علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

ہفتہ، 13 جون، 2020

زیارت قبور (۹) آخری قسط


#زیارت_قبور

قسط ۹ (آخری)

زیارت قبر پیغمبر (ص) علمائے اہل سنت کی نظر میں

۱۔ سمہودی: "یہ اجماعی مسئلہ ہے، قولی لحاظ سے بھی کہ سبھی لوگوں نے کہا ہے اور فعلی و عملی لحاظ سے بھی" پھر تفصیل کے ساتھ اس سلسلہ میں ائمہ اہل سنت کے اقوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: زیارت رسول خدا ص تقرّب الہی ذریعہ ہے؛ کتاب و سنت کی دلیل سے بھی اور اجماع و قیاس سے بھی۔


کتاب: "وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّاباً رَحيماً" [نساء/64] اور کاش جب ان لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تھا تو آپ کے پاس آتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے حق میں استغفار کرتا تو یہ خدا کو بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔

یہ آیت لوگوں کو رسول کی خدمت میں آنے، استغفار کرنے اور رسول (ص) کا انکے حق میں دعا کرنے کی ترغیب پر دلالت کررہی ہے، اور یہ منزلت پیغمبر کی رحلت کے ساتھ ختم نہیں ہوجاتی بلکہ رحلت کے بعد بھی رسول خدا (ص) مومنین اور امّت کے لئے استغفار کا حق رکھتے ہیں۔۔۔۔

سنّت: بہت سی احادیث جو قبر پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کے متعلق وارد ہوئی ہیں، اور وہ احادیث صحیحہ جو زیارت قبور اور قبر پیغبر (ص) کے سلسلہ میں ہیں ان کی عمومیت میں بھی یہ شامل ہیں۔

اجماع: عیاض کہتے ہیں: "زيارة قبره(ص) سنة بين المسلمين مجمع عليها و فضيلة مرغب فيها" زیارت قبر پیغبر (ص) مسلمانوں کے درمیان سنت ہے اور اس پر سب کا اجماع ہے اور یہ ایسی فضیلت ہے جس کی ترغیب دی گئی ہے۔ [سمهودي، وفاء الوفا، ج4، ص1362]

۲۔ شرح موطا میں فاضل لکھنوی سے: علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زیارت قبر پیغمبر (ص) عظیم ترین مستحب اعمال اور افضل مشروعات سے ہے، اور جو بھی اس کی مشروعیت میں شک کرے وہ گمراہ بھی ہے اور گمراہ کرنے والا بھی۔ [موطا الامام مالک، تحقيق: تقي الدين ندوي، ج3، ص448]

۳۔ عبد الرحمن جزیری: "أما زيارة قبر النبي صلي الله عليه و سلم فهي من أعظم القرب وكما تندب زيارة القبور للرجال تندب أيضا للنساء العجائز..." [الفقه علي المذاهب الاربعه، ج۱، ص491] قبر پیغمبر (ص) کی زیارت اعظمِ قربات میں سے ہے، جس طرح مردوں کے لئے زیارت مستحب ہے ضعیف خواتین کے لئے بھی مندوب ہے۔

۴۔ محمود سعید ممدوح: " قال مشايخنا رحمهم الله تعالي: من افضل المندوبات، و في مناسک الفارس و شرح المختار: انها قريبة من الوجوب لمن له سعة" [رفع المناره لتخريج احاديث التوسل و الزياره، ص65.] ابن ہمام حنفی شرح فتح القدیر میں کہتے ہیں: ہمارے مشایخ رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں: قبر پیغمبر ص کی زیارت افضل ترین مندوبات میں سے ہے، اور مناسک الفارس اسی طرح شرح المختار میں آیا ہے کہ قبر پیغمبر (ص) کی زیارت واجب کی حد تک ہے۔

۵۔ محمد بن شربینی: "و يسن ان ياتي سائر المشاهد بالمدينة و هي نحو ثلاثين موضعا يعرفها اهل المدينة و يسن زيارة البقيع و قباء" [مغني المحتاج الي معرفة معاني الفاظ المنهاج، ج۲،ص284و 283] اور مستحب ہے کہ مدینہ کے مشاہد پر جائیں جو کہ تقریبا تیس مقامات ہیں اہل مدینہ انہیں پہچانتے ہیں، اور زیارت بقیع اور قبا بھی مستحب ہے۔

۶۔ ابن نجیم مصری: "و صرح في المجتبي بانها مندوبة، و قيل تحرم علي النساء و الاصح ان الرخصة ثابتة لهما" [البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج2، ص210] کتاب المجتبی میں تصریح ہے کہ زیارت قبور مستحب ہے، بعض کہتے ہیں کہ خواتین پر حرام ہے، لیکن قول صحیح یہ ہے کہ دونوں کے لئے جواز ثابت ہے۔

