علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

منگل، 29 جون، 2021

سوال کرو تو سمجھنے کے واسطے

 



 

#سوال_کرو_لیکن

 

🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:

 

🔴 سَلْ تَفَقُّهاً وَ لَا تَسْأَلْ تَعَنُّتاً فَإِنَّ الْجَاهِلَ الْمُتَعَلِّمَ شَبِيهٌ بِالْعَالِمِ وَ إِنَّ الْعَالِمَ الْمُتَعَسِّفَ شَبِيهٌ بِالْجَاهِلِ الْمُتَعَنِّت‏

 

🔵 سوال سمجھنے کے لئے کرو الجھنے کے لئے نہیں، کہ جاہل بھی اگر سیکھنا چاہے تو وہ عالم جیسا ہے اور عالم بھی اگر صرف الجھنا چاہے تو وہ جاہل جیسا ہے۔

 

📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص531، حکمت320۔

 

📌کسی بھی چیز کے جاننے سمجھنے میں سوال کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، اگر کسی کے پاس سوال کرنے کی قوت نہ ہو تو وہ بہت سے علوم و معارف سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی لئے طالب علمی کو زمانہ ہو یا کوئی اور افہام و تفہیم کا دور؛ ہر مقام پر سوال  کی تاکید کی جاتی ہے کیونکہ جو سوال کرتا ہے وہی فائدہ اٹھا پاتا ہے جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: "مَنْ سَأَلَ عَلِم‏؛ مَنْ سَأَلَ اسْتَفَاد" جو سوال کرتا ہے وہ عالم ہو جاتا ہے؛ جو سوال کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ [تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص60، ح658؛ اور656، السؤال .....]

 

لیکن جب وہ سوال جاننے سمجھنے کے لئے ہو؛

 

▪️کسی کو ستانے،

▪️آزمانے،

▪️زحمت میں مبتلا کرنے،

▪️رعب باندھنے،

▪️اظہار برتری،

▪️کٹ حجّتی،

▪️یا تحقیر و توہین

🚫کے لئے نہ ہو کہ ایسی صورت میں یہ جہالت اور تکبّر کا کام کہلائے گا۔

 

🔰حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مذکورہ ارشاد میں اسی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوال کرنے والا حقیقت سے واقفیت کے ارادے سے سوال کرے، ورنہ اسے کسی طرح کا فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔

 

⚠️ جب کوئی شخص پہلے سے کوئی خاص موقف اپنا کر کسی عالم کے پاس جا کر سوال کرتا ہے، ایسے موقع پر اگر جواب اس کی مرضی کے موافق نہ ہو تو اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتا یا کم از کم اسے شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتا ہے، اس کے برخلاف ایک شخص حقیقت حال جاننے کے لئے اور مشکل کے حل کے لئے کسی عالم کے پاس جاتا ہے تاکہ وہ اس کی جہالت کے پردہ اٹھا سکے اور حقیقت سے آشنا کر سکے، ایسا نا وافق اور علم نہ رکھنے والا شخص عالم کے مثل ہے اور وہ مسائل سے واقف شخص جو انحراف کا شکار ہے، اور صرف الجھنے، امتحان و آزمائش کے لئے سوال کر رہا ہے جاہل کے مثل ہے۔

 

کیونکہ عالم کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ جاننے اور علم حاصل کرنے کے ارادے سے سوال کرتا ہے لہذا جو جاہل اور نا واقف انسان جاننے سمجھنے کی غرض سے سوال کرے، اس میں عالم کی شباہت پائی جاتی ہے، اور جس میں عالم کی شباہت موجود ہو وہ اسی راہ پر چلے گا یعنی سوال کسی چیز کے بارے میں جاننے کی غرض سے کرے گا۔

 

⭕️ لیکن وہ انسان جو عالم ہے، واقف ہے پھر بھی سوال کر رہا ہے اور جاننے، سمجھنے کی غرض نہیں پائی جاتی؛ وہ جاہل کے مثل ہے جو ایسا کام کر رہا ہے جسے نہیں کرنا چاہئے، لہذا جو کام انسان کو جاہل کے مثل قرار دے اس سے پرہیز کرنا چاہئے تاکہ اس صفت والوں کے مشابہ قرار نہ پائے۔

 

 

https://t.me/klmnoor

 

 

https://www.facebook.com/klmnoor