#تیس_قدم_خودسازی_کے
2️⃣2️⃣ *اللّهمَّ افْتَحْ لی فیهِ اَبْوابَ فَضْلِکَ، وَاَنْزِلْ عَلَیَّ فیهِ بَرَکاتِکَ، وَوَفِّقْنی فیهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِکَ، وَاَسْکِنّی فیهِ بُحْبُوحاتِ جَنّاتِکَ، یامُجیبَ دَعْوَهِ الْمُضْطَرّینَ*
میرے معبود! آج کے دن میرے لئے اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے ، اور اس میں مجھ پر اپنی برکتیں نازل فرما، اور اس میں مجھے ان چیزوں کی توفیق دے جو تیری خوشنودی کا سبب ہوں، اور اس میں مجھ کواپنی بہشت کے درمیان سکونت عطا فرما، اے بے قرارلوگوں کی دعائیں قبول کرنے والے۔
✅ بائیسواں قدم: رضا (خوشنودی)
«وَوَفِّقْنی فیهِ لِمُوجِباتِ مَرْضاتِکَ»
خدا کا بندہ اس چیز پر راضی رہتا ہے جسے خدا چاہتا ہے تو وہ اس طرح خدا کی مرضی اور اس کی خوشنودی کے اسباب فراہم کرلیتا ہے۔ان میں سے ایک خدا کی خوشنودی کا سبب ذات ِحق کو دوست رکھنا ہے اس طریقہ سے کہ خدا سے عشق و محبت کے علاوہ تمام محبتوں کو دل سے نکال دے۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: « لَا يُمَحِّضُ رَجُلٌ الْإِيمَانَ بِاللَّهِ حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ وَ أَبِيهِ وَ أُمِّهِ وَ وُلْدِهِ وَ أَهْلِهِ وَ مَالِهِ وَ مِنَ النَّاسِ كُلِّهِمْ » انسان کا ایمان اس وقت تک خالص نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ خدا کو خود سے، والدین، اولاد، اہل و عیال ، مال و دولت اور دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ دوست نہ رکھے۔ [بحارالانوار، ج 42]
❇️ غریبوں ، لاچاروں، محتاجوں کو دوست رکھنا بھی خدا کی خوشنودی کا سببب ہوتا ہے؛ کیونکہ وہ سب خدا کے اہل و عیال ہیں۔ حضرت موسیٰ ع نے اپنے خدا سے چاہا کہ اپنے بندوں سے رضایت کی کوئی ایک علامت بیان کرے: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِذَا رَأَيْتَ نَفْسَكَ تُحِبُّ الْمَسَاكِينَ وَ تُبْغِضُ الْجَبَّارِينَ فَذَلِكَ آيَةُ رِضَاي۔ وحی نازل ہوئی : اے موسیٰ جب یہ دیکھنا کہ تم غریبوں لاچاروں کو دوست رکھتے ہو اور دشمنوں سے بیزار ہو جان لو کہ یہ میری خوشنودی کی علامت ہے۔ [مستدرك الوسائل، ج12، ص235]
جو چیز خدا نے مقدّر فرمادی ہے اس پر خوش اور شادماں رہنا، ان چیزوں میں ہے سے جس سے خدا راضی اور خوشنود ہوتا ہے: روایت میں ہے : «من لم یرض بقضائی. ... فلیطلب ربّا سوائی» جو میری قضا و قدر پر راضی نہیں ہے وہ میرے سوا کوئی اور خدا تلاش کرلے۔ [کاشفی، ملا حسین، جواهر الاسرار، ج 1، ص 233 ]
فراق و وصل چه باشد رضاي دوست طلب
که حیف باشد از او غیر او تمنایی [حافظ شیرازی]
جنّت و کوثر کیا چیز ہے اسکی رضا اور خوشنودی کی فکر میں رہو کیوں کہ دوست سے اسکی خوشنودی کے سوا کچھ چاہنا حیف ہے۔
✳️ پیرِ ہرات اپنی کتاب "صد میدان" میں کہتے ہیں:
تئیسواں میدان خدا کی رضا ہے : قوله تعالی «رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُواْ عَنْهُ» : خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے راضی ہوں گے۔ [المجادله/ 22 ] رضا :خوشنودی اوررضایت کو کہتے ہیں اور وہ تین چیزیں ہیں: جس دین کو اس نے بھیجا ہے اس پر راضی اور خوش رہو، جو روزی اس نے تمہارے اور دوسرے لوگوں کے لئے مقرر فرمائی ہے اس پر راضی رہو، جو بھی اس سے ہے کے بجائے خود اپنے مولا سے راضی رہو۔[ رساله صد میدان، ص 50 ]
جانی است مرا به عشق تو خورده رقم
خواهی اش به شادي کش و خواهیش به غم[کشف الاسرار و عده الابرار، ج5، ص28]
میری جاں تو تیرے عشق کی راہ پر گامزن ہے
چاہے تو اسے خوشحال بنا دے چاہے اسے غم دے
اور آیه شریفه فَلَمَّا أَسْلَمَا وَ تَلَّهُ لِلْجَبِين [صافات/ 103] کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
میں کیا جانوں کہ یہ دھواں کسی جلتی ہوئی آگ کا ہے!
میں تو یہ سمجھا تھا جہاں بھی آگ ہےوہاں چراغ ہے!
میں کیا جانو کہ دوستی میں خود کو مٹا دینا ہوتا ہے!
اور دشمن کے قاضی کو بھی پناه است!
میں کیا جانوں کہ حیرت تیرے وصال کا راستہ ہے ،
اور وہ تجھے مزید تلاش کر رہا ہے کیونکہ وہ تجھ میں ڈوب چکا ہے [کشف الاسرار، 521]
الٰہی!
تجھے کیسے یاد کروں جب میں خود ہی سراسر یاد ہوں!
میں نے اپنے وجود اور تشخص کے خرمن کو سب کا سب مٹا ڈالا ہے!
♻️ آج کے دن کا ذکر « اللّهمّ وفّقنی لموجبات مرضاتک »
📚 سی گام خودسازی، محمود صلواتی، ص65