#فتنوں_کی_جڑ
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:
🔴 إنَّمَا بَدْءُ وُقُوعِ الْفِتَنِ أَهْوَاءٌ تُتَّبَعُ وَ أَحْكَامٌ تُبْتَدَعُ يُخَالَفُ فِيهَا كِتَابُ اللَّهِ وَ يَتَوَلَّى عَلَيْهَا رِجَالٌ رِجَالًا عَلَى غَيْرِ دِينِ اللَّهِ فَلَوْ أَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ يَخْفَ عَلَى الْمُرْتَادِينَ وَ لَوْ أَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَبْسِ الْبَاطِلِ انْقَطَعَتْ عَنْهُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِينَ وَ لَكِنْ يُؤْخَذُ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ وَ مِنْ هَذَا ضِغْثٌ فَيُمْزَجَانِ فَهُنَالِكَ يَسْتَوْلِي الشَّيْطَانُ عَلَى أَوْلِيَائِهِ وَ يَنْجُو الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ الْحُسْنى۔
🔵 فتنوں کی ابتدا ان نفسانی خواہشات سے ہوتی ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ہوتے ہیں۔ اور اس پر کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف دوسرے لوگوں کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔
اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلب گاروں پر پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں بھی بند ہو جاتیں۔ لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے اور ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہو جاتا ہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کر پاتے ہیں جن کے لئے توقیق الٰہی اور اس کی عنایت موجود ہو۔
📚 نهج البلاغة (للصبحي صالح)، ص88، خ50، و من كلام له ع و فيه بيان لما يخرب العالم به من الفتن و بيان هذه الفتن
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 «فتنہ» لغت میں کبھی امتحان و آزمائش کے معنی میں ہے، اور کبھی عذاب اور تکلیف دینے کے معنی میں ، جیسا کہ قرآن مجید میں ذکر ہے: (يَوْمَ هُمْ عَلَى النّارِ يُفْتَنُونَ); «جس دن ان لوگوں کو آتش جہنم کا عذاب دیا جائے گا» [الذاريات/13] لیکن مذکورہ حدیث شریف میں فتنہ سے مراد، وہ سخت سماجی حادثات ہیں جو لوگوں کے قلب و ذہن کی رنجیدگی اور تکلیف کا سبب ہوتے ہیں۔ البتہ یہ لفظ امتحان اور آزمائش کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ امتحان اکثر اوقات مشکلات اور سختیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
📌امام علیہ السلام اس خطبہ میں معاشرہ کے فتنوں کی جڑ اور بنیاد کے بارے میں فرماتے ہیں: فتنوں کا آغاز دو چیزوں سے ہوتا ہے:
1ـ خواہشِ نفس کی پیروی۔
2ـ وہ احکام جو کتاب اللہ کے بر خلاف اور اپنی مرضی کے مطابق بنا لئے گئے ہیں۔
📍اس روایت سے یہ مفہوم لیا جاسکتا ہے کہ صرف ذوق و سلیقہ میں اختلاف کا ہونا فتنہ انگیز نہیں ہوتا ہے؛ کیونکہ چہروں میں اختلاف کی طرح یہ بھی ناگزیر امر ہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں یا گروہوں کی غلطیاں بھی فتنہ کی بنیاد نہیں ہیں؛ بلكہ تمام فتنوں کی جڑ ہوائے نفس ہے جو ممکن ہے مختلف شکلوں میں دکھائی دے؛ کبھی حقوق بشر کے نام سے، تو کبھی حرّیت اور آزادی کے لباس میں، کبھی مظلوم کی حمایت کی شکل میں، کبھی انجامِ فرائض کے طور پر، حتیٰ کہ کبھی عبادت کی صورت میں!
▫️سورہ کہف کی 103 اور 104ویں آیت شریفہ انہیں موارد کی طرف اشارہ ہے: «ان سے کہہ دیجئے: کیا میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاؤں جو اعمال کے لحاظ سے بدترین خسارہ میں ہیں؟ وہ لوگ جن گی سعی و کوشش زندگانی دنیا میں گم ہے، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں!» یہ چہرہ، نفسانی خواہشات کے بدترین چہروں میں سے ہے۔
▫️یا دوسری روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ اس زمانے کے سلسلہ میں آگاہ فرماتے ہیں کہ كَيْفَ بِكُمْ إِذَا رَأَيْتُمُ الْمَعْرُوفَ مُنْكَراً وَ الْمُنْكَرَ مَعْرُوفاً. «اس وقت تمہارا کیا عالم ہوگا جب تم معروف کو منكر اور منكر کو معروف کے عنوان سے دیکھو گے!» [وسائل الشيعة، ج16، ص122، ح12، باب وجوبهما و تحريم تركهما]
اور افسوس یہ کہ بعض چیزوں کو اس طرح کا ہوتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص پوری امانت و صداقت کے ساتھ کام کرتا تھا، اور اپنے حلال اور جائز حق و حقوق پر قانع تھا وہ ایک ناکارہ اور سست انسان بنا دیا جاتا ہے اور جو شخص خیانت اور دوسروں کے مال کی سرقت اور چوری کے ذریعہ مختصر عرصہ میں گاڑی، مکان اور دولت کا مالک بن جاتا ہے اسے عقل مند، ہوشیار اور نیک انسان سمجھا جاتا ہے! ملاحظہ کیا آپ نے کہ کیسے معروف منكر و منكر معروف بن گیا!؟
📚110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص165