پاکیزگی
صاف صفائی چاہے گھر، مکان، محلّے کی ہو چاہے جوتا، چپّل، لباس اور جسم کی ہو تن بدن
کے حفظان صحت کے لئے بھی لازم و ضروری ہے اور قلب و روح کی تر و تازگی کے لئے بھی واجب
امر ہے،
شریعت
میں وضو، غسل و تیمم کا حکم اور انکی خاص کیفیت اور آداب اور ان کے فضائل، طہارت اور
پاکیزگی کی اہمیت کے بیان کے لئے کافی ہے۔
حضرت رسول امین صلی
اللہ علیہ و آلہ، ائمۂ طاہرین علیہم السلام نے پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے سلسلہ
میں متعدد ہدایات دی ہیں، اور اس کے طریقوں پر روشنی ڈالی ہے؛ اور پاک و صاف رہنے کی
تاکید فرمائی ہے۔ جن میں سے بعض ارشادات کو انشاء اللہ پیش کیا جائے گا۔
پاکیزگی
صفائی
لباس
اور مکان کی صاف صفائی، مناسب وضع و قطع؛ خود جسم و جان کی صحّت و سلامتی کے لئے بہت
اہمیت کی حامل ہے؛
روایات
میں اسے غریبی اور فقر سے دوری خیر و برکت اور رزق و روزی میں افاضہ کا سبب قرار دیا
گیا ہے۔
حضرت امام صادق علیہ السلام:
إنَّ
اللَّهَ يُحِبُّ الْجَمَالَ وَ التَّجَمُّلَ وَ يَكْرَهُ الْبُؤْسَ وَ التَّبَاؤُسَ
فَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَنْعَمَ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً أَحَبَّ أَنْ يَرَى عَلَيْهِ
أَثَرَهَا قِيلَ كَيْفَ ذَلِكَ قَالَ يُنَظِّفُ ثَوْبَهُ وَ يُطَيِّبُ رِيحَهُ وَ يُجَصِّصُ
دَارَهُ وَ يَكْنُسُ أَفْنِيَتَهُ حَتَّى إِنَّ السِّرَاجَ قَبْلَ مَغِيبِ الشَّمْسِ
يَنْفِي الْفَقْرَ وَ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ.
بیشک
خدا خوبصورتی اور خودآرائی کو دوست رکھتا ہے اور بدحالی اور غربت کے اظہار کو ناپسند
کرتا، کیونکہ خدا جب کسی بندے کو نعمت سے نوازتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اس پر اثر
بھی دیکھے،
سوال ہوا: وہ کیسے؟
فرمایا: اپنے کپڑے
صاف کرے، خود کو خوشبو سے معطّر کرے، اپنے گھر کی پتائی کرے، آنگن میں جھاڑو دے، یہاں
تک کہ سورج کے غروب ہونے سے پہلے چراغ جلانا مفلسی کو دور اور روزی میں اضافہ کرتا
ہے۔
وسائل
الشيعة، ج5، ص7، باب استحباب التجمل و كراهة التباؤس۔
گھرکی صفائی
طہارت، پاکیزگی، صفائی کی اس قدر اہمیت ہے کہ اسے
ایمان کی علامت اور اسلام کی بنیاد کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے:
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
تنَظَّفوا
بكُلِّ ما استَطَعتُم ؛ فإنَّ اللّه َ تعالى بَنَى الإسلامَ علَى النَّظافَةِ. و لَن
يَدخُلَ الجَنَّةَ إلاّ كُلُّ نَظيفٍ.
خود
کو جس چیز کے ذریعہ بھی ممکن ہو پاک و صاف رکھو، کیونکہ خدا نے اسلام کی بنیاد پاکیزگی
پر رکھی ہے، اور جنّت میں کوئی نہیں جاسکتا سوائے پاکیزہ شخص کے۔
نهج الفصاحة،
ص391۔
پاکیزگی ایمان کی
نشانی ہے
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
النَّظَافَةُ
مِنَ الْإِيمَان
پاکیزگی
ایمان کی علامتوں میں سے ہے۔
نهج الفصاحة،
ص790۔
پاکیزگی انبیاء کی
صفت ہے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام:
منْ
أَخْلَاقِ الْأَنْبِيَاءِ التَّنَظُّفُ.
انبیاء
کی خصلتوں میں سے ایک پاکیزگی ہے۔
تحف العقول،
ص442، و روي عنه ع في قصار هذه المعاني۔
برکتیں پاکیزگی سے
آتی ہیں، گندگی فقر و فلاکت لاتی ہے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام
كنْسُ
الْبُيُوتِ يَنْفِي الْفَقْرَ.
گھر
میں جھاڑو دینا فقر کو دور کرتا ہے۔
وسائل
الشيعة، ج5، ص317، باب استحباب كنس البيوت و الأفنية و غسل الإناء
حضرت امام صادق علیہ السلام
غسْلُ
الْإِنَاءِ وَ كَسْحُ الْفِنَاءِ مَجْلَبَةٌ لِلرِّزْقِ.
ظروف
کا دھونا، صحن و آنگن پاک و صاف کرنا رزق و روزی کا سبب ہے۔
الخصال،
ج1، ص54، خصلتان مجلبتان للرزق
حضرت امیر المومنین علیہ السلام
نظِّفُوا
بُيُوتَكُمْ مِنْ حَوْكِ الْعَنْكَبُوتِ، فَإِنَّ تَرْكَهُ فِي الْبَيْتِ يُورِثُ الْفَقْر
اپنے
گھروں سے مکڑی کے جالوں کو صاف کرو، کیونکہ جالوں کا گھر میں رکھنا فقر کا باعث بنتا
ہے۔
قرب الإسناد
(ط - الحديثة)، ص52، احاديث متفرقة
کوڑا کرکٹ گھر میں رات تک نہیں رکھنا چاہئے۔
حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
لا تُبَيِّتُوا
الْقُمَامَةَ فِي بُيُوتِكُمْ وَ أَخْرِجُوهَا نَهَاراً فَإِنَّهَا مَقْعَدُ الشَّيْطَان
کوڑا
کرکٹ رات تک گھر میں نہ رکھو، اسے دن میں ہی باہر نکال دو، کیونکہ یہ شیطان کی نشیمن
گاہ ہے۔
من لا
يحضره الفقيه، ج4، ص5، باب ذكر جمل من مناهي النبي ص
گھر ہی نہیں گھر کے باہر بھی کوڑا چھوڑنا مناسب
نہیں اور گندگی ختم نہیں ہوتی ہے، اور جراثیم اور بیکٹیریا سے نجات نہیں مل سکتی:
حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
لا تُؤْوُوا
التُّرَابَ خَلْفَ الْبَابِ فَإِنَّهُ مَأْوَى الشَّيْطَانِ.
کوڑے
کو دروازے کے پیچھے اکٹھا نہ کرو، کیونکہ وہ شیطان کی پناہ گاہ ہوجائے گی۔
المحاسن،
ج2، ص624، باب تنظيف البيوت و الأفنية
پاکیزہ لباس
پاکیزگی ہر کوئی
دوست رکھتا ہے اور پسند کرتا ہے، گندگی، پلیدگی سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے، لہذا انہیں
کی ہمنشنینی پسند کی جاتی ہے جو خود پاک و صاف ہوں اور صاف ستھرے کپڑے پہننے کی
عادت رکھتے ہوں؛ خدا بھی گندگی کو دوست نہیں رکھتا۔
حضرت رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
إنَّ
اللّه َ يُبغِضُ الوَسِخَ وَالشَّعِثَ.
بیشک
خداوند گندگی، پلیدگی اور انتشار و بدنظمی کو پسند نہیں کرتا۔
نهج
الفصاحة، ص304۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
أبْصَرَ
رَسُولُ اللَّهِ ص رَجُلًا شَعِثاً شَعْرُ رَأْسِهِ وَسِخَةً ثِيَابُهُ سَيِّئَةً حَالُهُ
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مِنَ الدِّينِ الْمُتْعَةُ وَ إِظْهَارُ النِّعْمَةِ.
حضرت
رسول خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے بال الجھے ہوئے تھے،
اسکے کپڑے میلے کچیلے تھے بہت برے حلیہ میں تھا، تو آنحضرت صلّی اللہ علیہ و آلہ
نے فرمایا: نعمت سے استفادہ اور اسکا اظہار دین کا جز ہے۔
الكافي
(ط - الإسلامية)، ج6، ص439، باب التجمل و إظهار النعمة
جسم، لباس اپنی
وضع قطع کا خیال خود اپنا، اپنی شخصیت اور مزاج کا خیال ہے، کیونکہ جسم و جسمانیات
کا روح، نفس و مزاج پر اپنا خاص اثر ہے۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
النَّظِيفُ
مِنَ الثِّيَابِ يُذْهِبُ الْهَمَّ وَ الْحَزَنَ وَ هُوَ طَهُورٌ لِلصَّلَاةِ.
پاک
و صاف لباس غم و اندوہ کو دور کرتا ہے اور نماز کے لئے پاکیزگی کا سبب ہے۔
الكافي
(ط - الإسلامية)، ج6، ص444، باب اللباس
لہذا کوشش ہونا چاہئے
کہ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنیں، خود کو بنا سنوار کر رکھیں
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
منِ
اتَّخَذَ ثَوْباً فَلْيُنَظِّفْهُ.
جو شخص
کوئی لباس پہنتا ہے تو اسے دھوئے، پاک و صاف رکھے۔
الكافي
(ط - الإسلامية)، ج6، ص441، باب اللباس
ہاتھوں کا خیال
اسی
تمام چیزوں کے پیش نظر صحیح سے ہاتھ دھونے کی پابندی کی کافی تاکید کی جاتی ہے۔
روایات
میں بھی وضو، بالخصوص ہاتھ دھونے کی بہت زیادہ تاکید ہے اور اس کے مختلف فائدے ذکر
کئے گئے ہیں:
ہاتھوں کو گندا مت
رکھو، بیماریوں سے محفوظ رہوگے:
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ:
لا يَبِيتَنَّ
أَحَدُكُمْ وَ يَدُهُ غَمِرَةٌ فَإِنْ فَعَلَ فَأَصَابَهُ لَمَمُ الشَّيْطَانِ فَلَا
يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَه
کوئی
بھی رات میں اس عالم میں نہ سوئے کہ اس کے ہاتھ میں چکنائی گندگی وغیرہ لگی ہو،
اگر ایسی صورت میں اسے شیطان سے نقصان پہونچے تو اپنے سوا کسی کی ملامت نہ کرے۔
من لا
يحضره الفقيه، ج4، ص6، باب ذكر جمل من مناهي النبي ص
ہاتھوں کا دھونا،
زندگی کی خوشحالی:
حضرت امام صادق علیہ السلام:
منْ
غَسَلَ يَدَهُ قَبْلَ الطَّعَامِ وَ بَعْدَهُ عَاشَ فِى سَعَةٍ وَ عُوفِىَ مِنْ بَلْوَي
فِى جَسَدِهِ
جو کھانے
سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ دھوتا ہے وہ خوشحالی کی زندگی جئے گا اور جسم کی بیماریوں
سے چھٹکارا پائےگا۔
الكافي
(ط - الإسلامية)، ج6، ص290، باب الوضوء قبل الطعام و بعده
ہاتھوں کا دھونا،
برکت کا باعث:
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم:
الْوُضُوءُ
قَبْلَ الطَّعَامِ يَنْفِى الْفَقْرَ وَ بَعْدَهُ يَنْفِى الْهَمَّ وَ يُصَحِّحُ الْبَصَرَ
کھانے
سے پہلے ہاتھوں کا دھونا مفلسی کو دور کرتا ہے اور اور کھانے کے بعد ہاتھ دھونا غم
کو ختم کرتا ہے اور بینائی کو صحیح کرتا ہے۔
مكارم
الأخلاق، ص139، الفصل الثاني في آداب غسل اليد و غيرها
ہاتھوں کے دھونے
سے فائدے ہی فائدے:
حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
غسْلُ
الْيَدَيْنِ قَبْلَ الطَّعَامِ وَ بَعْدَهُ زِيَادَةٌ فِي الرِّزْقِ وَ إِمَاطَةٌ لِلْغَمَرِ
عَنِ الثِّيَابِ وَ يَجْلُو الْبَصَر
کھانے
سے پہلے اور بعد ہاتھوں کا دھونا رزق میں اضافہ کرتا ہے اور لباس سے گندگی کو دور
رکھتا ہے اور آنکھو کو جلا بخشتا ہے۔
المحاسن،
ج2، ص424، باب الوضوء قبل الطعام و بعده
ادھر ادھر تھوکنا
تھوک
اور لعاب دہن آنے پر دل چاہتا ہے۔۔۔۔ جہاں کہیں بھی ہوں جلدی سے تھوک دیں، ۔۔۔۔۔
پروا نہیں کوئی دیکھ رہا ہے کسی کو برا لگ رہا ہے!۔۔۔۔۔ جب کہ اگر میرے سامنے کوئی
تھوک دے تو مجھے بھی عجیب سا لگتا ہے۔
شاید
میں مریض بھی ہوں،۔۔۔۔۔۔ نہ معلوم کتنے لوگ میری اس ایک چھوٹی سی غلطی سے مریض
ہوجائیں؟!
ویسے
بھی ادھر ادھر تھوکتے رہنا، لوگوں کا خیال
نہ رکھنا غیر اخلاقی حرکت تو ہے ہی۔
علمائے
اخلاق، معصومین کرام علیہم السلام نے بھی اس کی جانب اشارہ فرمایا ہے:
اور
لعاب دہن کے لئے کوئی مناسب جگہ اختیار کریں، لعاب دہن کو قبلہ کی طرف یا اپنی
داہنی جانب نہ تھوکیں، بلکہ اسے بائیں طرف یا اپنے پیروں کے نیچے ڈالیں۔
ترجمه
الأخلاق، ص147، باب دوم گلچينى از كلام حكما و اخبار اهل بيت عليهم السلام در آداب
زندگى و مجالست با گروههاى مختلف مردم۔
اور
بچوں کو سکھائیں کہ۔۔۔۔۔ لوگوں کے سامنے نہ تھوکیں، اور ناک میں انگلی مت ڈالیں،
اور ناک نہ نکالیں، اور اگر ضروری ہی ہو تو چھپ کر ناک صاف کریں۔
معراج
السعادة، ص225، غيرت در اولاد و تربيت آن
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
منْ
رَدَّ رِيقَهُ تَعْظِيماً لِحَقِّ الْمَسْجِدِ جَعَلَ اللَّهُ رِيقَهُ صِحَّةً فِي
بَدَنِهِ وَ عُوفِيَ مِنْ بَلْوَى فِي جَسَدِهِ.
جو شخص
مسجد کے احترام میں اپنے لعاب دہن کو نگل جائے خدا اس کے لعاب دہن کو اس کے بدن کی
سلامتی کا سبب قرار دیگا، اور وہ جسمانی امراض سے محفوظ رہے گا۔
ثواب
الأعمال و عقاب الأعمال، ص18، ثواب من رد ريقه تعظيما لحق المسجد
حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
نهَى
رَسُولُ اللَّهِ ص۔۔۔۔۔ عَن التَّنَخُّعِ فِي الْمَسَاجِد ۔۔۔۔ وَ نَهَى عَنِ الْبُزَاقِ
فِي الْبِئْرِ الَّتِي يُشْرَبُ مِنْهَا۔۔۔۔
حضرت
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے مسجد میں بلغم وغیرہ تھوکنے اور کنویں میں
لعاب دہن پھینکنے سے منع فرمایا ہے۔
من لا
يحضره الفقيه، ج4، ص4 و ۱۰، باب ذكر جمل من مناهي النبي ص
حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
أنَّ
رَسُولَ اللَّهِ ص كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَنَخَّعَ وَ بَيْنَ يَدَيْهِ النَّاسُ
غَطَّى رَأْسَهُ ثُمَّ دَفَنَهُ وَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَبْزُقَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِك
حضرت
نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ جب لوگوں کے سامنے کبھی ناک صاف کرنا چاہتے تھے تو
سر کو چھپا لیتے تھے، اور اسے مٹی میں دفن کردیتے تھے۔ اسی طرح جب لعاب دہن نکالنا
چاہتے تھے ایسا ہی کرتے تھے۔
الجعفريات
(الأشعثيات)، ص13، باب صفة فعل رسول الله ص إذا أراد أن يتنخع أو يبزق و عند دخوله
الخلاء .....
حضرت امیر المومنین علیہ السلام:
لا يَتْفُلُ
الْمُؤْمِنُ فِي الْقِبْلَةِ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَاسِياً فَلْيَسْتَغْفِرِ اللَّهَ
عَزَّ وَ جَلَّ مِنْهُ.
