#زیارت_قبور
قسط ۷
زیارت قبور قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآنی آیات زیارت کو فقط خدا سے مخصوص نہیں کررہی ہیں، اور تعظیم انبیاء بھی شعائر میں سے ہے چاہے وہ باحیات ہوں یا وفات پاچکے ہوں، اب یہاں پر زیارت کے جواز پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں:
قرآن مجید سے: وَ لَا تُصَلّ عَلي أَحَدٍ مِّنهْم مَّاتَ أَبَدًا وَ لَا تَقُمْ عَلي قَبرْهِ إِنهَّمْ كَفَرُواْ بِاللَّهِ وَ رَسُولِهِ وَ مَاتُواْ وَ هُمْ فَاسِقُون۔ [سوره توبه، 84] اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہویئے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور حال فسق میں دنیا سے گزر گئے ہیں۔
مذکورہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول خدا مومنین کے جنازوں پر نماز پڑھتے تھے اور ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوتے اور مغفرت کے لئے دعا فرماتے تھے۔ [طباطبائي، تفسير الميزان، ج9، ص360]
لہذا اس آیت میں قبر کے پاس نماز اور قیام دونوں منافق کی قبر مراد ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر قبر منافق کی نہ ہو بلکہ مومن کی ہو وہ مطلوب ہے۔ مزید وضاحت میں سب سے پہلے شاہد مثال (و لاتقم علي قبره) معین ہونا چاہئے کہ اس کا معنی تدفین کے وقت قیام نہ کرنا ہے یا بطور عام کہا گیا ہے؟
اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ سیوطی: جب پیغمبر(ص) ابن ابی کے لئے دعا کی اس وقت آیت نازل ہوئی کہ نہ ان پر نماز پڑھئے اور نہ ہی زیارت اور یا دفن کے لئے وہاں ٹھہریئے۔ [تفسير الجلالين، ج1، ص203] آلوسی: مفسرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ علی عند کے معنی میں ہے اور اس سے مراد قبر کی زیارت اور دفن کے لئے ٹھہرنے کی ممانعت ہے۔ [آلوسي، روح المعاني، ج5، ص342] اس کے علاوہ دوسری تفاسیر میں بھی عام معنی مراد لئے گئے ہیں۔
لہذا آیت کی توضیح کچھ اس طرح ہوگی لفظ "احد" سیاق نفی کے عموم پر دلالت کررہا ہے، اور لفظ "ابدا" استغراق زمان پر، یعنی کبھی بھی ان پر نماز نہ پڑھو، نہی صلاۃ دفن کے وقت سے مخصوص نہیں، اگر دفن کے وقت مراد ہوتا تو "ابدا" کی ضرورت نہیں تھی۔
اور "ولاتقم" سابق جملہ پر عطف ہے، لہذا اس کا معنی بھی اسی جملہ کے لحاظ سے ہوگا، جس کا مطلب ہوگا قیام اور توقّف فقط دفن کے وقت نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ منافق کے لئے ترحّم جائز نہیں چاہے وہ دعا کی شکل میں ہو یا نماز کی شکل میں اور اس کے برخلاف مومن کے لئے جائز ہوگا۔
زیارت قبور سنت نبوی کی روشنی میں
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی اکرم(ص) نے نہ صرف مسلمانوں کو زیارت کے لئے کہا بلکہ خود بھی اس نیک عمل کو انجام دیا:
۱۔ جناب عائشہ کہتی ہیں: رسول خدا(ص) رات کے آخری حصہ میں بقیع کی طرف جاتے تھے اور فرماتے تھے: السلام عليكم دار قوم مؤمنين وأتاكم ما توعدون غدا مؤجلون وإنا إن شاء الله بكم لاحقون اللهم اغفر لأهل بقيع الغرقد۔ [سنن البيهقي الکبري، ج5، ص249، ح10077]
جس سے واضح ہوتا ہے زیارت کے لئے سفر کرنا جائز ہے کیونکہ اہتمام سفر چاہے دور سے ہو یا نزدیک سے، سفر ہی کہلائے گا۔
۲۔ جناب عائشہ کو زیارت کی تعلیم: "قالت قلت كيف أقول لهم ؟ يا رسول الله قال قولي السلام علي أهل الديار من المؤمنين والمسلمين ويرحم الله المستقدمين منا والمستأخرين وإنا إن شاء الله بكم للاحقون" [صحيح مسلم، ج2، ص669،ح974] مسلم جناب عائشہ سے ایک طویل روایت نقل کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: جبرئیل آئے اور کہا کہ خدا نے حکم دیا کہ بقیع جائیں اور ان کے لئے استغفار کریں، جناب عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں انکے لئے کیا کہوں؟ فرمایا: السلام علی۔۔۔۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ خود بھی زیارت کے لئے تشریف لے گئے اور جناب عائشہ کو بھی زیارت کی تعلیم دی۔
۳۔ کنزالعمال میں زیارت قبور کے سلسلہ میں متعدد روایتیں موجود ہیں: "كنت نهيتكم عن زيارة القبور ألا فزوروها فإنها ترق القلب وتدمع العين وتذكر الآخرة". [کنزالعمال، ج15، ص1004، ح42555] میں نے زیارت سے تم کو منع کیا تھا، اب تم زیارت کیا کرو کیونکہ قلب کو نرم اور آنکھوں کو اشک آلود بناتی ہے آخرت کی یاد کا سبب ہے۔
آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ روایت میں علت بھی ذکر فرما رہے ہیں، اور تعلیل کا فائدہ یہ ہے کہ جہاں علت قوی ہو اس پر عمل کی تاکید بھی مزید ہوگی، لہذا جب عام قبریں رقّت قلب اور تذکرۂ آخرت کا سبب ہوسکتی ہیں تو صالحین، علماء، اولیائے الہی، انبیاء کے مراقد کی زیارت میں یہ تعلیل بدرجہ اتمّ ہوگی، اور آپ(ص) کی جانب سے تاکید کے ساتھ ہوگی۔
جاری۔۔۔۔۔