#زیارت_قبور
قسط ۵
وہ اعمال جو زائرین زیارت کے موقع پر انجام دیتے ہیں ان کے اعتقادات کو مکمل طور واضح کررہے ہیں اور اس اعتقاد پر برہان قاطع کی حیثیت رکھتے ہیں؛
اس لیے کہ ہم زیارت کے موقع پر سب سے پہلے زیارت نامہ پڑھتے ہیں اور اکثر زیارت ناموں میں زیارت پڑھنے سے پہلے سو بار "اللہ اکبر" کہتے ہیں اور اس طریقہ سے سو بار توحید کا اقرار کرتے ہیں۔
مشہور و معروف زیارت "امین اللہ" میں ہم ائمہ علیہم السلام کی قبور کے سامنے کہتے ہیں: أشْهَدُ أَنَّکَ جَاهَدْتَ فِى اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ وَ عَمِلْتَ بِکِتَابِهِ وَ اتَّبَعْتَ سُنَنَ نَبِيِّهِ حَتَّى دَعَاکَ اللهُ إِلَى جِوَارِهِ؛ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کی راہ میں جہاد کیا جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اور کتاب خدا کے مطابق عمل کیا اور اپنے نبی کی سنت کی پیروی کی، یہاں تک کہ خداوند نے آپ کو اپنے جوار میں بلا لیا۔ [وسائل الشيعة، ج14، ص395، 30 - باب استحباب زيارة أمير المؤمنين و الأئمة ع بالزيارات المأثورة]
زیارت "جامعہ" میں ہم کہتے ہیں: إلَى اللهِ تَدْعُونَ وَ عَلَيْهِ تَدُلُّونَ وَ بِهِ تُؤْمِنُونَ وَ لَهُ تُسِلِّمُونَ وَ بِاَمْرِهِ تَعْمَلُونَ وَ إلَى سَبِيلِهِ تَرْشُدُونَ؛ آپ خدا کی طرف دعوت دینے والے، اور اس کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور اس کے سامنے تسلیم ہیں، اور اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں اور اس کے راستہ کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔ [من لا يحضره الفقيه، ج2، ص613، زيارة جامعة لجميع الأئمة ع]
زیارتنامے کے ایک دوسرے فقرے میں ہم کہتے ہیں: مُسْتَشْفِعٌ إلَى اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِکُمْ؛ میں آپ کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں شفاعت کا طلبگار ہوں۔ [من لا يحضره الفقيه، ج2، ص614، زيارة جامعة لجميع الأئمة ع]
اسی طرح دوسری زیارتوں کو بھی ملاحظہ فرمائیں، ہر جگہ خدا اور اس کی وحدانیت ہی تذکرہ ہے؛ اب اسے شرک کا نام دیا جائے گا یا ایمان کا؟
خلاصہ یہ کہ معلوم ہوا زیارت میں عبادت والی شرطیں (اعتقاد خاص) نہیں پائی جاتیں اور اسے غیر اللہ کی عبادت نہیں کہا جاسکتا تو وہ شرک بھی ہرگز نہیں ہوسکتا۔
زیارت تو فقط خدا سے مخصوص ہے!
زیارت قبور کے لئے کہتے ہیں: زیارت تو فقط خدا سے مخصوص ہے یعنی کعبہ کی زیارت، اور وہ اعمال حج میں سے ہے اور شعائر اللہ کا ذکر بھی قرآن میں ہوچکا ہے، انہیں کی تعظیم کرنا ہے؛ یعنی خدا نے تعظیم کے مختلف مقامات معین اور مخصوص کردیئے ہیں اور اگر وہی اعمال دوسری جگہ انجام دیئے جائیں اور "شدّ رحال" ان جگہوں کے علاوہ انجام پائے تو شرک کہلائے گا۔ دوسرے لفظوں میں زیارت ایک طرح کا خضوع اور احترام ہے جس کو خدا نے اپنے واسطے مخصوص کردیا ہے اور یہ کام غیراللہ کے لئے شرک ہوگا!۔
جیسا کہ سورہ حج کی ۲۷-۲۹ آیتوں سے استناد کرتے ہوئے کہا گیا ہے: یعنی اللہ تعالی نے اپنی تعظیم کی غرض سے بعض جگہوں کو معین فرمادیا ہے جیسے کعبہ، مزدلفہ، منی، صفا، مروہ، مقام ابراہیم، مسجد الحرام بلکہ پورا مکہ، بلکہ پورا حرم، لوگوں کو اس جگہ کی زیارت کے لئے دعوت دی تاکہ وہ دور اور نزدیک سے پیدل یا سواری کے ساتھ رنج سفر کو برداشت کرتے ہوئے ایک خاص لباس کے ساتھ وہاں آئیں، اور خدا کے نام پر قربانی کریں، نذر انجام دیں، طواف کریں، کعبہ کے دروازہ کا بوسہ لیں، دروازے کے سامنے دعا کریں۔۔۔۔۔، لہذا یہ اعمال غیر اللہ کے لئے حرام اور شرک ہے۔ قبر کی زیارت کے لئے یا چلّہ کے لئے سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنا، میلے لباس کے ساتھ وہاں جانا، قربانی، نذر، کسی قبر یا گھر کا طواف کرنا، اس کے قرب و جوار کے باغ و جنگل کا احترام، وہاں شکار نہ کرنا، درختوں کو نہ کاٹنا، اور اس طرح کے دوسرے کام اور اس سے دنیا و آخرت کی امید لگانا سب شرک ہے۔ [رساله التوحيد المسمي بتقويه الايمان، ترجمه: ابو الحسن ندوی، ص134] جیسا کہ ایران اور ہند میں غلات اور جہلاء کی کثیر تعداد اولیاء کے مشاہد اور ضریح کی زیارت کے لئے سفر کرتی ہے۔ [ایضا، ابو الحسن ندوی، ص134]
ان باتوں کا خلاصہ دو چیزوں میں ہے:
۱۔ شعائر اللہ فقط وہی ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ۲۔ تعظیم فقط کچھ خاص مقامات سے مخصوص ہے۔
لہذا لازم ہوجاتا ہے کہ یہاں پر شعائر اللّہ اور تعظیم کی تخصیص پر گفتگو کی جائے تاکہ شرک و توحید کے حدود کی تبیین ہوسکے اور شبہات کا ازالہ بھی ہوجائے۔
جاری۔۔۔۔۔