علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

منگل، 5 اکتوبر، 2021

۲۸/صفر: یوم وفات حضرت رسول خدا و شہادت سبط مصطفیٰ حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہما السلام



#آہ_رسول_خدا_ص


◾️۲۸/ صفر◾️


رسول خدا(ص) جانتے تھے۔۔۔  اچھی طرح جانتے تھے کہ۔۔۔ دنیا سے جانے کا وقت قریب ہے، آخری مہینوں کے ایام۔۔۔۔ آپ(ص) کے ارشادات کا لہجہ۔۔۔۔ کچھ بدلا بدلا سا ہے۔۔۔۔ایسا لگتا ہے۔۔۔ وصیتیں فرمارہے ہوں۔۔۔ حج کا زمانہ ہے۔۔۔۔ فرماتے ہیں: 

▪️أيها الناس اسمعوا قولي فلعلي لا ألقاكم بعد عامي هذا بهذا الموقف أبدا. اے لوگو! میری باتوں کو سنو شاید اس سال کے بعد یہاں پر ملاقات نہ ہوسکے۔ [الكامل في التاريخ ابن الأثير، ج۱، ص۳۵۱۔ تاريخ الأمم والملوك، الطبري، ج2، ص205۔]


🏴🏴🏴🏴🏴

حج کے فرائض انجام دئیے۔۔۔۔ مدینہ واپس آرہے ہیں۔۔ تبھی ایک موقع پر اپنے جانشین کا بھی اعلان فرمادیا۔۔۔۔ اور مسلمانوں کو راہ ہدایت اور سبب ضلالت سے آگاہ کیا:

▪️إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ ، لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي ، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ : كِتَابُ اللهِ ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي ، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا. میں تمہارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک ان سے متمسک رہوگے میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے، ایک کتاب خدا، دوسرے میرے اہل بیت۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہونگے۔ پس اچھی طرح سوچ لو ان سے کیسے پیش آؤگے۔ [المسند الجامع المعلل أبو المعاطي النوري، ج5، ص201]



🏴🏴🏴🏴🏴

امتیوں کو ضلالت اور گمرہی سے بچانے کے واسطے مزید کچھ لکھنا چاہا۔۔۔۔۔ لہذا فرمایا: 

▪️ائْتُونِي بِاللَّوْحِ، وَالدَّوَاةِ- أَوِ الْكَتِفِ- أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا۔۔۔۔۔۔۔ لاؤ کاغذ و قلم یا شانے کی ہڈی لاؤ تاکہ میں اس پر کچھ لکھ دوں جس کے بعد کبھی تم گمراہ نہیں ہوگے۔۔۔۔ [مسند ابن حنبل، ج‏5، ص351، تمتة مسند عبد الله بن عباس بن عبد المطلب؛ صحيح مسلم، ج‏3، ص1259، باب ترك الوصية لمن]


پیارے رسول کے حکم پر چون و چرا کی کوئی گنجائش تو نہ تھی۔۔۔۔ کیونکہ: أَطِيعُوا اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْكافِرِين‏ کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے [آل عمران/32]


لیکن۔۔۔۔۔


آواز آئی۔۔۔  إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ يَهْجُر۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہذیان کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔  [مسندابن حنبل، ج‏5، ص351، تمتة مسند عبد الله بن عباس بن عبد المطلب؛ صحيح مسلم، ج‏3، ص1259، باب ترك الوصية لمن ليس له شي‏ء يوصي فيه]


🏴🏴🏴🏴🏴

اور۔۔۔ آخر وہ وقت آگیا۔۔۔ رسول اکرم(ص) کی حالت غیر ہوئی۔۔۔۔۔، علی (ع) کو بلایا۔۔۔ گلے سے لگالیا یہاں تک کہ بے ہوش ہوگئے۔۔۔ حسن و حسین(ع) کی آہیں بلند تھیں۔۔ خود کو نانا پر گرا دیا۔۔۔ علی(ع) نے چاہا بچو کو الگ کریں، رسول اکرم کو غش سے افاقہ ہوا۔۔۔ فرمایا:


▪️يَا عَلِيُّ دَعْنِي أَشَمُّهُمَا وَ يَشَمَّانِي وَ أَتَزَوَّدُ مِنْهُمَا وَ يَتَزَوَّدَانِ مِنِّي أَمَا إِنَّهُمَا سَيُظْلَمَانِ بَعْدِي وَ يُقْتَلَانِ ظُلْماً فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ يَظْلِمُهُمَا يَقُولُ ذَلِكَ ثَلَاثاً. اے علی! انہیں چھوڑ دو، میں ان کی خوشبو کا استشمام کروں یہ میری خوشبو کا، میں ان سے  فیضیاب ہوں اور وہ مجھ سے مستفیض ہوں، ان پر میرے بعد ستم ڈھائے جائیں گے، ان کو مظلوم مارا جائے گا۔ خدا کی لعنت ہو ان دونوں پہ ظلم کرنے والوں پر۔۔۔ [الأمالي( للصدوق)، ص۶۳۸، مجلس۹۲]


🏴🏴🏴🏴🏴

رسول خدا(ص) کو خبر تھی کہ کیا کیا مصیبتیں ان دو شہزادوں پر پڑنے والی ہیں۔۔۔۔ آہ حسین (ع) کی مظلومیت سے بھی آگاہ تھے غربت و تنہائی کو بھی درک کررہے تھے۔۔۔۔ حسن(ع) پر کیا ظلم ہوگا... کیسے انہیں صلح پر مجبور ہونا پڑے گا... کس طرح زہر دغا سے جگر ٹکڑے ٹکڑے ہوگا۔


امام نے مرثیہ پڑھا:


▪️بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي لَقَدِ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ مِنَ اَلنُّبُوَّةِ وَ اَلْإِنْبَاءِ وَ أَخْبَارِ اَلسَّمَاءِ خَصَّصْتَ حَتَّى صِرْتَ مُسَلِّياً عَمَّنْ سِوَاكَ وَ عَمَّمْتَ حَتَّى صَارَ اَلنَّاسُ فِيكَ سَوَاءً وَ لَوْ لاَ أَنَّكَ أَمَرْتَ بِالصَّبْرِ وَ نَهَيْتَ عَنِ اَلْجَزَعِ لَأَنْفَدْنَا عَلَيْكَ مَاءَ اَلشُّئُونِ وَ لَكَانَ اَلدَّاءُ مُمَاطِلاً وَ اَلْكَمَدُ مُحَالِفاً وَ قَلاَّ لَكَ وَ لَكِنَّهُ مَا لاَ يُمْلَكُ رَدُّهُ وَ لاَ يُسْتَطَاعُ دَفْعُهُ بِأَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي اُذْكُرْنَا عِنْدَ رَبِّكَ وَ اِجْعَلْنَا مِنْ بَالِك. میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! آپ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، خدائی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ قطع ہو گیا جو کسی اور (نبی) کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا۔ (آپ نے) اس مصیبت میں اپنے اہلبیت کو مخصوص کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے دوسروں کے غموں سے تسلی دے دی اور (اس غم کو) عام بھی کر دیا  کہ سب لوگ آپ کے (سوگ میں ) برابر کے شریک ہیں۔


اگر آپ نے صبر کا حکم اور نالہ و فریاد سے روکا نہ ہوتا تو ہم آپ کے غم میں آنسوؤں كا ذخیرہ ختم کر دیتے اور یہ درد منت پذیر درماں نہ ہوتا اور یہ غم و حزن ساتھ نہ چھوڑتا (پھر بھی یہ) گریہ و بکا اور اندوہ حزن آپ کی مصیبت کے مقابلہ میں کم ہوتا۔


لیکن موت ایسی چیز ہے کہ جس کا پلٹانا اختیار میں نہیں ہے اور نہ اس کا دور کرنا بس میں ہے۔ میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں۔ ہمیں بھی اپنے پروردگار کے پاس یاد کیجئے گا۔ اور ہمارا خیال رکھئے گا۔ [نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص355؛ خ235]



#آہ_سبط_رسول_الثقلین_ص


◼️۲۸/صفر◼️


ایک بار نہیں۔۔۔۔ بارہا [شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج‏16، ص10] بلکہ ستّر مرتبہ  زہر سے شہید کرنے کی کوشش کی گئی۔ [دلائل الإمامة، ص160] تاکہ ملوکیت اور موروثی حکومت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دور ہوجائے اور صلح کی شرطوں کا اثر نہ پڑنے پائے۔۔۔۔ 


لیکن وہ زہر کارگر نہ ہوسکا، آخرالامر حکومت شام نے  اس ناپاک سازش کے لئے مروان کے ذریعہ جعدہ بنت اشعث کا انتخاب کیا اور اسے یزید کے ساتھ شادی نیز ایک لاکھ درہم انعام کی لالچ دیکر امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے پر تیار کرلیا۔ [شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد، ج‏16، ص11]


امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جعدہ نے زہر لیا، گرمی کے دن تھے، امام مجتبی علیہ السلام روزہ سے تھے، افطار کا وقت ہوا، چاہا کہ تھوڑا دودھ نوش کرلیں، ملعونہ نے جام زہر تیار کر رکھا تھا، پیش کردیا۔۔۔ نوش کرنے کے چند ہی لمحوں بعد ہی آثار نمایاں ہونے لگے، آواز دی: يَا عَدُوَّةَ اللَّهِ قَتَلْتِينِي قَتَلَكِ اللَّهُ وَ اللَّهِ لَا تُصِيبِينَ مِنِّي خَلَفاً وَ لَقَدْ غَرَّكِ وَ سَخِرَ مِنْكِ‏۔۔۔۔۔ اے دشمن خدا! تو نے مجھے مار ڈالا، خدا تجھے نابود کرے، خدا کی قسم میرے بعد میرے جیسا تجھے کوئی نہیں ملنے والا، اس نے تجھے دھوکہ دیا ہے اور تیرا مذاق بنایا ہے؛ خدا تجھے اور اسے رسوا کریگا۔۔۔۔[الخرائج و الجرائح، ج‏1، ص242]


