#آخرت_کی_امید
🌸 ہاں! بہشت کی ایک قیمت ہے 🌸
🌷قالَ عَلِى (عَلَيهِ السَّلَام) لِرَجُل سَأَلَهُ اَنْ يَعِظَهُ:
🔴 لا تَكُنْ مِمَّنْ يَرْجُوا الاْخِرَةَ بِغَيْرِ الْعَمَلِ، وَ يُرَجِّي التَّوْبَةَ بِطُولِ الاَْمَلِ، يَقُولُ فِى الدُّنْيا بِقَوْلِ الزّاهِدينَ وَ يَعْمَلُ فِيها بِعَمَلِ الرّاغِبينَ۔
🔵 حضرت امام علی علیہ السلام ایک شخص کی نصیحت کی درخواست پر فرماتے ہیں:
ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا، جو بغیر عمل کے آخرت کی سعادت کی امید لگائے بیٹھے ہیں، اور طولانی آرزوؤں کی بنا پر توبہ کو ٹال دیتے ہیں؛ دنیا کے بارے میں باتیں تو زاہدوں جیسی کرتے ہیں لیکن کام دنیا پرستوں جیسا انجام دیتے ہیں!
📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص497، حکمت150۔
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼یقینا حضرت علی السلام کے اقوال کرشمہ ساز ہیں اور یہ جملہ بھی انہیں نورانی کلمات میں سے ہے۔ اس قول میں تین اہم چیزوں کی جانب اشارہ ہوا ہے جس میں انسان اور معاشرہ کی دنیا و آخرت کی خوبیاں چھپی ہوئی ہیں:
1️⃣ بہشت بہانوں سے نہیں ملتی، اور عمل کے بغیر، صرف بات کرنا انسان کے لئے نجات بخش نہیں ہوگا۔ محض دین و ولایت اور ہادیان دین سے عشق کا دعویٰ ہماری کسی مشکل کو حل کرنے والا نہیں ہے اور بغیر عمل کے صرف لقلقۂ لسانی سے آخرت میں کسی اطمینان و آسودگی کی امید نہیں لگائی جا سکتی۔
اہل بیت علیہم السلام کی ولایت اور دوستی اس وقت کارساز ہے جب نیک اور صالح اعمال کا ایک ذخیرہ بھی ہمارے پاس ہو، تاکہ اگر کسی خطا و لغزش کے مرتکب ہوجائیں، تو ولایت اور شفاعت وغیرہ سے اس کی تلافی ہو سکے۔
مذکورہ قول سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو لوگ اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں اور عمل صالح میں سے کسی طرح کا توشہ اپنے ساتھ نہیں رکھتے ہیں وہ کس قدر غلط فہمی میں ہے۔
2️⃣ توبہ اور خدا کی طرف بازگشت کا طولانی آرزوؤں سے کسی طرح کا ربط و ضبط نہیں ہے۔ خاص طور پر جب انسان کو اپنے مستقبل کی خبر نہیں ہے، اور وہ اپنی موت کے وقت کو نہیں جانتا ہے، کسی کو نہیں معلوم کہ ایک لمحہ بعد وہ زندہ ہے یا مردہ، تو وہ کیسے لمبی آرزوئیں رکھ سکتا ہے؟! اور جو شخص طولانی آرزوئیں رکھتا ہے وہ کیسے توبہ کرسکتا ہے؟!
اجل خطرے کی گھنٹی اور درد کی بہت اہم دوا ہے۔ جس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام کی اجل قریب آتی ہے تو بیٹھنے تک کی مہلت نہیں ملتی ہے۔ اور کھڑے ہونے کی حالت میں روح قبض ہوجاتی ہے! [تفسير نمونہ، ج18، ص44؛ تاريخ انبياء، ص197] لہذا ہمیں لمبی آرزوؤں کی بنا پر توبہ کو نہیں ٹالنا چاہئے۔
3️⃣ امام علیہ السلام کی تیسری نصیحت یہ ہے: ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جن کے قول و عمل میں فرق ہے! جو بات کرتے وقت ایسے بولتے ہیں کہ گویا تارک و زاہد دنیا ہوں؛ لیکن مقام عمل میں مکمل طور پر دنیا سے وابستہ اور اس کے حریص ہیں۔
کوشش کرو تمہارا قول و فعل ایک ہو، مجھ پر وائے ہو، اگر علی ع کے عشق کا دم بھرتے ہوں لیکن میرا عمل معاویہ صفت لوگوں جیسا ہو! باتیں تو خدا پرستی، روحانیت اور معنویت کی کرتے ہوں، لیکن مادّیت اور تجمّلات میں غرق ہوں!
▪️راغبینِ دنیا کون لوگ ہیں؟
▫️وہ لوگ جو دوراہے پر خدا سے منھ پھیر کو دنیا کی طرف مڑ جاتے ہیں۔
لوگ جب دوراہے پر کھڑے ہوتے ہیں، تین طرح کے ہیں: 1۔ جو لوگ بغیر کسی قید و شرط کے دنیا کے راستے کو اختیار کرکے خدا کی طرف سے منھ پھیر لیتے ہیں۔ 2۔ وہ لوگ جو پہلے گروہ کے بر خلاف عمل کرتے ہیں اور آخرت کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ 3۔ شکّاک اور متحیّر لوگ، عمر ابن سعد جیسے لوگ جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی قیمت پر ملک رے کے طالب بھی ہیں، اور بہشت برّیں کے تمنّائی بھی، عقل و نفس امارہ کی جنگ میں ان کی عقلیں مغلوب ہوجاتی ہیں!
ہمیں خود کو اس معیار پر جانچنا چاہئے، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کس گروہ سے ہیں۔
📚110 سرمشق از سخنان حضرت علی (ع)، حضرت آیۃ اللّٰہ ناصر مکارم شیرازی دام ظلہ، ص25۔