علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

بدھ، 24 جنوری، 2024

ولادت امیر المومنین علیہ السلام



۱۳/ رجب


#ولادت_امیر_المومنین_علیہ_السلام


پہلے امامِ مؤمنین و خلیفۃ اللہ بلا فصل بعد رسول اللہ خاتم النَّبیین صلّی اللہ علیہ و آلہ، برادر، وزیر و داماد سیّد المرسلین؛ سیّد الوصِّیین، امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام بروز جمعہ ۱۳/رجب المرجب کو بیت اللہ الحرام میں، کعبہ معظّمہ کے اندر دنیا میں تشریف لائے، آپ علیہ السلام سے پہلے اور بعد میں نہ کوئی مولود اس جگہ پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔[۱] 


← امیر المؤمنین علیہ السّلام کے القاب 


آپ ع کا اسم شریف علی ہے۔ صاحب کتاب الأنوار کہتے ہیں: کتاب خدا میں علی بن ابی طالب ع کے ۳۰۰ اسم ہیں۔ آپ علیہ السلام کا مشہور ترین لقب امیر المؤمنین ہے جو صرف آپ ع سے مخصوص ہے؛ ابن شہر آشوب نے آپ ع کے ۸۵۰ سے زیادہ القاب ذکر فرمائے ہیں۔[۲]


آپ علیہ السلام کی مشہور ترین کنیت ابو الحسن ع ہے۔ ان ناموں اور القابات کے علاوہ جو مختلف زبانوں میں، مختلف آسمانی کتابوں میں موجود ہیں... اہل آسمان کے نزدیک آپ علیہ السلام "شمساطیل" کے نام سے معروف ہیں، اور زمیں پر"جمحائیل"، لوح پر "قنسوم"، قلم میں "منصوم"، عرش پر "معین"، رضوان کے نزدیک "امین"، حور العین کے نزدیک "اصب"ہیں، صحف ابراہیم ع میں"حزبیل"، عبرانی میں "بلقیاطیس" سریانی میں "شروحیل"، تورات میں "ایلیا"، زبور میں "آریا" انجیل میں "بریا"، اور صحف میں "حجر عین" اور قرآن میں"علی" ہے۔ [۳]


← آپ علیہ السلام کے دیگر القاب:

 

ابو الأئمة، خلیل النبوة، المخصوصو بالاخوة، یعسوب الایمان، یعسوب الدین، میزان الأعمال، سیف ذی الجلال، صالح المؤمنین، وارث علم النّبیین، الحاکم فی یوم الدین، شجرة التّقوی، حجّة الله البالغة، نعمة الله السابقة، الصراط الواضح، الامام الناصح، الوصیّ، البر، التقی، النبأ العظیم، الصدّیق الرّشید، الزکی، نور الله التّام، سیّد الوصیّین، کلمة الرحمن، الباقر علوم الأدیان، التالی سور القرآن، الثاقب لحجاب الشیطان، الجامع لأحکام القرآن، الذاکر ربه فی السّر و الإعلان، الربیع الباکر، اللازم لأوامر الرحمن، امام الأتقیاء، سیّد النّجباء، هادی الأولیاء، قبلة الرحماء، امیر الأمراء، قدوة الأوصیاء، افصح کل ذی شفتین، مفقه الفقهاء، اقضی ذوی القضاء، ابصر ذی عینین، اَسمع ذی اُذنین، ولی الله، الشهید، ابو الشّهداء، زوج فاطمة الزّهرا علیها السلام، معز الأولیاء، مذلّ الأعداء، العروة الوثقی، مفتاح الهدی، الحجّة العظمی، الحسان، الآیة، القصر المشید، القاضی، امیر النحل، الامام الأوّل، نور الله الجلیل، هارون، الزیتون، کشاف الکرب، الهاشمی الأمّ و الأب، مفتوح الباب إلی المحراب عند سدّ ابواب سائر الأصحاب، السابق بالخیرات، القبلة للسادات، عین الحیاة، العالم الزاهد، الحسنة، الحمید، الحق، خیر البشر، المحمود، الذکر، الذاکر، ذو القربی، ذو المحن، الامام الطاهر، الصدّیق الأکبر، الشفیع فی المحشر، بدر الأکبر، ساقی و مراد الکوثر یوم الحشر و من اعطی رسول الله صلّی الله علیه و آله بنسله الکوثر، صاحب ذی الفقار، الکرّار غیر فرّار، ابن عمّ النّبی المختار، ثمرة بیعة الشجرة، السفینة، السابق، کلیم الشمس، الثانی من الخمس، المعصوم، الحنیف، الدلیل، المیزان بالقسط، السیّد الاورع، ابو شبیر المسمّی بحیدر و ما ادراک ما حیدر، صاحب برائة و غدیر خم و رایة خیبر، النجم اللائح، خیر البریة.


