#ايمان_و_عمل
🌹ہمیشہ کے دو دوست🌹
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:
🔴 اَلاْيمانُ وَ الْعَمَلُ اَخَوانِ تَوْأمانِ وَ رَفيقانِ لايَفْتَرِقانِ
🔵 ايمان اور عمل دو جڑواں بھائی ہیں، اور ایسے دو دوست ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے ہیں
📚 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص151، أهمية العمل، ح2782
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 روایات میں ایمان و عمل کی کافی تفصیل سے توضیح و تفسیر کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں عام طور پر اسلامی تعلیمات کو اصول و فروع دین جیسی دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ یعنی دین ایک شجر کے مانند ہے جس کی جڑیں بھی ہیں اور شاخیں بھی۔ اصول دين اس شجر کی جڑیں ہیں جو زمین سے کھانا پانی حاصل کرتی ہیں اور شاخوں تک پہونچاتی ہیں، اگر جڑیں سوکھ جائیں تو شاخیں بھی سوکھ جاتی ہیں۔ اور فروع دین اس کی شاخیں ہیں اور واضح ہے کہ شجر بغیر شاخوں کے شجر نہیں ہوتا ہے اور زیادہ دن نہیں رہ پاتا ہے۔ معنوی درجات، اخلاق اور قرب الیٰ اللّٰہ اس شجر کے ثمرات ہیں۔ انسان کی خصوصیات اور امتیازات اس درخت کے میوے ہیں۔ یہ شجر اگر ان تینوں چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے تو مفید ہے اور اس کے بغیر بے کار ہے یعنی اس کے تینوں حصوں کا ہونا ضروری ہے۔
ممکن ہے یہ اصول و فروع دین کا مسالہ اسی درخت سے اخذ کیا گیا ہو جسے بیان کیا گیا اور قرآن مجید میں ایک خوبصورت مثال کی صورت میں ذکر کیا گیا ہے۔
📍 دشمن اگر ماضی میں شاخوں کے سراغ میں ہوتا تھا اور اس کے قلع قمع کی کوشش میں رہتا تھا، لیکن اب اس نے اس درخت کی جڑوں کو نشانہ بنایا ہے اور اپنے پورے ساز و سامان اور قوّت کے ساتھ دین کے مقابل کھڑا ہے اور اس کا سب سے خطرناک اسلحہ خود دین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے! دین کی غلط اور بے جا تفسیر کرکے دین کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنا چاہتا ہے۔ یہاں پر ضروری ہو جاتا ہے کہ مسلمان بیدار اور ہوشیار رہے اور کسی کے بھی طعن و تشنیع سے نہ گھبرائے۔
📌 اس مختصر گفتگو سے حدیث کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان و عمل اسی درخت کی طرح ہیں اور اگر دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں تو ثمردار نہیں ہونگے۔ «توأمان» کا لفظ ایک خاص مفہوم رکھتا ہے؛ یعنی کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں؛ لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ انسان ایمان رکھتا ہو لیکن اس کے ساتھ عمل نہ ہو؛ اگر ایمان اپنے ساتھ عمل نہ رکھتا ہو تو اس ایمان کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے! شاید اسی بنا پر قرآن مجید میں جہاں بھی ایمان کا تذکرہ ہے عام طور سے اس کے ساتھ عمل صالح کی بات بھی ذکر کی گئی ہے۔
▫️ ایک شخص ایمان و عمل کے باہمی رابطہ کے سلسلہ سے حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں سوال کرتا ہے: «اَلا تُخْبِرُنى عَنِ الاْيمانِ، أقَوْلٌ هُوَ وَ عَمَلٌ، اَمْ قَوْلٌ بِلا عَمَل؟؛ کیا ایمان قول و عمل دونوں کا نام ہے، یا صرف قول ہے اور اعمال کا ایمان میں شمار نہیں ہے؟».
امام علیہ السلام نے فرمایا: «اَلاْيمانُ عَمَلٌ كُلُّهُ؛ ایمان تمام کا تمام عمل ہے» نہ یہ کہ اس کی ایک شاخ عمل ہو۔ [الكافي (ط - الإسلامية)، ج2، ص34، ح115، باب في أن الإيمان مبثوث لجوارح البدن كلها]
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص75