علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

پیر، 15 جولائی، 2024

۹/ محرم؛ تاسوعائے حسینی



📢 تاسوعائے حسینی


⚫️۹/ محرم؛ تاسوعائے حسینی⚫️



  ← یوم غربت حسینی



◾️تَاسُوعَاءُ يَوْمٌ حُوصِرَ فِيهِ الْحُسَيْنُ ع وَ أَصْحَابُهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ بِكَرْبَلَاءَ وَ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ خَيْلُ أَهْلِ الشَّامِ وَ أَنَاخُوا عَلَيْهِ‏ وَ فَرِحَ ابْنُ مَرْجَانَةَ وَ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ بِتَوَافُرِ الْخَيْلِ وَ كَثْرَتِهَا وَ اسْتَضْعَفُوا فِيهِ الْحُسَيْنَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ أَصْحَابَهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ أَيْقَنُوا أَنْ لَا يَأْتِيَ الْحُسَيْنَ ع نَاصِرٌ وَ لَا يُمِدَّهُ أَهْلُ الْعِرَاقِ بِأَبِي الْمُسْتَضْعَفُ الْغَرِيبُ۔۔


امام صادق علیہ السلام:


◾️ تاسوعا وہ دن ہے جب حضرت امام حسین اور آپ کے اصحاب کا کربلا میں محاصرہ کرلیا گیا تھا۔ اور اہل شام ان کے قتل پر جمع تھے، ابن مرجانہ اور عُمَر سعد سپاہ و لشکر کی کثرت پر جو ان کے لئے جمع ہوگیا تھا خوشی میں جھوم رہے تھے۔  انہوں نے امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب رضی اللہ عنہم کو ضعیف گردانا۔ اور یقین کرلیا کہ اب ان کا کوئی یاور و ناصر آنے والا نہیں ہے اور اہل عراق مدد کے لئے نہیں نکلیں گے، میرے ماں باپ فدا اس غریب و بے کس پر۔


📚 الکافي, جلد ۴ ,ص ۱۴۷، كِتَابُ اَلصِّيَامِ، بَابُ صَوْمِ عَرَفَةَ وَ عَاشُورَاءَ



  ←  لیکن فرزند رسول خدا ص کے لئے امان نہیں!


نویں محرم کو شمر ذی الجوشن لعین اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ کربلا میں وارد ہوتا ہے؛ ایک مرتبہ وہ خیام حسینی کا رخ کرتا ہے: 


◾️جاءَ شِمْرٌ حَتَّى وَقَفَ عَلَى أَصْحَابِ الْحُسَيْنِ ع فَقَالَ أَيْنَ بَنُو أُخْتِنَا فَخَرَجَ إِلَيْهِ الْعَبَّاسُ وَ جَعْفَرٌ وَ عُثْمَانُ بَنُو عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالُوا مَا تُرِيدُ فَقَالَ أَنْتُمْ يَا بَنِي أُخْتِي آمِنُونَ فَقَالَتْ لَهُ الْفِتْيَةُ لَعَنَكَ اللَّهُ وَ لَعَنَ أَمَانَكَ أَ تُؤْمِنُنَا وَ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ لَا أَمَانَ لَه‏۔


◾️شمر آتا ہے اور اصحاب حسین علیہ السلام کے پاس ٹھہرتا ہے، آواز دیتا ہے کہ ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں؟


فرزندان علی بن ابی طالب علیہما السلام میں سے عباس، جعفر و عثمان اس کی طرف آتے ہیں، اور کہتے ہیں: تو کیا چاہتا ہے؟


وہ کہتا ہے: اے میری بہن کے بیٹو! تم سب کو امان حاصل ہے۔


وہ غیرتمند جوان اس سے کہتے ہیں: خدا کی لعنت ہو تجھ پر اور اس کی لعنت ہو تیرے اس امان پر؛ تو ہمیں امان دے رہا ہے لیکن فرزند رسول خدا ص کے لئے کوئی امان نہیں!۔


📚 وقعة الطف، ص۱۹۰، [امان ابن زياد للعباس و اخوته‏]؛ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏۲، ص۸۹، نزول الإمام الحسين ع في كربلاء و ما جرى عليه فيها قبل عاشوراء۔



  ←  ایک شب راز و نیازِ خدا کے لئے


نویں محرم ہنگام عصر عمر سعد کی جانب سے حملے کا حکم ہوتا ہے، ادھر امام حسین علیہ السلام خیمہ کے سامنے اپنی تلوار پر تکیہ کئے تشریف فرما ہیں، کہ آنکھ لگ جاتی ہے۔۔۔ بہن زینب شور کی آواز سن کر بھیا کے قریب آگئیں؛ اے بھیا! کیا ان آوازوں کو سن رہے ہیں جو اتنے قریب سے آرہی ہیں؟


حسین علیہ السلام نے سر اٹھایا اور فرمایا: "إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ السَّاعَةَ فِي الْمَنَامِ وَ هُوَ يَقُولُ لِي إِنَّكَ تَرُوحُ إِلَيْنَا" میں نے خواب میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ مجھ سے کہہ رہے ہیں: تم میری طرف آنے والے ہو۔


بہن کا گریہ بلند ہوا بھیّا نے دلاسہ دیا۔۔۔ بھائی عباس کو دشمنوں کے ارادوں کو جاننے کی غرض سے ان کی سمت روانہ کیا۔


جناب عباس علیہ السلام زہیر ابن قین و حبیب ابن مظاہر اور ۲۰ افراد کے ساتھ لشکر کی جانب گئے اور انہیں جنگ سے روکتے ہوئے دوبارہ امام عالی مقام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔


امام علیہ السلام نے جناب عباس علیہ السلام سے فرمایا:


◾️إرْجِعْ إِلَيْهِمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُؤَخِّرَهُمْ إِلَى الْغُدْوَةِ وَ تَدْفَعَهُم‏ عَنَّا الْعَشِيَّةَ لَعَلَّنَا نُصَلِّي لِرَبِّنَا اللَّيْلَةَ وَ نَدْعُوهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ فَهُوَ يَعْلَمُ أَنِّي قَدْ أُحِبُّ الصَّلَاةَ لَهُ وَ تِلَاوَةَ كِتَابِهِ وَ الدُّعَاءَ وَ الِاسْتِغْفَار۔


◾️ان کی طرف واپس جاؤ اور اگر ہو سکے تو کل صبح تک کے لئے اس جنگ کو ٹال دو اور آج کی شب ان کو ہم لوگوں سے دور کردو تاکہ آج کی رات ہم اپنے رب کی بارگاہ میں نماز ادا کریں، اس سے دعا کریں اور استغفار انجام دیں.


وہ  خوب جانتا ہے کہ میں اس کی نماز کو  دوست رکھتا ہوں، اور اس کی کتاب کی تلاوت کو پسند کرتا ہوں اور کثرت دعا و استغفار  کا شوق رکھتا ہوں۔


📚 وقعة الطف، ص۱۹۵، [زحف ابن سعد إلى الحسين عليه السلام‏]؛ الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، ج‏۲، ص۹۰، نزول الإمام الحسين ع في كربلاء و ما جرى عليه فيها قبل عاشوراء


←  امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب و انصار کے ساتھ


حضرت امام علی بن الحسین علیہ السلام فرماتے ہیں: عمر سعد کی فوج کے جانے کے بعد حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا یہ غروب کا وقت تھا، میں نے خود کو ان سے نزدیک کیا  تاکہ میں انہیں سن سکوں جبکہ میں مریض تھا۔ میں نے سنا میرے بابا اپنے اصحاب سے فرما رہے ہیں: میں اللہ تبارک و تعالی کی ستائش کرتا ہوں اور ہر خوشی و آسائش اور رنج و مصیبت میں اس کی حمد کرتا ہوں۔


خدایا! اس پر تیری حمد کہ تونے ہمیں نبوت کے ذریعہ کرامت عطا کی، قرآن کا علم عنایت فرمایا اور دین میں گہرائی و گیرائی عطا کی، اور حق کو سننے والے کان، حق نگر آنکھیں اور حق پذیر دل عطا فرمائے اور تو نے  ہمیں مشرکین سے قرار نہیں دیا۔