۷۔ زين الدين ملیباری ہندی: "( فائدة ) يسن متأكدا زيارة قبر النبي صلي الله عليه وسلم ولو لغير حاج ومعتمر لأحاديث وردت في فضلها" [فتح المعين بشرح قرة العين، ج2، ص312] نوٹ: زیارت قبر پیغمبر (ص) مستحب موکّدہ ہے خواہ زائر حج یا عمرہ پر نہ ہو، اس لئے کہ زیارت کی فضیلت پر روایات موجود ہیں۔

۸۔ بن إدريس، بهوتي: وَزِيَارَةُ قَبْرِهِ مُسْتَحَبَّةٌ لِلرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ قبر پیغمبر ص کی زیارت مرد و عورت دونوں کے لئے مستحب ہے دار قطنی نے ابن عمر سے نقل کی ہے وہ عموم پر دلالت کررہی ہے: جو شخص حج پر آئے اور میری رحلت کے بعد میری زیارت کرے گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی ہے، یا روایت میں ہے کہ: جو بھی میری زیارت کریگا میری شفاعت اس کے لئے واجب ہوگی۔
[کشاف القناع، ج5، ص37]

۹۔ مولانا حمد اللہ: "لا يخفي ان تعظيم القبر ليس الا لاجل المقبور و قد نهي الجلوس علي القبر و الاتکاء اليه کما ورد انه ايذاء له کما في (لاتوذ صاحب القبر) نعم ان کان التعظيم علي وجه العبادة فهو يکون اصل الشرک........" [البصائر لمنکري التوسل باهل المقابر، ص120] یہ بات مخفی نہیں کہ قبر کی تعظیم صاحب قبر کی بنا پر ہی ہے، اور جو روایات میں قبر پر بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ روایات میں ذکر ہے کہ یہ صاحب قبر کو اذیت پہونچانا ہوگا (لاتوذ صاحب القبر)؛

جی ہاں! اگر تعظیم عبادت کی شکل اختیار کرجائے تو وہ شرک ہوگا، ورنہ کوئی حرج نہیں۔

کیا نہیں دیکھتے کہ زیارت میں صاحب قبر کے ادب کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور یہ تعظیم ہے؛ یہ تو ویسے ہی ہے جیسے ایک زندہ صالح اور نیک انسان کی تعظیم واجب ہے اگر مر جائے پھر بھی واجب ہوگی۔ کیا نہیں جانتے کہ امام بن مالک فرماتے ہیں: " کسر العظام المیت ککسرھا حیا'' جس سے واضح ہے کہ میت کی بے احترامی جائز نہیں ہے۔ اور کیا مطلقِ تعظیم شرک ہوگی! جبکہ عالِم کے ہاتھ کا بوسہ لینے کی تصریح ہے، جیسا کہ امام مسلم کے بارے میں منقول ہے کہ امام بخاری کے ہاتھ کا بوسہ لیا، اور ابوبکر نے پیغمبر (ص) کی وقت وفات پیشانی چومی؛ کیا کسی نے اس کو شرک جانا؟!

مختصر یہ کہ علماء اور فقہائے اہل سنت کی کثیر تعداد نے بھی زیارت قبور خاص طور پر قبر نبی اکرم (ص) کی زیارت کو جائز جانا ہے،  یہاں تک کہ سبکی کہتے ہیں: جب ہم زیارت نبی (ص) پر مسلمین اور صحابہ کے اجماع کا علم رکھتے ہیں؛ تو اس سلسلہ میں مزید اصحاب کے اقوال میں تحقیق اور تتبّع کی ضرورت نہیں ہے۔ [شفاء السقام في زياره خير الانام، ص156] 

خاتمہ

زیارتِ قبر عمل ہے جو انسان کو خدا سے نزدیک کرتا ہے؛ موت، آخرت اور خدا کی یاد دلاتا ہے، اس کے علاوہ بہت سے دیگر فائدے منجملہ آباء و اجداد، بزرگان، علمائے دین کی تکریم، تمام مسلمانوں کے واسطے دعا بھی اس میں ہیں۔ اس پر عقل و نقل کے لحاظ سے کوئی مانع بھی نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں جس سے منع کیا گیا ہے وہ منافق کی زیارت ہے، روایات میں بھی جواز کا مسئلہ ملتا ہے، علماء، فقہاء، تابعین اور اصحاب کرام نے بھی اس کو انجام دیا ہے۔ عقلی لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہے؛ کیونکہ قبر کی زیارت کرنا اور وہاں پر خدا سے دعا مانگنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان میں صفاتِ الہی کے قائل ہوگئے اور خدا کے مقابل کوئی مستقل ذات فرض کرنے لگے ہیں۔ بلکہ سبھی انکو مقرّب بارگاہ الہی اور بندۂِ خدا جانتے ہیں، لہذا ان کی زیارت سے خدا کے حقیقی بندوں کی تکریم ہوتی ہے اور خدا کی خوشنودی کا ذریعہ قرار پاتی ہے۔

🌷والحمد للہ رب العالمین🌷

✍️ سید ذیشان حیدر؛ حوزہ علمیہ قم