#زیارت_قبور
قسط ۲
عبادت کا مفہوم:
عبادت لغت میں مطلق "خضوع اور تذلّل" کے معنی میں آیا ہے۔ جیسا کہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: "العبودية: إظهار التذلل، والعبادة أبلغ منها؛ لأنها غاية التذلل" عبودیت یعنی اظہار تذلّل، اور عبادت اس سے زیادہ شدید تر ہے اس لئے کہ وہ نہایت تذلّل ہے۔ [راغب اصفهاني، المفردات في غريب القرآن، ماده عبد، ص542]
ابن منظور عبادت کی تعریف میں کہتے ہیں: "وأَصل العُبودِيَّة الخُضوع والتذلُّل" عبودیت یعنی خضوع اور تذلّل۔ [ابن منظور، لسان العرب، ماده عبد، ج۳، ص271]
فیروزآبادی لکھتے ہیں: "والعِبادَةُ: الطَّاعَةُ" عبادت یعنی اطاعت۔ [فيروزآبادي، القاموس المحيط، ماده عبد، ج۱، ص296]
تفسیروں میں بھی عبادت کے سلسلہ میں یہی معنی بیان کیے گئے ہیں: کہ عبادت تذلّل، خشوع یا حد درجے کے خضوع و تذلّل کو کہا جاتا ہے۔ [ابن جرير طبري, الجامع البيان في تفسير القرآن، ج۱، ص۵۳؛ زمخشري، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج۱، ص13؛ بيضاوي، انوار التنزيل و اسرار التاويل، ج۱، ص29]
نیز دوسرے مفسروں نے اطاعت اور تذلل کے ساتھ اطاعت کا معنی کیا ہے۔ [سبحاني، في ظلال التوحيد، ص ۱۸ و ۱۹]
لہذا لغت میں عبادت کی تعریف کے سلسلہ میں معلوم ہوا کہ صاحبان لغت نے مطلق خضوع اور تذلّل کا معنی بیان کیا ہے لیکن قرآنی آیتوں اور روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے خضوع اور تذلّل عبادت کے عام معنی میں سے ہے کیونکہ قرآن و احادیث میں بہت سے ایسے اعمال کے سلسلہ میں حکم ملتا ہے کہ جس میں خضوع اور تذلّل پایا جاتا ہے لیکن اسے غیر اللہ کی عبادت میں شمار نہیں کیا جاتا۔ اس کی چند مثالیں محترم قارئین کے لئے ذکر کر رہا ہوں۔
خضوع اور تذلّل کی چند مثالیں:
۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کے لئے سجدہ: "وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئكَةِ اسْجُدُواْ لاَدَمَ فَسَجَدُواْ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبي وَ اسْتَكْبرَ وَ كاَنَ مِنَ الْكَافِرِين"۔ اور یاد کرو وہ موقع جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم علیھ السّلام کے لئے سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کرلیا. اس نے انکار اور غرور سے کام لیا اور کافرین میں ہوگیا۔ [سوره بقره،34]
اس آیت میں واضح ہے کہ سجدہ جناب آدم کے لئے تھا، اور خدا ہی نے اس سجدے کا حکم صادر فرمایا اور اسے عبادت غیر اللہ شمار نہ کیا اور ملائکہ بھی سجدہ کرنے کے باوجود مشرک نہیں کہلائے۔
۲۔ جناب یعقوب اور انکے فرزندوں کا جناب یوسف کے سامنے سجدہ: "وَ رَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوا لَهُ سُجَّدا"۔ اور انہوں نے والدین کو بلند مقام پر تخت پر جگہ دی اور سب لوگ یوسف کے سامنے سجدہ میں گر پڑے۔ [سوره يوسف, ۱۰۰]
اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ جناب یوسف کے بھائیوں نے انہیں ہی سجدہ کیا تھا۔ جبکہ عبادت کے عنوان سے خدا کے علاوہ کسی کے لئے بھی سجدہ جائز نہیں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سجدے کو عبادت نہیں کہا جاسکتا بلکہ تعظیم و تکریم کا سجدہ بھی موجود ہے۔ [طباطبائي، ترجمه تفسير الميزان، ج۱۱، ص۳۳۸؛ شيرازي، تفسير نمونه، ج10، ص82]
۳۔ خانہ کعبہ کے طواف کا حکم: "وَ لْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتيق"۔ اور اس قدیم ترین مکان کا طواف کریں۔ [سوره حج، ۲۹]
خدا نے مومنین کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کا طواف کریں اور ہر سال مومنین مکہ تشریف لے جاتے ہیں تاکہ خانہ کعبہ کا طواف کریں، اور خانہ کعبہ ظاہری اعتبار سے ایک چہار دیواری اور گھر کے سوا کچھ نہیں، اور اگر عبادت کا مطلب مطلق خضوع ہو، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگ کعبہ اور حجر اسود کی عبادت کرتے ہیں، جبکہ کسی بھی فرد مومن کا یہ نظریہ نہیں ہوسکتا۔ اور وہ خدا جس نے عبادت کا حکم دیا ہے شرک کا حکم نہیں دے سکتا۔
لہذا ان تمام چیزوں میں خضوع اور تذلّل ضرور پایا جاتا ہے لیکن غیر اللہ کی عبادت نہیں ہے۔ (تمام مسلمان حج کے موقع پر، حجر اسود کا بوسہ لیتے ہیں اور حجر اسود کا بوسہ لینا فریضہ حج کے مستحبات میں سے ہے، اگر اس کو ظاہری اعتبار سے (نہ کہ حقیقی لحاظ سے) دیکھا جائے تو عمل بالکل مشرکوں کے اعمال کی طرح ہے جو وہ بتوں کے سامنے انجام دیتے تھے، جبکہ ایک کا کام مشرکانہ ہے اور دوسرے کا عمل توحیدی اور وہ موحدین کی عبادت میں سے ہے۔ [سبحاني، منشور جاويد قرآن، ج 1، ص44]
جاری۔۔۔۔۔۔