▫️ اسرائیل کا فلسطینیوں پر ظلم کرنا تو عام بات ہوکر رہ گئ ہے۔ اس نے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی لوگوں کو انکے ہی وطن سے بے گھر کردیا، ہزاروں افراد نے جام شہادت نوش فرمایا اور دسیوں ہزار کی تعداد میں لوگ مجروح ہوئے ہیں۔ وہ فلسطین کو ویران کئے جارہا ہے، اور اسکے اقتصاد اور بنیادی ڈھانچے کو تباہ و برباد کرنے میں لگا ہوا ہے اور لوگوں کے لئے زندگی کرنا دشوار کئے ہے۔
▫️ فلسطینیوں کا اپنی خواہش کے مطابق حکومت بنانے کے لئے اپنی رائے کا استعمال کرنا اسرائیل کو گوارا نہیں، وہ انھیں اپنی پسند کی حکومت کے انتخاب کے عوض اجتاعی سزا دیتا ہے۔ وزیروں، عوام کے منتخبہ لوگوں کو ان کے گھروں سے کھینچ کر جیل میں ڈال دیتا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کو نہایت بری حالت میں اپنی خطرناک جیلوں میں بند رکھتا ہے۔
▫️ کیا ایسے حالات میں دنیا کے لوگوں کو خاموش بیٹھے رہنا چاہئے؟! کیا دوسرے ممالک کو یہی چاہئے کہ ہمشہ ظالم کی مدد کریں اور مظلوم پر ظلم ہوتا دیکھ کر خاموش بیٹھے رہیں؟! یا انھیں حریت پسند لوگوں کے آقا و مولا حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قول کے مطابق [کونوا للظالم خصماً وللمظلوم عوناً] مظلوم کا مددگار اور حامی اور ظالم کا دشمن ہونا چاہئے؟
▫️ لبنان کی عوام کئی برسوں تک اسرائیل کے مسلسل حملوں پر صبر کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہونچی کہ دشمن کی جارحانہ کاروائیوں میں کمی لانے کے سلسلہ میں بین الاقوامی رد عمل کا منتظر نہیں رہنا چاہئے، وہ سمجھ گئے کہ صہیونی دشمن کے بموں، گولیوں سے نجات اور اسرائیلی سپاہیوں کو اپنی سرزمیں سے مار بھگانے کے لئے انھیں ہی کچھ کرنا ہوگا،چنانچہ مزاحمتی تنظیم حزب اللہ بنا ڈالی،لبنانی عوام نے آج سمجھ لیا ہے کہ انکے ملک میں چین اور اطمینان و امنیت کا سبب فقط حزب اللہ ہی ہے۔
▫️ فلسطینی قوم کو بھی یہ احساس ہے کہ بڑی بڑی حکومتوں سے امید لگانا نیز صرف عربی ممالک سے امداد اور حمایت پر نظریں جمائے رہنا بیہودہ کام ہے۔ انھوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی مذمت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پیش کردہ قراردادیں صرف اور صرف امریکہ کی مخالفت اور اس شیطان اعظم کے ویٹو کی وجہ سے پاس نہیں ہوپاتی ہیں۔ لہذا انھوں نے ٹھان لی تاکہ اپنی قسمت کا فیصلہ خود کریں۔ ان نازک حالات میں دنیا کے لوگ بھی نہیں چاہتے کہ وہ صرف فلسطین کے نہتھے لوگوں پر دہشتگردی اور قتل و غارتگری کے تماشائی بنے رہیں بلکہ وہ بھی فلسطینیوں کی حمایت میں اہم کردار پیش کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ مسلمانوں کا فریضہ اس سے بھی بڑھ کر ہے اس لئے کہ پیغمبر اسلام ص نے فرمایا ہے کہ [من أصبح و لم یھتم بأمورالمسلمین فلیس بمسلم]۔
◻️ امام خمینی(رح) نے دنیا کے تمام صلح پسند اور آزاد فکر والوں کو قرآن کریم کی پیروی اور اسلامی نکتہ نظر پر مبنی راہ کی طرف ہدایت دی ہے۔ فلسطین پر قبضہ ہونے کے بعد سے پہلی بار فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت کے مقصد سے اسلامی انقلاب کے علمبردار نے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو ((یوم قدس)) کا نام دے دیا تاکہ دنیا کے مسلمان اور اسلامی حکومتیں مختلف تقریبات کے ذریعہ فلسطینیوں کی قانونی آزادی کی حمایت میں بین الاقوامی اتحاد کا اعلان کریں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر غاصب حکومت اور ان کے طرفداروں کے ہاتھوں کو ملت فلسطین تک پہونچنے سے روک سکیں۔
▫️ عالمی یوم القدس کے اعلان نے فلسطین پر قبضہ کی مصیبت کو عالم اسلام کی سب سے بڑی مشکل کے طور پر پہچنوایا اور دنیا کے تمام مسلمانوں اور دبے کچلے لوگوں کو اس بات پر ابھارا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کے ذریعہ اپنے فلسطینی بھائی بہنوں کی مدد میں سبقت حاصل کریں تاکہ اسرائیل فلسطین کی سرزمیں کے غاصبانہ قبضہ کو جاری نہ رکھ سکے اور فلسطینی قوم کو کمزور اور تباہ نہ کرسکے۔
◻️ اگر مسلمین عالم یوم القدس کے ایک عالمی اجتماع میں حضرت امام خمینی(رح) کی سفارش کے مطابق ایک ایک بالٹی پانی ڈال دیں تو اسرائیل کو پانی بہا لے جائے گا۔۔۔۔