← امیر المؤمنین علیہ السلام کے والدین:


آپ علیہ السلام کے والد ماجد، سید بطحاء حضرت ابو طالب ع [۴]، اور مادر گرامی فاطمہ بنت أسد بن ہاشم بن عبد مناف ہیں، کہ سب سے پہلے اسی خزانۂ عصمت و حیا و عفّت سے انوار امامت و ولایت متجلّی ہوا اور وہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جن سے ایسا اختر تابناک ظاہر ہوا۔

 

جناب فاطمہ بنت اسد صرف مادر امیر المؤمنین ع ہی نہیں تھیں، بلکہ وفات عبد المطّلب ع کے بعد۔ جبکہ پیغمبر اکرم ص چھ یا آٹھ برس کے تھے اور ابو طالب ع کی سرپرستی میں تھے ـ آپ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے سلسلہ میں ماں کا کردار پیش کیا اور ہمیشہ ان کو اپنے فرزندوں پر ترجیح دی اور مسلسل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سے علامات نبوت کا مشاہدہ کرتی رہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ آپ کو ماں کہہ کر خطاب فرماتے تھے۔ [۵]

 

اسی طرح حضرت خدیجہ کبری ع کی وفات پر، پیغمبر ص نے فاطمہ زہرا ع کو فاطمہ بنت أسد ع کے سپرد کیا۔ آپ نے ان کے سلسلہ میں بھی ماں کا کردار پیش کیا اور جب تک زندہ رہیں خاتون دوجہاں کو جان و دل سے اپنی عزت آفریں آغوش میں پرورش فرماتی رہیں۔ [۶]

 

فاطمہ بند اسد ع نے چوتھی ہجری میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، اور بقیع میں مدفون ہوئیں۔ جس وقت امیر المؤمنین ع نے اپنی والدہ کی خبرِ وفات پیغمبر ص تک پہونچائی آپ ص نے فرمایا:


«وہ میرں ماں تھیں».

 

اس کے بعد انہیں اپنا عمامہ اور لباس دیا تاکہ فاطمہ ع کو ان کپڑوں میں کفن دیں اور خود آنحضرت ص نے نماز جنازہ پڑھی اور چالیس تکبیریں کہیں اور فرمایا:

 

«چونکہ ملائکہ کی چالیس صفیں نماز پڑھ رہی تھیں میں نے چالیس تکبیریں کہی ہیں»۔

 

اس کے بعد قبر میں اتر کر لیٹے اور دفن کے وقت تلقین پڑھی اور ان کے لئے دعا کی۔[۷]

 

ولادت امیر المؤمنین ع کی حدیث بھی فاطمه بنت اسد ع کی صلابت ایمانی پر دلالت کررہی ہے۔[۸]


← امیر المؤمنین علیہ السلام کا نور اصلاب میں:


وہ نور جو عرش الٰہی سے چلا تھا، یکے بعد دیگرے أنبیاء و أوصیاء میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ جناب عبد المطّلب ع تک پہونچا اور اس کے بعد وہ نور دو حصّوں میں تقسیم ہوا؛ ایک نور عبد اللہ ع کی پیشانی مبارک میں جو بعد میں جناب آمنہ ع کی پیشانی مبارک میں آیا اور پھر خاتم الأنبیاء ص کے چہرے میں منتقل ہوا۔