أَمَّا بَعْدُ؛ فَإِنِّي لاَ أَعْلَمُ أَصْحَاباً أَوْلَى وَ لاَ خَيْراً مِنْ أَصْحَابِي، وَ لاَ أَهْلَ بَيْتٍ أَبَرَّ وَ لاَ أَوْصَلَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، فَجَزَاكُمُ اَللَّهُ عَنِّي جَمِيعاً خَيْراً. أَلاَ وَ إِنِّي أَظُنُّ يَوْمَنَا مِنْ هَؤُلاَءِ اَلْأَعْدَاءِ غَداً، أَلاَ وَ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ لَكُمْ فَانْطَلِقُوا جَمِيعاً فِي حِلٍّ، لَيْسَ عَلَيْكُمْ مِنِّي ذِمَامٌ، هَذَا لَيْلٌ قَدْ غَشِيَكُمْ فَاتَّخِذُوهُ جَمَلاً ثُمَّ لِيَأْخُذْ كُلُّ رَجُلٍ مِنْكُمْ بِيَدِ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، [وَ] تَفَرَّقُوا فِي سَوَادِكُمْ وَ مَدَائِنِكُمْ حَتَّى يُفَرِّجَ اَللَّهُ، فَإِنَّ اَلْقَوْمَ إِنَّمَا يَطْلُبُونِّي، وَ لَوْ قَدْ أَصَابُونِي لَهَوْا عَنْ طَلَبِ غَيْرِي.


اما بعد! میں اپنے اصحاب سے بہتر و برتر کسی کے اصحاب کا سراغ نہیں رکھتا، نہ ہی اپنے گھرانے سے زیادہ نیک اور مہربان کسی گھرانے کو پاتا ہوں؛ خداوند متعال میری طرف سے تم سب کو اس کی بہترین جزا عطا کرے۔


آگاہ ہوجاؤ! میں جانتا ہوں کہ ان دشمنوں کی شر انگیزیوں کی بنیاد پر کل ہماری زندگی کا آخری دن ہوگا۔ جان لو! کہ میری نظر یہ ہے کہ تم سب کے سب آزادی کے ساتھ چلے جاؤ، میری طرف سے تم لوگوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ رات تم سب کو اپنے اندر ڈھانپ چکی ہے؛ تم لوگ اسے حجاب و مرکب قرار دو اور تم میں ہر ایک ہمارے خاندان کی ایک ایک فرد کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اپنے ملک اور شہر کی طرف نکل جائے یہاں تک کہ خدا گشائش کی راہ نکال دے؛ کیونکہ یہ قوم فقط میرے خون کی پیاسی ہے لہذا اگر وہ مجھے پا لیتی ہے تو میرے علاوہ دوسروں سے رخ موڑ لے گی۔


📚وقعة الطف، ص۱۹۷، [خطبة الإمام عليه السلام ليلة عاشوراء]



 ← تجدید عہد وفا 


▫️اعزا و اقرباء کا رد عمل: 


[موقف الهاشميّين] 

[فَ] بَدَأَ اَلْقَوْلَ اَلْعَبَّاسُ بْنُ عَلِيٍّ [عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ] فَقَالَ لَهُ: لِمَ نَفْعَلُ [ذَلِكَ]؟ لِنَبْقَى بَعْدَكَ؟! لاَ أَرَانَا اَللَّهُ ذَلِكَ أَبَداً! ثُمَّ إِنَّ إِخْوَتَهُ وَ أَبْنَاءَ [اَلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ] وَ بَنِي أَخِيهِ [اَلْحَسَنِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ] وَ اِبْنَيْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ [مُحَمَّدٌ وَ عَبْدُ اَللَّهِ] تَكَلَّمُوا بِهَذَا وَ نَحْوِهِ. فَقَالَ اَلْحُسَيْنُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ: يَا بَنِي عَقِيلٍ: حَسْبُكُمْ مِنَ اَلْقَتْلِ بِمُسْلِمٍ، اِذْهَبُوا، قَدْ أَذِنْتُ لَكُمْ! قَالُوا: فَمَا يَقُولُ اَلنَّاسُ! يَقُولُونَ إِنَّا تَرَكْنَا شَيْخَنَا وَ سَيِّدَنَا وَ بَنِي عُمُومَتِنَا خَيْرِ اَلْأَعْمَامِ، وَ لَمْ نَرْمِ مَعَهُمْ بِسَهْمٍ، وَ لَمْ نَطْعَنْ مَعَهُمْ بِرُمْحٍ، وَ لَمْ نَضْرِبْ مَعَهُمْ بِسَيْفٍ، وَ لاَ نَدْرِي مَا صَنَعُوا! لاَ وَ اَللَّهِ لاَ نَفْعَلُ، وَ لَكِنْ تفديك[نَفْدِيكَ]أَنْفُسَنَا وَ أَمْوَالَنَا وَ أَهْلُونَا، وَ نُقَاتِلُ مَعَكَ حَتَّى نَرِدَ مَوْرِدَكَ! فَقَبَّحَ اَللَّهُ اَلْعَيْشَ بَعْدَكَ! 


حضرت عباس بن علی علیہما السلام نے سب سے پہلے گفتگو شروع کی اور فرمایا: ہم ایسا کیوں کریں؟! تاکہ آپ کے بعد ہم زندہ رہیں؟! خدا ہمیں ایسا دن ہرگز نہ دکھائے۔ 


اس کے بعد آپ کے بھائیوں، امام حسین علیہ السلام کے بیٹوں، بھتیجوں نیز عبد اللہ بن جعفر کے بیٹوں نے اسی طرح کے کلمات کہے۔ 


امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اے اولاد عقیل! مسلم کی شہادت تمہارے لئے کافی ہے۔ تم لوگ چلے جاؤ، میں تم کو اجازت دے رہا ہوں۔ 


انہوں نے کہا: اس وقت لوگ کیا کہیں گے؟! کہیں گے: ہم نے اپنے آقا و مولا اور اپنے بہترین چچازاد بھائیوں کو اکیلا چھوڑ دیا! نہ ان کے ساتھ کوئی تیر پھینکا نہ ہی نیزہ مارا اور نہ ہی شمشیر چلائی اور نہیں معلوم کہ وہ کیا کریں گے۔ نہیں، خدا کی قسم ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی جان و مال اور اہل و عیال سب آپ پر قربان کردیں گے اور آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے یہاں تک کہ ہم آپ کے ورود کی جگہ پر وارد ہوجائیں۔ خدا آپ کے بعد ہم پر زندگی حرام کرے۔


▫️اصحاب و انصار کا رد عمل


[وَ]: قَامَ إِلَيْهِ مُسْلِمُ بْنُ عَوْسَجَةَ اَلْأَسَدِيُّ فَقَالَ: أَ نَحْنُ نُخَلِّي عَنْكَ وَ لَمَّا نُعْذَرْ إِلَى اَللَّهِ فِي أَدَاءِ حَقِّكَ! أَمَا وَ اَللَّهِ حَتَّى أَكْسِرَ فِي صُدُورِهِمْ رُمْحِي، وَ أَضْرِبَهُمْ بِسَيْفِي مَا ثَبَتَ قَائِمُهُ فِي يَدِي، وَ لاَ أُفَارِقُكَ، وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ مَعِي سِلاَحٌ أُقَاتِلُهُمْ بِهِ لَقَذَفْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ دُونَكَ حَتَّى أَمُوتَ مَعَكَ! وَ قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ اَلْحَنَفِيُّ: وَ اَللَّهِ لاَ نُخَلِّيكَ حَتَّى يَعْلَمَ اَللَّهُ أَنَّا حَفِظْنَا غَيْبَةَ رَسُولِ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ [وَ آلِهِ] وَ سَلَّمَ فِيكَ، وَ اَللَّهِ لَوْ عَلِمْتُ أَنِّي أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُحْرَقُ حَيّاً ثُمَّ أُذْرَى، يُفْعَلُ ذَلِكَ بِي سَبْعِينَ مَرَّةً مَا فَارَقْتُكَ حَتَّى أَلْقَى حِمَامِي دُونَكَ، فَكَيْفَ لاَ أَفْعَلُ ذَلِكَ وَ إِنَّمَا هِيَ قَتْلَةٌ وَاحِدَةٌ ثُمَّ هِيَ اَلْكَرَامَةُ اَلَّتِي لاَ اِنْقِضَاءَ لَهَا اَبَداً. وَ قَالَ زُهَيْرُ بْنُ اَلْقَيْنِ: وَ اَللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي قُتِلْتُ ثُمَّ نُشِرْتُ ثُمَّ قُتِلْتُ، حَتَّى أُقْتَلَ كَذَا أَلْفَ قَتْلَةٍ، وَ أَنَّ اَللَّهَ يَدْفَعُ بِذَلِكَ اَلْقَتْلَ عَنْ نَفْسِكَ وَ عَنْ أَنْفُسِ هَؤُلاَءِ اَلْفِتْيَةِ مِنْ أَهْلِ بَيْتِكَ! وَ تَكَلَّمَ جَمَاعَةُ أَصْحَابِهِ فَقَالُوا: وَ اَللَّهِ لاَ نُفَارِقُكَ، وَ لَكِنْ أَنْفُسُنَا لَكَ اَلْفِدَاءُ، نَقِيكَ بِنُحُورِنَا وَ جِبَاهِنَا وَ أَيْدِينَا، فَإِذَا نَحْنُ قُتِلْنَا كُنَّا وَفَيْنَا وَ قَضَيْنَا مَا عَلَيْنَا. 


