#تیس_قدم_خودسازی_کے
1️⃣1️⃣ *اللّهمَّ حَبِّبْ اِلَیَّ فیهِ الاِحْسانَ، وَکَرِّهْ اِلَیَّ فیهِ الْفُسُوقَ وَالْعِصْیانَ، وَحَرِّمْ عَلَیَّ فیهِ السَّخَطَ وَالنّیرانَ، بِعَوْنِکَ یا غِیاثَ الْمُسْتَغیثینَ.
میرے معبود! آج کے دن نیکی کو میرے لئے پسندیدہ بنادے اور اس میں نافرمانی اور گناہ کو میرے لئے منفور اور ناپسندیدہ کردے، اور اس میں غضب اور جہنم کو آگ کو مجھ پر حرام کردے ، تجھے تیری نصرت کا واسطہ اے فریادیوں کی فریاد کو سننے والے۔
✅ گیارھواں قدم: تبتّل (پلیدگیوں سے علیٰحدگی)
«اللّهمَّ حَبِّبْ إِلَیَّ فِیهِ الْإِحْسَانَ وَکَرِّهْ إِلَیَّ فِیهِ الفسوق الْعِصْیَانَ»
انسان کی خودسازی اور ترقی تک پہونچنے کے راستے کا ایک اور قدم گناہوں سے پرہیز ،منجملہ تمام پلیدگیوں سے گریز ہے۔
گناہ کی دو قسمیں ہیں: عملی گناہ، اور قلبی گناہ۔ عملی گناہ وہ ہیں جو بدن کے اعضاء و جوارح سے انجام پاتے ہیں جیسے چوری، غیبت اور جھوٹ وغیرہ۔ قلبی گناہ وہ ہیں کہ جو دل میں انجام پاتے ہیں اور اس کے اثرات باہر ظاہر ہوتے ہیں؛جیسے حسد، ریا، تکبّر، نیکیوں سے دشمنی اور برائیوں سے دوستی وغیرہ۔
🔰 آج کی دعا میں ہم خدا سے گناہوں سے دوری کی دعا کرتے ہیں ، کیونکہ خداوندمتعال فرماتا ہے: « إِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كلُُّ أُوْلَئكَ كاَنَ عَنْهُ مَسُْولا » روزِ قیامت کان آنکھ اور قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ [اسرا/ 36]
حضرت امام علی علیہ السلام کی روایت ہے: « مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَعْلَمَ كَيْفَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ فَلْيَنْظُرْ كَيْفَ مَنْزِلَةُ اللَّهِ مِنْهُ عِنْدَ الذُّنُوب»جو یہ چاہتا ہے دیکھے کہ خدا کے نزدیک اس کی کیا منزلت ہے تو یہ دیکھے کہ گناہ کرتے وقت اس کی نظر میں خدا کا مقام کیا ہے۔ [بحار الانوار، ج 43 ، ص 10]
دوسری جگہ فرمایا: «مَا أَعْظَمَ وِزْرَ مَنْ طَلَبَ رِضَى الْمَخْلُوقِينَ بِسَخَطِ الْخَالِق» اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں کہ کوئی خدا کو ناراض کرکے بندوں کی خوشنودی چاہے۔ [مستدرك الوسائل، ج 12 ، ص 210]
❇️ قرآن کریم کی زبان میں گناہ سے دوری اور پلیدگیوں سے مقابلہ کو "تبتّل " کہتے ہیں۔ تبتّل یعنی دنیا کی آلائشوں اور توقعات سے خود کو علٰحدہ کرلینا۔ قرآن کریم میں ذکر ہے: «وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلا» اور اپنے رب کے نام کا ذکر کیجیے اور سب سے بے نیاز ہو کر صرف اسی کی طرف متوجہ ہو جائیے [المزمل/ 8 ]
تبتّل –اپنے دوست کی یاد کے سوا ہر چیز سے خود کو الگ کرلینا - وہ درجے اور مقامات جہاں پر اللہ کی راہ میں سیر و سلوک کرنے والے پہونچتے ہیں اور اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ جنّت اپنی تمام تر نہروں اور درختوں کے باوجود انکے خیالوں میں نہ ہو، اور دوزخ اپنی تمام تر ہتھکڑی بیڑیوں کے ساتھ ان کی سینے کی سوزش سے لرز اٹھے اور دنیا کی لالچ کا اژدھا بھی انہیں گزند نہ پہونچا سکے، اور حسد و تکبر کے جنگل کا ایک خار بھی انکے دامن سے نہ الجھ سکے، نفس امّارہ کے بیابانوں سے اٹھتی ہوئی دھول ان کے دامن پر نہ بیٹھ سکے اور ہوا و ہوس کی جہنم کو دھواں دیدہ دل پہ نہ چھا سکے۔چشمِ عبرت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں اور زبانِ شفقت سے گفتکو کرتے ہیں اور پوری الفت سے انکی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیتے ہیں۔
✳️ کتاب "صد میدان" میں تبتّل کے سلسلہ میں ذکر ہے: چھبیسواں میدان تبتّل کا ہے ؛ میدان اخلاص سے میدان تبتّل آتا ہے؛ قول خداوندی: « وتبتل الیه تبتیلًا » تبتّل [الگ ہونا اور] پلٹ جانا ہے اور وہ تین چیزوں سے تین چیزوں کی طرف ہے: جہنّم سے جنّت ، دنیا سے آخرت اور خود سے ذات حق کی جانب ۔
جہنّم سے جنّت کی جانب کے لئے تین چیزیں ہیں: حرام سے حلال کی طرف ، کینہ اور عداوت سے نصیحت کی طرف اور گناہ کی جراٗت سے پرہیزگاری کی طرف لوٹ آنا۔
دنیا سے آخرت کی طرف کے لئے تین چیزیں ہیں: حرص سے قناعت کی طرف ، خواہشات سے بے نیازی کی طرف، اور گرفتاری سے توبہ کی طرف آجانا ۔
خود سے حق کی طرف آنا بھی تین چیزوں سے ہے: دعوے سے ضرورت کی طرف، ہٹ دھرمی سے تسلیم کی طرف، اور اختیار سے تفویض کی طرف پلٹ جانا۔ [منازل السائرین، ص 302]
♻️ آج کے دن کا ذکر « یا ملجأ العاصین »