 

نور کا دوسرا حصّہ ابو طالب ع کی پیشانی مبارک میں مستقر ہوا۔

 

خدا نے جناب ابو طالب ع کو کئی بیٹے دئے: عقیل، طالب، جعفر، فاختہ یا أمّ ہانی، جُمانہ اور امیر المؤمنین علی ع۔

 

جس وقت خدا نے ابو طالب و فاطمہ بنت أسد ع کو علی ع  سے نوازا، وہ نور فاطمہ بنت أسد ع کے چہرے پر تجلّیاں بکھیر رہا تھا۔


← امیر المؤمنین علیہ السلام کی جائے ولادت:


امیر المؤمنین ع کی جائے ولادت اشرف البقاع یعنی حرم ہے. حرم کی بہترین جگہ مسجد ہے، اور مسجد کی عظیم ترین جگہ کعبه ہے۔ اس جگہ پر آپ ع کے سوا کوئی مولود نہیں آیا ہے، اور یہ ولادت سیّد الایّام یعنی روز جمعه، ماه حرام اور بیت الحرام میں واقع ہوئی۔ [۹]

 

امیر المؤمنین ع نے تین دن تک آنکھیں نہیں کھولیں یہاں تک کہ پیغمبر ص کی خدمت میں لایا گیا، اس وقت آپ ع نے آنکھیں کھولیں۔ آنحضرت ص فرمایا:

 

«اس نے اپنی نظر کے لئے مجھے انتخاب کیا اور میں نے اپنے علم کے لئے اسے منتخب کیا». [۱۰]

 

اس کے بعد آنحضرت ص نے آغوش میں لیا اور ابوطالب ع کے گھر لیکر گئے۔ [۱۱]


← امیر المؤمنین علیہ السلام کی ولادت کے سلسلہ میں پیشینگوئی:


جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں:

 

«مثرم بن رعیب» نامی ایک راہب جس نے ۱۹۰ برس تک عبادت کی تھی، لیکن اس نے خدا سے کچھ چاہا نہ تھا۔ ایک دن اس نے خدا سے دعا کی کہ اپنے کسی ولی کا دیدار کرادے۔ خداوند متعال نے جناب ابو طالب ع کو اس کے پاس بھیجا اور جب راہب نے جان لیا کہ یہ کون سی شخصیت ہے، تو بشارت دی کہ اے ابوطالب خدا آپ کو ایک فرزند عطا کرنے والا ہے جو اللہ کا ولی ہوگا اور اس کا اسم شریف علی ہوگا۔

 

جب ان سے ملاقات ہو تو میرا سلام پہونچائیے گا اور کہیئے گا کہ مثرم خدا کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اور آپ کی ولایت کی گواہی دیتا ہے۔

 

جناب ابو طالب علیہ السلام نے بہشتی انار، خرما اور انگور کو تناول فرمایا اور گھر تشریف لائے۔ فاطمہ بنت أسد ع نے بھی وہ خرما نوش فرمایا جو پیغمبر اکرم ص نے انہیں دیا تھا اور ابو طالب ع کو بھی دیا اور انھوں نے بھی اس میں سے کھایا۔

 

پیغمبر اکرم ص نے فرمایا تھا: یہ کھجور وہ تناول کرے گا جو اللہ کی وحدانیت و میری نبوت کا اقرار کرنے والا ہوگا۔

 

والدین نے اس بہشتی پھل کو نوش فرمایا اور وجود حضرت مولی الموحدین علی بن ابی طالب ع ظہور پذیر ہوا۔ جس وقت فاطمہ بنت أسد ع حاملہ ہوئیں، تو آپ کی نورانیت اور حسن میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔

 

← امیر المؤمنین علیہ السلام بطن مادر میں: 


جس وقت آپ ع بطن فاطمہ بنت أسد ع میں مستقر ہوئے، مکّہ میں زلزلہ آیا اور قریش اپنے بتوں کو کوہ ابوقبیس پر لے گئے لیکن زلزلہ شدید ہوا اور بت منھ کے بل زمین پر گرپڑے۔

 

وہ ابو طالب ع کی پناہ میں پہونچے، اور آپ بالائے کوہ تشریف لے گئے اور کہا: «اے لوگو! اس رات ایک اہم واقعہ پیش آیا ہے۔ خدا نے ایسی شخصیت کو خلق کیا ہے کہ اگر اس کی اطاعت نہیں کروگے اور اس کی ولایت کا اقرار نہیں کروگے اور امامت کی گواہی نہیں دوگے تو یہ زلزلہ نہیں رکنے والا ہے۔ لہذا اس کی امامت و ولایت کا اقرار کرو»۔

 

پھر اشک افشانی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: «بارالٰہا، تجھے محمدیت محمودہ، علویت الاعلی، فاطمۃ البیضاء کا واسطہ سرزمین تہامہ پر اپنی مہربانی اور رحمت کے ذریعہ لطف فرما»۔ دوسروں نے آمین کہا۔ دعا تمام ہوتے ہی زلزلہ ختم ہوگیا۔ عرب کے لوگ زمانۂ جاہلیّت میں جب بھی مصیبت میں مبتلا ہوتے تو یہی دعا پڑھا کرتے تھے اور مصیبت ٹل جاتی تھی۔

 

آپ ع نے بطن مادر ہی سے جعفر بن ابی طالب ع سے گفتگو کی تو وہ بیہوش ہوگئے۔ اسی طرح فاطمہ بنت أسد ع  طواف کی غرض سے خانۂ خدا جاتی تھیں، لیکن اچانک آپ ع نے بطن سے اپنے دونوں قدموں سے شدّت کے ساتھ مارنا شروع کردیا اور انہیں ایسی جگہ پر نہیں جانے دیا جہاں پر بت نصب ہوں، جبکہ آپ علیہ السلام کی والدہ خدا کی عبادت کے لئے طواف کیا کرتی تھیں۔


ایک دوسرے زمانے میں، نومولود کی آمد پر یہ بت چہرے کے بل زمیں پر گر پڑے۔ طائف کے شیر درندہ نے ابو طالب ع کی تعظیم کی۔ جب اس کے سلسلہ میں سوال کیا تو شیر نے کہا: «آپ پدرِ أسد اللہ و حامیِ محمّد پیغمبر خدا ص و مربّیِ شیر خدا ہیں۔


← مادر امیر المؤمنین علیہ السلام کعبہ میں:


شب جمعہ تیرہویں رجب ہمسر ابو طالب ع نے درد کا احساس کیا، لیکن ایک مخصوص نام کی قرائت سے قرار آگیا۔ جب جناب ابو طالب ع نے چاہا کہ قریش کی کچھ خواتین کو فاطمہ بنت اسد کی مدد کے لئے لے آئیں تو گھر کے ایک کونے سے آواز آئی: «اے ابوطالب، صبر کرو کیونکہ ولیّ خدا کو کوئی نجس ہاتھ نہیں لگا سکتا».

 

صبح کے وقت فاطمہ بنت أسد ع نے ایک آواز سنی: «اے فاطمہ ہمارے گھر آ جاؤ»۔

ابو طالب ع اور پیغمبر ص آپ کو مسجد الحرام لائے۔ عبّاس بن عبد المطّلب کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے، دیکھا کہ فاطمہ ع مسجد الحرام میں وارد ہوئیں اور کعبہ کے پاس کھڑی ہوئیں، آسمان کی جانب دیکھا اور فرمایا: «پروردگارا، میں تجھ پر اور تیرے بھیجے ہوئے پیغمبروں اور کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں۔ میں اپنے جدّ ابراہیم خلیل کی تصدیق کرتی ہوں جنھوں نے اس حرم کو تعمیر کیا ہے۔ تجھے قسم دیتی ہوں اور تجھ سے چاہتی ہوں اس کے واسطے سے جس نے اس گھر کو بنایا، اور اس فرزند کے واسطے جو میرے بطن میں ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور مجھ سے کلام کے ذریعہ انس پاتا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ تیری آیات اور نشانیوں میں سے ہے، اس ولادت کو مجھ پر آسان فرما»۔

 

ناگہاں مسجد الحرام میں موجود لوگوں نے دیکھا کہ دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی اور فاطمہ بنت أسد ع  اس میں وارد ہوگئیں۔ لاکھ چاہنے پر در کعبہ کا قفل نہ کھل سکا، جس سے معلوم ہوا کہ اس میں خدا کی کوئی حکمت ہے۔[۱۲]

 

فاطمه بنت أسد ع فرماتی ہیں: «جب کعبہ میں داخل ہوئی دیکھا کہ حوّا، ساره، آسیہ، مادر موسی اور مریم  تشریف لائیں، انہوں نے سلام کیا: «السّلام علیک یا ولیّة الله» اور ہمارے پاس بیٹھ گئیں»۔

 

انھوں نے جو خدمت خاتم الأنبیاء ص کی ولادت کے وقت پر انجام دی تھی، ولادت علی بن ابی طالب ع کے وقت بھی انجام دی۔ فاطمہ بنت أسد ع پیغمبر اکرم ص کی ولادت کے وقت موجود تھیں اور انھوں نے جناب ابوطالب کو اس ماجرا کی خبر دی تھی۔

 

حضرت ابو طالب ع نے پہلے ہی آپ سے فرمایا تھا: «30 سال صبر کرو کہ خدا تمہیں ایک مولود عطا کرے گا جو مثل خاتم الأنبیاء ص ہوگا سوائے نبوّت میں کہ وہ ان کا  وصیّ اور وزیر ہوگا». [۱۳]

 

← امیر المؤمنین علیہ السلام کا یوم ولادت: 


جمعه کے دن علی بن ابی طالب ع سنگ سرخ پر خورشید کی مانند کعبہ کے داہنے گوشہ کی سمت سے نمودار ہوئے۔ جیسے ہی زمین کعبہ پر قدم رکھا، سجدے میں گئے اور ہاتھوں کو آسمان کی جانب بلند کرکے فرمایا:

 

«أشهَدُ أن لا إلهَ إلاّ الله، وَ أنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ الله وَ أشهَدُ أنَّ عَلیاً وَلیُّ مُحَمَّدٍ رَسُولُ الله، بِمَحُمَّدٍ یختمُ اللهُ النُّبُوَّةَ وَ بِی یختم الوَصِیَّةَ وَ أنا امیرُ المُؤمِنین» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمّد ص رسول خدا ہیں اور علی وصیّ محمّد رسول الله ص ہیں۔ محمّد ص پر نبوّت ختم ہے اور مجھ پر وصایت تمام ہوگی اور میں امیر المؤمنین ہوں»۔ [۱۴]

 

پھر فرمایا: «جاءَ الحَقُّ وَ زَهَقَ الباطِلُ » : «حق آگیا اور باطل چلا گیا».

 

آپ کا وجود مبارک جب دنیائے خاکی پر آیا، بت منھ کے بل زمیں پر گر پڑے، آسماں پر نور چھا گیا اور شیطان نے فریاد کی: «اس فرزند سے بت اور بت پرستوں کی خیر نہیں» ! [۱۵]


← ولادت کے بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کا خطاب: 


اس کے بعد بہشتی خواتین کو سلام کیا اور خیریت دریافت کی۔ بہشتی خواتیں نے اپنی آغوش میں لیا اور آپ ع نے ان سے کلام کیا اور جب حضرت حوا ع نے آپ ع کو آغوش میں لیا، آپ ع نے فرمایا: «سلام ہو آپ پر اے مادر گرامی، حوا»!

 

جناب حوا ع نے جواب دیا: سلام ہو میرے بیٹے پر! علی بن ابی طالب ع نے حضرت آدم ع کے حالات دریافت کئے۔ جناب حوا ع نے جواب دیا: نعمت خداوندی میں مستغرق اور جوار پروردگار میں مُتَنَعِّم ہیں۔

 

جس وقت آپ ع کعبہ کے اندر تھے ابو طالب ع کوچه و بازار می آواز دے رہے تھے: بشارت ہو کہ ولی خدا ظاہر ہوا، جس کے ذریعہ وصایت تمام ہوگی۔ [۱۶]

 

بہشتی خواتین کے جانے کے بعد، پیغمبران الهی حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی علیہم السلام تشریف لائے؛ امیر المؤمنین ع نے انہیں دیکھ کر تبسّم فرمایا اور انہوں نے آپ ع کو سلام کیا: «اے ولی خدا اور خلیفہ رسول خدا ص آپ پر سلام»۔

 

آپ ع نے جواب دیا: «علیکم السلام و رحمة الله و برکاته»۔ سب نے باری باری آپ ع کو آغوش میں لیا بوسہ لیا اور تعریف کی اور چلے گئے۔


اس کے بعد ملائکه نازل ہوئے اور آپ ع کو آسمانوں پر لے گئے اور واپس لائے اور بر بار آپ کے فضائل ومناقب میں مخصوص کلمات کہے۔

 

فاطمه بنت أسد ع کہتی ہیں: «دوسری بار میں آپ ع کو اس حالت میں لے کر آئے کہ جنّت کے سفید حریر میں لپیٹا ہوا تھا اور مجھ سے کہا: «اس کو دوسروں کی نظروں سے بچا کر رکھنا کہ وہ ولیّ رب العالمین ہے۔ جان لو کہ کوئی بھی وارد بہشت نہیں ہوسکتا سوائے جس نے اس کی ولایت کو قبول کیا ہو اور اس کی امامت و ولایت کی تصدیق کی ہو۔ بابرکت ہے وہ جو اس کا تابع ہو اور وائے ہو اس پر جو اس سے روگردانی اختیار کرے۔ اس کی مثال کشتی نوح جیسی ہے  جو اس سے متوسل ہوگا نجات پائے گا اور جو اس دور ہوگا غرق اور گمراہ ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس کے کان میں کچھ کہا جو میں نہیں سمجھ سکی، اس کے بعد بوسہ لیا، اٹھے اور چلے گئے میں نہیں سمجھی کہ وہ کہاں سے باہر گئے»۔ [۱۷]


← تین دن کعبہ میں:


فاطمه بنت أسد ع تین دن تک خدا کے گھر مہمان رہنے کے بعد اپنے فرزند مبارک کو آغوش میں لے کر کعبہ سے باہر نکلنے کے لئے تیار ہوئیں، تبھی ہاتف غیبی نے آواز دی: «اے فاطمہ، اس مولود کا نام علی رکھنا، کیوں کہ میں خدائے علی أعلی ہوں، اس کا نام میں نے اپنے نام سے اخذ کیا ہے، اور ادب سکھایا ہے اور اپنے امر کو اس کے سپرد کیا ہے، اور اسے اپنے علم سے آگاہی بخشی ہے، وہ میرے گھر میں دنیا میں آیا ہے۔ وہ پہلا شخص ہوگا جو خانہ کعبہ سے اذان کہے گا، بتوں کو توڑے گا، اور انہیں کعبہ سے منھ کے بل گرائے گا۔ بابرکت ہے وہ جو اسے دوست رکھے اور اس کی اطاعت کرے اور اس کی مدد کرے۔ بد بخت ہے وہ جو اس سے بغض رکھے اور سرپیچی کرے، اسے نیچا دکھائے اور اس کے حق کا انکار کرے» [۱۸]

 

