علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعرات، 27 مئی، 2021

شہادت حضرت حمزہ ع

 


15 /شوال

 

#جنگ_احد_اور_شہادت_حضرت_حمزه_ع

 

 3 ہجری، جنگ احدکے دن، حضرت سیّد الشّہداء اور دیگر 69 مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔ [بحار الانوار،  ج 20، ص18؛ توضیح المقاصد، ص27؛ سیره ابن ہشام،  ج3، ص68؛ الموسوعه الکبري فی غزوات النبی الاعظم ص، ج 2، ص110]

 

بعض نے 17 شوال بیان کیا ہے۔ [بحار الانوار، ج97 ، ص168]

 

اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد  ایک ہزار تھی، بعض مورخین کے مطابق تین سو لوگ راستے سے لوٹ آئے، اور جنگ میں شریک لوگوں کی تعداد 700 بچی تھی۔

 

اس کے مقابل کفّار 3000 کی تعداد میں تھے، اور 2000 اور 4000 اور 5000  کی تعداد بھی بتاتے ہیں۔ کفار کے مہلوکین کی تعداد 22 یا 23 یا 28، اور شہداء کی  تعداد 70 تھی۔  [مسار الشیعہ: ص15]

 

اس دن  پیغمبر اکرم ص کے دندان مبارک اور پیشانی اقدس پر زخم لگے۔ [بحار الانوار: ج 20، ص18]

 

احد میں امیر المومنین ع کی جانفشانیاں:

 

اس دن حضرت خاتم الانبیاء ص کی حفاظت میں امیرالمومنین ع نے عظیم فداکاری اور بھرپور شجاعت  کے جوہر دکھائے اور بہت سے زخم کھائے جبکہ دوسرے لوگ میدان سے فرار کرگئے تھے۔ نبی اکرم  ص نے فرمایا: اے علی! کیا سن رہے ہو؟ کہ آسمان سے تمہاری مدح کی جارہی ہے اور  ایک ملک امیر المومنین ع کے لئے کہہ رہا ہے: « لا سیف الا ذوالفقار و لا فتی الا علی» امیرالمومنین ع فرماتے ہیں : میں نے خوشی سے گریہ کیا اور اس نعمت پر خدائے سبحان کی حمد انجام دی۔  [ارشاد،  ج1، ص87؛ اسد الغابہ، ج4، ص21؛ مسار الشیعہ، ص16؛ مصباح کفعمی: ج2، ص600]

 

اس جنگ کی فتح شروع میں مسلمانوں کی تھی،  لیکن کچھ لوگوں  نے دشمن کا پیچھا کیا اور میدان خالی ہوگیا، تو  پلٹ کر غنیمت جمع کرنے لگے ، اور نبی اکرم ص کے حکم سے سرپیچی کرتے ہوئے اکثر مقرّر نے اپنی جگہ چھوڑ دی اور دوسروں کی طرح غنیمت جمع کرنے لگے۔

 

لشکر کفار سےخالد بن ولید نے اسی طرف سے کفار کے ساتھ حملہ کردیا اور وہ قلیل تعداد جنہوں نے اس پہاڑی کو نہیں چھوڑا تھا شہید ہوگئے، کفار نے پیچھے سے مسلمانوں پہ وار کیا، بھاگے ہوئے  کفارنے جب یہ دیکھا تو پلٹ آئے اور حملہ تیز ہوگیا۔

 

پیغمبر اکرم ص کے جسم اطہر پر کافی زخم لگے اور شیطان نے آواز دی محمد قتل کیے گئے! مسلمان یہ سنتے ہی فرار کرنے لگے اور آنحضرت ص کی حفاظت میں صرف چند لوگ رہ گئے جس میں  امیر المؤمنین ع  تھے اور ابودجانہ جو شہید ہوگئےاور نسیبہ نام کی خاتون اور انس بن نضر جو اسی وقت مدینہ سے آگئے تھے۔

 

ابوبکر و عمربن خطاب جنگ احد میں:

 