امام کی حالت غیر تھی، شدّت کرب سے بیتاب تھے، حیاتِ دنیوی کے آخری ایّام تھے، جنادہ بن ابی امیّہ کہتے ہیں: سامنے رکھے طشت میں خون کی چھینٹیں تھیں، زہر کے اثر سے بدن کے اعضاء ٹکڑے ٹکڑے  ہوکر گررہے تھے۔ عرض کیا: يَا مَوْلَايَ مَا لَكَ لَا تُعَالِجُ نَفْسَكَ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بِمَا ذَا أُعَالِجُ الْمَوْتَ میرے آقا!‏ کیوں علاج نہیں کراتے؟ فرمایا: اے عبد اللہ! موت کا علاج کہاں؟ میں نے کہا: إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون‏۔ [كفاية الأثر، ص226 ]


مؤرّخین کے قول کے مطابق ۲۸/صفر [بحار الأنوار، ج44، ص135] کا وہ قیامت خیز دن ہوتا ہے جب امام علیہ السلام آخری وصیتیں فرماتے ہیں اور مدینہ سبط اکبرِ پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم سے محروم ہوجاتا ہے؛ عباس بن علی، عبد الرحمن بن جعفر، محمد بن عبداللہ۔۔ غسل و کفن میں امام حسین علیہ السلام کی مدد فرماتے ہیں، مسجد النّبی کے قریں نماز جنازہ ادا ہوئی، تجدیدِ عہد اور دفن کے واسطے مزار رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ کی جانب چلے۔ لیکن مدینہ کا گورنر مروان بن حکم بنی امیہ کے ساتھیوں کے ساتھ آن پہونچا تو دوسری جانب جناب عایشہ بھی خچّر پر سوار ان لوگوں سے مل جاتی ہیں، آواز دیتی ہیں: ٍ تُرِيدُونَ أَنْ تُدْخِلُوا بَيْتِي مَنْ لَا أُحِبّ۔۔۔‏ کیسے ہوسکتا ہے جس کو میں پسند نہیں کرتی اسے ہمارے گھر میں داخل کردو۔۔۔[الكافي، ج‏1، ص300؛ الخرائج و الجرائح، ج‏1، ص242] 


امویوں اور پست فطرت لوگوں نے تیروں کی بارش سے سبط رسول ص کے جنازے کی بے حرمتی کی؛ [مناقب (لابن شهرآشوب)، ج‏4، ص44] لیکن امام حسین علیہ السلام نے بھائی کی وصیت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے بنی ہاشم کو روکا اور صبر سے کام لیا۔


ابن عباس مروان سے مخاطب ہوئے: اگر رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ کے حرم میں دفن کی وصیت کی ہوتی تو تیری کیا اوقات تھی جو مجھے روک سکتا اور جنازے کو حرم رسول اللہ ص میں دفن نہ ہونے دیتا۔ [الإرشاد، ج‏2، ص18]؛ کہتے ہیں: وَا سَوْأَتَاهْ يَوْماً عَلَى بَغْلٍ وَ يَوْماً عَلَى جَمَلٍ۔۔۔۔۔ کتنی بڑی بدبختی ہے کبھی خچّر پر تو کبھی اونٹ پر! نور خدا کو خاموش اور اولیائے خدا سے جنگ کا ارادہ بنا رکھا ہے، واپس جائیں۔۔۔۔  [الإرشاد، ج‏2، ص18] زیارت جامعہ میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: يَا مَوَالِي‏۔۔۔ وَ شَهِيدٍ فَوْقَ الْجِنَازَةِ قَدْ شُكَّتْ أَكْفَانُهُ بِالسِّهَام‏ اے میرے سید و سردار۔۔۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کو محراب عبادت میں سر کو شگافتہ کرکے شہید کیا گیا،  تو کوئی شہید ایسا ہے جس کے کفن کو تیروں سے سوراخ سوراخ بنادیا گیا۔۔۔۔ [المزار الكبير، ص298، زيارة جامعة لسائر الأئمة ص]


وہ المناک دن جب مومنین گریہ کناں تھے، بازار بند تھے، پورا مدینہ ویران تھا، مکہ و مدینہ میں ایک ہفتہ کے لئے عمومی عزا تھی، مرد و خواتین، چھوٹے بڑے، پیر و جواں سبھی اشک بہا رہے تھے۔


بصرہ میں شور و شین تھا، ہر کوئی بے چین تھا؛ ہاں مگر شام میں خوشی سے تکبیر بلند کی جارہی تھی۔ [مناقب (لابن شهرآشوب)، ج‏4، ص43] 


جنازے کو بقیع غرقد کی طرف لے جایا جاتا ہے،  اور جدّہ ماجدہ جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر اطہر کے پاس سپرد خاک کیا جاتا ہے۔



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor