#تیس_قدم_خودسازی_کے
9️⃣ *اَللّهمَّ اجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلینَ عَلَیْکَ، وَاجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْفاَّئِزینَ لَدَیْکَ، وَاجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْمُقَرَّبینَ اِلَیْکَ، بِاِحْسانِکَ یا غایَهَ الطّالِبینَ*
میرے معبود! آج کے دن مجھے تجھ پر بھروسہ اور توکّل کرنے والوں میں قرار دے ، اور اس میں مجھے اپنی بارگاہ میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والوں میں قرار دے ، اور اس میں مجھے اپنے مقرّب بندوں میں قرار دے ،تیرے احسان کا واسطہ اے طلبگاروں کے آخری مقصود۔
✅ دسواں قدم: توکّل (خدا کے ساتھ دل کا سکون)
« اللّهمَّ اجْعَلْنی فیهِ مِنَ الْمُتَوَکِّلینَ عَلَیْکَ »
توکل یعنی خدا پر بھروسہ رکھتےہوئے کسی کام کو انجام دینا، توکل توحید افعالی کا لازمہ اور اسکی ایک قسم ہے اور اس کا ذکر« لا حول و لا قوه الا باللّه » ہے۔ اور بعض روایات کے مطابق یہ جنّت کی کنجی ہے۔
🔰 توکّل تین چیزوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔: اعتقاد و ایمان میں توکّل(علم)، کسی کام کے ارادے میں توکّل(کیفیت)، اور سعی و کوشش میں توکّل(عمل)۔ « إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلىَ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَلىَ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُون» شیطان ہرگز ان لوگوں پر غلبہ نہیں پاسکتا جو صاحبانِ ایمان ہیں اور جن کا اللہ پر توکل اور اعتماد ہے۔ [ النحل/ 99]
❇️ خواجہ عبداللہ انصاری اپنی کتاب منازل السائرین میں لکھتے ہیں: خداوند متعال فرماتا ہے: « وَ عَلىَ اللَّهِ فَتَوَكلَّواْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِين »۔ اور اللہ پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو۔[المائده/ 23] توکل یعنی سارے کاموں کو اس کے مالک کے سپرد کر دینا اور اس کی وکالت پر پورا بھرسہ اور اطمینان رکھناہے، اور یہ کام عوام کے لئے دشوارترین کام ہے اور خواص کے لئے سب سے آسان کام۔ کیونکہ خدا نے تمام کاموں کو اپنے دستِ قدرت میں لے رکھا ہے اور کسی بھی چیز کو کسی آدمی پر نہیں چھوڑا ہے۔
✳️ توکل کی تین درجے ہیں:
پہلے مرحلے میں توکل: کام کی تلاش میں جانا اور اسباب و ذرائع سے استفادہ کرنا ، ایسی نیت کے ساتھ کہ انسان کو کام میں مشغول کردے اور خلق خدا کو فائدہ پہونچائے اور بے جا خواہشوں کو دل سے نکال دے۔
دوسرے مرحلے میں توکل: اپنی خواہشات کو چھوڑ دینا، اسباب سے چشم پوشی اختیار کرنا، اور اپنے تمام تر وقت کو واجبات کی ادائگی میں لگا دینا ہے۔
تیسرے مرحلے میں توکل : توکل کی حقیقت کا ادراک ہے کہ انسان کو اسباب توکّل آزاد کردے، اور اس کا پورا اعتقاد ہو کہ تمام چیزوں پر خدا کی مالکیت عزّت کی مالکیت ہے؛ اس کی مالکیت میں کسی بھی احتیاج اور ضرورت نہیں ہے جو وہ اس کو اس مالکیت میں شریک قرار دے اور اپنے کاموں کو اس کے حوالے کرے۔ جو کچھ ہے اسی سے ہے ، اسی کے ارادے سےہے، اسی کے لئے ہے۔ [خواجہ عبداللہ انصاری، منازل السائرین، ص 77 -1]
الهی!
دانی چرا شادم، چون به خواست خود به دام تو افتادم!
الهی!
تو خواستی، نه اینکه من خواستم،
دوست بر بالین دیدم چو برخاستم
الٰہی!
تو جانتا ہے میں کیوں شاد ہوں اس لئے خود ہی تیرے دام میں گرفتار ہوگیا ہوں!
الٰہی!
تونے چاہا تھا، نہ یہ کہ میں نے چاہا ہے ،
جو سو کے اٹھا تو اپنے دوست کو سرہانے پایا ہے!۔ [کشف الاسرار، 408/5، تفسیر سوره نحل]
♻️ آج کے دن کا ذکر« لاحول ولاقوه الا باللّه »
📚 سی گام خودسازی، محمود صلواتی، ص36.