پھر مسلم بن عوسجہ اسدی کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا: آیا ہم آپ کو تنہا چھوڑ دیں؟! جبکہ خدا کے سامنے آپ کے حق کی ادائیگی کے سلسلہ میں ہمارے پاس کوئی جواب موجود نہ ہو؟! 


ہرگز نہیں! خدا کی قسم، جب تک کہ انکے سینوں میں اپنے نیزے کو توڑ نہ دوں، اور جب تک شمشیر ہاتھ میں رہے گی ان سے جنگ نہ کروں آپ سے جدا نہیں ہونگا،  اور جب کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہوگا تو آپ کے دفاع میں پتھروں سے ان پر وار کرونگا یہاں تک کہ آپ کے ساتھ شہید ہوجاؤں۔ 


سعید بن عبد اللہ نے عرض کیا: خدا کی قسم ہم آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، تاکہ خدا شاہد رہے کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی غیر موجودگی میں ان کی حرمت کی پاسداری کی۔ 


خدا کی قسم، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں قتل کیا جاؤں گا پھر زندہ ہونگا اور پھر زندہ زندہ جلا دیا جاؤں گا، اور میری خاک کو ہواؤوں میں منتشر کردیا جائے گا اور اسی طرح ہمارے ساتھ ستر بار کیا جائے پھر بھی آپ سے جدا نہیں ہونگا یہاں تک آپ کے سامنے میری موت آجائے، پھر ایسا کیوں نہ کروں جبکہ پتہ ہے ایک ہی بار قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد ایسی عزت و کرامت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی؟! 


اور پھر زہیر بن قین بجلی نے کہا: خدا کی قسم، میری دلی تمنا ہے کہ قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر قتل کیا جاؤں یہاں تک کہ ایسا ہی ہزار بار کیا جائے اور خدا اس کے ذریعہ آپ اور آپ کے ان جوانوں کو قتل ہونے سے دور فرمائے۔



حضرت امام حسین علیہ السلام کے دیگر اصحاب و انصار نے بھی اسی طرح کی گفتگو کی اور عرض کیا: خدا کی قسم ہم آپ سے جدا نہیں ہونگے، ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں، ہم آپ کی اپنی گردنوں، پیشانیوں اور ہاتھوں سے حفاظت کریں گے۔ اور اس صورت اگر ہم قتل کردیے جائیں تو ہم نے اپنے عہد کو پورا کیا اور فرض کو ادا کیا ہے۔ 


📚 وقعة الطف ج ۱، ص ۱۹۸، [حوادث ليلة عاشوراء]۔



⬛️ السَّلَامُ عَلَى الْحُسَيْنِ الْمَظْلُومِ الشَّهِيدِ السَّلَامُ عَلَى أَسِيرِ الْكُرُبَاتِ وَ قَتِيلِ الْعَبَرَات⬛️



https://t.me/klmnoor



https://www.facebook.com/klmnoor