علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 13 اپریل، 2025

#جنگ_احد_اور_شہادت_حضرت_حمزہ_علیہ_السلام



۱۵/ شوال


۱ - #جنگ_احد_اور_شہادت_حضرت_حمزہ_علیہ_السلام


سنہ ۳ ہجری، جنگ احد کے دن، حضرت حمزہ سیّد الشّہداء اور ۶۹ دیگر مسلمانوں نے جام شہادت نوش فرمایا۔


[مسار الشیعہ، ص۱۵۔۱۶، بحار الانوار، ج۲۰، ص۱۸؛ توضیح المقاصد، ص۲۷؛ تقویم المحسنین، ص۱۲؛ مستدرک سفینۃ البحار، ج۵، ص۲۰۷؛ الموسوعه الکبري فی غزوات النبی الاعظم ص، ج۲، ص۱۱۰؛ سیرۃ النبی ص (ابن ہشام)، ج۳، ص۶۱۵؛ تاریخ طبری، ج۲، ص۱۸۹؛ البدایۃ و النہایۃ، ج۴، ص۱۱]


بعض نے جنگ احد کو ۷ شوال [بحار الانوار، ج۲۰، ص۱۲۵؛ التنبیہ و الاشراف، ص۲۱۱] اور ۱۷ شوال میں ذکر کیا ہے۔


[بحار الانوار، ج۹۷، ص۱۶۸؛ اختیارات، ص۳۹]


اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار تھی، بعض مورخین کے مطابق ان میں سے تین سو لوگ راستے سے لوٹ آئے، اور جنگ میں شرکت کے لئے صرف ۷۰۰ لوگ باقی رہے۔


ان کے مقابل کفّار ۳۰۰۰ کی تعداد میں تھے، اور ۲۰۰۰ اور ۴۰۰۰ اور ۵۰۰۰  کی تعداد بھی بتائی گئی ہیں۔ کفّار کے مہلوکین کی تعداد ۲۲ یا ۲۳ یا ۲۸، اور شہداء کی تعداد ۷۰ تھی۔


اس دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی جبین اقدس زخمی ہوئی۔


[بحار الانوار: ج۲۰، ص۱۸، ۳۱، ۷۱، ۷۴؛ امالی طوسی، ص۱۴۲]


←احد میں حضرت امیر المومنین ع کی جانفشانیاں:


اس دن حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت میں امیرالمومنین علیہ السلام نے عظیم فداکاری اور بھرپور شجاعت کے جوہر دکھائے اور اپنے جسم مبارک پر بہت سے زخم کھائے۔ کفار کے سبھی مہلوکین حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھوں واصل نار ہوئے تھے، مسلمانوں کی دوبارہ میدان جنگ میں واپسی اور فتحیابی حضرت امیر المومنین ع کی استقامت کی بنا پر میسر ہوئی تھی۔


[ارشاد، ج۱، ص۹۰؛ کشف الیقین، ص۳۷۶؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص۸۸؛ الصحیح من السیرہ، ج۶، ص۱۴۸، ۲۸۴]


حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: احد کے دن نو لوگ لشکر کفّار کے علمبردار تھے جن سب کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مارا۔


[ارشاد، ج۱، ص۸۸؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص۸۷، ۱۴۴؛ حلیۃ الابرار، ج۲، ص۴۳۱؛  الصحیح من السیرہ، ج۶، ص۱۴۸، الغدیر، ج۲، ص۵۹؛ اختصاص، ص۱۴۹؛ مناقب امیر المومنین، ج۱، ص۴۹۵؛ شرح احقاق الحق، ج۵، ص۸۴، ۲۸۴؛ غایۃ المرام، ج۵، ص۲۷؛ ذخائر العقبی، ص۶۸؛ مجمع الزوائد، ج۶، ص۱۱۳؛ تاریخ طبری، ج۲، ص۱۹۷، کنز العمال، ج۱۳، ص۱۴۳؛ جواہر المطالب، ج۱، ص۹۱؛ المعجم الکبیر، ج۱، ص۳۱۸]


یہ اس وقت تھا جب دوسرے لوگ میدان سے فرار کرگئے تھے۔ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: اے علی! کیا سن رہے ہو؟ کہ آسمان سے تمہاری مدح و ثنا ہو رہی ہے اور رضوان نام کا ایک ملک کہہ رہا ہے: «لا سیف الا ذوالفقار و لا فتی الا علی» امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں : میں نے خوشی سے آنسو بہائے اور اس نعمت پر خدائے سبحان کی حمد انجام دی۔


