#آزادی
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
🔴 اَيُّهَا النّاسُ اِنَّ آدَمَ لَمْ يَلِدْ عَبْداً وَ لا اَمَةً وَ اِنَّ النّاسَ كُلُّهُمْ اَحْرارٌ۔
🔵 اے لوگو! حضرت آدم علیہ السلام سے نہ کوئی غلام پیدا ہوا ہے اور نہ کنیز، بلکہ سب کے سب آزاد ہیں!
📚 الكافي (ط - الإسلامية)، ج8، ص69، ح26، حديث علي بن الحسين ع.....
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 اس ارشاد میں امام علیہ السلام کے مخاطب تمام لوگ ہیں؛ کیونکہ کسی خاص گروہ کو نہیں بلکہ تمام انسانوں کو مورد خطاب قرار دیا ہے۔ «يا اَيُّهَا النّاسُ» کے ذریعہ خطاب میں حقوق بشر کا پہلو موجود ہے۔ لیکن «يا اَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا» جیسا خطاب اسلامی حقوق کا پہلو رکھتا ہے۔ اس روایت کے مطابق تمام لوگ آزاد ہیں اور انسان اور اولادِ آدم کی خلقت کی بنیاد حرّیت اور آزادی پر ہے۔ اور اگر کہیں یہ اصول ٹوٹ رہا ہو ، تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
▫️ اور یہ کہ انسان کی آزادی کا مسئلہ 1400 سال پہلے اسلام کے ذریعہ پیش ہوا قابل غور ہے؛ کیونکہ حرّیت اور آزادی اس زمانے میں انسان کے بنیادی اصول و اقدار میں شمار نہیں ہوتی تھی، جبکہ عصر حاضر میں آزادی کی اہمیت ایک واضح امر ہے۔
📍 خود آزادی کی ضرورت اظہر من الشمس ہے اور سبھی اسے مانتے ہیں اور سبھی ماتحت اقوام و ملل اپنی آزادی کے حصول میں جد و جہد کرتی رہتی ہیں؛ یہاں پر جو چیز قابل توجہ اور قابل غور ہے دو چیزیں ہیں:
←1ـ کیوں آزادی ایک اصولی شے ہے؟ اگر نہ ہو تو کیا مشکل ہوگی؟ اور اگر ہو تو کیا ہوجائے گا؟ افسوس کہ فلسفۂ آزادی پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔ آزادی کا فلسفہ واضح ہے:
انسان کے پاس ایسی استعداد اور صلاحیتیں موجود ہیں، جو تبھی ثمر بار ہوتی ہیں جب اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو؛ وہ آزادی کے ساتھ علم و دانش حاصل کرسکے، اور ارتقاء اور کمال کی راہ میں آگے بڑھ سکے۔
📌 کمال و ارتقاء کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: الف: باطنی صلاحیتیں۔ ب: رکاوٹوں کا نہ ہونا۔ لہذا آزادی بشر کا فلسفہ اپنی ذاتی استعداد اور صلاحیت کو استعمال میں لانا ہے۔ اور واضح ہے کہ انسان کی ذاتی صلاحتیں تبھی بہتر طریقہ سے نکھر کے آتی ہیں جب وہ آزاد فضا میں ہو۔ کھیتی کی زمین پر اگے ہوئے درخت کی نمو کا گلدان میں سجے میں پودے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
←2ـ کون سی آزادی مطلوب ہے؟ گذشتہ نکتے کے تناظر میں واضح ہوجاتا ہے کہ وہ آزادی مطلوب ہے جو انسان کی ترقی کا باعث بنے۔ لہذا یہ آزادی کا فلسفہ اس کے حدود و قیود کو بھی بیان کررہا ہے، کیونکہ آزادی کی کئی قسمیں ہیں:
1️⃣ مطلق آزادى؛ ایسی آزادی جو صرف جنگلوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان ہی ملتی ہے۔ ایسی جگہوں ہر کوئی ہر کام کر سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ایسی آزادی کا کوئی حامی نہیں۔
2️⃣ قوانین بشری کے حدود میں آزادی جو مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے؛ جو لوگ دین پر اعتقاد نہیں رکھتے لیکن قانون کو مانتے ہیں ان کی آزادی ان قوانین کے دائرہ میں ہوتی ہے، اور یہ قانون آزادی کے مخالف نہیں بلکہ اس کے محافظ ہوتے ہے۔
3️⃣ اقدار الٰہی کے حدود کے ساتھ آزادی؛ مکتب الٰہی کے پیروکاروں کی آزادی دینی اقدار کے دائرہ میں ہوتی ہے۔ وہ اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آزادی کے نام پر الہی اقدار اور انسانی وقار کی خلاف ورزی کی جائے۔
🔰 ظاہر ہے کہ پہلی قسم کی آزادی کسی انسان کے لئے مطلوب نہیں، اور دوسری قسم کی آزادی مختلف اقسام کی بد بختیوں کا پیش خیمہ ہے، اور فقط تیسری قسم کی آزادی ہی ہماری سعادت کی ضامن ہے اور ایسی ردا ہے جو انسان کے قد و قامت کے مطابق تیار کی گئی ہے۔
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص29