#تیس_قدم_خودسازی_کے
2️⃣0️⃣ *اللّهمَّ افْتَحْ لی فیهِ اَبْوابَ الْجِنانِ، وَاَغْلِقْ عَنّی فیهِ اَبْوابَ النّیرانِ، وَوَفِّقْنی فیهِ لِتِلاوَه الْقُرْانِ، یا مُنْزِلَ السَّکینَهِ فی قُلُوبِ الْمُؤْمِنینَ*
میرے معبود! آج کے دن میرے لئے جنت کے دروازوں کو کھول دے، اور اس میں جہنم کے دروازوں کو مجھ پر بندکر دے ، اور اس میں مجھے قرآن پڑھنے کی توفیق عطا کر، اے مومنین کے دلوں کو سکون عطا کرنے والے۔
✅ بیسواں قدم: سکینه (سکون و اطمینان)
« یا مُنْزِلَ السَّکینَه فی قُلُوبِ الْمُؤْمِنینَ »
سکینہ ایک عرفانی اخلاقی اصطلاح ہے اور سکون ،وقار اور متانت کے معنی میں ہے جو طالب ِحق کے قلب میں اطمینان کے بعد حاصل ہوتا ہے؛ وہ سکون کا احساس ہے جو ذمہ داری پوری کرنے اور کام کے انجام دینے کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو خدا مومنین کے قلوب کو عطا ہے۔
🔰هوَ الَّذِى أَنزَلَ السَّكِينَةَ فىِ قُلُوبِ الْمُؤْمِنِين وہی خدا ہے جس نے مومنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے ۔ [الفتح/ 4] یہ سکون اور اطمینان خدا کی یاد اور اسکے ذکر سے پیدا ہوتا ہے: أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئنُِّ الْقُلُوب قلوب خدا کے ذکر سے ہی آرام پاتے ہیں۔ [الرعد/ 28]
امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ وہ خزانہ جس کا ذکر داستان خضر و موسیٰ علیہماالسلام میں ہے: « وَ كانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُما » اور اس دیوار کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا ۔ [کهف/ 82] وہ ایک تختی تھی جس پر لکھا ہوا تھا: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عَجِبْتُ لمَنْ ايْقَنَ بِالْمَوْتِ كَيْفَ يَفْرَحُ وَ عَجبْتُ لِمَنْ ايْقَن بِالقَدَرِ كَيْفَ يَحْزَنُ وَ عَجبْتُ لِمَنْ رَاى الدْنيا وَ تَقَلُّبَها بِاهْلِها كَيْف يَركن الَيْها مجھے تعجب ہے اس پر جسے موت کا یقین ہے وہ کیسے خوش رہتا ہےاور تعجب ہے اس پر جسے تقدیر الٰہی پر یقین ہے وہ کیسے محزون رہتا ہے اور تعجب ہے جو دنیا کو جانتا ہے اور گردش ایام کو دیکھ چکا ہے وہ کیسے اس سے دل لگا بیٹھتا ہے۔ [تفسير الصافی، ج3، ص257 ، [سورة الكهف(18): آية 82]
❇️ فیض کاشانی کہتے ہیں:
آن دل که تویی در وي، غم خانه چرا باشد
چون گشت ستون مسند حنّانه چرا باشد
غم خانه دلی باشد، کان بی خبر است از تو
چون جاي تو باشد دل، غم خانه چرا باشد
بیگانه کسی باشد، کاو با تو نباشد یار
آن کس که تواش یاري، بیگانه چرا باشد۔
جس دل میں تو رہتا ہے غم خانہ وہ کیسے ہو
منبر کا ستوں جب ہے حنّانہ وہ کیسے ہو
غم خانہ وہ دل ہوگا جو تجھ سے رہے غافل
جب دل ہو حرم تیرا غم خانہ وہ کیسے ہو
دلبر نہ ہو تو جس کا وہ غیر،پرایا ہے
اورجس کا تو ہمدم ہیگانہ وہ کیسے ہو
سورہ بقرہ/ 248، سورہ فتح/ 26، سورہ توبہ /40 میں موجود لفظ "سکینہ" کا لفظ سکون اور اطمینان سے بہت گہرا رابطہ ہے۔
✳️ پیرہرات، سورہ فتح/ 26 کی تفسیر میں لکھتے ہیں: سکینہ ، وہ چین و سکون ہے جو خدا اپنے فضل و کرم سے اپنے بندوں کے دلوں میں اتارتا ہے اور قلب کا سکون دو چیزوں میں ہے: ایک اطاعت میں دوسرے یقین میں ۔
اطاعت میں سکون تین چیزوں سےہے: ۱۔ شرعی احکام پر عمل، تاکہ کمتر سے بھی قوی بن جائے۔ ۲۔ اصل دین پر اعتماد تاکہ شیطان کے وسوسے سے محفوظ رہے۔۳۔ دینی کام میں لوگوں کو بھول جائے تاکہ ریا سے آزاد رہے ۔
یقین میں اطمینان بھی تین چیزوں سے ہے۱۔ جو بھی نصیب ہو اس پر راضی رہے تاکہ بوجھ کی سنگینی سے آسودہ رہے ۔ ۲۔ نقصان کو ایک نظر سے دیکھے تاکہ خوف و خطر سے دور رہے۔ ۳۔ اپنے کاموں کو خدا پر چھوڑ دے تاکہ وابستگیوں سے آزاد ہوجائے۔
سکون اور اطمینان کی علامت یہ ہے کہ انسان کریم بھی ہو اور بخشنے والا بھی ۔بخشش ایسی کہ پوری دنیا کافر کے حوالے کردے اور اس پر احسان نہ جتائے، اور عطا ایسی کہ اگر کسی مومن کو نعمت دے دے اور وہ اس عطیہ کو قبول کرلے تو اس کا ممنون رہے۔ [کشف الاسرار و عده الابرار، تفسیر آیه 26 سوره فتح]
♻️ آج کے دن کا ذکر: « یا مُنْزِلَ السَّکینَهِ فی قُلُوبِ الْمُؤْمِنینَ »
📚سی گام خود سازی، محمود صلواتی، ص63