علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

پیر، 31 مئی، 2021

محبوب ترین اعمال [[ادخال السرور علی المومن]]

 

 

#محبوب_ترین_اعمال

 

#ادخال_السرور_علی_المومن

 1


 


🌷🌷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

 

🔴 منْ أَحَبِّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ إِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِنِ

 

إِشْبَاعُ جَوْعَتِهِ

 

أَوْ تَنْفِيسُ كُرْبَتِهِ

 

أَوْ قَضَاءُ دَيْنِه‏.

 

 

🔵 خدائے عزّ و جلّ کے نزدیک محبوب ترین اعمال میں سے مومن کو خوشحال کرنا ہے:

 

📌اس کی بھوک  پر اسے سیراب کرکے ہو،

 

📌یا اس کے رنج و غم کو دور کرکے،

 

📌یا اس کے قرض کو ادا کرکے۔ 

 

 

📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2 ، ص 192، ح 16،  باب إدخال السرور على المؤمنين

 

 

 2

 


🌷🌷حضرت امام محمد باقر علیہ السلام:

 

🔴 تَبَسُّمُ الرَّجُلِ فِي وَجْهِ أَخِيهِ حَسَنَةٌ،

 

وَ صَرْفُ الْقَذى‏ عَنْهُ حَسَنَةٌ،

 

وَ مَا عُبِدَ اللَّهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ مِنْ إِدْخَالِ السُّرُورِ عَلَى الْمُؤْمِن‏۔

 

 

🔵 اپنے برادر مومن سے خوشی اور تبسم کے ساتھ پیش آنا نیکی ہے

 

اور اس کے چہرے سے دھول مٹی وغیرہ صاف کردینا نیکی ہے؛

 

خدا کے نزدیک مومن کو خوش کرنے سے بڑھ کر کسی پسندیدہ چیز سے اس کی عبادت نہیں کی گئی ہے۔

 

📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص188، ح2، باب إدخال السرور على المؤمن




🌷🌷حضرت امام کاظم علیہ السلام

 

🔴 إنَّ لِلَّهِ عِبَاداً فِي الْأَرْضِ يَسْعَوْنَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ هُمُ الْآمِنُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،

 

وَ مَنْ أَدْخَلَ عَلَى مُؤْمِنٍ سُرُوراً فَرَّحَ اللَّهُ قَلْبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَة۔

 

🔵 حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:

 

زمین پر خدا کے ایسے بندے ہیں جو لوگوں کے کاموں اور ضرورتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں،

 

یہ لوگ قیامت کے دن امان میں ہونگے۔

 

اور جو بھی کسی مومن کو شاد و خوشحال کرتا ہے خدا قیامت کے روز اس کے قلب کو شاد و خوشحال رکھے گا۔

 

📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج‏2، ص197، ح2، باب السعي في حاجة المؤمن





🌷🌷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام:

 

🔴 منْ أَدْخَلَ عَلَى مُؤْمِنٍ سُرُوراً خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ ذَلِكَ السُّرُورِ خَلْقاً فَيَلْقَاهُ عِنْدَ مَوْتِهِ فَيَقُولُ لَهُ أَبْشِرْ يَا وَلِيَّ اللَّهِ بِكَرَامَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ رِضْوَانٍ مِنْهُ ثُمَّ لَا يَزَالُ مَعَهُ حَتَّى يَدْخُلَ قَبْرَهُ فَيَقُولُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ فَإِذَا بُعِثَ تَلَقَّاهُ فَيَقُولُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ فَلَا يَزَالُ مَعَهُ فِي كُلِّ هَوْلٍ يُبَشِّرُهُ وَ يَقُولُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ فَيَقُولُ لَهُ مَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ فَيَقُولُ أَنَا السُّرُورُ الَّذِي أَدْخَلْتَ عَلَى فُلَان‏۔

 

🔵 حضرت امام صادق سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

 

جو شخص کسی بندۂ مومن کو شاد و خوشحال کرتا ہے، خدائے عزّ و جلّ اس خوشی سے ایک مخلوق کو پیدا کرتا ہے جو اس کی موت کے وقت اس سے ملاقات کرتی ہے اور کہتی ہے:

 

 

اے ولیّ خدا! تجھے اللّٰہ کی جانب سے خوشنودی و رضوان، بزرگی اور کرامت کی بشارت ہو۔

 

اور پھر وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے یہاں تک کہ وہ قبر میں وارد ہوتی ہے؛ اور وہی بات دوبارہ کہتی ہے؛ اور پھر جب وہ محشور کیا جاتا ہے، وہ بھی اس سے ملاقات کرتی ہے اور وفات کے بعد کے ہر مرحلہ میں اسے وہ بشارت دیتی ہے۔

 

تو وہ بندہ خدا کہتا ہے: تم پر خدا کی رحمت ہو، تم کون ہو؟

 

جواب میں وہ کہتی ہے: میں وہی سرور اور خوشی ہوں جسے تو نے فلاں شخص کے لئے فراہم کیا تھا۔

