علمائے اخلاق نے بیان
فرمایا کہ جس طرح انسان کے ظاہری اعضاء ہوتے ہیں اسی طرح باطنی اعضا بھی ہوتے ہیں۔
ظاہری اعضا کو "خَلق" اور باطنی کو "خُلق" کہتے ہیں۔
ظاہر کے ذریعہ شخص کی
معرفت ہوتی ہے اور باطن کے ذریعہ شخصیت سمجھ میں آتی ہے۔ مثلا امیرالمومنین امام
علی علیہ السلام کا نام علی۔ آپ کے والد حضرت ابوطالب، والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد،
بھای طالب، عقیل و جعفر سلام اللہ علیھم وغیرہ اس طرح کی شناخت کو شخص کی شناخت کہتے
ہیں۔ لیکن جب انسان معارف علوی کے اقیانوس میں غوطہ لگاتا ہے اور اپنے ظرف کے مطابق آپ کی سیرت، کردار،
رفتار و اخلاق کی معرفت حاصل کرتا ہے تو یہ آپ کی شخصیت کی معرفت ہوتی ہے۔
اسلام کی عملی شخصیت
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات ھے۔
یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ قرآن کریم تھیوری ہے اور اس کلام کا پریکٹکل
و عملی نمونہ آپ کی ذات والا صفات ہے۔
جس طرح قرآن صرف تلاوت
کے لئے نہیں بلکہ غور و فکر، تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے اگرچہ اکثر افراد صرف
تلاوت کی حد تک ہی محدود ھیں اسی طرح آپ کی سیرت و کردار دعوت عمل دیتی ہے۔ اگرچہ
اکثر صرف نام پہ ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ شائد اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے
اپنی وصیت میں فرمایا "میرا ارادہ ہے میں اپنے جد بزرگوار اور والد ماجد
(امام) علی بن ابی طالب (علیہما السلام) کی سیرت پر چلوں اور اسے زندہ کروں۔
جس سیرت و کردار کو اسلام نے بتایا تھا افسوس
بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ لوگوں نے اسے بھلا دیا مثلا قرآن کریم نے فرمایا
"انّ اکرمکم عندالله اتقاکم" تم میں کرامت والا وہی ہے جس کے پاس تقوی زیادہ
ہو۔ اور اسی حکم الہی کی وضاحت کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا گورے کو کالے پر کوی فضیلت
نہیں اور نہ ہی کالے کو گورے پر بلکہ فضیلت تقوی و علم سے ہوتی ھے۔ یا مدینہ پہنچتے
ھی آنحضرت نے مھاجر و انصار کے تعصب کو ختم کرتے ہوئے آپس میں اخوت و بھائی چارگی
قائم فرمائی۔ لیکن آنحضرت کے بعد جہاں اسلام کی اور بہت سی تعلیمات کو بھلا دیا گیا
وہیں یہ تعلیم بھی عمدا طاق نسیاں کا شکار ہوگئ۔ اب جس سماج میں انصار و مہاجر کا
فرق و تعصب اپنے شباب پہ ہو۔ جہاں تعصب قبیلہ کو پروان چڑھایا جائے اور یہ کہا
جائے کہ رسالت و خلافت ایک ہی قبیلہ یعنی بنی ہاشم میں ہونا اچھا نہیں تو ایسے
عالم میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام جیسی عظیم حقیقی اسلامی ذات سماج میں ہوتے
ہوئے بھی اپنے کو تنہا و اکیلا محسوس کرے گی۔ اور یہی مولا کی عظیم مظلومیت ہے کہ
آپ تنہا ہوگئے۔
لیکن یہ یاد رھے کہ
انسان اگر خدا کے ساتھ ہو اور اسکی نظر میں صرف خوشنودی معبود ہو تو اگر پوری دنیا
بھی اس کے خلاف ہو جائے تو اس کا کوی کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
شہید اول رہ نے ذکر
فرمایا کہ شیعہ وہی ہے جو امیرالمومنین علی علیہ السلام کی پیروی کرے۔ آج بھی بلکہ
قیامت تک آپ کی شخصیت لوگوں کو تفکر و تدبر اور عمل کی دعوتِ عام دیتی ہے۔ ہم اس
مختصر تحریر میں صرف دو گوشے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔
🌹شجاعت
و جہاد فی سبیل الله: امیرالمومنین علیہ السلام نے ابتدائے اعلان اسلام سے اللہ کی
راہ میں شجاعت و جواں مردی سے جہاد فرمایا۔ مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ و
آلہ کی حفاظت فرمائی، شعب ابی طالب میں آپ کا بے نظیر ایثار، شب ہجرت میں ایسی
قربانی کہ خود معبود نے ملائکہ پہ فخر فرمایا۔ مدینہ منورہ میں ۸۰ جنگیں آپ کے ایثار و جہاد و شجاعت کی روشن مثال ہیں۔ یعنی
جب کوئی اسلام و رسول اسلام کی مدد کے لئے نہیں رہا تب بھی آپ میدان جہاد میں ثابت
قدم رہے اور جنگ کے مغلوب نقشے کو غالب میں بدل دیا۔ آپ کی شجاعت زباں زد خاص و
عام تھی اور ہے۔ لیکن یہ نکتہ فراموش نہ ہو کہ آپ نے جہاد اصغر کے میدان میں صرف
نقشہ نہیں بدلا بلکہ جہاد اکبر کے میدان میں بھی ایسا نقشہ بدلا کہ کافر و مشرک اذہان
مسلمان و مومن ہو گئے۔ یعنی آپ افکار میں تبدیلی لائے۔ جس عرب کے نزدیک پانی و
شراب میں کوی فرق نہیں تھا اسے علم ہو گیا کہ پانی مفید ہے۔ شراب مضر ہے۔ پانی
حلال ہے۔ شراب حرام ہے۔ یا اسی طرح بیٹی، بیوی و ماں میں فرق ہے جب کہ کافر نظر سب
کو صرف ایک عورت ہی سمجھ رہی تھی۔
🌹دنیا
سے بے رغبتی: عام طور سے انسان دنیا کی لالچ میں اس قدر غرق ہوتا ہے کہ وہ آخرت کو
بھول جاتا ہے کہ آخرت بھی کوی چیز ہے۔ اسلام نے لوگوں کو آخرت کی جانب رغبت دلائی
اور دنیا سے بے رغبتی کی تعلیم دی۔ بلکہ
اسلام کا نظریہ دنیا و آخرت کے سلسلہ میں یہ ہے کہ دنیا وسیلہ ہے اور آخرت مقصد۔
انسان کو چاہئے کہ دنیا کے ذریعہ اپنی آخرت سنوارے۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام
نے متعدد مقامات پہ لوگوں کو دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی آرزو کی تعلیم فرمائی
اور جب آپ جنگ جمل کے بعد کوفہ تشریف لائے تو یہی فرمایا کہ میں تمہارے سلسلہ میں
دنیا کی آرزو و تمنا کے بارے میں ڈرتا ہوں۔ ایک مقام پہ آپ نے چینٹی کو دیکھا کہ
اس کے منھ میں گندم کا ایک ننہا سا ٹکڑا ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے پوری دنیا
کی حکومت اس شرط پہ دی جائے کہ اس چینٹی کے منھ سے گندم کا یہ ننھا سا ٹکڑا چھین
لوں تو خدا کی قسم میں ایسا نہیں کروں گا۔ دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا "غری غیری"
اے دنیا میرے علاوہ کو دھوکہ دے تو مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی۔ حضرت امیرالمومنین علیہ
السلام تقریبا آدهی دنیا پہ یعنی آج کے پچاس یا اس سے زیادہ ممالک پر تنہا حاکم
تھے لیکن اس کے باوجود مملکت کے فقیرترین انسان جیسی زندگی بسر فرمائی۔ اس چار برس
اور کچھ ماہ کی ظاہری حکومت کے زمانہ میں صرف چار بار وہ بھی بقرعید کے دن گوشت
تناول فرمایا کہ اس دن ہر انسان کو گوشت میسر ہو گا۔ تاریخ آدم و عالم میں رسول
اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و امیرالمومنین علیہ السلام کے علاوہ کیا کوی ایسا عادل
حاکم تصور کیا جا سکتا ہے؟؟ نہیں ہرگز نہیں۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے
کہ شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ آپ کی شخصیت کو بھی دنیا کے سامنے پیش کیا
جائے۔ دنیا ایسے کمالات و فضائل سے تشنہ ہے۔ اور جیسا کہ سلطان عرب و عجم حضرت
ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا۔ خدا اس بندہ پہ رحمت نازل فرمائے جو
میرے امر کو زندہ کرتا ہے۔ راوی نے پوچھا کہ مولا آپ کے امر کو کیسے زندہ کیا جائے
گا؟ فرمایا۔ میرے علوم کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے کیوں کہ جب لوگ ہمارے کلام
کے محاسن کو سنیں گے تو ہماری پیروی کریں گے۔
اس حدیث میں امام عالی
مقام نے شخص نہیں بلکہ شخصیت پہ تاکید فرمائی۔
والسلام
سید علی ھاشم عابدی
قم مقدس ایران