۲۶/رجب
#وفات_حضرت_ابوطالب_علیہ_السلام
سید بطحاء حضرت ابو طالب ع نے ہجرت سے تین سال قبل اور بعثت کے دسویں سال دنیا سے رحلت فرمائی۔
[مصباح المتہجد، ص۷۴۹؛ منتخب التواریخ، ص۴۳؛ بحار الانوار، ج۱۹، ص۲۵۔۲۴؛ فیض العلام، ص۲۲۶؛ قلائد النحور، ج رجب، ص۲۸۴؛ جنات الخلود، ص۱۶؛ وقائع الایام، ج۱، ص۳۰۳]
روایت کے مطابق رحلت کے وقت آپ ع کی عمر ۸۰ سال سے زیادہ کی تھی۔
[منتخب التواریخ، ص۴۳،۱۱۴؛ سر السلسۃ العلویہ، ص۳]
حضرت ابو طالب ع کی رحلت کے بارے میں دیگر اقوال اس طرح سے ہیں: ۲۷ جمادی الاولی، ۲۹ رجب، ۷ اور ۱۸ رمضان، ۱۵ اور ۱۷ شوال، ۱ اور ۱۰ ذی القعدہ، ۱ ذی الحجۃ۔
[نفائع العلام، ص۱۵۸؛ قلائد النحور، ج رجب، ص۲۸۴؛ منتخب التواریخ، ص۴۳؛ شرح احقاق الحق، ج۲۹ ص۶۱۴؛ اسد الغابۃ، ج۱، ص۱۹]
← نسب حضرت ابو طالب علیہ السلام:
آپ ع کا اسم مبارک عمران ہے، اور آپ کے والد گرامی جناب عبد المطلب، اور والدہ ماجدہ فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ہیں۔ حضرت ابو طالب ع، پیغمبر ص کے والد جناب عبد اللہ اور زبیر بن عبد المطلب کے ابوینی بھائی تھے، یعنی یہ حضرات ایک ہی ماں اور باپ سے تھے، اور جناب عبد المطلب کے دیگر بیٹے فقط باپ کی طرف سے ان تینوں بزرگوار کے بھائی تھے۔
[بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۳۸، ۱۸۲؛ عمدۃ المطالب، ص۲۱، ۲۳]
← ایمان حضرت ابو طالب علیہ السلام:
علامہ مجلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: امامیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جناب ابوطالب ع اسلام اور پیغبر ص پر ایمان رکھتے تھے، اور انہوں نے کبھی بھی کسی بت کی عبادت نہیں کی ہے، بلکہ ابو طالب ع حضرت ابراہیم ع کے اوصیاء میں سے ایک ہیں اور آپ ع کا اسلام و ایمان شیعوں میں مشہور و معروف ہے اور علمائے شیعہ نے آپ ع کے ایمان پر متعدد کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔
شیخ صدوق علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: احادیث میں آیا ہے کہ جناب عبد المطلب حجّت خدا اور جناب ابو طالب ان کے وصی تھے۔ روایت کے مطابق امانات انبیاء، عصائے حضرت موسیٰ ع، انگشتر حضرت سلیمان ع وغیرہ جناب عبد المطلب کے ذریعہ حضرت ابو طالب ع کے حوالہ کی گئیں اور آپ ع نے انہیں حضرت خاتم الانبیاء ص کے سپرد کیا۔
[الکافی، ج۱، ص۴۴۵؛ کمال الدین، ص۶۶۵؛ الغدیر، ج۷، ص۳۹۴]
ابن اثیر جزری شافعی جامع الاصول میں لکھتے ہیں: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ کے چچاؤں میں سے حمزہ، عباس اور ابوطالب کے سوا کوئی ایمان نہیں لایا۔
علامہ طبرسی تحریر فرماتے ہیں: اہل بیت علیہم السلام کا ایمان ابوطالب ع پر اجماع ہے اور اجماع اہل بیت علیہم السلام حجت ہے؛ کیونکہ وہ بزرگوار اس ثقلین میں سے ایک ہیں جن دونوں سے پیغبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے تمسک کا حکم دیا ہے۔
[تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص۳۱؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۵]
ایمان حضرت ابی طالب ع پر بہت سی کتابیں تحریر کی گئی ہیں، سب سے پہلی کتاب ۶۳۰ ھ میں لکھی گئی۔ اس وقت سے اب تک آپ ع کی عظمت، جلالت، ایمان پر مختلف زبانوں میں متعدد کتابیں تالیف ہوئیں اور طبع ہوکر منظر عام پر آئیں جو اہل تحقیق و نظر پر مخفی نہیں ہے۔
[الغدیر، ج۷، ص۳۰۹۔۳۳۰؛ بحار الانوار، ج۳۵، ص۶۸۔۱۷۹؛ ۔۔]
حضرت امام رضا علیہ السلام حضرت عبد العظیم حسنی کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: بیشک اگر ایمان ابو طالب ع میں شک کرو گے تو تمہارا راستہ جہنم کا ہوگا۔
[بحار الانوار، ج۳۵، ص۱۱۱؛ الغدیر، ج۷، ص۳۹۵؛ ایمان ابی طالب ع (علامہ امینی) ص۹۰]
نبی اکرم ص کی حمایت میں حضرت ابو طالب ع کے اشعار، اور آپ ع کی رحلت کے وقت حضرت امیر المومنین ع سے منسوب اشعار اور قریش کی جانب سے حضرت نبی مکّرم کو اذیت پہونچانے کے قصد پر مسجد الحرام میں قریش سے خطاب میں آپ ع کی گفتگو، اور رحلت کے وقت نبی اکرم ص کے کلمات، بارش کی دعا میں آپ ع کے دعائیہ کلمات سب اس بات پر شاہد اور دلیل ہیں کہ آپ ع ایسے بے نظیر ایمان کے حامل تھے جس کی تشبیہ روایات میں ایمان اصحاب کہف سے دی گئی ہے۔ آپ علیہ السلام کے سلسلہ میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مرثیہ کے بعض اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ع حضرت حمزہ ع پر فضیلت رکھتے تھے۔
اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں: حضرت امیر المومنین ع نے فرمایا: واللہ! میرے والد اور جدّ عبد المطلب، ہاشم اور عبد مناف نے کبھی بھی بتوں کی عبادت نہیں کی ہے۔ سوال ہوا: پھر وہ کس کی عبادت کیا کرتے تھے؟ فرمایا: کعبہ کی سمت نماز پڑھا کرتے تھے، وہ دین ابراہیمی پر تھے اور اس سے متمسک تھے۔
[کمال الدین، ص۱۷۵؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۷؛ وقائع الایام، ج۱، ص۲۹۰-۳۰۶]
ابن ابی الحدید اپنے اشعار میں کہتے ہیں: اگر ابوطالب اور ان کے فرزند نہ ہوتے تو ایسے دین کا نام و نشان نہ ہوتا جو اس طرح مستحکم قائم ہے، ابوطالب ع نے مکہ میں پیغمبر ص کی حمایت کی اور ان کے فرزند نے مدینہ میں پیغمبر ص کی بے دریغ نصرت کی۔
[شرح نھج البلاغہ، (ابن ابی الحدید) ج۱۴، ص۸۴۔۷۰؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۷؛ وقایع الایام ج۱، ص۲۸۹؛ سیوطی کے بقول وہ احادیث جس میں ابوطالب کی شان میں جسارت کی کوشش کی گئی ہے معاویہ کے دور کی جعلی روایات ہیں جو بنی امیہ کو خوش کرنے کی غرض سے گڑھی گئیں، ان کے منجملہ راویوں میں سے ایک مغیرہ بن شعبہ ہے جس کی بنی ہاشم سے عداوت شہرہ آفاق ہے]
← پیغبر صلّی اللہ علیہ و آلہ وفات ابوطالب ع پر:
جس وقت حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جناب ابوطالب علیہ السلام کی خبر غم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کو سنائی، آنحضرت ص بہت زیادہ محزون ہوئے اور فرمایا: یا علی! جاؤ انہیں غسل و حنوط و کفن دو اور جب انہیں تخت پر رکھ دینا تو مجھے خبر کرنا۔ جب آپ ع نے پیغمبر ص کے حکم کو انجام دے لیا اور جنازہ کو تخت پر رکھ دیا، نبی اکرم ص تشریف لائے، اور جب نظر چچا کے جنازے پر پڑی تو آپ ص پر سخت رقّت طاری ہوگئی اور فرمایا: اے عمو، آپ نے صلۂ رحم انجام دیا، احسان کیا اور جزائے خیر دی۔ اے عمو، آپ نے میرے بچپنے میں میری کفالت کی اور بڑے ہونے پر میری نصرت اور حمایت فرمائی۔
[بحار الانوار۔ ج۲۲، ص۲۶۱؛ ج۳۵، ص۱۲۵؛ ابو طالب حامی الرسول، ص۱۲۹؛ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۳۵۔۔۔]
حضرت ابو طالب ع کی وفات پر جبرئیل امین نازل ہوئے اور نبی اکرم ص سے فرمایا: "آپ کا حامی اب دنیا سے جا چکا ہے، اب ہجرت کر جائیں"۔
[الکافی، ج۱، ص۴۴۰، ۴۴۹؛ شرح نھج البلاغہ، ج۴، ص۷۰؛ ج۱۴، ص۱۲۸]
امام باقر ع فرماتے ہیں: اگر حضرت ابو طالب ع کا ایمان ترازو کے ایک طرف رکھا جائے اور دوسری جانب تمام لوگوں کا ایمان ہو تو یقینا ایمان ابو طالب ع سب پر بھاری ہوگا۔ اس کے بعد فرمایا: کیا نہیں جانتے کہ حضرت امیر المومنین ع اپنی حیات میں حج کے لئے عبد اللہ، آمنہ اور ابو طالب کی جانب سے نائب قرار دیتے تھے، اور اپنی شہادت کے وقت اپنی اولاد سے وصیت کی کہ ان بزرگوں کی جانب سے حج کے لئے نائب قرار دیں۔
[الغدیر، ج۷، ص۳۸۰؛ الصحیح من السیرہ، ج۳، ص۲۴۲]
حضرت امام صادق ع اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین ع صحنِ مسجد میں تشریف فرما تھے، لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا؛ تبھی ایک شخص نے کھڑے ہوکر سوال کیا: اے امیر المومنیین! آپ کو خدا نے یہ مقام عطا کیا ہے لیکن آپ کے والد آتش دوزخ میں!
امام ع نے فرمایا: رک جا! خدا تیرا منھ توڑے، اس خدا کی قسم جس نے محمد ص کو نبی برحق بنا کے بھیجا! اگر میرے والد روئے زمیں پر موجود تمام گنہگاروں کی شفاعت کریں تو خدا اس کی شفاعت کو قبول کرے گا، کیا میرے والد آتش دوزخ میں ہوں اور میں ان کا بیٹا ہوتے ہوئے جنّت و جہنم کا تقسیم کرنے والا رہوں!
اس خدا کی قسم جس نے محمد کو مبعوث برسالت کیا! روز قیامت نور ابوطالب تمام مخلوقات پر چھایا ہوگا سوائے پانچ نور کے: محمد ص کا نور، میرا نور، فاطمہ س کا نور، حسن کا نور، حسین ع اور انکے فرزندوں میں ائمہ کا نور۔ یاد رہے! ابو طالب کا نور ہمارے نور سے ہے، جسے خدا نے حضرت آدم ع سے دو ہزار قبل خلق کیا تھا۔
[مأۃ منقبہ، ص۱۷۴؛ کنز الفوائد، ص۸۰؛ احتجاج، ج۱، ص۳۴۱؛ الغدیر، ج۷، ص۳۸۷]
📚تقویم شیعہ، عبد الحسین نیشابوری، انتشارات دلیل ما، ۲۶/ رجب، ص۲۱۷