علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعرات، 10 جون، 2021

دوستی کے شرائط

 

#دوست

 

#دوستی_کے_شرائط

 

🌷🌷حضرت امام على عليہ السلام :

 

🔴 لا يكونُ الصَّديقُ صَديقا حتّى يَحفَظَ أخاهُ في ثلاثٍ : في نَكبَتِهِ ، و غَيبَتِهِ ، و وَفاتِهِ۔

 

🔵 دوست اس وقت تک دوست نہیں ہو سکتا ہے جب تک اپنے دوست کے تین مواقع پر کام نہ آئے ۔

مصیبت کے موقع پر۔اس کی غیبت میں۔اور مرنے کے بعد۔

 

📚نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص494، حکمت134۔

 

🔰 امام علیہ السلام نے اپنے اس قول میں دوستی کی بعض اہم شرطوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: «کسی شخص کا دوست، دوست نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ اپنے بھائی کو تین موقع پر فراموش نہ کرے؛ جس وقت دنیا منھ پھیر لے اور جس وقت وہ سامنے نہ ہو اور مرنے کے بعد»

 

بیشک انسان کو اپنی زندگی میں ایسے دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو برے دنوں میں اس کی مدد کریں، اور اچھے دنوں میں اس کے ہمدم ہوں، کیوں کہ ایک طرف انسان کا اجتماعی مزاج اور پھر ایسے مسائل جنہیں وہ اکیلے حل نہیں کر پاتا ہے جس سے لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے دوستوں کا انتخاب کرے۔

 

لیکن دوست بھی مختلف قسم ہیں: کچھ تاجروں جیسے، جو ہمیشہ اس امید میں ہوتے ہیں کہ انکے کام کے عوض ان کی بھی خدمت ہو؛ لہذا ظاہر ہے جس وقت دوست سے فائدہ نہ دکھائی دے وہ اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں گے۔ کچھ ایسے ہیں جو اگرچہ اپنی خدمت کے عوض خدمت کی امید میں ہوتے ہیں؛ لیکن ماضی کو فراموش نہیں کرتے ہیں اور اس کے احترام میں اپنے دوست کی مشکلات میں مدد کیا کرتے ہیں؛ البتہ جب یہ سمجھتے ہیں کہ انکی خدمت کا شکریہ ادا کر چکے ہیں تو پھر انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک تیسرا گروہ بھی ہے کہ جنکی دوستی کی بنیاد محبت پر ہے، صدق و صفا پر ہے خدمت یا تجارت کے مثل کوئی چیز نہیں۔ وہ استطاعت پر اپنے دوست کی خدمت کرتے ہیں، اور اس سے کسی چیز کی توقع نہیں رکھتے اور اسی بنا پر مشکلات کے وقت ہرگز تنہا نہیں چھوڑتے اور دوستی و رفاقت کے اصولوں کے پابند ہوتے ہیں۔

 

❇️ امام علیہ السلام نے اپنے اس ارشاد گرامی میں اسی گروہ کی جانب اشارہ فرمایا ہے کہ سچّے اور حقیقی دوست ہیں؛ وہ تینوں اوقات میں اپنے دوست کو فراموش نہیں کرتے؛ «نكبت» کے وقت، وہ ایسے موقع پر دوست کا ساتھ دیتے ہیں، اس کی مدد کرتے ہیں، سکون پرور، غمگسار اور وفادار ہوتے ہیں۔

 

«نکبت» اصل میں راستے سے منحرف ہو جانے کے معنی میں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: «(وَإِنَّ الَّذِینَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِالاْخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاکِبُونَ); اور جو لوگ آخرت پرایمان نہیں رکھتے یقینا وہ راستے سے منحرف ہوجاتے ہیں» [المؤمنون/74] اسی وجہ سے جب دنیا کسی سے منھ پھیرلے اسے نکبت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور چونکہ مشکلات، مصائب و آلام نکبت کے مصداق ہیں بہت سے صاحبان لغت نے اسے بلا اور مصیبت کے معنی میں بیان کیا ہے۔

 

✳️ اس کے علاوہ بعض ایسے ہیں جو دوست کے سامنے تو شرم و حیا کے مارے دوستی نبھاتے ہیں؛ لیکن جب وہ نہیں ہوتا تو اس سے اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور «حفظ الغیب»  کے پابند نہیں ہوتے، اور اس سے بھی بڑھ کر جب اس کا دوست دنیا سے اٹھ جائے اور کسی خدمت کی اس سے توقع نہ رہ جائے تو اس کو بھول جاتے ہیں؛ نہ اس کے بیوی بچو کا خیال رہتا ہے کہ اگر کوئی مشکل ہو تو حل کردیں، نہ اپنے دوستوں کی بزم میں اس کا ذکر کرتے ہیں نہ اس کے لئے کوئی کارِ خیر انجام دیتے ہیں۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں: سچّا دوست وہ ہے کہ جو اس تین موقع پر اپنے دوست کو فراموش نہ کرے۔

 

البتہ دوستی کا دم بھرنے والے بہت ہیں اور ایسے سچّے دوست جو مذکورہ ارشاد کے مطابق ٹھہریں بہت کم ہیں۔

 

♻️ غرر الحکم میں امام علیہ السلام کی ایک روایت ہے: «اَلصَّدیقُ الصَّدُوقُ مَنْ نَصَحَکَ فی عَیْبِکَ وَحَفَظَکَ فی غَیْبِکَ وَآثَرَکَ عَلى نَفْسِهِ؛ سچّا دوست وہ ہے جو تمہارے عیب پر تمہیں نصیحت کرے، اور تمہارے پیٹھ پیچھے تمھاری آبرو کی حفاظت کرے اور مشکلات کے وقت تجھ کو خود پر مقدّم جانے» [تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص424، ح9729]

 

📚پیام امام امیرالمومنین علیہ السلام، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی دام ظلہ، ج13، ص111، شرح حکمت134۔

 

 

https://t.me/klmnoor

 

https://www.facebook.com/klmnoor