 

📚 المؤمن، كوفى اهوازى، حسين بن سعيد، ص51، ح126، باب ثواب قضاء حاجة المؤمن و تنفيس كربه و إدخال الرفق عليه۔

 

 

5



🌷🌷حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

 

🔴 ما مِنْ عَمَلٍ يَعْمَلُهُ الْمُسْلِمُ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ إِدْخَالِ‏ السُّرُورِ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ،

 

وَ مَا مِنْ رَجُلٍ يُدْخِلُ عَلَى أَخِيهِ الْمُسْلِمِ بَاباً مِنَ السُّرُورِ إِلَّا أَدْخَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَيْهِ بَاباً مِنَ السُّرُورِ.

 

🔵 حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ع نے فرمایا:

 

کوئی بھی  وہ کام جو  مسلمان انجام دیتا ہے خدائے عزّ و جلّ کے نزدیک اپنے مسلمان بھائی کو شاد و خوشحال  کرنے سے زیادہ محبوب عمل نہیں ہے۔

 

 اور ہر وہ شخص جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے سرور و خوشحالی کے اسباب فراہم کرتا ہے خدائے عزّ و جلّ اس پر سرور و شادمانی کے دروازے کھول دیتا ہے۔

 

📚 المؤمن، كوفى اهوازى، حسين بن سعيد، ص53، ح133، باب ثواب قضاء حاجة المؤمن و تنفيس كربه و إدخال الرفق عليه

 

 

6


🌷🌷حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام:

 

🔴 أوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى دَاوُدَ ع- إِنَّ الْعَبْدَ مِنْ عِبَادِي لَيَأْتِينِي بِالْحَسَنَةِ فَأُبِيحُهُ جَنَّتِي- فَقَالَ دَاوُدُ ع يَا رَبِّ وَ مَا تِلْكَ الْحَسَنَةُ قَالَ يُدْخِلُ عَلَى عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ سُرُوراً وَ لَوْ بِتَمْرَةٍ قَالَ دَاوُدُ يَا رَبِّ حَقٌّ لِمَنْ عَرَفَكَ أَنْ لَا يَقْطَعَ رَجَاءَهُ مِنْكَ.

 

🔵 خدا نے جناب داؤد علیہ السلام کو وحی فرمائی:

 بیشک ہمارے بندوں میں سے جب کوئی نیک عمل پیش کرے گا تو جنّت اس پر مباح کردونگا۔

 

داؤد ع نے  عرض كیا:  پروردگار! وہ نیکی کون سی ہے؟

 

فرمایا: میرے مومن بندے کو شاد و خوشحال کرے خواہ ایک دانہ خرما سے  ہو۔

 

حضرت داؤود علیہ السلام نے فرمایا: بار الہا! جو تجھے پہچان جائے اس پر حق ہے  کہ تجھ  سے کبھی مایوس نہ ہو۔

 

📚المؤمن، ص56،  ح 143، باب ثواب قضاء حاجة المؤمن و تنفيس كربه و إدخال الرفق عليه

 

 

 7


 🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام

 

🔴 يا كُمَيْلُ مُرْ أَهْلَكَ أَنْ يَرُوحُوا فِي كَسْبِ الْمَكَارِمِ وَ يُدْلِجُوا فِي حَاجَةِ مَنْ هُوَ نَائِمٌ فَوَ الَّذِي وَسِعَ سَمْعُهُ الْأَصْوَاتَ مَا مِنْ عَبْدٍ  أَوْدَعَ قَلْباً سُرُوراً إِلَّا وَ خَلَقَ اللَّهُ‏  مِنْ ذَلِكَ السُّرُورِ لُطْفاً فَإِذَا نَزَلَتْ بِهِ نَائِبَةٌ جَرَى إِلَيْهَا كَالْمَاءِ فِي انْحِدَارِهِ حَتَّى يَطْرُدَهَا عَنْهُ كَمَا تُطْرَدُ غَرِيبَةُ الْإِبِلِ۔

 

🔵 اے کمیل! اپنے گھر والوں کو حکم دو کہ اچھی خصلتوں کو تلاش کرنے کے لئے دن میں نکلیں اور سو جانے والوں کی حاجت روائی کے لئے رات میں قیام کریں۔ قسم ہے اس ذات کی جو ہر آواز کی سننے والی ہے کہ کوئی شخص کسی دل میں سرور وارد نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ پروردگار اس کے لئے اس سرور سے ایک لطف پیدا کر دیتا ہے۔ کہ اس کے بعد اگر اس پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے ۔تو وہ لطف   اس کی طرف نشیب کی جانب بہنے والے پانی کی طرح تیزی سے بڑھتا ہے اور اس مصیبت کو یوں ہنکا دیتا ہے جس طرح اجنبی اونٹ ہنکائے جاتے ہیں۔

 

📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص513، حکمت257

 

🔰امام عليہ السلام  پہلے نکتے میں ، زندگی کا لائحۂ عمل اس طرح   بیان کرتے ہیں کہ اس کے ایک حصّہ میں انسان خود سازی، اصلاح نفس اور فضائل سے آراستہ ہونے کی کوشش کرے، تعلیم ، تجربوں سے استفادہ اور انسانی صفات کی پرورش ،  بری صفات سے دوری  اور کمالات کی جانب قدم بڑھائے؛ تو دوسرے حصّہ میں لوگوں کی مشکلوں   کو حل کرنے کے لئے اقدام کرے۔  لہذا  جو لوگ صرف اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوسروں کی مشکلوں سے مطلب نہیں رکھتے وہ حقیقت میں  اسلام سے دور ہیں؛ اسی طرح وہ لوگ  بھی جو دوسروں کے مسائل میں  آگے ہیں لیکن خود سے غافل وہ بھی اسلام سے بے گانہ ہیں۔

 

«يروح» دن میں ظہر کے بعد سیر کے معنی میں ہے، اس  بات کی جانب اشارہ ہے کہ پہلے  انسان فضائل و مکارم کے حصول  کی فکر کرے، کیونکہ انسان جب تک خود کی اصلاح نہ کرلے دوسروں کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔

 

«يُدْلِجُوا» ابتدائے شب میں سیر کے معنی میں ہے، اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ  لوگوں کی خدمت بغیر  شور وغل کے اور غالبا ً چھپ کر کرنا چاہئے، خاص طور پر « جو سو رہا ہو » تاکہ ان کی آبرو محفوظ رہے اور اسے شرمندگی نہ ہو۔انسان کی فردی اورسماجی زندگی کو سنوارنے کے لئے یہ ایک جامع اور کامل لائحۂ عمل  ہے ۔

 

آج کی مادّی دنیا ضرورتمندوں کی مدد کو حکومتوں کے محدود پروگرام میں ڈال دیتی ہے اور لوگ اس ذمہ داری  کو بہت کم ہی سمجھتے ہیں ، جبکہ اسلام میں ایسا نہیں ہے؛ جو شخص  بھی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرورتمندوں کی مدد کا ذمہ دار ہے۔ یہاں تک کہ پيغمبر صلی الله عليہ و آلہ فرماتے ہیں: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لا يُوْمِنُ بِي عَبْدٌ يَبِيتُ شَبْعَانَ وَأَخُوهُ أَوْ قَالَ جَارُهُ الْمُسْلِمُ جَائِعٌ؛ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص  شکم سیر ہوکرسوجائے  جبکہ اس کا مسلمان بھائی  یا فرمایااسکا مسلمان پڑوسی بھوکا ہو تو وہ مجھ پر ایمان نہیں لایا ہے »۔

 

❇️ امام ع نے «عثمان بن حنيف انصارى» نام خط[مکتوب/45] میں مزید واضح کردیا : «هَيْهَاتَ أَنْ يَغْلِبَنِي هَوَايَ وَيَقُودَنِي جَشَعِي إِلَى تَخَيُّرِ الأَطْعِمَةِ وَلَعَلَّ بِالْحِجَازِ أَوِ الْيَمَامَةِ مَنْ لا طَمَعَ لَهُ فِي الْقُرْصِ وَلا عَهْدَ لَهُ بِالشِّبَعِ أَوْ أَبِيتُ مِبْطَاناً وَحَوْلِي بُطُونٌ غَرْثَى وَأَكْبَادٌ حَرَّى؛ خدا نہ کرے کہ مجھ پر خواہشات کا غلبہ ہو جائے اور حرص و طمع مجھے اچھے کھانوں کی طرف کھینچ لے جائیں جبکہ ممکن ہے حجاز یا یمامہ میں ایسے افراد بھی ہوں جن کے لئے ایک روٹی کا سہارا نہ ہو اور شکم سیری کا کوئی سامان نہ ہو۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں شکم سیر ہو کر سو جاؤں اور اطراف میں  بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپ رہے ہوں۔

 

♻️ پھر امام ع ایک دوسرے نکتے کی جانب اشارہ فرماتے ہیں جو پہلی بات کو کامل کرتی ہے وہ مضطرب دلوں کو شاد کرنا ہے۔ آپ علیہ السلام ایسے لوگوں کے لئے عظیم اجر بیان فرماتے ہیں کہ مومن کو خوشحال کرنا صرف آخرت میں ہی معاون نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی وہ مشکلات کے وقت مددگار ہے اور سخت مصائب و آلام کو دور کرتا ہے۔ اور اس کی تاثیر اتنی شدت کی ہے جیسے پانی ڈھلان کی طرف بہتا ہے اور جیسے  اجنبی اونٹ کو چرا گاہ سے ہنکا دیا جاتا ہے۔

 

📚 پیام امام امیرالمومنین ع، مکارم شیرزای، ج14، ص137 سے اقتباس

 

 

https://t.me/klmnoor

 

https://www.facebook.com/klmnoor