علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

جمعرات، 4 جون، 2020

زیارت قبور (۴)


#زیارت_قبور

قسط ۴

عبادت کی تعریف

۱۔ مرحوم بلاغی کہتے ہیں: "معاملة الانسان لمن يتخذه الهاً معاملة الاله المستحق لذلک بمقامه في الالهية،" انسان نے جسے خدا تصور کیا ہے اس کے ساتھ ایسے پیش آئے اور برتاؤ کرے جیسا اللّہ کے لئے کیا جاتا ہے جو کہ مقام الوہیت کہ بنا پر اس کا مستحق ہوتا ہے۔ یعنی عبادت، الوہیت کے ایمان و اعتقاد کی بنیاد پر: "العبادة ما يرونه مستشعرا بالخضوع لمن يتخذه الخاضع الها ليوفيه بذلک ما يراه له من حق الامتياز بالاهية". عبادت اس عمل کو کہا جاتا ہے جو انسان کے خضوع کی طرف اشارہ کررہا ہو جس کو خضوع کرنے والے نے اللہ اور معبود کا عنوان دیا تاکہ اس طریقہ سے "الوہیت" جیسی منزلت رکھنے کے لحاظ سے اس کی عظمت بلندی اور کبریائی کا حق ادا کرسکے۔ [محمد جواد بلاغي، آلاء الرحمن في تفسير القرآن، ج 1، ص 57و58]


۲۔ جناب کاشف الغطاء تحریر فرماتے ہیں: "لا ريب انّه لا يراد بالعبادة التي لا تکون الا لله و من اتي بها لغير الله فقد کفر، مطلق الخضوع و الانقياد، کما يظهر من کلام اهل اللغة، و الا لزم کفر العبيد و الاجرآء و جميع الخدام للامرآه، بل کفر الانبياء في خضوعهم للاباء" اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت سے مراد مطلق خضوع اور عمل نہیں جسے اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے انجام نہ دیا جائے اور جو غیر اللہ کے سامنے انجام دے وہ کافر ہوگا، جیسا کہ اہل لغت کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے، اور اگر یہ معنی صحیح ہوں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمام غلام کافر ہوں، تمام مزدور اور ملازم اور حاکموں کے خادمین؛ بلکہ انبیاء بھی اپنے آباء کے سامنے خضوع کرنے کی بناپر کافر قرار پائیں گے۔ [جعفر كاشف الغطاء، منهج الرشاد لمن أراد السداد، ص 86]

۳۔ امام خمینی رح: عبادت سے مراد یہ ہے کہ کسی کو خدا سمجھ کر اس کی حمد کی جائے خواہ چھوٹے خدا کے عنوان سے یا بڑے خدا کی حیثیت سے۔ [روح الله خميني رح، کشف اسرار، ص 29]

مذکورہ تعریفوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ صرف اطاعت، خضوع اور تذلل کو عبادت نہیں کہا جاتا، بلکہ بے انتہا خضوع اور تذلل بھی عبادت نہیں؛  بلکہ ایک عمل عبادت اس وقت کہلاتا ہے جب اس میں کچھ شرطیں پائی جائیں: ۱۔ انسان کا عمل خضوع و خشوع اور تذلل کے ساتھ ہو۔ ۲۔ جس کی اطاعت کررہاہے اس کے خالق، یا رب یا اللّہ ہونے پر اعتقاد رکھتا ہو۔ ۳۔ اس معبود کو اپنے تمام امور میں مالک جانتا ہو۔

اب جب معلوم ہوگیا کہ عبادت کے عناصر و اجزاء کیا ہیں تو عبادت کی صحیح تعریف کی جا سکتی ہے اور یہ تعریف دوسرے عنصر اور شرط کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہوگی، کیونکہ پہلا جز یعنی خضوع و خشوع تو دوسرے اعمال میں پایا جاسکتا ہے لیکن دوسرا عنصر اور جز ہر عمل میں نہیں پایا جاتا۔

لہذا عبادت کی تعریف اس طرح ہوسکتی ہے: ہر وہ تعظیم و احترام اور خضوع جو الہوہیت یا ربوبیت یا خالقیت جیسے اعتقاد کے ساتھ انجام پائے اسے عبادت کہا جائے گا۔

عبادت کی اس تعریف کے ساتھ انبیاء اور اولیاء کی قبروں زیارت کا شرک ہونا یا نہ ہونا بھی معلوم ہوجاتا ہے، کہ زیارت ایک لحاظ سے صاحب قبر کااحترام اور اس کے سامنے خضوع ضرور ہے، اس میں کوئی شک نہیں؛ لیکن دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ ہر طرح کا احترام و خضوع عبادت نہیں بلکہ وہ خضوع عبادت ہے جو ایک خاص اعتقاد و ایمان کے ساتھ ہو جیسے کسی کی الہوہیت یا ربوبیت کا اعتقاد؛ اور جو شخص کسی غیر اللّہ کے رب یا الہ ہونے کا اعتقاد رکھے وہ مشرک ہے۔

لیکن وہ مسلمان جو انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی قبروں کے طرف زیارت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں وہ ہر لحاظ سے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان رکھتے ہیں، اور صاحب قبر کو صرف نبی، ولی، عبد صالح اور مقرب بارگاہ الہی ہی سمجھتے ہیں۔

اور وہ اعمال جو زائرین زیارت کے موقع پر انجام دیتے ہیں ان کے اعتقادات کو مکمل طور واضح کررہے ہیں اور اس اعتقاد پر برہان قاطع کی حیثیت رکھتے ہیں؛ اس لیے کہ ہم زیارت کے موقع پر سب سے پہلے زیارت نامہ پڑھتے ہیں اور اکثر زیارت ناموں میں زیارت پڑھنے سے پہلے سو بار "اللہ اکبر" کہتے ہیں اور اس طریقہ سے سو بار توحید کا اقرار کرتے ہیں۔

جاری۔۔۔۔۔