علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

ہفتہ، 8 مئی، 2021

تیس قدم خودسازی کے[۲۶]


 

#تیس_قدم_خودسازی_کے



2️⃣6️⃣ *اللّهمَّ اجْعَلْ سَعْیی فیهِ مَشْکُورا، وَذَنْبی فیهِ مَغْفُورا، وَعَمَلی فیهِ مَقْبُولًا، وَعَیْبی فیهِ مَسْتُوراً، یا اَسْمَعَ السّامِعینَ*


میرے معبود! آج کے دن میری سعی و کوشش کو پسندیدہ قرار دے اور اس میں میرے گناہ کو معاف قرار دے  ، اور اس میں میرے عمل کو مقبول  بنا ، اور اس میں میرے عیب کو پوشیدہ قرار دے۔  اے سب سے زیادہ سننے والے۔


✅چھبیسواں قدم: طمأنینه (اطمینان، سکون)


« اللّهمَّ اجْعَلْ سَعْیی فیهِ مَشْکُورا »


انسان کی ساری کی ساری سعی و کوشش ایک مقصد کے تحت اور نتیجہ تک پہونچنے کے لئے ہونا چاہئے  ؛ کسان اچھی فصل  کے لئے زراعت کرتا ہے،  باغباں پھل کی امید میں درخت لگاتا ہے، تاجر منافع کی غرض سے تجارت کرتا ہے، غوطہ خور قیمی  گوہر تک پہونچنے کی امید میں سمندر کی تہوں تک جاتا ہے، اور سالک و عابد ایک نتیجہ کی توقع کے ساتھ نماز ، روزہ اور عبادتیں انجام دیتا ہے۔ جو شخص حضور قلب کے ساتھ نمازیں پڑھتا ہے، غریبوں اور ناداروں کی  دادرسی کرتا ہے،  اپنی دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے ،  گرمی کے دنوں میں روزہ رکھتا ہے، اور سردی کی لمبی راتوں میں عبادت اور خدا سے راز و نیاز کرتا ہے،  بیشک  وہ خدائے متعال سے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہے۔  اور اس میں بھی شک نہیں کہ اس کی یہ محنتیں اور عبادتیں  خدائے رئوف و رحیم سے مخفی نہیں ہے اور وہ اس کی کوششوں کو رایگاں نہیں جانے دیگا ۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے: «وَ كاَنَ سَعْيُكمُ مَّشْكُورًا» [ الانسان/ 22]اور تمہاری سعی قابل قبول ہے۔ 


🔰خدا کی راہ چلنے والا اپنے معبود پر اطمینان رکھتا ہےاور  خدا نے بھی اپنے بندوں کو یہ بھروسہ دیا ہے کہ وہ اپنے وعدے  کو پورا کرے گا ؛ چنانچہ وہ فرماتا ہے: « وَ أَوْفُواْ بِعَهْدِى أُوفِ بِعَهْدِكُمْ » [البقره/ 40]   تم  ہمارے عہد کو پورا کرو ہم تمہارے عہد کو پورا کریں گے۔


صاحبِ نفس مطمئنہ کبھی بھی اپنی کوششوں اور عبادتوں کے نتیجہ بخش ہونے پر شک و تردید نہیں کرسکتا ہے۔


❇️ پیرِ ہرات آیت: « الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ تَطْمَئنِ‏ُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ  أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئنِ‏ُّ الْقُلُوب‏ »[ الرعد/ 28 ] کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اپنی اشارہ کی زبان سے یہ آیت دو شخص کی خبر دیتا ہے:ایک مرید دوسرے مراد۔ایک وہ جو اپنے تمام وقت کوزبان سے ذکر میں لگادیتا ہے، کبھی نماز ، کبھی تسبیح   ، کبھی قرآن پڑھتا  ہے،  تو دوسرا دریائے بے کراں میں غوطہ زن کے مانندسراپا  روح وجاں سے ذکر حق میں مصروف ہوتا ہے۔ وہ دین کے راستے پر گامزن ہے ، اور اپنے ذکر کی قید میں مست و مگن، تو یہ بساط قرب  پردنیا و مافیہا کے جدا ہوکرجذبۂ الٰہی سے وابستہ ، اس سے کہتے ہیں: ذکر کو روکو! اور اس سے کہتے ہیں : ذکر سنو۔ کچھ جنّت کی تمنّا میںرہتے ہیں تو کچھ کےانتظار میں  جنّت ہوتی ہے۔ کہ مصطفیٰ  صلّی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا ہے: جنّت چار لوگوں کی مشتاق ہے:  ماہ رمضان میں روزہ رکھنے والے، قرآن کی تلاوے کرنے والے، زبان کو قابو میں رکھنے والے، بھوکوں کو کھانا کھلانے والے۔ [کشف الاسرار و عده الابرار، تفسیر آیه 28 سوره رعد]


✳️البتہ وہ عارفان حق جو مولا امیر المومنین علی علیہ السلام کے سچّے پیروکار ہیں: وہ خدا کی عبادت نہ جنّت کی لالچ میں کرتے ہیں اور نہ دوزخ کے خوف سے، بلکہ چونکہ اسے عبادت کے لائق پایا ہے لہذا اسی کی عبادت کرتے ہیں ؛


انکا زبان حال خواجہ کی اس مناجات جیسا ہے:


الٰہی! سب کی ایک امید ہےا ور عارف کا اشتیاق  ترا دیدار ہے


عارف کو بغیر دیدار کے ، نہ اجرت کی ضرورت ہے نہ جنّت سے واسطہ


سب کو اپنی زندگی سے پیار ہے اور موت انکے لئے دشوار؛


عارف مگر موت کا محتاج ہے کیوں اسے شوقِ دیدار ہے۔ [کشف الاسرار و عده الابرار، ج 3، ص 732 ، تفسیر سوره اعراف]


♻️آج کے دن کا ذکر« شکراً للّه »


📚سی گام خودسازی، محمود صلواتی، ص83


https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor