَّه الرحمن الرحیم، یہ وہ قبر ہے جسے نوح نبی نے طوفان سے ۷۰۰ سال پہلے وصی و جانشینِ محمد (ص) علی ابن ابی طالب (ع) کے لئے بنائی ہے۔
[فرحۃ الغری، ص64؛ مناقب آل ابی طالب، ج2، ص388؛ بحارالانوار، ج42، ص216، ص236؛ الغارات، ج2، ص846]
جسمِ اطہر کو دفن کیا گیا، اور حسبِ وصیت قبرِ مطہر کو مخفی کردیا گیا، جو ہارون کے زمانے میں سب پر عیاں ہوئی۔
آپ علیہ السلام کی متعدد ازواج سے ۲۸ بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔
[ارشاد مفید، ج1، ص354؛ اعلام الوري، ج1، ص395؛ تاج الموالید، ص18]
ان میں سے ۵ اولادیں حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہیں: امام حسن، امام حسین، زینب کبری، ام کلثوم و حضرت محسن علیہم السلام کہ جو دورانِ حمل، بیت امیرالمومنین علیہ السلام پر منافقوں کے ہجوم کے وقت شہید ہوئے۔ حضرت عباس ع، جعفر، عثمان اور عبد اللہ کربلا میں شہید ہوئے، جن کی مادر گرامی جناب ام البنین تھیں۔ باقی اولاد دیگر ازواج سے ہے۔
جب خبر شہادت عائشہ کو معلوم ہوئی تو اتنی خوش ہوئیں کہ بے اختیار کچھ شعر پڑھے۔ پھر پوچھا: کس نے علی کو قتل کیا؟ جواب ملا: ابن ملجم نے۔ کہا: جس نے یہ خبر دی ہے اس کے منہ میں خاک نہ ہو! (یعنی اچھا کام کیا!)
[الھدایۃ الکبری، ص۱۹۷؛ الجمل (شیخ مفید)، ص۸۴؛ الجمل (ابن شدقم)، ص۲۶؛ بحارالانوار، ج۳۲، ص۳۴۱؛ تذکرۃ الخواص ابن جوزی، ص۱۶۵؛ مقاتل الطالبیین، ص۲۶؛ جواھرالمطالب، ج۲، ص۱۰۴؛ طبقات الکبری، ج۳، ص۴۰؛ تاریخ طبری، ج۴، ص۱۱۵؛ انساب الاشراف، ص۵۰۵]
ماہ رمضان کی اکیسویں شب میں نبیوں کے اوصیاء نے رحلت فرمائی اور حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر لے جائے گئے؛ اور اسی رات حضرت موسیٰ بن عمران نے رحلت فرمائی اور یوشع بن نون شہید ہوئے۔
[امالی صدوق، ص۳۹۷؛ بحار الانوار، ج۱۳، ص۳۷۶، ج۴۲، ص۲۰۱، ۲۰۲، ۳۰۲؛ العدد القویہ، ص۲۳۵؛ مسار الشیعہ، ص۹؛ توضیح المقاصد، ص۲۴؛ روضۃ الواعظین، ص۱۳۸؛ مصباح کفعمی، ج۲، ص۵۹۹؛ اختیارات، ص۳۸؛ ینابیع المؤدۃ، ج۲، ص۳۲]
۲ - #بیعت_امام_مجتبی_علیہ_السلام
اس دن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد لوگوں نے حضرت امام حسن علیہ السلام کی بیعت کی۔
[ارشاد، ج۲، ص۹؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۵۳۸؛ بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۶۲؛ تاریخ دمشق، ج۱۳، ص۲۶۲]
۳ - #قتل_ابن_ملجم
ابن ملجم شمشیر کی ایک ضربت سے واصل نار ہوا، اس کے بعد ام الہیثم بنت اسود نخعی نے لاش کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے نذر آتش کیا۔
[ارشاد، ج۱، ص۲۲؛ روضۃ الواعظین، ص۱۳۴؛ بحار الانوار، ج۴۲، ص۲۳۲، ۲۴۶، ۲۹۸؛ انوار العلویہ، ص۳۷۰؛ نفائح العلام، ص۴۱۰؛ ینابیع المؤدہ، ج۲، ص۳۲]
ابن ملجم کے مارے کے بعد قطام کے گھر پر حملہ کیا اور اسے تلوار سے واصل نار کیا اور اس کے جسد کو کوفہ سے باہر نذر آتش کیا۔
[بحار الانوار، ج۴۲، ص۲۹۸؛ انوار العلویہ، ص۳۹۰، کلمات امام الحسین، ص۱۵۴؛ نفائح الایام، ص۴۱۰]
ابن بطوطہ متوفی سنہ ۷۷۹ھ کہتے ہیں: میں نے جب کوفہ کا سفر کیا، اس کے مغربی صحرا میں سفید زمین پر ایک بہت ہی سیاہ زمین کو دیکھا تو وجہ دریافت کی۔ لوگوں نے بتایا: کہ یہ ابن ملجم کی قبر ہے۔ کوفہ کے لوگ ہر سال یہاں پر کثیر تعداد میں لکڑیاں لاتے ہیں اور سات دن تک آگ جلاتے ہیں۔
[انوار البہیہ، ص۸۲؛ نفائح العلام، ص۴۰۹؛رحلۃ ابن بطوطہ، ص۱۴۷]
📚 تقویم شیعه، عبدالحسین نیشابوري، انتشارات دلیل ما، ۲۱/ رمضان، ص۲۹۰۔