#تیس_قدم_خودسازی_کے
2️⃣ *اللَّهُمَّ قَرِّبْنِی فِیهِ إِلَی مَرْضَاتِکَ وَ جَنِّبْنِی فِیهِ مِنْ سَخَطِکَ وَ نَقِمَاتِکَ وَ وَفِّقْنِی فِیهِ لِقِرَاءَةِ آیَاتِکَ بِرَحْمَتِکَ یَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِین*
اے میرے معبود! آج کے دن مجھے اپنی رضاؤوں کے قریب کردے اور آج کے دن مجھے اپنی ناراضی اور اپنے غضب سے محفوظ فرما اور آج کے دن مجھے اپنی آیات پڑھنے کی توفیق عطاکر اپنی رحمت کے واسطے اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے.
✅دوسرا قدم: تقرّب (خدا جوئی)
«اللَّهُمَّ قَرِّبْنِی فِیهِ إِلَی مَرْضَاتِکَ »
غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کے بعد سب سے زیادہ ضروری کام ہدف اور مقصد کا معیّن کرنا ہے؛ تاکہ انسان کو معلوم رہے کہ کس طرف جارہا ہے اور کس چیز کی جستجو اور تلاش میں ہے۔
سب سے پہلے نیّت کرنی چاہئے، اپنے کو بدلنے اور خودسازی کا عزم و ارادہ ہوناچاہئے؛ اپنی منزل معلوم رہے اور زاویۂ نظر بھی روشن ہو کہ مقصد دنیا تک رسائی ہے یا آخرت تک پہونچ؟ کیوں کہ انسان کے سیر و سلوک کے رخ اور سرانجام اس کے ایک ایک رفتار و کردار میں ہدف اور مقصد کے معیّن ہونے کا اثر ہوتا ہے۔
🔰 شمس الدین محمد لاہیجی کہتے ہیں: نیّت کے تین درجے ہیں:
پہلا درجہ: وہ نیّت ہے جو انسان کو خدا کی اطاعت کی طرف لے جائے اور شک و تردید سے باہر نکالے اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی دعوت دے۔
دوسرا درجہ: وہ نیّت ہے جو رکاٹوں سے بر سر پیکار رہے ، مشکلوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، اور اپنے مقصد کی راہ میں آنے والی دشواریوں پرصبر کو آسان بنا دے۔
لیکن نیّت کا سب سے اونچا درجہ اور مقام تسلیم ہے کہ بندہ خود کو ذات ِحق کے سامنے تسلیم کردے، وہ خاک پر سجدہ ریز ہوجائے تاکہ خدا کے امر کا اس پرنزول ہو اور خود کو دریائے فنا کی موجوں کے حوالے کردے۔
❇️ قرب کے معنی میں کہتے ہیں: قُرب کا مطلب ہے قطرہ کا سمندر کی سمت چل پڑنا اور حقیقی منزل تک پہونچ جانا اور الٰہی صفات سے متّصف ہوجانا۔ [لاهیجی، شمس الدین محمد، شرح گلشن راز، ص 3]
بعض نے یہ بھی کہا ہے: قُرب کا مطلب ہے ماسوا اللہ سے انقطاع، غیر خدا سے منقطع اور علیٰحدہ ہوجانا ہے۔
قُرب کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ قُرب نوافل: جو بشری صفت کے زوال اوراس پر الٰہی صفات کے ظہور کا نام ہے ؛ ۲۔قُرب فرائض: کہ جو تمام موجودات حتی خود اپنے نفس سے بھی لاتعلق ہوکر فناکے مقام تک پہنچ جانا ہے جہاں پر ذاتِ حق کے سوا اس کے لئے کچھ بھی نہیں رہ جاتا ۔ [کشاف اصطلاحات الفنون و العلوم، ص 16]
📗قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سلسلے میں ذکر ہے: وَ نَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَ قَرَّبْنَاهُ نجَِيًّا اور ہم نے انہیں کوہِ طور کے داہنی طرف سے آواز دی اور راز و نیاز کے لئے اپنے سے قریب بلالیا۔[مریم/ 52] اور یہاں پر خدا نے مقام ربوبیت کی تجّلی دکھاتے ہوئے فرمایا: فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ إِنَّکَ بِالْوادِ الْمُقَدَّسِ طُويً اپنی جوتیوں کو"جو دنیا سے وابستگی کی نشانی ہے" اتار دو کہ تم طویٰ نام کی ایک مقدس اور پاکیزہ وادی میں ہو[طہ/ 12]
⚠️ خدا سے تقرّب کے بھی درجات اور مراتب ہیں جیسا مولانا نے کہاہے:
قرب نه بالا و پستی جستن است قرب حق از حبس هستی رستن است۔۔۔۔۔ [مولانا، شمس الدین محمد، مثنوي معنوي، دفتر سوم، بیت 120 کے بعد]
قرب اوپر نیچے ہونے کا نام نہیں قُرب حق قید ہستی سے رہا ہوجاناہے تقرّب الٰہی کا مقام فنا ہوجانے میں ہے غرور ہستی کو کیا معلوم فنا کیا چیزہے؟ جان تجھ سے قریب اور تو اس سے دور ہے قُرب حق کو اگر سمجھ جاؤ اے چچا جان لو کہ حق رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہے تو نے اپنی فکر کے تیر کو دور پھینک رکھا ہے۔
♻️ آج کے دن کا ذکر: «اللَّهُمَّ قَرِّبْنِی فِیهِ إِلَی مَرْضَاتِکَ »
📚 سی گام خودسازی، محمدود صلواتی، ص17.