#اخلاق
#روزى_کے_خزانے
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:
🔴 فِي سَعَةِ الْأَخْلَاقِ كُنُوزُ الْأَرْزَاقِ
🔵 روزی کے خزانے خوش اخلاقی میں ہیں۔
📚 تصنيف غرر الحكم و درر الكلم، ص255، ح5383، بعض آثار حسن الخلق.....
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 جب میں اخلاق در قرآن، ج3، ص135 پر «حُسن خُلق» کی صفت پر پہونچا تو اس موضوع کو بہت ہی وسیع پایا اور اپنے سابقہ مطالعہ کے باوجود قرآن و احادیث میں ایسی تعبیروں سے روبرو ہوا جو کسی دیگر مسئلہ میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے!
📍 آسان الفاظ میں، حسن خلق، خوش روئی، ادب، لوگوں سے اچھا برتاؤ، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ روایات کی کثرت، اور بے نظیر تعبیرات اور تاکید در تاکید اس بات کی شاہد ہے کہ نبی اکرم صلى اللہ عليہ وآلہ حسن خلق کی اہمیت کے بہت زیادہ قائل تھے، افسوس کہ مسلمانوں کے بعض گروہوں میں اس کی اہمیت نہیں ہے، یا اس کے برخلاف عمل ہوتا ہے یہاں تک کہ خیال کیا جاتا ہے کہ اچھے اور نیک انسان کو بد اخلاق، سخت، بد مزاج ہونا چاہئے! جبکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
📌 جو چیز اس روایت میں آئی ہے حقیقت میں وہ خوش اخلاقی کے دنیاوی فوائد ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ جو خوش اخلاقی کے حامل تھے انکے کاروبار و زندگی میں رونق تھی، چالیس سال قبل تاجروں کے کسب و کار کی رونق کے سلسلہ میں ایک موازنہ نظر سے گزرا جس میں خوش اخلاق دوکاندار 70% اور بداخلاق دوکاندار 30% کامیاب تھے؛ یعنی خوش اخلاقی کا حصہ40% ہے! کیونکہ حسن خلق لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتا ہے اور برا اخلاق دور کرتا ہے۔
🔰 سبھی مسلمان خاص کر وہ لوگ جن کا دوسرے لوگوں سے زیادہ ملنا جلنا رہتا ہے انہیں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، کیونکہ خوش اخلاقی معاشرہ کو بھی آباد کرتی ہے اور طول عمر کا سبب بھی بنتی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ذکر ہوا ہے: اِنَّ الْبِرَّ وَ حُسْنَ الْخُلْقِ يَعْمُرانِ الدّيارَ وَ يَزيدانِ فِى الاَْعْمارِ۔ [الزهد، ص29، ح72، باب حسن الخلق و الرفق و الغضب]
▪️ سوال: حسن خلق وسعت رزق کا سبب کیسے ہے؟
▫️ جواب: مذکورہ مثال میں خریدار تبھی ایک دوکاندار سے چیزیں خریدتا ہے جب اس پر اعتماد کرتا ہو؛ اگر کوئی دوکاندار پر مشکوک بدگمان ہو تو وہ اس سے دور بھاگے گا؛ لہذا دوکاندار پر لازم ہوتا ہے کہ وہ خریدار کو اپنے بھروسہ میں لے اور بھروسہ میں لینے کا ایک طریقہ اس سے نیک برتاؤ سے پیش آنا ہے؛ خریدار دوکاندار کے حسن خلق کو اس کے حساب و کتاب، امانت، صداقت اور اعتماد میں دیکھتا ہے۔
ایک صاحب بتا رہے تھے کہ میں اپنے علاج کے لئے ایک مغربی ملک گیا ہوا تھا، اور بہت اچھے سے دیکھ بھال اور علاج کے بعد میں نے اخراجات کی تفصیل مانگی، انہوں نے پورے ادب و احترام کے ساتھ کہا: آپ اس سلسلہ میں جلدی نہ کریں، سلامتی کے ساتھ ایران واپس پہونچ جائیں، پھر ہم آپ کو تفصیل بھیج دیں گے، اور آپ اطمینان سے اس خط میں مندرج ہسپتال کے اکاونٹ نمبر میں پیسہ ارسال کردیجئے گا! اس کے بر خلاف اسلامی ملک کے اسپتال جب تک پیسہ نہ لیں، مریض کو ایڈمٹ بھی نہیں کرتے! کہاں یہ کہاں وہ؟
افسوس کہ حضرت علی علیہ السلام کو جس بات کا اندیشہ تھاـ اسلام پر عمل کرنے میں غیروں کی سبقت۔ وہ بعض چیزوں میں واقع ہوچکا ہے!.
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص49
https://www.facebook.com/klmnoor