مومن
کو چاہئے کہ قبلہ کی طرف نہ تھوکے اور اگر بھولے سے ایسا کرجائے تو خدا کے سامنے
استغفار کرے۔
الخصال،
ج2، ص613، علم أمير المؤمنين ع أصحابه في مجلس واحد أربعمائة باب مما يصلح للمسلم
في دينه و دنياه۔
وضو
وضو
ایک ایسا عمل ہے تو تقرب الہی کا ذریعہ بھی ہے اور طبّی لحاظ سے جسم و جان کی صحّت
و تندرستی کی علامت، اور روح و روان کے لئے فرحت بخش بھی۔
اج طرح
طرح کے وائرس اور متعدد آلودگیوں کے زمانے میں جب مسلسل ہاتھ دھونے اور صفائی
ستھرائی کی تاکید کی جاتی ہے، تو وضو جیسے خاص عمل کی اہمیت اور افادیت بھی اور زیادہ
سامنے آجاتی ہے، اور اسلام کی اس فردی اور سماجی اثرات کی حامل عبادت کا فلسفہ مزید
واضح ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔
شاید
اسی لئے مختلف احادیث میں طہارت اور خاص طور پر وضو کی کافی تاکید ملتی ہے کہ
انسان اس ایک آسان عمل سے اخروی ثواب کا مستحق بھی ہو اور دنیا کی مختلف آلودگیوں
سے محفوظ بھی رہے:
وضو
کیوں؟
حضرت امام رضا علیہ السلام
لأنّهُ
يَكونُ العَبدُ طاهِرا إذا قامَ بَينَ يَدَيِ الجَبّارِ عِندَ مُناجاتِهِ إيّاهُ ،
مُطيعا لَهُ فيما أمَرَهُ ، نَقِيّا مِن الأدناسِ و النَّجاسَةِ ، مَع ما فيهِ مِن
ذَهابِ الكَسَلِ و طَردِ النُّعاسِ ، و تَزكِيَةِ الفُؤادِ لِلقِيامِ بَينَ يَدَيِ
الجَبّارِ
تاکہ
بندہ جب خداوند جبّار کے سامنے مناجات کے وقت کھڑا ہو تو پاک و طاہر ہو، اس کے حکم
پر اطاعت کرچکا ہو، نجاست اور گندگی سے پاک و صاف ہو، اسکے علاوہ وضو اس بات کا بھی
سبب ہوتا ہے کہ خدا کے سامنے عبادت میں کاہلی نہ رہے، غنودگی دور ہوجائے، اور قلب
و دل پاکیزہ رہے۔
علل
الشرائع، ج1، ص257، باب علل الشرائع و أصول الإسلام
با وضو
رہیں، عمر میں برکت پائیں
حضرت نبی اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم
أكثِرْ
مِن الطَّهورِ يَزِدِ اللّهُ في عُمرِكَ ، و إنِ استَطَعتَ أن تَكونَ بِاللَّيلِ و
النَّهارِ على طَهارَةٍ فافعَلْ ؛ فإنَّكَ تَكونُ إذا مُتَّ علَى الطَّهارَةِ شَهيدا۔
جتنا
ہوسکے با وضو رہو تاکہ خدا تمہاری عمر میں اضافہ کرے، اور اگر ممکن ہو کہ دن و رات
وضو سے رہو تو ایسا کرو؛ اس لئے کہ اگر طہارت کے عالم میں دنیا سے چلے گئے تو شہید
ہوگے۔
الأمالي
(للمفيد)، ص60، المجلس السابع
تجدید
وضو نور علی نور
حضرت امام صادق علیہ السلام
الوُضوءُ
علَى الوُضوءِ نُورٌ على نُورٍ
با وضو
ہونے پر بھی وضو کرنا نور علی نور ہے۔
وسائل
الشيعة، ج1، ص377، باب استحباب تجديد الوضوء من غير حدث لكل صلاة و خصوصا المغرب و
العشاء و الصبح
اب جب
کہ کرونا وائرس کی وجہ سے مسلسل ہاتھ دھونا پڑ رہا ہے تو کیوں نہ وضو کرلیں! کہ
جس کی تاکید
ائمہ اطہار نے کی ہے
جو علماء کی سیرت
رہی ہے
اور ہماری بخشش کا باعث بھی ہے۔