🌹ہفتۂ وحدت🌹
🌹اتّحاد امّت🌹
#سب_شتم_کیوں_!
🌷قرآن کریم :
📖و لا تَسُبُّوا الَّذينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ ۔۔۔
⚠️اور خبردار تم لوگ انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔
📚سورہ الانعام/108
🌷امام علی علیہ السلام
🔴إنِّي أَكْرَهُ لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ وَ لَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وَ ذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وَ أَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ وَ قُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا وَ دِمَاءَهُمْ وَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وَ بَيْنِهِمْ وَ اهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَهُ وَ يَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ وَ الْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه
🔸امام علیہ السلام نے جنگ صفین کے موقع پر اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو سنا کہ وہ شامیوں پر سب وشتم کر رہے ہیں تو آپ سے فرمایا:۔
🔵 میں تمہارے لئے اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ تم گالیاں دینے والے ہو جاؤ۔ اگر تم ان کے اعمال اور صحیح حالات پیش کرو، تو یہ صحیح بات بھی ہوگی اور عذر تمام کرنے کا صحیح طریقہ کار بھی ہو گا۔ تم گالم گلوچ کے بجائے یہ کہو کہ خدا یا ہم سب کا خون محفوظ رکھ، اور ہمارے اور ان کے درمیان اصلاح کی صورت پیدا کر اور انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگا دے، تا کہ ناواقف لوگ حق سے باخبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی و سرکشی سے باز آ جائیں۔
📚نهج البلاغة( للصبحي صالح)، ص223، خ206۔
✍🏼 امام علیہ السلام نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے اصحاب کو گالیاں دینے والا تصور کیا جائے اور ان کے خلاف یہ بھی پروپیگنڈہ کیا جائے کہ یہ لوگ صرف گالیاں دینا اور لعنت کرنا ہی جانتے ہیں۔
ورنہ قرآن مجید نے حق کو چھپانے والے، فساد کرنے والے اور منافقین کو قابل لعن قرار دیا ہے اور اہل شام ان تینوں صفات سے متّصف تھے اور ان پر لعنت قطعا جائز تھی لیکن آپ نے ذکر اوصاف کا طریقہ تعلیم فرمایا تاکہ حقیقت بھی بے نقاب یوجائے اور گالیوں کا الزام بھی نہ آنے پائے۔
📚نہج البلاغہ، ترجمہ و تشریح علامہ جوادی طاب ثراہ، ص426۔
✍🏼ارباب لغت کے مطابق "سبّ" شتم، بدگوئی اور دشنام کو کہتے ہیں اور بعض لعن کو بھی اسی کا ایک مصداق جانتے ہیں۔
بالیقیں کسی بھی مومن پر سبّ و لعن نہیں کرنا چاہئے، اور کافرین و منافقین کے سلسلہ میں بھی اصل اس کا ترک کرنا ہے۔ کیونکہ سبّ و شتم اکثر دو منفی اثرات کے ساتھ ہے:
اوّل یہ کہ ممکن ہے مخالف جوابی کاروائی اور مقابلہ پر اتر آئے اور مقدّسات کی توہین کرنے لگے، لہذا سورہ انعام، آیت108 میں پڑھتے ہیں: اور خبردار تم انہیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔
دوسرے یہ کہ اس طرح کی بد گوئیاں انہیں مشتعل کردے اور وہ ضد پر آجائیں اور کفر و ضلالت پر ان کا اصرار مزید بڑھ جائے۔
📚پیام امام امیر المومنین علیہ السلام، آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ج8، ص101