علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعہ، 2 اپریل، 2021

دوسروں کے گھر میں داخل ہونے کے آداب

 



#اول_اجازت

 
🔴 يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلى‏ أَهْلِها ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
 
🔵 ایمان والو خبردار اپنے گھروں کے علاوہ کسی کے گھر میں داخل نہ ہونا جب تک کہ صاحبِ خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کرلو یہی تمہارے حق میں بہتر ہے کہ شاید تم اس سے نصیحت حاصل کرسکو
 
📚 النور، آية: 27
 
🔰 ان آیات میں بعض آداب معاشرت اور اسلامی احکام بیان ہوئے ہیں، جن کا سماج کی تہذیب اور پاکدامنی کی حفاظت سے قریب کا تعلق ہے۔
 
اور وہ گھر میں داخل ہونے اور اجازت لینے کے آداب کا بیان ہے:
 
⚠️ ایمان والوں دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو (اس طرح ورود کے ارادے کی اطلاع دو اور انکی رضامندی حاصل کرو): يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتاً غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى‏ تَسْتَأْنِسُوا وَ تُسَلِّمُوا عَلى‏ أَهْلِها۔
 
یہ تمھارے لئے بہتر ہے، شاید تم نصیحت حاصل کرسکو: ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ‏۔
 
⭕️ دلچسپ یہ ہے کہ یہاں لفظ ”تَسْتَاٴْنِسُوا“ آیا ہے ”تَسْتَاذِنُوا“ نہیں، کیونکہ دوسرا لفظ صرف اجازت لینے کے معنی بیان کرتا ہے جبکہ پہلا لفظ ”انس“ سے ماخوذ ہے جو محبت، الطف اور صداقت کے ساتھ اجازت کے معنی میں ہے، یعنی اجازت بھی نرمی، محبت اور ادب کے ساتھ اور ہر طرح کی زور زبردستی سے دور ہو۔
 
لہذا جب ہم اس جملہ کا تجزیہ کریں تو دیکھیں گے  کہ اس جملہ میں بحث سے مربوط کئی آداب کا خلاصہ کردیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ چیخو نہیں، دروازہ پر زور سے دستک نہ دو، سخت اور کڑے لہجے میں نہ بولو، اور جب اجازت مل جائے تو سلام کئے بغیر گھر میں نہ جاؤ۔
 
️ یہ حکم اپنے انسانی اور جذباتیت کے نمایاں گوشوں کے ساتھ دو مزید جملوں کے ہمراہ ہے"ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ‏" اور"لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ‏" جو اس کی جانب اشارہ کررہے ہیں کہ ان احکام کی جڑیں انسانی عقل و شعور کی تہوں میں موجود ہیں، اگر انسان اس میں غور و فکر کرے تو اپنی خیر و صلاح اسی میں پائے گا۔
 
❇️ بعد کی آیت کے جملے سے اس حکم کی تکمیل ہوتی ہے: فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيها أَحَداً فَلا تَدْخُلُوها حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ‏  اگر گھر میں کوئی نہ ملے تو اس وقت تک داخل نہ ہونا جب تک اجازت نہ مل جائے۔
 
✳️ ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ گھر میں کچھ افراد ہوں، لیکن وہ گھر کے مالک اور صاحب اختیار نہ ہوں، ایسی صورت میں گھر کے اندر جانے کا حق نہیں ہوگا۔ یا گھر میں تو کوئی نہیں، لیکن گھر کا مالک پڑوس میں یہاں کہیں اور موجود ہو اور آواز سن کر اجازت دے دے تو گھر کے اندر جاسکتے ہیں۔
 
⚠️ بہر کیف اصل مسئلہ یہ ہے کہ اجازت کے بغیر نہ جائیں۔
 
◻️ اسکے بعد ارشاد ہے: اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو اسے مانتے ہوئے واپس چلے جانا کہ یہی تمہارے لئے بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے:وَ إِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكى‏ لَكُمْ.
 
🔘 یعنی اجازت نہ ملنے پر ناراض مت ہو، کیونکہ ممکن ہے وہ ایسی حالت میں ہو کہ تمہیں دیکھ کر رنجیدہ ہو، یا مہمان نوازی پر قادر نہ ہو! اور چونکہ اجازت نہ ملتے پر تجسّس بڑھ جایا کرتا ہے، اور دروازہ کی دراروں سے یا کان لگاکر سن کے کھر کے رازوں کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں اسی آیت میں فرماتا ہے: اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے: وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ۔
 
📚 تفسير نمونہ، ج‏14، ص: 428
 
https://t.me/klmnoor
 
https://www.facebook.com/klmnoor