۱۴/ ربیع الثانی
#قیام_جناب_مختار_رحمه_الله
[قلائد النحور، ج ربیع الثانی، ص۲۲۵ ۲۲۹، فرسان الہیجاء، ج۲، ص۲۱۷، بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۶۷]
▫️اس روز اہل بیت علیہم السلام کے شکستہ قلوب کو شاد کرنے والے جناب مختار نے «یا لثارات الحسین» کے نعرہ کے ساتھ کوفہ میں قیام کیا۔
جناب مختار نے پہلی ہجری میں طائف میں ولادت پائی اور سنہ ۶۷ ھ میں کوفہ میں مصعب بن زبیر کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ آپ کی کنیت ابو اسحاق تھی۔
آپ کے والد ابو عُبَیده، بزرگ صحابہ میں سے تھے جو فارس کی جنگ میں شہید ہوئے۔ اور والد کی شہادت کے بعد آپ کے دو بھائی حکم اور جبیر بھی شہید ہوئے۔
▫️جناب مختار نے اپنی اٹھارہ ماہ کی حکومت میں حضرت سید الشہداء کے قاتلوں میں سے اٹھارہ ہزار لوگوں کو واصل نار کیا۔ یہ تعداد ان لوگوں کے علاوہ ہے جنہیں آپ کے اصحاب و انصار اور ابراہیم بن مالک اشتر نے کوفہ کے باہر اور خازر نہر کے کنارے مارا ہے۔
جناب مختار کے چچا سعد حضرت امیر المؤمنین اور امام حسن علیہما السلام کی جانب سے مدائن کے والی تھے۔ اور جب بھی کہیں جایا کرتے تو جناب مختار کو اپنی جگہ منصوب کرکے جاتے تھے۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے آپ کو فتح و ظفر کی خبر دی تھی اور جناب میثم تمّار نے کوفہ کے زندان میں بشارت دی تھی۔
▪️عید الاضحٰی کے دن جناب مختار کے فرزند حکم، حضرت امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اپنا تعارف کرایا، امام باقر علیہ السلام نے ان کو اپنے پاس بلایا تو انہوں نے امام سے عرض کیا:
میرے مولا، لوگ میرے بابا کے بارے میں بہت برا بھلا کہتے ہیں۔ خدا کی قسم صحیح بات آپ ہی کی ہوگی۔
امام علیہ السلام فرمایا: لوگ کیا کہتے ہیں؟
جناب مختار کے فرزند نے کہا: کہتے ہیں میرے بابا جھوٹے تھے، اب آپ جو کہیں گے وہ مانوں گا۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:
سبحان الله، میرے والد بزرگوار نے مجھے خبر دی ہے کہ میری والدہ کا مہر اس رقم سے تھا جو مختار نے میرے والد کو بھیجی تھی۔
مختار نے ہمارے برباد گھروں کو آباد کیا، اور ہمارے دشمنوں کو قتل کیا، جو بھی ہمارا خوں بہایا گیا اس کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد تین بار کہتے ہیں: «رَحِمَ اللهُ أباکَ»، یہاں تک کہ کوئی بھی ہم سے نہیں بچا جس کا بدلہ نہ لیا ہو۔
[بحار الأنوار (ط - بيروت)، ج۴۵، ص۳۴۳]
▫️بچپن کے زمانے میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام آپ کو اپنے زانو پر بٹھاتے اور آپ پر لطف و کرم فرماتے اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آپ سے فرماتے تھے:
یا کیّس یا کیّس ! اے ہوشیار، اے ہوشیار!
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
واللہ میرے بابا نے مجھے خبر دی ہے کہ جناب مختار فاطمہ بنت امیر المؤمنین علیہ السلام کے یہاں آیا کرتے تھے اور وہ ان کے لئے فرش بچھایا کرتیں اور تکیہ درست کیا کرتی تھیں اور فرماتی تھی:
جو بھی حق ہم کسی پر رکھتے تھے اس نے اسکا مطالبہ کیا، ہمارے قاتلوں کو مارا اور ہمارے لئے بدلہ لیا۔
[بحار الانوار، ج۴۵، ص۳۴۳، ۴۵۱؛ اختیار معرفۃ الرجال، ج۱، ص۲۴۰]
▫️دوسری روایت میں ہے کہ فرماتے ہیں:
جس وقت مختار نے عبید اللہ کا سر نحس امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کیا، اس وقت امام علیہ السلام دسترخوان پر تھے، وہ خوش ہوئے اور مختار کے لئے دعا کی۔
[اختیار معرفۃ الرجال، ج۱، ص۳۱۴، فرسان الہیجاء، ج۲، ص۱۹۸، ۱۹۹، ۲۴۴، ۲۴۵]
دیگر قول کے مطابق قیام جناب مختار کی تاریخ ۱۴ ربیع الاوّل کی رات سن ۶۶ ھ
[مقتل الحسین علیہ السلام (ابی مخنف) ص۳۲۶؛ بحارالانوار، ج۴۵، ۳۸۶]
اور ایک قول کے مطابق ۱۶ربیع الثانی تھی۔
[امالی طوسی، ص۲۴۰؛ بحار الانوار، ۴۵، ص۳۳۳، قلائد النحور، ج ربیع الثانی، ص۲۳۲]
📚تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۴/ربیع الثانی، ص۱۳۵