#سب_سے_بڑا_گناہ
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
🔴 جَهْلُ الْمَرْءِ بِعُيُوبِهِ مِنْ أَعْظَمِ ذُنُوبِهِ
🔵 انسان کی اپنے عیوب سے نا واقفیت اس کے سب سے بڑے گناہوں میں سے ہے۔
📚 كنز الفوائد، ج1، ص279، فصل من كلام أمير المؤمنين ع و حكمه
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 عام طور پر انسان کے گناہوں میں ملوّث ہونے کا تعلق اس کی نفسیات سے ہوتا ہے؛ یعنی وہ ایسے خلق و خو کا حامل ہوتا ہے جو ان گناہوں کا سبب ہوتا ہے۔ جیسے کوئی غیبت کرتا ہے کیونکہ اس میں حسد کی خو پائی جاتی ہے وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ یا کوئی مال حرام سے اجتناب نہیں کرتا ہے کیونکہ وہ دنیا پرست اور حریص ہے اور لمبی آرزوئیں رکھتا ہے، لہذا دنیا سے وابستہ رہتا ہے، یا کوئی دوسروں کی توہین کرتا ہے کیونکہ خودپسند اور مغرور ہے لہذا اس گناہ کبیرہ کو آسانی سے انجام دیتا ہے۔
اب اگر انسان ان گناہوں سے واقف ہو اور نفسانی اسباب کی اصلاح کرلے تو اسکے وجود میں گناہوں کی جڑیں سوکھ جائیں گی۔ لیکن اگر اس کی جڑوں کی طرف توجہ نہ کی جائے اور صرف شاخوں کی کاٹ چھانٹ ہوتی رہے تو کامیابی میسّر نہیں ہوتی ہے۔ اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں گناہوں کے نفسیاتی اسباب سے ناواقفیت عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔
❓سوال: انسان اپنے عیبوں پر توجہ کیوں نہیں کرتا؟ کیوں وہ دوسرے کے پیر کے تلوے کا کانٹا بھی دیکھ لیتا ہے لیکن اپنی آنکھ میں چبھی ہوئی درخت کی ٹہنی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا؟
🔰 جواب: انسان میں «حُبِّ ذات» کی صفت ہے؛ یعنی وہ خود کو دوست رکھتا ہے۔ حبّ ذات میں جب شدّت آجائے تو وہ اپنے عیب کو دیکھنے پر تیار نہیں ہوتا، بلکہ اپنے عیبوں کو بھی اپنا حسن سمجھ بیٹھتا ہے! جیسے کوئی اقتصادی امور انجام نہیں دیتا اور کسب و کار سے دور بھاگتا ہے، وہ ایک سست انسان ہے لیکن خود کو زاہد سمجھنے لگتا ہے! یا ایک بیہودہ اور بدزبان انسان خود کو بہادر فرض کرنے لگتا ہے! حبّ ذات اور خود پرستی سے دوری اخلاقی مسائل میں ایک مشکل ترین مرحلہ ہے اور سلوك الى الله کا آخری سخت موڑ ہے، عرفان میں اسے «إنانيّت» کہتے ہے۔
❓سوال: اس مشکل سے مقابلہ کے لئے کیا کریں؟
🔰جواب: جو لوگ خود کی تنقید کرسکتے ہیں اور اس طریقہ سے اپنے عیبوں سے واقف ہوسکتے ہیں وہ لائق تعریف ہیں، لیکن جو اس مرحلہ تک نہیں پہونچے ہیں وہ کم از کم دو کام کریں:
1️⃣ اپنے لئے نیک دوستوں کا انتخاب کریں جو آئینہ کی طرح اسکے نقص اور عیب کو بتا سکیں اور اس حدیث کے مصداق قرار پائیں: أَحَبُّ إِخْوَانِي إِلَيَّ مَنْ أَهْدَى إِلَيَّ عُيُوبِي؛ میرا محبوب ترین بھائی وہ ہے جو مجھے میرے عیبوں کو ہدیہ کرسکے۔ [الإختصاص، ص240، في بيان جملة من الحكم و المواعظ و الوصايا عنهم ع]
2️⃣ وہ دیکھیں کہ دوسروں کے لئے وہ کس چیز کو عیب سمجھتے ہیں، کوشش کریں کہ خود اس کے مرتکب نہ ہوں؛ بطور مثال اگر اس کو فوری مدد کی ضرورت پڑے اور پڑوسی اس کی مدد نہ کرے اور وہ اس پر اس کی مذمت کرے، تو خیال رکھیں کہ اگر کوئی پڑوسی اس سے مدد طلب کرے تو فورا اس کی مدد کو دوڑ پڑیں۔
بارالہٰا! ہمیں «إنانيّت» اور «حبِّ ذات» جیسی صفت پر غلبہ کی توفیق عطا فرما۔
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص87