#زیارت_قبور
قسط ۶
شعائر اللہ فقط وہی نہیں ہیں جن کا نام قرآن میں آیا ہو، اسی طرح تعظیم بھی صرف خدا سے مخصوص نہیں، یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) اور صحابہ کرام کا عمل بھی اس تخصیص کے خلاف ہے۔
اس لئے کہ آیتیں شعائر اللہ کے اختصاص کو نہیں، حج اور اس کے احکام کو بیان کررہی ہیں؛ اور "ياتُوكَ رِجَالًا وَ عَلي كُلّ ضَامِرٍ" کا جملہ بھی خبریہ ہے، جس میں اعلان ہوتا ہے: لوگ دور دراز علاقوں سے زیارت کے لئے آئیں گے۔ اس خبر کا ذکر دوسری زیارتوں کی نفی نہیں کرتا۔
اگر کہا جائے کہ خدا نے اس حکم کے ذریعہ مختص کردیا ہے، صحیح نہ ہوگا؛ کیونکہ ہر حکم مخصّص نہیں ہوا کرتا؛ اس نے صرف اس مسئلہ میں حکم دیا ہے دوسری چیزیں ابھی مسکوت عنہ کی منزل میں ہیں، جیسے کہا جائے کہ علماء کا احترام تم پر لازم ہے، اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے والدین کا احترام نہ کیا جائے؟!۔
دوسرے یہ کہ شعائر کے اس طرح مختص کرنے سے وہ چیزیں بھی خارج ہوجاتی ہیں جن کو علمائے اسلام، صحابہ کرام نے محترم جانا اور آیات و روایات بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہیں، منجملہ رسول اللہ (ص) کا احترام حیات کا زمانہ ہو خواہ وفات کے بعد۔
اس کے علاوہ یہ بھی لازم نہیں کہ قرآن میں ہر چیز کا نام بنام تذکرہ ہو، بلکہ نبی اکرم (ص) کی احادیث اس کی مفسّرہیں، اور آپ(ص) کی متعدد روایتیں زیارت قبور کے جائز ہونے پر دلالت کررہی ہیں۔
انبیاء، اولیاء کی قبروں کی زیارت، شعائر کا احترام ہے۔
شعیرہ لغت میں نشانی اور علامت کے معنی میں ہے اور اس کی جمع شعائر ہے، حج کے شعائر: مناسک، نشانیاں، اعمال ہیں، اور اسی طرح جو چیز بھی اطاعت خدا کی علامت قرار پائے جیسے وقوف، طواف، سعی، رمی، قربانی۔۔۔ [زبيدي، تاج العروس؛ ابن منظور، لسان العرب، ذيل کلمه شعر] یعنی ہر وہ چیز جو خدا کی عبادت کے واسطے علامت و نشانی بن جائے اسے شعائر کہا جاتا ہے۔
"الشعائر المعالم للأعمال و شعائر الله معالمه التي جعلها مواطن للعبادة و كل معلم لعبادة من دعاء أو صلاة أو غيرهما ۔۔۔۔" شعائر یعنی اعمال کی علامتیں اور نشانیاں، شعائر اللہ ان علامتوں کو کہا جاتا ہے جو مقام عبادت کو معین فرماتی ہیں، اور ہر اس نشانی کو کہا جاتا ہے جو عبادت کے لئے منجملہ دعا، نماز کے لئے علامت قرار پائے، پس یہ عبادت کے لئے علامت کے طور پر ہے، اور شعائر کی مفرد شعیرہ ہے، پس شعائر اللہ یعنی وہ مقامات عبادت کی نشانیاں ۔ جیسے وقوف کی جگہ، سعی کی جگہ، قربانی کی منزل، شعرت علمت کے معنی میں ہے۔ [طبرسي، مجمع البيان، ج۱، ص438]
قرآن مجید میں چار جگہوں پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے: "إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِن شَعَائرِ الله" [بقره، 158] "وَ الْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكمُ مِّن شَعَئرِ اللَّهِ لَكمُ فِيهَا خَير" [حج، 36] "يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تحُلُّواْ شَعَائرِ اللَّهِ وَ لَا الشهَّرَ الحْرَام" [مائده، 2] "ذَالِكَ وَ مَن يُعَظِّمْ شَعَئرِ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَي الْقُلُوب" [حج، 32]۔ خدا نے پہلی آیت میں شعائر کے دو مصداق کا ذکر کیا ہے اور دوسری آیت میں ایک اور مصداق کو واضح کیا ہے اور یہ تینوں مناسک حج کے مصادیق کے متعلق ہیں، اور تیسری آیت میں شعائر اللہ کو سبک شمار کرنے سے منع فرماتا ہے اور آخری آیت میں شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم دیتا ہے۔
اگرچہ یہ آیتیں حج کے سلسلہ میں ہیں اور بعض شعائر کو بیان کررہی ہیں؛ لیکن یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ صرف اور صرف یہی شعائر ہیں، بلکہ عام معنی میں ہے، یہاں پر فقط وہ مصادیق ذکر ہوئے ہیں جن کا تعلق حج سے تھا، اسلئے کہ:
الف: آیتوں میں لفظ "من" آیا ہوا ہے۔ صفا و مروہ کی آیت میں: "من شعائر الله" بدن میں: "جعلناها لکم من شعائر الله" جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیتوں میں "شعائر" عام معنی میں ہے ، اور یہاں پر بعض شعائر کے مصادیق بیان ہوئے ہیں، کیونکہ لفظ"من" تبعیض پر دلالت کرتا ہے۔
ب: بعد کی آیت یعنی "لاتحلوا شعائر الله" خاص شعائر پر دلالت نہیں کرتی؛ بلکہ عام معنی میں تمام شعائر کا بیان ہے کہ شعائر اللہ کو سبک شمار نہ کیا جائے۔
ج: "من يعظم شعائر الله" کی آیت اگرچہ قبل و بعد کی آیت کے مدنظر قربانی اور مناسک حج پر دلالت کررہی ہے، لیکن اس کی عمومیت اپنی جگہ پر قائم ہے اور آیت ان کے علاوہ دوسرے شعائر کی تعظیم کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے کیونکہ اسی کے بعد ذکر ہوا: "فانها من تقوي القلوب" یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی، لہذا جو چیز بھی خدا اور دین خدا کی نشانی اور علامت بن جائے اس کی تعظیم واجب ہے۔
فخر رازی: "و اما شعائر الله فهي اعلام طاعته، و کل شيء جعل علما من اعلام طاعة الله فهو من شعائر الله... " [مفاتيح الغيب، ج4، ص136] اور شعائر وہ طاعت خدا کی نشانیاں ہیں، اور ہر وہ چیز جو اللہ کی اطاعت کی نشانی بن جائے وہ شعائر اللہ میں سے ہے۔ دوسری جگہ فخر رازی شعائر اللہ قربانی، صفا اور مروہ سے عام جانتے ہیں۔ [مفاتیح الغیب، ج11، ص280]
قرطبی: " فشعائر الله، اعلام دينه، لا سيما ما يتعلق بالمناسک." [الجامع الاحکام القرآن، ج۱3، ص54] یہاں انہوں نے پہلے تمام دینی نشانیوں کا شعائر اللہ میں شمار کیا اس کے بعد آیت میں موجود شعائر اللہ کی جانب اشارہ کیا، یعنی انہوں نے بھی شعائر کے معنی کو عام جانا ہے۔
محمد حسن ہندی: "شیخ عبد الحق فرماتے ہیں: شعائر شعیرہ کی جمع ہے اور شعیرہ کا معنی علامت کے ہیں، ہر وہ چیز جس سے خدا یاد آئے وہ شعائر اللہ میں سے ہے انتہی۔ لہذا شعائر اللہ فقط صفا و مروہ نہیں بلکہ وہ بعض شعائر اللہ میں سے ہیں، قال الله تعالي ان الصفا والمروة من شعائر الله اور نہ ہی فقط عرفات، مزدلفہ اور منی ہیں، حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغۃ ص69 میں لکھتے ہیں: ومعظم شعائر الله اربعة القرآن والكعبة والنبي والصلوة اور یہی الطاف القدس ص30 پر بھی لکھا ہے اور محبت شعائر اللہ یعنی محبت قرآن، پیغمبر اور کعبہ، بلکہ ہر وہ محبت جو خدا سے منسوب ہو یہاں تک کہ اولیاء اللہ بھی انتہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ بھی شعائر اللہ میں داخل ہیں"۔ [الاصول الاربعه فی تردید الوھابیه، ص11]
معلوم ہوا کہ قرآنی آیتیں شعائر کے حصر پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ تمام شعائر کو شامل ہیں، یعنی جو چیز بھی دین کی علامت قرار پا جائے، اور دین کی پہچان بن جائے، شعائر کے مفہوم میں شامل ہوگی، اور اس کی ہتک حرمت جائز نہیں ہوگی، لہذا احکام خدا، عبادت و طاعت کی نشانیاں، انبیاء اوصیاء، کتاب و صحیفہ سب چیزیں حرمات خدا میں سے ہیں جن کا احترام واجب ہے۔
اور خود پیغمبر(ع) اعظم اعلام و شعائر میں سے ہیں، وہ نشان ہدایت ہیں لہذا ان کی تعظیم بھی دین کی تعظیم ہے، اور چونکہ یہ تعظیم خود پیغمبر(ع) کی نہیں بلکہ دین اور عالم دین ہونے کی بنیاد پرہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تعظیم بھی کسی خاص وقت تک نہیں بلکہ ہمیشہ واجب ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا وفات پاچکے ہوں۔ اور تعظیم مختلف طرح سے ہوسکتی ہے؛ رسول خدا کی تعظیم ان کی وفات کے بعد: میلاد شریف، مدحت و نعت، آنحضرت(ع) کی علامت قبر کی حفاظت جسکا لازمہ قبر کی تعمیر کرنا اسکو خراب ہونے سے بچانا، قبر کی زیارت اور اس کا احترام ہے۔
لہذا قبر نبی اکرم(ص) اور اہل بیت اطہار(ع) کی تعمیر آثار قدیمہ کی حفاظت، اور زیارت قبر شعائر کی تعظیم میں سے ہے۔
جاری۔۔۔۔۔