علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات پر مشتمل۔

علوم آل محمد علیہم السلام، احادیث، مواعظ، دینی معلومات

اتوار، 31 مئی، 2020

زیارت قبور


#زیارت_قبور

قسط ۳

۴۔ حضرت رسول اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلّم کے سامنے آنحضرت(ص) کے اصحاب کا تواضع: حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ان کے اصحاب کی انکساری تواضع اس حد تک تھی کہ ان کے وضو کے پانی، [بخاري، صحيح بخاري، کتاب الوضوء، ج1، ص74، 167] آنحضرت کے موئے مبارک، [صحيح مسلم، ج2، ص947، ح323، 326(1305)] جس برتن سے آپ پانی پیا کرتے تھے، جس منبر پر آپ تشریف فرما ہوتے تھے اس سے اپنے آپ کو متبرک کرتے تھے۔ اور اس طرح تبرک اختیار کرنا، انتہائی خضوع اور انکساری کی بنا پر ہوتا ہے، جبکہ عبادت اور پرستش کے حدود تک نہیں پہونچتا اور ابھی تک کسی نے یہ نہیں کہا اصحاب کرام نے رسول اکرم(ص) کی عبادت کی اور انہیں خدا سمجھ بیٹھے!۔



۵۔ والدین کا احترام: قرآن مجید والدین کے احترام میں اس طرح کے لفظ استعمال کرتا ہے: "وَ اخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ"۔  اور ان کے لئے خاکساری کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکا دینا۔[سوره اسراء, 24]
"خفض جناح" (کاندھوں کا جھکا دینا) زبانی اور عملی لحاظ سے تواضع اور خضوع کے مبالغہ پر دلالت کرتا ہے۔ [طباطبائي، ترجمه تفسير الميزان، ج13، 110]

یعنی ہمیں چاہیئے کہ اپنے والدین کے سامنے خاضع رہیں؛ ایسی صورت میں اگر عبادت کا مطلب ہر طریقہ کا خضوع ہو تو اس آیت شریفہ کے لحاظ والدین کا احترام بھی عبادت کے معنی میں ہونا چاہئیے جبکہ خدا اپنے بندوں کو غیر اللّہ کی عبادت کا حکم دے ہی نہیں سکتا۔

اس طرح معلوم ہوجاتا ہے صرف احترام، خضوع اور تذلّل کو عبادت نہیں کہہ سکتے، کیونکہ انسان کی زندگی میں بہت سارے ایسے مقامات ہیں جہاں اسے خاضع ہونا چاہئے، جیسے بچوں کا اپنے والدین کے سامنے، غلام کا اپنے مولا کے سامنے، طالبعلم کا اپنے استاد کے حضور، مومنین کا رسول اکرم(ص) کے سامنے، اور جس چیز کی بھی نسبت خدا سے ہو جیسے مسجد، قرآن، کعبہ اور حجر اسود، لیکن ان میں سے کوئی بھی خضوع اور تذلل کو غیر اللّہ کی عبادت میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔

لہذا تذلل، خضوع اور احترام کا معنی و مفہوم عبادت سے عام ہے اور ان کو مطلق عبادت کے میں معنی نہیں لیا جاسکتا، کیونکہ یہ اس چیز کے برخلاف ہے جس کا خدا نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے۔

تو یہاں پر ضروری ہوجاتا ہے کہ عبادت کی ایک جامع تعریف کے لئے سب سے پہلے ان چیزوں کو تلاش کیا جائے جو عبادت کے معنی میں اہم کردار رکھتے ہیں اور حقیقت میں جب وہ تمام چیزیں یکجا ہوجائیں تو اسے عبادت کہا جاتا ہے۔

عبادت کے اجزاء اور عناصر

الف: خارجی اسباب: ایسے عمل کا انجام دینا جس سے خضوع و تذلل کا اظہار ہو، جیسے سجدہ کرنا، رکوع میں جانا، یا زبان سے ایسے فقرے جاری کرنا جس سے عاجزی، تذلّل کا اظہار سمجھا جائے۔

ب: باطنی اور اندرونی اسباب یعنی نیت و اعتقاد: عبادت کا دوسرا جزء، معبودکے سلسلہ میں خاص عقیدہ رکھنا ہے اور اس کو کسی عنوان سے خالق، رب یا فطرت انسانی پر حاکم جاننا ہے؛ یہی وہ خصوصیت ہے جو ظاہری خضوع کو عبادت جیسے عظیم  معنی دینے کی بنیاد ہے۔ مثال کے طور پر الف: جس کے سامنے یہ خاص خضوع انجام دیا جارہا ہے اور اپنی عاجزی دکھائی جارہی ہے اس کے سلسلہ میں الوہیت کا معتقد ہونا: "وَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لِيَكُونُوا لَهُمْ عِزًّا"  اور مشرکوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کرلئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزّت بنیں۔ [سوره مريم، 81] ب: کسی کو رب جاننا: قرآن میں آیا ہے: "يا بَني‏ إِسْرائيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَ رَبَّكُم‏" اے بنی اسرائیل! اپنے اور میرے پروردگار کی عبادت کرو۔ [سورہ مائدہ، 72]  یا دوسری جگہ ذکر ہوتا ہے: "إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ". بیشک اللّہ میرا اور تمہارا دونوں کا رب ہے لہذا اس کی عبادت کرو (نہ میری، نہ کسی اور چیز کی) [سورہ آل عمران، 51]

مذکورہ  آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی عمل کو شرک اور غیراللّہ کی عبادت تبھی کہا جائے گا جب اس میں ربوبیت، یا الوہیت اور خالقیت جیسی صفت کا اعتقاد بھی پایا جاتا ہو۔ یعنی عبادت اور پرستش کی حقیقت ان دو چیزوں اور عناصر پر مشتمل ہے، لہذا اگر ان دونوں جیزوں میں سے کوئی ایک نہ پائی جائے تو عبادت انجام نہیں پائے گی۔

علمائے دین نے اسی نکتہ کو مدنظر قرار رکھتے ہوئے عبادت کی مختلف تعریفیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جن میں سے چند تعرفیں (بعد کی قسط میں) قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔

جاری۔۔۔۔۔