ان تین دنوں میں اس مولود کی تاریخی اور مبارک ولادت کی خبر ہر بزم کی زینت بنی ہوئی تھی، خاص کر در کعبہ کے قفل کے نہ کھلنے، جدار کعبہ کے شق ہونے، کفّار کے ذریعہ اس منظر کے دیکھے جانے کی بات عام موضوع بن گئی تھی۔

 

← آغوش پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ میں طلوع نور:

 

چوتھے دن کی صبح منتظر نگاہوں کے سامنے ناگہاں دیوار کعبه اسی پہلی جگہ سے اس قدر شگافتہ ہوئی فاطمہ بنت اسد ع اپنے فرزند کے ساتھ وہاں سے باہر نکل آئیں، سبھی لوگ دیکھ رہے تھے اور لوگوں کے سوال کرنے سے پہلے ہی فاطمہ بنت أسد ع نے انہیں کچھ واقعات سے باخبر کیا اور مولود کی عظمت، بہشتی غذائیں اور یہ کہ ندائے آسمانی سے اس کا نام علی ہے۔

 

ابو طالب ع و پیغمبر ص آگے بڑھے، اور فاطمہ بنت أسد ع مولود کے ساتھ آگے بڑھیں۔ حضرت مولی الموالی علی ع نے فرمایا: «السَّلامُ عَلَیکَ یا أبَه وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُه».

 

ابو طالب ع نے فرمایا: «وَ عَلَیکَ السَّلامُ یا بُنَیَّ وَ رَحمَةُ اللهِ وَ بَرَکاتُه»، اور آپ ع کو آغوش میں لے لیا۔[۱۹]

 

امیر المؤمنین ع نے پیغمبر اکرم ص کے سامنے اپنی آنکھیں کھولیں، متبسّم ہوئے اور فرمایا: السَّلامُ عَلَیکَ وَ رَحمَةُ الله وَ بَرَکاتُه، مجھے اپنی آغوش میں لیں»

 

پیغمبر اکرم ص نے جواب سلام دیا اور آغوش میں لیکر بوسہ لیا اور ہاتھ میں ہاتھ دیا۔ اس وقت امیر المؤمنین ع نے داہنے ہاتھ کو کان پر رکھ کر اذان و اقامت کہی اور خدا کی وحدانیت اور پیغمبر کی نبوت کی شہادت دی۔ اور پیغمبر اسلام ص سے آسمانی کتب کی تلاوت کی اجازت چاہی، اجازت ملنے پر صُحُف حضرت آدم و نوح و ابراہیم و موسی و عیسی علیہم السلام میں جو تھا سب کی تلاوت کی۔ [۲۰]

 

پھر قرآن کی تلاوت شروع کی جس کا نزول ابھی نہیں ہوا تھا، آپ ع نے سوره  مبارکہ مؤمنون کی تلاوت سے آغاز کیا: قَد أفلَحَ المُؤمِنُون ... .

 

اسکے بعد رسول خدا ص آپ ع کو آغوش میں لئے ہوئے جناب ابو طالب ع کے گھر واپس آئے۔

 

فاطمہ بنت أسد ع فرماتی ہیں: «جب میں کعبہ سے نکلی اور اپنے فرزند کو پیغبر اکرم ص کے حوالہ کیا، حضور ص نے اپنی زبان مبارک سے علی ع  کے دہن کو کھولا اور آب دہن سے تحنیک کیا اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور فرمایا: «یہ وہ مولود ہے جو فطرت پر دنیا میں آیا ہے»۔

 

ولادت کے تیسرے دن یا کعبہ سے باہر آنے کے تیسرے دن یا بعض قول کے مطابق دسویں ذی الحجہ کو حضرت ابو طالب ع نے ولیمہ دیا اور کہا: «علی ابن ابی طالب کے ولیمہ میں تشریف لائیں، اس سے پہلے سات بار کعبہ کا طواف کریں اور پھر میرے بیٹے علی کو سلام کریں»۔ [۲۱]