[ارشاد، ج۱، ص۸۷؛ حلیۃ الابرار، ج۲، ص۴۳۰؛ اعلام الوریٰ، ج۱، ص۳۸۷؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص۷۳؛ کشف الغمہ، ج۱، ص۱۹۵]


اس جنگ کی فتح ابتداء میں مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی، لیکن انھوں نے جب تھوڑا دشمنوں کا پیچھا کیا اور میدان خالی ہو گیا، تو پلٹ کر مالِ غنیمت جمع کرنے لگے، اور درّے پر حفاظت کے واسطے مقرر افراد میں سے اکثر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے حکم سے سرپیچی کرتے ہوئے اپنی مقرّرہ جگہ چھوڑ دی اور دوسروں کی طرح مالِ غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے۔


لشکر کفار سے خالد بن ولید نے اپنے دستہ کے ساتھ اسی جانب سے حملہ کردیا اور وہ قلیل تعداد جنہوں نے اس پہاڑی کو نہیں چھوڑا تھا شہید ہوگئے، اور کفار نے پیچھے سے مسلمانوں پہ وار کردیا، بھاگے ہوئے کفار نے جب یہ دیکھا تو واپس پلٹ آئے اور مسلمانوں پر حملے تیز ہوگئے۔ 


پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے جسم اطہر پر کافی زخم لگے اور شیطان نے آواز دی: محمد قتل کیے گئے! مسلمان یہ سنتے ہی فرار کرنے لگے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت میں صرف چند لوگ رہ گئے وہ امیر المؤمنین علیہ السلام، ابودجانہ ، نسیبہ نامی خاتون اور انس بن نضر تھے جو اسی وقت مدینہ سے آگئے تھے۔


←حضرت ابوبکر و عمربن الخطاب جنگ احد میں:


حضرت عمر بن الخطاب کہتے ہیں: احد میں ہم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ اس امر پر بیعت کی تھی کہ ہم میں سے کوئی بھی فرار نہیں کرے گا، اور جو بھی فرار کرے گا وہ  گمراہ، اور جو بھی ہم میں سے قتل ہوگا وہ شہید ہوگا۔


[مناقب آل ابی طالب، ج۲، ص۱۳۴؛ تفسیر قمی، ج۱، ص۱۱۴؛ بحار الانوار: ج۲۰، ص۵۳۔۵۴؛ مدینۃ المعاجز، ج۲، ص۸۱]


احمد بن حنبل کہتے ہیں: ابوبکر و عمر نے اس جنگ سے فرار اختیار کی۔ جس وقت امیر المؤمنین ع نے فراریوں کا پیچھا کیا، حضرت عمر اپنی آنکھوں سے آنسوں  صاف کرتے ہوئے واپس آئے اور امیر المؤمنین ع سے عرض کیا: مجھے معاف کردیں! امیرالومنین ع نے پوچھا:  کیا وہ تم نہیں تھے جس نے آواز لگائی: محمد قتل کیے گئے، اپنے دین پر واپس چلے جاؤ؟!! حضرت عمربن خطاب نے کہا: یہ بات ابوبکر نے کہی ہے۔ تبھی یہ آیت نازل ہوئی: «إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطان‏»


[آل عمران: آیت، ۱۵۵؛ اثبات الہداۃ، ج۲، ص ۳۶۴۔۳۶۵؛ الصراط المستقیم، ج۲، ص۵۹]


امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جنگ احد میں امیر المؤمنین علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت کررہے تھے اور دوسرے اصحاب فرار کررہے تھے۔ آپ علیہ السلام ایک شیر غضبناک کی طرح بھاگنے والوں کے پیچھے گئے، پہلے عمر بن خطاب تک پہونچے جو حضرت عثمان و حارث بن حاطب اور کچھ دوسرے لوگوں سے ساتھ تیزی سے بھاگ رہے تھے۔ آپ علیہ السلام نے آواز دی: اے جماعت! تم نے بیعت توڑ دی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کو تنہا چھوڑ دیا اور جہنم  کی طرف دوڑے جا رہے ہو؟!


حضرت عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں نے علی کو دیکھا جو ایک چوڑی شمشیر لئے ہوئے ہیں جس سے موت ٹپک رہی تھی اور غیض سے ان کی آنکھیں سرخ ہیں جیسے وہ کاسۂ خون، یا دو کاسۂ روغن کی طرح ہوں جس میں آگ بھڑک رہی ہو، میں سمجھ گیا کہ اگر یہ ہم تک پہونچ گئے تو ایک ہی حملے میں ہم کو ختم کر دیں گے۔ لہذا میں آگے بڑھا اور عرض کیا: یا اباالحسن! آپ کو خدا کا واسطہ ہمیں چھوڑ دیں، کیونکہ عرب کی عادت ہے کبھی فرار کرتا ہے کبھی حملہ کرتا ہے۔ اور جب حملہ کرتا ہے تو فرار کی تلافی کرلیتا ہے۔ تو انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا؛ خدا کی قسم ان کا رعب میرے دل میں ایسا بیٹھا کہ ابھی بھی نکل نہیں پایا ہے۔


[مناقب آل ابی طالب، ج۲، ص۱۳۴؛ تفسیر قمی، ج۱، ص۱۱۴؛ قلائد النحور: ج شوال، ص۷۷؛  بحار الانوار، ج۲۰، ص۵۳۔۵۴]


اس جنگ میں  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت کے وقت امیر المؤمنین علیہ السلام کے چہرے، سر، سینہ، پیٹ، ہاتھ اور پیر پر ۹۰ زخم لگے۔ جبرئیل نازل ہوئے اور عرض کیا: « یا محمد! واللہ علی ابن ابی طالب کا یہ عمل مواسات ہے» پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «وہ اس لئے ہے کہ میں اس سے ہوں اور وہ مجھ سے ہے۔ جبرئیل نے کہا: اور میں آپ دونوں بزرگوار سے»


[الکافی، ج۸، ص۳۱۲؛ بحار الانوار، ج۲۰، ص۵۴]


←نسیبہ  نامی ایک خاتون جنگ احد میں:


اس دن جس نے بہت زیادہ جاں فشانی سے کام لیا اور فرار نہ کیا، بلکہ دوسروں کو بھی فرار کرنے سے روکا، وہ ایک خاتون نسیبہ بنت کعب بن مازنیہ تھیں، جنہیں ام عمارہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا؛ وہ اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھیں۔ نسیبہ اپنے دوش پر پانی کی مشک لئے لشکر اسلام کی سقائی کررہی تھیں۔ انہوں نے جب دیکھا لوگ جنگ سے بھاگ رہے ہیں تو مشک کو ایک طرف رکھ دیا اور خود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کے سامنے ڈھال بنا دیا، اور بہت سے زخم کھائے، جن میں سے ایک زخم کا علاج ایک سال تک ہوتا رہا۔


اس جانثار خاتون نے شمشیر اٹھائی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ پر حملہ کر رہے ابن حمیہ پر ایسی ضرب لگائی کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ نسیبہ کا بیٹا عبد اللہ بھی بھاگنا چاہ رہا تھا لیکن نسیبہ نے روک لیا اور اسے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی حفاظت اور جنگ کی ترغیب دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «بَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكِ يَا نَسِيبَة» تبھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ نے دیکھا کہ مہاجرین میں سے کوئی سپر باندھے ہوئے فرار کررہا ہے، فرمایا: « اے صاحب سپر! سپر چھوڑ دے اور خود جہنّم میں جا» اور نسیبہ سے فرمایا «اس کی سپر  لے لو» وہ سپر اٹھاکر مشرکین سے جنگ کرنے لگیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «نسیبہ کی منزلت ان فلاں لوگوں سے بڑھ کر ہے جو فرار کر گئے»


[بحار الانوار، ج۲۰، ص۵۴؛ شرح نہج البلاغہ، ج۱۴، ص۲۶۶]


←شہادت حضرت حمزه:


اسی دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے چچا حضرت حمزه بن عبدالمطلب علیہ السلام نے شہادت پائی۔ آپ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کے رضاعی بھائی بھی تھے کیونکہ دونوں بزرگوار نے جناب "ثوبیہ" سے شیر پیا تھا۔


[بحار الانوار، ج۱۵، ص۲۸۱؛ العدد القویہ، ص۱۲۲؛ اسد الغابہ، ج۱، ص۱۵]


آپ ایک شجاع، بہادر اور با وقار شخصیت کے حامل تھے، اور اس جنگ میں ابو سفیان کی زوجہ ہند کے حکم سے اس کے وحشی غلام کے ذریعہ شہید ہوئے۔ ہند نے جنگ بدر میں اپنے والد، بھائی اور چچا کی ہلاکت پر پہلے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کی مادر گرامی کی نبش قبر کا ارادہ کیا، لیکن کفار نے اپنی قبروں کے ڈر سے اسے روک دیا۔ تو اس نے اس وحشی کو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ یا علی علیہ السلام  یا حمزہ کو قتل کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے کہا کہ میں ان دونوں کو قتل نہیں کر پاؤں گا لیکن حمزہ کو قتل کرنے کے لئے ضرور گھات لگاکر بیٹھوں گا۔


اس نے میدان جنگ میں آپ کے سینے یا پیٹ پر نیزہ مار دیا  اور شہید کر ڈالا، جب یہ خبر ہند کو دی گئی، تو اس خبیثہ نے آپ کے سینے سے جگر مبارک کو نکلوایا ، چاہا کہ دانت سے چبالے اس کے دندان نحس کارگر نہ ہوئے۔ اس نے آپ کے کان، ناک اور دیگر اعضاء کو خنجر سے جدا کرکے اپنے گلے میں پہنا۔


پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے جس وقت جناب حمزہ کی یہ حالت دیکھی، گریہ فرمایا اور اپنی عبائے مبارک کو ان پر ڈال دیا تاکہ ان کی بہن صفیہ ان کو اس حالت میں نہ دیکھے۔ اور فرمایا: یا عم رسول اللہ و اسد اللہ و اسد رسولہ۔۔۔ یا فاعل الخیرات، یا کاشف الکربات۔۔۔امیر المومنین علیہ السلام، فاطمہ زھرا سلام اللہ علیہا، صفیہ اور دوسروں نے آپ پر گریہ فرمایا۔


[بحار الانوار، ج۲۰، ص۵۵؛ حمزه سیّد الشّہداء ع، ص۲۸۔۲۹؛ ینابیع المودہ، ج۲، ص۲۱۵]


پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے آپ پر نماز پڑھی اور میدان احد میں دفن کیا۔ چالیس سال بعد جب معاویہ نے چاہا کہ احد کی طرف سے ایک نہر لے جائے تو اسی راستے میں حضرت حمزہ علیہ السلام کی قبر بھی آگئی، نہر کھودتے وقت بیلچہ حضرت حمزہ علیہ السلام کے پیر سے ٹکرا گیا اور خون جاری ہوگیا!


حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: میرے بہترین بھائی علی  اور بہترین چچا حمزہ ہیں۔


[عیون اخبار الرضا ع، ج۲، ص۶۱؛ ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۵۰]


۲ - #رد_الشمس


اس دن سنہ ۷ یا ۸ھ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لئے رد الشمس کا واقعہ رونما ہوا ہے۔


[مصباح کفعمی، ج۲، ص۶۰۰؛ مستدرک سفینۃ البحار، ج۶، ص۶۶؛ قلائد النحور، ج شوال، ص۹۲؛ فیض العلام، ص۷۶؛ تقویم المحسنین، ص۱۲؛ وقایع الشہور، ص۲۰۱]


ایک قول کے مطابق یہ واقعہ ۱۷/ شوال میں رونما ہوا۔


[بحار الانوار، ج۹۵، ص۱۸۸، ج۹۷، ص۳۸۴؛ اختیارات، ص۳۹]


دوسری بار ۶/ شوال سنہ ۳۶ھ میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔


[مستدرک سفینۃ البحار، ج۵، ص۲۱۲]


یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے لئے دو بار رد الشمس کا واقعہ پیش آیا ہے: ایک بار پیمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے زمانے میں مسجد قبا کے نزدیک، اور دوسری بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد بابل میں حلہ کے قریب۔


[فیض العلام، ص۷۶]


علامہ امینی نے اپنی کتاب الغدیر میں رد الشمس کی مختلف طرق سے وارد احادیث کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، نیز رد الشمس پر لکھی جانے والی کتب کے مؤلفین کا تذکرہ فرمایا ہے۔


[الغدیر، ج۳، ص۱۲۶ – ۱۴۱]