عمر بن خطاب کہتے ہیں: احد میں ہم نے پیغمبر ص کے ساتھ  بیعت کی تھی کہ کوئی فرار نہیں کرے گا ، اور جو بھی فرار کرے گا وہ  گمراہ ، اور جو بھی ہم میں سے قتل ہوگا وہ شہید ہے۔ [بحار الانوار: ج 20 ، ص 53۔54]

 

احمد بن حنبل کہتے ہیں: ابوبکر و عمر  اس جنگ سے فرار کرگئے۔جس وقت امیر المؤمنین ع  نے فراریوں کا پیچھا کیا، عمر اپنی آنکھوں سے آنسوں  صاف کرتے ہوئے واپس آئے اور امیر المؤمنین ع عرض کیا: مجھے معاف کردیں! امیرالومنین ع نے پوچھا:  کیا وہ تم نہیں تھے جس نے آواز لگائی: محمد قتل کیے گئے، اپنے دین پر واپس چلے جاؤ؟!! عمربن خطاب نے کہا: یہ بات ابوبکر نے کہی ہے۔ تبھی یہ آیت نازل ہوئی: « ان الذین تؤلوا منکم یوم التقی الجمعان انما استز لهم الشیطان» [آل عمران: آیه 155 . اثبات الہداه: ج 2، ص 364۔365]

 

امام صادق ع  فرماتے ہیں: جنگ احدمیں امیر المؤمنین ع پیغمبر اکرم ص کی حفاظت کررہے تھے اور دوسرے اصحاب فرار کرچکے تھے۔ آپ ع ایک شیر غضبناک کی طرح بھاگنے والوں کے پیچھے گئے  پہلے عمر بن خطاب تک  پہونچے  جو عثمان و حارث بن حاطب اور کچھ لوگوں سے ساتھ تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ آپ ع نے فریادلگائی: اے جماعت! بیعت توڑ دی اور پیغمبر ص کو تنہا چھوڑ دیا اور جہنم  کی طرف دوڑے جارہے ہو ؟

 

عمر بن خطاب  کہتے ہیں: علی کو دیکھا جو ایک چوڑی شمشیر   کے ساتھ جس سے موت  ٹپک رہی تھی اور  غیض سے ان کی آنکھیں کاسۂ خون  کی طرح تھی ، سمجھ گیا کہ  اگر یہ ہم تک پہونچ گئے تو ایک ہی حملے میں ہم کو ختم کردینگے۔ لہذا میں آگے بڑھا اور عرض کیا:  یا اباالحسن!  تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں  ہمیں چھوڑ دیں ، کیونکہ عرب کی عادت ہے کبھی فرار کرتا ہے کبھی حملہ کرتا ہے۔ اور جب حملہ کرتاہے تو فرار کی تلافی کرتا ہے۔ تو انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ خدا کی قسم ان کا رعب میرے دل میں ایسا بیٹھا کہ ابھی بھی نکل نہیں پایا ہے۔ [قلائد النحور: ج شوال، ص 77 ؛  بحار الانوار: ج 20 ، ص 53۔ 54]

 

اس جنگ میں  پیغمبر ص کی حفاظت کے وقت امیر المؤمنین ع کے چہرے، سر، سینہ، پیٹ ، ہاتھ اور پیر پر   90 زخم لگے ۔  جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا:  « یا محمد! واللہ یہی مواسات ہے »پیغمبر ص نے فرمایا: «  وہ اس لئے ہے کہ میں اس سے ہوں اور وہ مجھ سے۔ جبرئیل نے کہا: اور میں آپ دونوں بزرگوار سے»[بحار الانوار،  ج 20 ، ص 54]

 

نسیبہ  نامی ایک خاتون جنگ احد میں:

 

اس دن جس نے بہت زیادہ جانفشانی کی اور بھاگی نہیں ، بلکہ دوسروں کو بھی بھاگنے سے روکا، وہ ایک خاتون نسیبہ بنت کعب بن مازنیہ تھی۔ وہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھیں ۔ نسیبہ اپنے دوش پر پانی کی مشک لئے لشکر اسلام کی سقائی کررہی تھی۔  انہوں نے جب دیکھا لوگ جنگ سے بھاگ رہے ہیں تو مشک کو رکھ دیا اور   خود کو آنحضرت ص کے سامنے ڈھال بنا دیا، اور بہت سے زخم کھائے، کہ ایک زخم کا علاج تو ایک سال تک ہوتا رہا۔

 

اس جانثار خاتون نے شمشیر اٹھالی ، اور نبی اکرم ص پر حملہ ور ابن حمیہ   پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ نسیبہ کا بیٹا عبد اللہ بھی بھاگنےوالا تھا لیکن نسیبہ نے اسے روک لیا اور رسول ص کی حفاظت اور جنگ کی ترغیب دی۔آنحضرت  ص  نے فرمایا: «بَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكِ يَا نَسِيبَة »  تبھی مہاجرین میں سے کوئی سپر باندھے ہوئے فرار کررہا تھا   ، فرمایا: « اے صاحب سپر! سپر چھوڑ دے اور خود جہنّم جا »اور نسیبہ سے فرمایا« اس کی سپر  لے لو » انہوں سے سپر اٹھائی اور مشرکین سے جنگ کی تو آنحضرت ص نے فرمایا : «  نسیبہ کی منزلت ان فلاں لوگوں سے بڑھ کر ہے جو فرار کر گئے » [بحار الانوار: ج 20 ، ص 54]

 

شہادت حضرت حمزه:

 

اسی  روز عموئے پیغمبر ص  جناب حمزه بن عبدالمطلب ع  نے شہادت پائی۔  [بحار الانوار: ج 15 ، ص 281]

 

آپ شجاع بہادر اور باوقار شخصیت کے حامل تھے، اور اس جنگ میں ابو سفیان کی زوجہ ہند کے حکم سے اس کے وحشی غلام کے ذریعہ قتل ہوئے۔ہند نے جنگ بدر میں اپنے والد، بھائی اور چچا کی ہلاکت پر پہلے پیغمبر ص کی مادر گرامی کی نبش قبر کا رادہ کیا لیکن کفار نے اپنی قبروں کے ڈر سے   اسے روک دیا۔ تو اس نے اس وحشی کو پیغمبر ص  یا علی ع کو قتل کرنے کی لالچ دلائی۔ اس نے کہا کہ میں ان دونوں کو قتل نہیں کر پاؤنگا لیکن  حمزہ کو قتل کرنے کے لئے کمین کرونگا۔

 

اس نے میدان جنگ میں آپ کے سینے یا پیٹ پر نیزہ مار دیا  اور شہید کرڈالا،  جب یہ خبر ہند کو دی گئی ، تو اس خبیث نے آپ کے سینے سے جگر مبارک کو نکلوایا ، چاہا کہ دانت سے چبالے اس کے دندان نحس کارگر نہ ہوئے۔ ہند نے آپ کے نا ک کان اور دیگر اعضاء کو خنجر سے جدا کرکے گلے میں پہنا۔

 

پیغمبر اکرم ص نے جس وقت جناب حمزہ کی یہ حالت دیکھی،  گریہ فرمایا اور اپنی عبائے مبارک کو ان پر اڑھایا تاکہ ان کی بہن صفیہ ان کو اس حالت میں نہ دیکھے ۔  [بحار الانوار،  ج 20 ، ص 55 ؛  حمزه سیّد الشّہداء ع،ص 28۔29]

 

پیغمبر ص نے آپ پر نماز پڑھی اور احد میں دفن کیا۔ چالیس سال بعد جب معاویہ نے چاہا کہ احد کی طرف سے ایک نہر لے جائے تو اسی راستے میں حضرت حمزہ کی قبر بھی آگئی  نہر کھودتے وقت بیلچہ جناب حمزہ کے پیر سے ٹکرا گیا اور خون جاری ہوگیا!

 

حضرت امام رضا ع حضرت رسول خدا ص سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  میرے بہترین بھائی علی ع  اوربہترین چچا حمزہ ہیں۔ [عیون اخبار الرضا ع ، ج 2، ص 61 . ریاحین الشریعہ، ج 4، ص 350]

 

📚تقویم شیعہ، عبدالحسین نیشابوری، ص268۔

 

 

https://t.me/klmnoor

 

https://www.facebook.com/klmnoor