← پیغمبر صلّی اللہ علیہ و آلہ کے ہمراہ عہد طفولیت میں:

 

امیر المؤمنین ع اپنے بچپنے کی زندگی اور پیغمبر اکرم ص کی ہمراہی کے بارے میں فرماتے ہیں: «بچپن کے زمانے میں، پیغمبر اکرم ص مجھے اپنی آغوش میں لیتے تھے، اور سینے سے لگاتے تھے۔ اور کھانے کو نرم بناکر میرے دہن میں رکھتے تھے۔  اور اپنی بوئے معطّر سے میرے جسم و جان کو معطّر فرماتے تھے۔ انہوں نے میری گفتار میں جھوٹ اور کردار میں غلطی اور نادانی نہ پائی۔

خدا نے پیغمبر اکرم ص کی شیر خوارگی کے وقت سے ان کے پاس ایک عظیم ترین فرشتہ بھیجا تھا، تاکہ وہ کرامت، بزرگواری اور نیکیوں کی راہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی ہمراہی کرے؛ میں بھی پیغمبر اکرم ص کی اس طرح پیروی کیا کرتا تھا، جیسے ایک شیر خوار بچہ اپنی ماں کی فرماں برداری میں ہوتا ہے اور اس کے کردار سے خود کو ہماہنگ کرتا ہے۔ وہ ہر سال کوه حَرا پر جایا کرتے تھے، اور اس وقت میرے سوا کوئی بھی ان کو نہیں دیکھتا تھا۔ [۲۲]


📚حوالہ جات:

۱. ارشاد : ج۱، ص۵؛ اعلام الوریٰ، ج۱، ص۳۰۶؛ مستدرک حاکم، ج۳، ص۴۸۳ و ... .

۲. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۳، ص۳۲۱ ـ ۳۱۹.

۳. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۳، ص۳۱۹. و ... .

۴. شرح احوال حضرت ابو طالب علیہ السلام :  ۲۶ رجب میں ذکر ہونگے.

۵. کافی : ج۱، ص۴۵۳. منتخب التواریخ : ص۱۱۴ ـ ۱۱۳.

۶. تلخیص از ریاحین الشریعۃ : ج۳، ۶ ـ ۳.

۷. کافی : ج۱، ص۴۵۳. اعلام الوریٰ، ج۱، ص۳۰۶و ... .

۸. ریاحین الشریعۃ : ج۳، ص۷ ـ ۶.

۹. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۲، ص۲۰۰؛ بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۹، و ... .

۱۰. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۲، ص۲۰۵. بحار الانوار، ج۳۸، ص۲۹۴،  و ... .

۱۱. کشف الغمّة : ج ۱، ص۵۹. و ... .

۱۲. مناقب آل ابی طالب علیهم السلام : ج۲، ص۵۳، ۱۹۹ ـ ۱۹۲. و ... .

۱۳. الکافی : ج۱، ص ۴۵۲، ۴۵۴. و ... .

۱۴. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۲، ص۱۹۸.

۱۵. علی علیه السلام ولید الکعبہ : ص ۴۱.

۱۶. الفضائل (شاذان بن جبرئیل قمی) : ص۵۶، روضۃ الواعظین، ۷۹۔۷۸؛ و ... .

۱۷. علی علیه السلام ولید الکعبه : ص۳۲. نور الأبصار فی موالید الأئمّة الأطهار علیہم السلام : ص۳۱.

۱۸. امالی صدوق : ص۱۹۶. و ... .

۱۹. مناقب آل ابی طالب علیہم السلام : ج۲، ص۱۹۸. و ... .

۲۰. الہدایة الکبری : ص۱۰۰. نور الابصار فی موالید الاطھار، ص۳۳ و ... .

۲۱. بحار الأنوار : ج۳۵، ص۱۸. و ... .

۲۲. نہج البلاغة : خطبه قاصعہ (۱۹۲). و ... .


https://t.me/klmnoor


https://www.facebook.com/klmnoor