#توبہ_کے_ارکان
🌷🌷حضرت امام علی علیہ السلام:
🔴 التَّوْبَةُ عَلى اَرْبَعَةِ دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَ اسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ وَ عَزْمٌ اَنْ لايَعُودَ۔
🔵 توبہ چار ستونوں پر قائم ہے: صدق دل سے شرمندگی، زبان سے استغفار، اعضاء و جوارح سے عمل اور گناہ کی طرف واپس نہ جانے کا عزم محکم۔
📚 كشف الغمة في معرفة الأئمة (ط - القديمة)، ج2، ص349، و أما مناقبه
▫️▫️▫️▫️▫️
✍🏼 توبہ سے اکثر لوگ غلط مفہوم سمجھتے ہیں، اسی بنا پر انفرادی اور اجتماعی توبہ میں اس کے اثرات بہت کم دکھائی پڑتے ہیں۔
📌 توبہ کی عظیم عمارت ایک دو ستون پر نہیں بنائی جاتی ہے، بلکہ اس کے چاروں ستون کا لحاظ ضروری ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں توبہ کا اثر انسان کے سراپا وجود سے ظاہر ہونا چاہئے۔ اس مختصر سے مقدمہ کے ساتھ توبہ کے چاروں ارکان کی وضاحت کرتے ہیں:
1️⃣ پہلا ركن: سب سے پہلا قدم دل سے شرمندگی ہے، حقیقت میں توبہ کرنے والے شخص کے قلب و روح میں ایک انقلاب رونما ہوتا ہے اور جس گناہ کا وہ مرتکب ہوتا ہے اس سے متنفّر ہوکر پشیمان ہوتا ہے۔
2️⃣ دوسرا ركن: اگرچہ صدق دل سے پشیمانی توبہ کا پہلا قدم ہے، لیکن وہ اکیلا رکن نہیں ہے۔ لہذا یہ تحرّک اور انقلاب جو اندر پیدا ہوا ہے اس کا اثر تمام اعضاء و جوارح پر بھی پڑے اور زبان کے ذریعہ -جو کہ قلب کی ترجمان ہے- ظاہر ہو۔ زبان بھی قلب کے ساتھ ساتھ گناہ سے توبہ کرے اور استغفار انجام دے۔ اس طرح گناہ سے نفرت میں قلب و زبان کی ہماہنگی توبہ کے چار ارکان میں سے دو رکن ہیں۔
3️⃣ تیسرا ركن: یہ ہے کہ ندامت اور شرمندگی کی حالت زبان سے تمام اعضاء و جوارح کی جانب بھی آ جائے اور انہیں بھی ردّ عمل پر مجبور کرے، تاکہ انسان اپنے ماضی کی تلافی میں عمل انجام دے سکے، انسان کے اعضاء و جوارح اس مرحلہ میں تین کام انجام دے سکتے ہیں، تاکہ نہالِ نوخیر مستحکم اور ثمردار بن سکے:
الف) گناہوں کے ذریعہ لوگوں کے پامال شدہ حقوق کی تلافی کرے؛ اگر غیبت کی ہے، معافی چاہے؛ اگر کسی مومن کا دل توڑا ہے تو اس کی تلافی کرے، اگر لوگوں کا مال غصب کیا ہے تو اس کا تدارک ہو ۔ الغرض جو بھی اس پر کسی کا حق ہے اسے ادا کرے۔
ب) خدا کا حق بھی ادا کرے؛ اگر واجبات کو ترک کیا ہے اسے ادا کرے؛ اگر اس عبادت کے ترک پر قضا و کفارہ ہے تو اسے پورا دے، اور ان تمام چیزوں کو اپنی موت کی بعد پر نہ چھوڑے!
ج) ماضی کی غلطیوں، خطاؤوں اور گناہوں کی اچھائیوں اور عبادتوں کے ذریعہ تلافی کرے۔ توبہ کے اس مرحلہ کی دلیل یہ جملہ ہے (اِلاّ الَّذينَ تابُوا وَ اَصْلَحُوا); «سوائے ان کے جنہوں نے توبہ کرلی و (اس کے ساتھ) خود کی اصلاح کی»۔ اس طرح کے جملے قرآن مجید کی متعدد آیات میں موجود ہیں۔ [البقره/ 160، آل عمران/89، النحل/119، اور النور/5]
گناہ ایک بیماری کی طرح ہے اور گناہ کبیرہ ہو تو وہ مہلک بیماریوں کی طرح ہے، جو شخص ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور دوا علاج کے بعد بستر سے اٹھتا ہے، قوت کم ہوجاتی ہے، آنکھیں دھنس جاتی ہیں، کمزور ہوجاتا ہے اور اس کے پاس ضروری توانائی نہیں رہ جاتی ہے، دوا علاج کے علاوہ اسے تقویت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کھوئی ہوئی توانائی کی بازیابی ہوسکے۔ گناہ بھی ایمان اور انسانی فضائل کو کمزور کر دیتا ہے، لہذا توبہ کے بعد کمزور ہوئے فضائل کو نیک اور صالح کاموں تقویت بخشیں۔
4️⃣ چوتھا ركن: آئندہ گناہ نہ کرنے پر مصمّم ارادہ، یعنی توبہ انسان کی آخری عمر تک راہ کی ہدایت کرے۔ توبہ امام علی علیہ السلام کی حدیث کے مطابق ایک مکمل تبدیلی کا سبب بنتا ہے اور اس کا تعلق صرف زبان سے نہیں ہے۔ معاشرہ کے سلسلہ میں بھی ایسا ہی ہے، گناہ آلود معاشرہ کو بھی توبہ کے بعد ان چاروں مرحلوں کو طے کرنا ہوگا۔
📚 110سرمشق از سخنان حضرت علی علیہ االسلام ، حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی دام ظلہ، ص55