#زیارت_قبور
قسط ۸
زیارت رسول اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلہ میں چند مخصوص روایتیں:
۱. عن النبي(ص): "من زار قبري وجبت له شفاعتي." [سنن الدار قطني، ج2، ص278؛ سنن البيهقي الکبري، ج5، ص245؛ شفاء السقام في زياره خير الانام، ص65؛ کنزالعمال في سنن الاقوال و الافعال، ج15، ص651] جو شخص میری قبر کی زیارت کریگا میری شفاعت اس کے لئے واجب ہوگی۔
۲. عن ابن عمر: "من جاءني زائرا لا تعمله- لا تحمله- الا زيارتي کان حقا علي ان اکون له شفيعا يوم القيامه" [موطا الامام مالک, ج3, ص448؛ سنن ابن ماجه, ج2, ص1039] جو شخص فقط میری زیارت قبر کے ارادے سے آئے مجھ پر لازم ہے کہ قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں۔
۳۔ حاتم ابن ابی بلتعہ سے روایت ہے: من زارني بعد موتي فکانما زارني في حياتي [رفع المناره لتخريج احاديث التوسل و الزيارة، ص330؛ کنزالعمال، ج15، ص651] جس نے میری رحلت کے بعد زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی ہے۔
زیارت قبور سیرت صحابہ میں
خود نبی کریم کی احادیث و سیرت سے واضح ہوجاتا ہے کہ زیارت قبور عالم اسلام کا کوئی نئی بات نہیں بلکہ پہلے بھی یہ عمل موجود اور ممدوح تھا، ایسا عمل تھا جس کو خود مبلّغ اسلام حضور صلّی اللہ علیہ و آلہ نے انجام دیا اور اصحاب کو اپنی زیارت کی ترغیب کی۔ تو جس کی تاکید خود نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم فرمائیں صحابہ کرام، مسلمان کیسے اس پر عمل نہ کریں اور خاص طور پر آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی زیارت کے لئے تشریف نہ لے جائیں!
ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے اعلام، فقہائے اسلام نے بھی اس عمل کو انجام دیا ہے:
۱۔ ان عمر بن الخطاب لما قدم المدينة من فتوح الشام، کان اول ما بدا بالمسجد، سلم علي رسول الله [سبکي، شفاء السقام في زياره خير الانام، ص144؛ سمهودي، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفي، ج4، ص1358] جس وقت عمر بن خطاب فتح شام کے بعد مدینہ میں وارد ہوئے پہلے شخص تھے جو مسجد میں آئے اور رسول خدا کو سلام کیا۔
۲۔ ان ابن عمر کان اذا قدم من سفر اتي قبر النبي(ص) فقال: السلام عليک يا رسول الله السلام عليک يا ابابکر، السلام عليک يا ابتاه [موطا الامام مالک، ج3، ص448؛ سمهودي، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفي، ج4، ص1358] جب ابن عمر سفر سے واپس ہوتے قبر نبی ص پر آتے اور کہتے: السلام علیک یا رسول اللہ۔۔۔۔
۳۔ بلال نے خواب میں آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو دیکھا جو ان سے فرمارہے ہیں: یہ کون سا ستم مجھ پر کر رہے ہو؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ میری زیارت کو آؤ؟
بلال خواب سے چونکے جبکہ غمگین تھے اور ان پر خوف طاری تھا، مرکب پر سوار ہوکر عازم مدینہ ہوئے، قبر نبی پر آئے، گریہ کرتے ہیں اور اپنے چہرے کو قبر پر ملتے جاتے ہیں ناگاہ حسن و حسین آگئے، بلال نے دونوں کو گلے سے لگالیا بوسہ لیا، وہ کہتے ہیں: دل چاہتا ہے آپکی اذان سنوں۔۔۔۔ [ذهبي، سير اعلام النبلاء، ج1، ص310؛ سمهودي، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفي، ج4، 1357.]
۴۔ حضرت امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے: ان فاطمه بنت رسول الله کانت تزور قبر حمزه رضي الله تعالي عنه، ترمه و تصلحه و قد تعلمته بحجر [مصنف عبد الرزاق، ج3، ص572؛ سنن البيهقي الکبري، ج4، ص78، ح7000؛ سمهودي، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفي، ج3، ص932.] حضرت فاطمہ بن رسول اللہ ص جناب حمزہ کی قبر کی زیارت فرمایا کرتیں اور اس کو صحیح کیا کرتیں اور قبر پر پتھروں کے ذریعہ نشان لگایا کرتی تھیں۔
۵۔ رزین کہتے ہیں: ان فاطمه- رضي الله عنها- کانت تزور قبور الشهداء بين اليومين و الثلاثة [سمهودي، وفاء الوفاء باخبار دار المصطفي، ج3, ص932.] جناب فاطمہ رضی اللہ دوشنبہ سہ شنبہ کو قبور شہداء کی زیارت کو جاتا کرتی تھیں۔
۶۔ ابن ابی میلکہ نقل کرتے ہیں: رايت عائشة تزور قبر اخيها عبد الرحمن و مات بالحبشي و قبر بمکة [مصنف عبد الرزاق، ج3، ص570] میں نے عائشہ کو دیکھا کہ اپنے بھائی عبد الرحمن کی زیارت فرمائی۔۔۔۔
کتابوں میں زیارت قبر نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے علاوہ اصحاب و اولیاء اور دیگر قبور کی زیارت کا بھی تذکرہ ملتا ہے کہ لوگ زیارت کیا کرتے تھے اورکسب فیض کیا کرتے تھے:
۱۔ قبر بلال حبشی: موذن رسول الله(ص) المتوفي عام 20ه بدمشق، و في راس القبر تاريخ باسمه، الدعاء في هذا الموضع المبارک مستجاب و قد جرب ذالک کثير من اولياء الخير المتبرکين بزيارتهم". [محمد ابن احمد ابن جبير اندلسي، رحله ابن جبير، ص251] آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موذن نے 20 ھ میں دمشق میں وفات پائی، انکی قبر پر نام اور تاریخ وفات لکھی ہوئی ہے، اس مبارک جگہ پر دعا مستجاب ہوتی ہے، بہت سے بزرگوں اور نیک لوگوں نے جو یہاں مشرف ہوئے ہیں اس کا تجربہ کیا ہے۔
۲۔ قبر سلمان فارسي: "قبره الا ظاهر معروف بقرب ايوان کسري، عليه بناء و هناک خادم مقيم وزرته غير مرة"۔ [خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، ج1، ص163.] ان کی قبر ایوان کسری کے پاس مشہور و معروف ہے، جس پر عمارت بھی ہے، وہاں پر مجاور بھی موجود ہے، میں نے کئی بار قبر مطہر کی زیارت کی ہے۔
۳۔ مرقد امام موسي بن جعفر علیہ السلام: خطيب بغدادی کہتے ہیں: "سمعت الحسن بن ابراهيم شيخ الحنابله فر عصره يقول: سمعت الحسن بن إبراهيم أبا علي الخلال يقول: ما همني أمر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت به إلا سهل الله تعالي لي ما أحب.". تاريخ بغداد، ج1، ص120] ابوعلی خلال کہتے ہیں: مجھے جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی، تو قبر موسی بن جعفر کی زیارت سے شرفیاب ہوتا اور ان سے متوسل ہوتا تو خدا میری مشکل کو آسان فرمادیتا تھا۔
۴۔ مرقد امام رضا علیہ السلام: محمد ابن مومل کہتے ہیں: "خرجنا مع امام اهل الحديث ابن خزيمة و عديلة ابي علي الثقفي مع جماعة من مشايخنا و هم اذ ذاک متوافرون الي علي بن موسي الرضا بطوس، قال: فرايت من تعظيمه- يعني ابن خزيمه- لتلک البقعة و تواضعه لها ت تضرعه عندها ما تحيرنا". [تهذيب التهذيب، ج7، ص339] امام اہل حدیث ابن خزیمہ اور ابن علی ثقفی اور دیگر بزرگوں کے ساتھ طوس میں علی بن موسی الرضا کی زیارت کے لئے نکلا، میں نے دیکھا کہ بن خزیمہ اس بقعہ کی اسقدر تعظیم فرمارہے تھے اور اس کے سامنے متواضع تھے جس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔
۵۔ امام احمد بن حنبل کی قبر: ذہبی لکھتے ہیں: "ضريحة يزار ببغداد". [ميزان الاعتدال، ج1، ص114] بغداد میں انکی ضریح ہے جس کی زیارت ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ زیارت قبور کو صحابہ اور تابعین نے بھی انجام دیا ہے، بزرگان اہل سنت نے بھی یہ کام انجام دیا ہے اور کسی نے اس کو شرک نہیں جانا ہے، یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ یہ لوگ اس سے بے خبر تھے، یا انہوں نے اس مسئلہ پر غور نہیں کیا ہوگا کیونکہ اس میں ہمیں علمائے عامّہ میں سے ابن خزیمہ، عدیلہ ثقفی، شیخ حنابلہ، محمد بن ادریس جیسی اہم شخصیات کا نام بھی ملتا ہے۔
جاری.....