۳ - #جنگ_بنی_قینقاع


اس دن ہجرت کے بیس ماہ بعد، غزوہ بنی قینقاع پیش آیا۔


اور ایک قول کے مطابق یہ جنگ ماہ صفر میں واقع ہوئی ہے۔


[بحار الانوار، ج۲۰، ص۵؛ مناقب آل ابی طالب، ج۱، ص۲۴۲؛ الصحیح من السیرہ، ج۶، ص۵۹؛ التنبیہ و الاشراف، ص۲۰۶]


۴ - #وفات_حضرت_عبد_العظیم_علیہ_السلام


سنہ ۲۵۰ھ، ۲۵۲ھ یا ۲۵۵ھ میں حضرت ابو القاسم عبد العظیم حسنی ابن عبد اللہ بن علی بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام نے وفات پائی۔


[ الذریعہ، ج۷، ص۱۶۹، ۱۹۰؛ مستدرک علم رجال الحدیث، ج۴، ص۴۵۱۔۴۵۰؛ مستدرک سفینۃ البحار، ج۴، ص۶۶؛ وقایع الشہور، ص۲۰۱؛ مراقد المعارف، ج۲، ص۵۲؛ سبیل الرشاد الی اصحاب الامام الجواد، ج۱، ص۱۵۷]


آپ مشہور و معروف علماء، فضلاء اور محدثین میں سے تھے، اور ورع و زہد میں زباں زد خاص و عام تھے، آپ نے حضرت امام تقی اور حضرت امام ہادی النقی علیہما السلام سے روایت نقل کی ہے۔


کتاب "خطب أمیر المؤمنین علیہ السّلام" اور کتاب "الیوم و اللیلہ" آپ کے آثار میں سے ہیں۔


[سبل الرشاد الی اصحاب الامام الجواد علیہ السّلام، ص۱۵۷؛ مراقد المعارف، ج۲، ص۵۲]


آپ کی عظمت و جلالت اس سے پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آپ نے اپنے وقت کے امام حضرت علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں اپنے عقائد پیش فرمائے اور امام علیہ السلام نے اس کی تائید فرمائی۔


[امالی صدوق، ص۴۱۹؛ صفات الشیعہ، ص۴۸؛ کفایۃ الاثر، ص۲۸۶؛ بحار الانوار، ج۳، ص۲۶۸؛ ج۳۶، ص۴۱۲؛ ج۶۶، ص۱]


آپ خفیہ طریقہ سے شہر "رے" میں تشریف لائے، اور بنی عباس کے مظالم کے خوف سے ساربانوں کے محلہ میں ایک شیعہ کے گھر میں سکونت اختیار کی۔


[سبل الرشاد الی اصحاب الامام الجواد علیه السّلام، ص۱۵۷؛ مراقد المعارف، ج۲، ص۵۴]


آپ کی وفات کے وقت تک کوئی متوجہ  نہ ہوا کہ آپ کون ہیں، یہاں تک کہ جب وفات کے بعد آپ کو غسل دینا چاہا تو آپ کے لباس میں ایک تحریر پائی جس میں آپ کا نسب شریف لکھا ہوا تھا۔ آپ کا روضۂ اقدس شہر رے میں معروف ہے۔


آپ کے والد گرامی کا نام عبد اللہ ہے جو " عبد اللہ قافہ" کے نام سے معروف تھے، قافہ ایک جگہ کا نام ہے جہاں جناب عبد اللہ اپنے جد جناب حسن بن زید کی جانب سے حاکم تھے۔


حضرت عبد العظیم کی زوجہ خدیجہ بنت قاسم بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السّلام تھیں۔


[المجدی فی انساب الطالبین، ص۲۱؛ مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۴، ص۴۵۱؛ ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۱۹۷]


بعض لوگوں نے شمال تہران میں مدفون جناب قاسم کو حضرت عبد العظیم کی زوجہ جناب خدیجہ کے والد کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ 


[ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۱۹۷]


آپ کی بیٹی کا نام سلمی ہے، آپ نے ان کا عقد جناب محمّد بن ابراہیم بن ابراہیم بن حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب علیہ السّلام سے کیا، جن سے تیں بیٹے ہوئے جن کے نام عبد اللہ، حسن اور احمد تھے۔


[عمدۃ المطالب، ص۹۷؛ مستدرکات علم رجال الحدیث، ج۶، ص۳۵۷؛ ریاحین الشریعہ، ج۴، ص۳۳۲]


📚 تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۱۵/ شوال، ص۳۰۹



https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor